تحریک انصاف کے اسلام آباد دھرنے کا بیشتر وقت میں نے جلال آباد کی جیل میں گزارا ، پاکستان کے خلاف ہمیشہ زہر اگلتے {کم ویسے ہم بھی نہیں } افغان میڈیا سے پتہ چلا کہ عمران خان اسلام آباد آچکے ہیں پاکستان میں اپنی رہائی کے لئیے مختلف افراد سے میں رابطے میں رھتا جن میں سلیم صافی صاحب صف اول میں کھڑے تھے ، وہ بتاتے کہ یہاں دھرنا شروع ہو گیا ہے اور اسکی وجہ سے ہماری توجہ منقسم ہوچکی ، بہرحال دھرنے کے شرکاء کی ہنگامہ آرائی پی ٹی وی پہ حملہ یا عمران خان کی تند وتیز تقاریر سے قیدی خوب لطف اندوز ہوتے جب یہ خبریں چلتی تو افغان قیدیوں کی خوشی دیدنی ہوتی اور بحث و مباحثے میں اس پہ وہ مسرت کا اظہار کرتے کہ پاکستان عدم استحکام کی طرف جارہا ہے ۔۔۔
میں ، بزور طاقت نواز شریف حکومت گرانے کا حامی تھا نہ عمران خان کی ، کیونکہ ایسی حرکتیں حکومتوں کو سیاسی شہید بناتی ہیں جماعت اسلامی ایسے کئی تلخ ایام سے گزر چکی شاید اسی واسطے حالیہ مارچ سے فاصلے پہ ہے باوجود اسکے کہ وہ بھی اپنی حیثیت کے مطابق حکومت کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں ۔۔۔
عمران خان اور فضل الرحمن کے احتجاج میں ایک فرق تو بہرحال ملحوظ خاطر رکھنا ہوگا کہ خان صاحب کے نواز شریف کے خلاف احتجاج کو طاقتور حلقوں کی " تائید " حاصل تھی جسکی بابت وہ خود تقاریر میں کہہ چکے تھے جبکہ مولانا کا احتجاج عمران کے احتجاج کی " تائید " کرنے والوں کے خلاف ہے اور اس میں ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ مخالف نظریہ رکھنے والی جماعتیں شریک ہیں {پیش نظر رہے کہ ان سب نے بھی اپنے اپنے وقت پہ اسٹیبلشمنٹ سے ہاتھ ملایا لیکن انہیں لعن طعن کرنے سے پہلے یہ یاد رکھنا پڑے گا کہ پاکستان میں طاقتور حلقوں کی تائید چاھتے نا چاھتے حاصل کرنا پڑتی ہے }۔۔۔۔
اب تک اس احتجاج میں سیاسی جماعتیں انکی کارکن تو شریک ہیں لیکن " عوام " دور ہیں باوجود اسکے که انصافی سرکار کی کئی نالائقیاں ریکارڈ کا حصه بن چکیں کسی بھی تحریک کی کامیابی کے لئیے عوام کا نکلنا لازم ہوتا ہے ان دنوں اسکی مثال عراق و لبنان ہے جہاں لبنان کے وزیر اعظم تو مستعفی ہوچکے ، عراق میں پر تشدد مظاہرے جاری ہیں یہاں تک کہ عراق فورسز نے اپنے ہی شہریوں کو کربلا جیسے شہر میں بے رحمی سے قتل کیا ۔۔۔
بھٹو کے اب تک زندہ رھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسے سیاسی شہید بنایا گیا اسی سے ملتا جلتا کام نواز شریف کیساتھ ہوا اور اب یہ مارچ عمراں خان کیساتھ کرنے جارہا ہے ۔۔۔۔
اس سارے عمل میں سب سے اچھی چیز سیاسی جماعتوں کا متحرک ہونا ہے سیاسی کارکن کی اہمیت نمایاں ہوئی جسکے بل بوتے پہ کوئی قائد فیصلہ کرتا ہے پھر اس احتجاج میں ٹریفک کی روانی کو برقرار رکھنا املاک کو نقصان نہ پہنچانا بھی اچھی علامت ہے لیکن جہاں آزادی مارچ کے شرکاء کو داد بنتی ہے وہیں حکومت نے بھی عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ایسے اقدامات کئیے کہ اب تک تصادم کی کیفیت نہیں ۔۔۔ورنہ ہمارے سیاسی کارکن بھی خاص شریف نہیں ۔۔۔۔
مولانا کے مارچ کے نتیجے میں عمران خان مستعفی ہوگا یا نہیں ، میں بالکل بھی نہیں جانتا لیکن یہ طے ہے کہ اس قسم کے احتجاج طاقتور حلقوں کو ایک پیغام ضرور دیتے ہیں کہ ابھی باشعور سیاسی کارکن موجود ہے جو کرپشن غداری اور کافر کافر جیسے نعروں سے کہیں اوپر ہوکر عوامی بالادستی کے لئیے سوچتا ہے ، فی الحال انہیں فکر اسی سوچ کو ختم کرنے کی ہے کیونکہ یہی طاقتور حلقوں کو درپیش چیلنج ہے ۔۔۔۔۔
امید ہے کہ یہ احتجاج طاقتور کو چند ایک قدم پیچھے کرنے میں مدد دے گا ، اگر مسلم لیگ و پیپلز پارٹی اس میں پوری قوت سے شریک ہوتے تو بہت اچھا ہوتا لیکن لگتا ہے مصلحتیں آڑے ہیں ۔۔۔۔۔ کسی کو کچھ ملے نا ملے ، مولانا بہت کچھ حاصل کرچکے۔ سردست واحد اپوزیشن لیڈر ہیں جو اپنے مارچ سے بھرپور تاثر جمانے میں کامیاب هیں یقینا اگلے کسی مرحلے میں اس مارچ کا ثمر بھی وہی سمیٹیں گے ویسے بھی اس منظم اور طاقت کے بھرپور مظاہرے کے بعد وہ انہی کا حق ہوگا ، کیونکہ یہی سیاسی کھیل ہے ۔۔۔۔۔
(
فیض اللہ خان)