میرا کیفیت نامہ

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرقان احمد

محفلین
کسی کی خود غرضی اور مطلب پرستی کا علم ہوجائے۔۔ اس کے باوجود ہمیں صبر کرنا چاہیے ۔۔اپنا ظرف ہی دکھانا چاہیے یا کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے؟
اس بات کا انحصار آپ کے اس فرد کے ساتھ تعلق پر ہے۔ اگر یقینِ کامل ہو جائے کہ دوسری جانب سے خود غرضی کا معاملہ روا رکھا جا رہا ہے تو پھر جوابی ردعمل ضروری ہے۔ دوستی وغیرہ میں ایسا معاملہ ہو جائے تو کنارہ کشی بہتر ہے۔ رشتہ داری وغیرہ میں یہ صورت درپیش ہو تو واجبی سا تعلق رکھنا مناسب ہے۔ ظرف کے معاملے پر تو کوئی سمجھوتا نہیں ہے بھئی۔ اعلیٰ ظرفی کو اپنا شعار بنائے رکھیں، چاہے تعلق رہے یا نہ رہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ اپنے لفظوں سے جوابی طور پر کسی کو ایذا نہ پہنچائیں وگرنہ بعدازاں آپ کو بھی سخت پچھتاوا ہو گا۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو!
 

ہادیہ

محفلین
اس بات کا انحصار آپ کے اس فرد کے ساتھ تعلق پر ہے۔ اگر یقینِ کامل ہو جائے کہ دوسری جانب سے خود غرضی کا معاملہ روا رکھا جا رہا ہے تو پھر جوابی ردعمل ضروری ہے۔ دوستی وغیرہ میں ایسا معاملہ ہو جائے تو کنارہ کشی بہتر ہے۔ رشتہ داری وغیرہ میں یہ صورت درپیش ہو تو واجبی سا تعلق رکھنا مناسب ہے۔ ظرف کے معاملے پر تو کوئی سمجھوتا نہیں ہے بھئی۔ اعلیٰ ظرفی کو اپنا شعار بنائے رکھیں، چاہے تعلق رہے یا نہ رہے۔ بہتر یہ ہو گا کہ اپنے لفظوں سے جوابی طور پر کسی کو ایذا نہ پہنچائیں وگرنہ بعدازاں آپ کو بھی سخت پچھتاوا ہو گا۔ اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو!
جزاک اللہ خیرا۔۔ اللہ آسانیاں عطا فرمائے۔۔ آمین
یہاں معاملہ صرف دوستی کا ہے۔۔
رشتے داروں میں اگر ایسی کوئی بات ہوبھی جائے تو ان سے قطع تعلق تو انسان کو ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں تعلق میں ایک مناسب فاصلہ رکھ سکتے ہیں۔۔ منافقت اور خود غرضی جیسے رویے مجھے رلا دیتے ہیں۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میں چپ کرجاتی ہوں ۔ یہاں بھی معاملہ یہی ہے۔۔ میرے سامنے سب ہورہا۔۔ لیکن میں چپ کرگئی ہوں۔۔ کیا یہ بزدلی ہے یا صبر؟ یا کچھ اور؟
 

فرقان احمد

محفلین
جزاک اللہ خیرا۔۔ اللہ آسانیاں عطا فرمائے۔۔ آمین
یہاں معاملہ صرف دوستی کا ہے۔۔
رشتے داروں میں اگر ایسی کوئی بات ہوبھی جائے تو ان سے قطع تعلق تو انسان کو ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔ ہاں تعلق میں ایک مناسب فاصلہ رکھ سکتے ہیں۔۔ منافقت اور خود غرضی جیسے رویے مجھے رلا دیتے ہیں۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں میں چپ کرجاتی ہوں ۔ یہاں بھی معاملہ یہی ہے۔۔ میرے سامنے سب ہورہا۔۔ لیکن میں چپ کرگئی ہوں۔۔ کیا یہ بزدلی ہے یا صبر؟ یا کچھ اور؟
بزدلی کا اس معاملے سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ یقینی طور پر، آپ نے صبر، برداشت، تحمل اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیاہے جس کا اجر اللہ پاک کی جانب سے آپ کو ضرور بالضرور ملے گا۔ تاہم، سکون کی کیفیت آپ کو تبھی نصیب ہو گی جب آپ یہ معاملہ کلی طور پر اللہ پاک پر چھوڑ دیں گی۔
 

زیک

مسافر
دوستی وغیرہ میں ایسا معاملہ ہو جائے تو کنارہ کشی بہتر ہے۔ رشتہ داری وغیرہ میں یہ صورت درپیش ہو تو واجبی سا تعلق رکھنا مناسب ہے۔
میرا خیال اس سے الٹ ہے۔ رشتہ دار سے قطع تعلق بہتر ہے کہ اس رشتے میں کچھ بھی کامن نہ ہونے کا چانس زیادہ ہے جبکہ دوستی کی کوئی وجہ تو ہو گی۔
 
ہادیہ بہن، خونی رشتہ داروں سے قطع تعلقی کو قطع رحمی کہتے ہیں اور یہ حرام اور سخت گناہ ہے، آپ کی سوچ بہتر ہے کہ اگر رشتہ داروں سے نباہ مشکل ہو رہا ہے تو ذرا فاصلے پر ہوجائیں مگر قطع تعلقی نہ کریں اور اجر کی توقع اللہ سے رکھیں ۔ آپ اپنی گفتگو سے بزدل نہیں لگتی ہیں، بس ایک بات ذہن میں رکھیں جب انسان غصے میں ہو اس وقت اس کے غلطی کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
 
کسی کی خود غرضی اور مطلب پرستی کا علم ہوجائے۔۔ اس کے باوجود ہمیں صبر کرنا چاہیے ۔۔اپنا ظرف ہی دکھانا چاہیے یا کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے؟
اس بات کا اندازہ ہر فرد خود ہی کر سکتا ہے کہ وہ کس حد تک برداشت کر سکتا ہے۔
انسان کے اپنے کردار کی مضبوطی یہی ہے کہ اس کا اخلاق و کردار کسی دوسرے کے اخلاق و کردار کا مرہونِ منت نہ ہو۔
تعلقات توقعات سے خراب ہوتے ہیں۔ لہٰذا دوستی کو توقعات سے بچا کر رکھنا چاہیے۔ دوستی جتنی بے غرض ہو گی، اتنا ہی زندگی آسان ہو گی۔
کنارہ کشی صرف اس صورت میں اختیار کرنی چاہیے، اگر متعلقہ فرد سے آپ کو نقصان پہنچ رہا ہے۔

بلاشبہ یہ بہت آئیڈیل صورتحال ہے، عموماً جذبات میں برداشت کا پیمانہ لبریز ہو جایا کرتا ہے، مگر جتنا بے غرض ہو سکیں، اتنا ہی برداشت کرنا آسان ہو جاتا ہے۔
 
لئیق بھائی آپ نے بہت اچھی بات کہی ۔
برائی اور گناہ روکنے کے لیے شریعت نے تین احکام دیے ہیں,
ہاتھ کی طاقت سےبرائی اور گناہ کو روکو,
ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہ ہو تو زبان کی طاقت کا استعمال کر کے برائی اور گناہ سے روکو,
اگر ہاتھ اور زبان کی طاقت سے گناہ اور برائی ختم کرنے کی ہمت نہ ہو تو دل میں ضرور برا جانو ,
 
آخری تدوین:

جاسمن

لائبریرین
ہادیہ!
فوراََ کسی قسم کے ردِ عمل سے گریز کرنا بہتر ہے۔ تھوڑا سا انتظار کریں۔ صورتحال کا تسلی سے،اطمینان سے مشاہدہ کریں۔
رشتہ دارون کے بارے میں تو سارے احکامات موجود ہیں۔ اُن کے مطابق ہی چلیں گے ان شاءاللہ۔ لئیق بھائی نے ٹھیک کہا اس بارے میں۔
رہی دوستی کی بات تو ایک بار ہوگئی تو ہوگئی۔ اب رہے گی ان شاءاللہ۔:)
تابش بھائی نے بھی میرے دل کی بات کہی ہے کہ ہمارا اخلاق و کردار دوسرے کے اخلاق و کردار کا ردِ عمل نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ہم ہیں۔ ہمیں اپنی تصویر ایسی بنانی ہے جو ہمارے اللہ اور ہمارے پیارے نبیﷺ کو پسند آجائے۔ نہ کہ اُس دوست کی خود غرضی و مطلب پرستی کے ردِ عمل میں اپنی تصویر بھی اپنے ہاتھوں خراب کرنی ہے۔
ہادیہ!
ہم بالکل عام سے انسان ہیں۔ فرشتے یقیناَ نہیں۔ نہ خاص لوگ ہیں۔ غُصہ بھی آتا ہے۔ رنج بھی بے انتہا ہوتا ہے۔ دکھ و غم بھی محسوس کرتے ہیں۔ جذبات میں قطع تعلق کا ارادہ بھی بنتا ہے۔ مقابل شخص کو اُن ہی سکوں میں جواب دینے کو بھی جی چاہتا ہے۔ چالاکیاں سمجھ بھی آتی ہیں۔ کرنا چاہیں تو ہم اُن سے بڑھ کر نہ سہی اُس قدر چالاکی دکھا سکتے ہیں۔
لیکن
ہمیں اپنا آپ بُرا لگتا ہے چالاکی اپنانے ہوئے۔ خود غرضی دکھاتے ہوئے ہمارے اپنے ضمیرصاحب بے چین ہونے لگتے ہیں۔ اگر کبھی بھولے بھٹے کر بیٹھیں تو خود کو کھاتے رہتے ہیں۔ پھر جب تک اُس شخص سے اُس درجہ کی خود غرضی سے بڑھ کر کوئی نیکی نہ کر لیں چین نہیں پڑتا۔ یا پھر معافی مانگیں۔ یا پھر دونوں کام کریں۔
ہم لوگ اِسی طرح مطمئن رہتے ہیں۔
میرا مشورہ بھی یہی ہے کہ اُس دوست سے محتاط تو ضرور ہوجائیں۔ اپنے راز نہ دیں۔ توقعات نہ لگائیں۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔دوستی نہ چھوڑیں۔
میرے خیال میں تو دوستی ہوگئی تو بس ہوگئی۔
ہر شخص میں اچھے برے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ کبھی آپ کے سامنے اُس کا کوئی برا پہلو آجاتا ہے۔ کبھی اچھا۔ کبھی کسی شخص کا کوئی برا پہلو سامنے آتا ہی نہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُس کی شخصیت میں کچھ منفی ہے ہی نہیں۔ بس اللہ نے پردہ ڈالا ہوا ہے۔
اور کسی شخص کے برے پہلو ہی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اور اس کا قطعاََ مطلب نہیں ہوتا کہ اُس میں اچھی باتیں نہیں ہیں۔ اُس میں بھی بہت ساری اچھی باتیں ہوتی ہیں۔۔۔ہاں بدقسمتی سے ہمارے سامنے نہیں آتیں۔
صبر۔ برداشت۔ فرقان بھائی نے صحیح کہا کہ معاملہ اللہ پہ چھوڑیں کہ وہ بہتر صلہ دینے والا ہے۔
اللہ یقیناََ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اب مسکراؤ۔
شاباش ایسے۔:)
 

یاز

محفلین
کسی کی خود غرضی اور مطلب پرستی کا علم ہوجائے۔۔ اس کے باوجود ہمیں صبر کرنا چاہیے ۔۔اپنا ظرف ہی دکھانا چاہیے یا کنارہ کشی اختیار کرلینی چاہیے؟
میرا مشورہ ہے کہ صبر کرنا چاہئے، کہ صبر بہترین چیز ہے۔
قطع تعلق ہونا آخری آپشن ہونا چاہئے۔ اور ترکی بہ ترکی جواب دینا آخری آپشن بھی نہیں۔
 

سید عمران

محفلین
اگر رشتے دار ہے تو صبر کے ساتھ دور ہوجائیں لیکن تعلق برقرار رہے چاہے بہت کمزور ہی سہی۔۔۔
اور اگر دوست ہے اور بہت خوں خوار ہے، بے وفا ہے، تذلیل کرنے والا ہے تو ہجران جمیل اختیار کریں۔۔۔
یعنی الگ ہوجائیں مگر اس کی غیبت نہ کریں، جگہ جگہ برائی نہ کریں، خاموش رہیں۔۔۔
اور اگر ہلکی پھلکی جھڑپ ہے تو چند دن الگ رہیں۔۔۔
غصہ ٹھنڈا ہوجائے گا تو دل بھی مل جائے گا۔۔۔
اس لیے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تین دن علیحدہ رہنے، ناراض رہنے اور بول چال بند رہنے کی اجازت دی ہے تاکہ دل کی بھڑاس نکل جائے۔۔۔
جب بھڑاس نکل گئی تو اب پھر تجدیدِ عہدِ وفا۔۔۔
جیسے برسات کی جھڑی لگ جانے کے بعد پھولوں پتیوں پر جمی گرد غبار صاف ہوجاتی ہے ، ان کا رنگ نکھر جاتا ہے اور فضا دُھل کر ایک دم نئی نئی سی لگنے لگتی ہے۔۔۔
ہر سمت اُجالا ہی اُجالا ہوجاتا ہے!!!
 

ہادیہ

محفلین
یاز سرجی کیا ہے آپ کو؟ آپ پرمزاح کی ریٹنگ کیوں دے رہے ہیں دو دن سے۔۔ میرے ہر مراسلے میں؟ وجہ دسو؟ نہیں تو میں نے آپ کو جب تنگ کرنا شروع کیا نا تو آپ کامخصوص انداز ہوگا۔۔ بچہ جی ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔:noxxx:
 

ہادیہ

محفلین
بزدلی کا اس معاملے سے دُور دُور تک کوئی تعلق نہیں ہے۔ یقینی طور پر، آپ نے صبر، برداشت، تحمل اور اعلیٰ ظرفی کا ثبوت دیاہے جس کا اجر اللہ پاک کی جانب سے آپ کو ضرور بالضرور ملے گا۔ تاہم، سکون کی کیفیت آپ کو تبھی نصیب ہو گی جب آپ یہ معاملہ کلی طور پر اللہ پاک پر چھوڑ دیں گی۔
اللہ جانتا ہے فرقان بھیا۔۔ لیکن حقیقت بیان کررہی ہوں۔۔ مجھے غصہ بہت آتا ہے ایسے رویوں پہ۔۔لیکن پھر دوسروں کو نقصان نہیں پہنچانا ۔۔نا زبان نا ہاتھ وغیرہ وغیرہ سے۔۔ بلکہ بس اندر ہی اندر ٹینشن لیتے رہنا۔۔ مگر یہ صبر نہیں ہوتا۔۔ صبر تو وہ ہوتا ہے کہ انسان کو نہ اللہ سے گلہ شکوہ ہو نا ہی انسانوں سے۔۔ بلکہ ہر حال میں صبر شکر کرنے والا ہو۔۔
 

فرقان احمد

محفلین
اللہ جانتا ہے فرقان بھیا۔۔ لیکن حقیقت بیان کررہی ہوں۔۔ مجھے غصہ بہت آتا ہے ایسے رویوں پہ۔۔لیکن پھر دوسروں کو نقصان نہیں پہنچانا ۔۔نا زبان نا ہاتھ وغیرہ وغیرہ سے۔۔ بلکہ بس اندر ہی اندر ٹینشن لیتے رہنا۔۔ مگر یہ صبر نہیں ہوتا۔۔ صبر تو وہ ہوتا ہے کہ انسان کو نہ اللہ سے گلہ شکوہ ہو نا ہی انسانوں سے۔۔ بلکہ ہر حال میں صبر شکر کرنے والا ہو۔۔
مصائب اور تکالیف پر صبر ہی کرنا چاہیے اور اگر اس کے باوجود ذہنی تناؤ برقرار رہے تو کثرت سے اللہ کا ذکر کریں۔ صبروتحمل کے مختلف درجات ہوتے ہیں۔ اس بات پر اللہ کا شکر ادا کریں کہ آپ صبر کرنے والوں میں شامل ہونا چاہتی ہیں۔ بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
 

یاز

محفلین
یاز سرجی کیا ہے آپ کو؟ آپ پرمزاح کی ریٹنگ کیوں دے رہے ہیں دو دن سے۔۔ میرے ہر مراسلے میں؟ وجہ دسو؟ نہیں تو میں نے آپ کو جب تنگ کرنا شروع کیا نا تو آپ کامخصوص انداز ہوگا۔۔ بچہ جی ۔۔۔۔ وغیرہ وغیرہ۔۔۔:noxxx:
وجہ دسنے کی بھی ضرورت ہے کیا۔ یہ تو اظہر من الشمس ہے بھئی۔
 

ہادیہ

محفلین
ہادیہ بہن، خونی رشتہ داروں سے قطع تعلقی کو قطع رحمی کہتے ہیں اور یہ حرام اور سخت گناہ ہے، آپ کی سوچ بہتر ہے کہ اگر رشتہ داروں سے نباہ مشکل ہو رہا ہے تو ذرا فاصلے پر ہوجائیں مگر قطع تعلقی نہ کریں اور اجر کی توقع اللہ سے رکھیں ۔ آپ اپنی گفتگو سے بزدل نہیں لگتی ہیں، بس ایک بات ذہن میں رکھیں جب انسان غصے میں ہو اس وقت اس کے غلطی کرنے کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔
آپ نے بہت اچھی بات کی بھائی۔۔ سب کی رائے سے مثبت سوچ ملی مجھے۔۔جزاک اللہ خیرا
جی بالکل۔۔۔ مجھے بھی غصہ بہت جلد آتا ہے۔۔ لیکن میرا غصہ صرف میری ذات تک محدود رہتا ہے۔۔ کبھی زیادہ ہی بات برداشت سے باہر ہو تو بول بھی لیتی ہوں۔۔ جیسے آج ہوا۔۔ ہمارا گروپ تھرڈ تھا۔۔ اور ہمارا ٹاسک رزلٹ شیٹ بنانے کا تھا۔ جو میں کل یہاں دکھا بھی رہی تھی ایک ایرر کی وجہ سے۔۔ جب پریزنٹیشن کی باری آئی تو گروپ فور نے زبردستی پہلے پریزنٹیشن دی وجہ یہ تھی جو ہمارا ٹاسک تھا وہ انہوں نے بنایا ہوا تھا۔۔ اور اپنا انہیں بنانا نہیں آیا تھا۔ ہم لوگوں نے میڈم کو ٹاسک دکھایا بھی ایز اے پروف کہ یہ ہمارا تھا۔۔ مگر میڈم کہتی اب انہیں دینے دیں۔۔ لوگ دے چکے۔ اس کے بعد سب کہنے لگے کہ اس گروپ نے کام نہیں کیا۔۔ میں لیپ ٹاپ ساتھ لیکر گئی تھی۔ میں اٹھ کر دکھانے لگی تب بھی میم نے کہا آپ رہنے دیں آپ نے کیا نہیں۔۔ مجھے آج کلاس میں پہلی بار غصہ آیااور شدید غصہ آیا۔۔ میں نے کہا اوکے ۔۔ ٹھیک ہے ہم نکمے سہی۔۔ ہم نے کام نہیں کیا۔۔ میں تھوڑا ہارش ٹون میں ہوگئی۔۔ میرا گروپ کہتا کہ کچھ نہیں کہنے دو سب کو۔۔ پھر میم کو دس منٹ بعد احساس ہوگیا کہ انہوں نے غلط کیا ہے۔اگر ہم نے کام نا کیا ہوتا تو ہم لیپ ٹاپ کیوں لاتے۔۔ پھر بُلایا ہمیں۔۔ اور میرا میٹر گھوما ہوا تھا۔۔ گروپ لیڈر میں تھی کیونکہ شیٹ بھی میں نے بنائی تھی ۔۔ اس لیے پریزنٹیشن میں نے دی گروپ میں سے۔۔ اور میں نے غصے میں دس منٹ کی پریزنٹیشن بیس منٹ دی۔۔ کیونکہ چھٹی کا ٹائم تھا اور میڈم کو جلدی تھی۔۔ میں نے سوچا اب لگے گا پتہ۔۔ کلاس نے سوال کیا کرنے تھے۔۔ میں نے سوال کرکرکے میڈم کی بھی مت ماری۔۔ اور مزے کی بات۔۔ سب سے پہلے تالیاں میڈم نے بجائیں کہ اس گروپ کی سب سے اچھی پریزنٹیشن تھی۔۔ بہت زبردست۔۔
پھر میرے گروپ کی ایک لڑکی نے بڑی اچھی بات کہی۔۔ کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔۔ بی بریو:).. واقعی اللہ نے عزت دی۔۔ سب کے ٹاسک میں میم نے کچھ نا کچھ تنقید ضرور کی۔۔ خیر۔۔اللہ بے شک ہر عیب سے پاک ہے۔۔ اور خطاوار ہم انسان ہیں ۔۔
یہ سب بتانے کا مقصد ۔۔ برداشت ہر حد تک کرتی ہوں مگر سیلف ریسپیکیٹ پہ کوئی سمجھوتہ نہیں۔۔ بس یہی ایک کمزوری ہے۔۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top