عامر خاکوانی کا بھرپور تجزیہ:
اپنے اس آزادی مارچ سے مولانا نے اپنا سیاسی قدبلند کیا ہے، ان کا سیاسی وزن بھی بڑھا ۔ وہ اس وقت سیاست کی سینٹر سٹیج پر کھڑے مین پلیئر ہیں۔ یہ بڑی کامیابی ہے۔شائد ہی کسی مذہبی سیاسی جماعت کے لیڈرنے ایسی کارکردگی ماضی میں دکھائی ہو۔ مولانا فضل الرحمن نے یہ سب کچھ بڑی مستقل مزاجی، عمدہ پلاننگ اور آہنی قوت ارادی استعمال کر کے کیا۔
الیکشن میں انہیں اپنی آبائی نشستوں پر شکست ہوئی۔ شدید جذباتی دھچکا پہنچا۔ الیکشن کے فوری بعد انہوں نے شعلہ برساتی تقریریں کیں ۔ اپوزیشن کی بڑی جماعتوں نے ان کا ساتھ نہ دیا۔ مولانا کو پسپا ہونا پڑا ،مگر وہ نچلے نہ بیٹھے۔اس مارچ کی تیاری وہ پچھلے ایک سال سے کر رہے تھے۔ پارٹی کے اندر کچھ تنظیمی تبدیلیاں کیں، پھر
ملین مارچ کا سلسلہ شروع کیا۔ اس سے کارکن چارج ہوا۔ حتیٰ کہ مولانا اس پوزیشن میں آ گئے کہ اپنی پارٹی کی تمام تر قوت مارچ میں جھونک سکیں۔
اگلا اہم کام انہوں نے اِدھر اُدھر ہر ایک سٹیک ہولڈر سے رابطے، اسے انگیج کر کے کیا۔ پیپلزپارٹی، ن لیگ سے تو مستقل رابطوں میں رہے۔ بلوچستان اور کے پی کے قوم پرستوں کے ساتھ گہرے تعلق قائم کئے، جو ہمیشہ سے ان کے مخالف ہیں۔ محمود اچکزئی اور ان کی جماعت اگرمقامی سطح پر روایتی مخالف مولانا کی حمایت میں ساتھ چل پڑے تو اسے کامیابی ہی کہنا چاہیے۔ کہا جاتا ہے کہ ملک بھر میں ہر اہم، طاقتور حلقے سے مولانا نے رابطے بڑھائے۔ کسی کے پاس چند ہزار ووٹ تھے تو انہیں بھی آن بورڈ لینے کی کوشش کی۔
ایک کمیٹی مغربی سفارت کاروں سے رابطے کرنے، ان کے شکوک دور کرنے کے لئے بنائی۔ مختلف اہم ملاقاتیں کیں۔ تاجروں، صنعتکاروں، سرمایہ داروں سے بھی رابطے کئے۔
اپنی اصل قوت دیوبندی مدارس پر ظاہر ہے پوری توجہ دی گئی۔اس بار دیگر مسالک سے بھی رابطے ہوئے۔ ایک کمیٹی صرف پیر ومشائخ حضرات سے ملاقاتوں کے لئے بنائی گئی۔ ظاہر ہے یہ تمام سافٹ امیج بلڈنگ تھی۔
تحریک انصاف نے اپنی دیگر حکومتی غلطیوں کی طرح اس حوالے سے بھی غلطیاں اور مس کیلکولیشن کی۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو سیریس لیا ہی نہیں۔ یوں لگتا ہے عمران خان اور ان کے ساتھیوں کو اس کی پروا ہی نہیں تھی کہ مولاناکامیاب مارچ کرتے ہیں یا نہیں۔ وہ شائد سمجھتے تھے کہ مولانا سے ’’نمٹنا ‘‘ان کی ذمہ داری ہے ہی نہیں۔ پچھلے ایک سال میں خان صاحب اور ان کی جماعت کے ہر قابل ذکر شخص نے مولانا اور ان کے ساتھیوں، کارکنوں کی جی بھر کی تضحیک ، توہین کی۔ انسلٹ کا کوئی موقعہ ضائع نہیں جانے دیا۔ ابھی چند دن پہلے جب مذاکرات کا ڈول ڈالا جا رہا تھا، وزیراعظم نے دانستہ طور پر مولانا پر ایک رکیک حملہ کیا۔ ایسا جملہ کہا جو نہیں کہنا چاہیے تھا۔
تحریک انصاف میں ایک بار پھر ایسے تجربہ کار، ہوشمند لوگوں کی شدید کمی محسوس ہوئی جو کسی بحرانی صورتحال میں اپنے سیاسی مخالفین یا غیر جانبدار لوگوں کے ساتھ رابطے کر سکیں۔ ن لیگ، پیپلز پارٹی اور دیگر جماعتوں میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں۔ تحریک انصاف میں ایسا کون ہے؟ لے دے کر پرویز خٹک ، وہ بھی…۔ شاہ محمود قریشی ہوسکتے ہیں، مگر ان کے اپنے عزائم بھی کم بلند نہیں۔ جہانگیر ترین خرید وفروخت میں ماہر ہیں،سنجیدہ مذاکرات ان کا شعبہ نہیں۔اتحادیوںمیں چودھری شجاعت کے علاوہ کوئی نام نہیں۔
عمران خان کو چاہیے تھا کہ وہ نصراللہ دریشک اور ان کی طرح کے تجربہ کار لوگوں کو کابینہ میں شامل کرتے۔
ایسے لوگ جو نرم خو ہوں ،تعلقات بنھا سکتے ہوں، وقت پڑنے پر ہر ایک سے رابطہ کر سکیں۔ جو مذاکراتی کمیٹی بنائی گئی، اس کی بھی تُک سمجھ نہیں آئی۔ چیئرمین سینٹ کو شامل کرنا تو مولانا فضل الرحمن کو چڑانے کے مترادف تھاجوابھی چند ہفتے قبل ان کے خلاف عدم اعتماد تحریک لانے میں پیش پیش رہے تھے