ہادیہ!
فوراََ کسی قسم کے ردِ عمل سے گریز کرنا بہتر ہے۔ تھوڑا سا انتظار کریں۔ صورتحال کا تسلی سے،اطمینان سے مشاہدہ کریں۔
رشتہ دارون کے بارے میں تو سارے احکامات موجود ہیں۔ اُن کے مطابق ہی چلیں گے ان شاءاللہ۔ لئیق بھائی نے ٹھیک کہا اس بارے میں۔
رہی دوستی کی بات تو ایک بار ہوگئی تو ہوگئی۔ اب رہے گی ان شاءاللہ۔
تابش بھائی نے بھی میرے دل کی بات کہی ہے کہ ہمارا اخلاق و کردار دوسرے کے اخلاق و کردار کا ردِ عمل نہیں ہونا چاہیے۔ ہم ہم ہیں۔ ہمیں اپنی تصویر ایسی بنانی ہے جو ہمارے اللہ اور ہمارے پیارے نبیﷺ کو پسند آجائے۔ نہ کہ اُس دوست کی خود غرضی و مطلب پرستی کے ردِ عمل میں اپنی تصویر بھی اپنے ہاتھوں خراب کرنی ہے۔
ہادیہ!
ہم بالکل عام سے انسان ہیں۔ فرشتے یقیناَ نہیں۔ نہ خاص لوگ ہیں۔ غُصہ بھی آتا ہے۔ رنج بھی بے انتہا ہوتا ہے۔ دکھ و غم بھی محسوس کرتے ہیں۔ جذبات میں قطع تعلق کا ارادہ بھی بنتا ہے۔ مقابل شخص کو اُن ہی سکوں میں جواب دینے کو بھی جی چاہتا ہے۔ چالاکیاں سمجھ بھی آتی ہیں۔ کرنا چاہیں تو ہم اُن سے بڑھ کر نہ سہی اُس قدر چالاکی دکھا سکتے ہیں۔
لیکن
ہمیں اپنا آپ بُرا لگتا ہے چالاکی اپنانے ہوئے۔ خود غرضی دکھاتے ہوئے ہمارے اپنے ضمیرصاحب بے چین ہونے لگتے ہیں۔ اگر کبھی بھولے بھٹے کر بیٹھیں تو خود کو کھاتے رہتے ہیں۔ پھر جب تک اُس شخص سے اُس درجہ کی خود غرضی سے بڑھ کر کوئی نیکی نہ کر لیں چین نہیں پڑتا۔ یا پھر معافی مانگیں۔ یا پھر دونوں کام کریں۔
ہم لوگ اِسی طرح مطمئن رہتے ہیں۔
میرا مشورہ بھی یہی ہے کہ اُس دوست سے محتاط تو ضرور ہوجائیں۔ اپنے راز نہ دیں۔ توقعات نہ لگائیں۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔دوستی نہ چھوڑیں۔
میرے خیال میں تو دوستی ہوگئی تو بس ہوگئی۔
ہر شخص میں اچھے برے دونوں پہلو ہوتے ہیں۔ کبھی آپ کے سامنے اُس کا کوئی برا پہلو آجاتا ہے۔ کبھی اچھا۔ کبھی کسی شخص کا کوئی برا پہلو سامنے آتا ہی نہیں تو اِس کا یہ مطلب نہیں ہوتا کہ اُس کی شخصیت میں کچھ منفی ہے ہی نہیں۔ بس اللہ نے پردہ ڈالا ہوا ہے۔
اور کسی شخص کے برے پہلو ہی سامنے آتے رہتے ہیں۔ اور اس کا قطعاََ مطلب نہیں ہوتا کہ اُس میں اچھی باتیں نہیں ہیں۔ اُس میں بھی بہت ساری اچھی باتیں ہوتی ہیں۔۔۔ہاں بدقسمتی سے ہمارے سامنے نہیں آتیں۔
صبر۔ برداشت۔ فرقان بھائی نے صحیح کہا کہ معاملہ اللہ پہ چھوڑیں کہ وہ بہتر صلہ دینے والا ہے۔
اللہ یقیناََ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔
اب مسکراؤ۔
شاباش ایسے۔