"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

پاکستانی

محفلین
صديوں کا فاصلہ ہے جنگل سے ميرے گھر تک
شاخ ثمر بکف سے تخليق کے ہنر تک
اس پاپيادگي سے اس برق پا سفر تک

يہ فاصلہ ہے ميرے ذہن رسا کا ضامن
منزل سے تابہ منزل ہر نقش پاکا ضامن
ہر خواب، ہر حقيقت، ہر ارتقا کا ضامن

اب ميري دسترس ميں سورج بھي ہے ہوا بھي
يہ پر کشش زميں بھي وہ بے کشش خلا ہے
اب تو ہے ميري زد ميں، دنيائے ماورا بھي

پھر بھي نہ جانے کيوں ميں جنگل کو اتنا چاہتا ہوں
فردوس گم شدہ کے موہوم خواب ديکھوں
آنگن ميں کچھ نہيں تو ايک پيڑ ہي لگائوں​
 

شائستہ

محفلین
پاکستانی نے کہا:
اپنے ماتھے کا تلک بنا کرع کر دو لازاوال ہم
جس کا جواب تم بنو رکھ لو وہ سوال ہم

مدت ہوئي جلاتے تيرے نام کا ديا مزاروں
کبھي تو دے دو قربتيں کبھي تو بخش دو وصال ہم

اپني سانسوں کو کر لو منسوب تم صرف ميري ذات
محبتوں کے نام پہ لوگ ديں ايسي بنا دو مثال ہم

بخش دو ساري زندگي، دن مہ و سال ہم
نہ کوئي ہو گلہ ہميں نہ کوئي ہو ملال ہم

عارش يوں اترو ميري ذات ميں ميں اپنا نام بھول جائوں
ذرا بھي عارش نہ رہے کوئي نہ رہے خيال ہم کو

آئو حسن بے نظير کي بات کرتے ہيں
آئو اپنےوطن کشمير کي بات کرتے ہيں​

پاکستانی جی ، معذرت کے ساتھ ،،، آپ اس غزل کے ہر شعر کے اختتام پر ‘کو ‘ لکھنا شاید بھول گئے ہیں ،،پڑھنے میں‌بہت عجیب لگ رہی ہے ایسے
 

شائستہ

محفلین
دشت میں پیاس بُجھاتے ہوئے مر جاتے ہیں
ہم پرندے کہیں جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں سوکھے ہوئے تالاب پہ بیٹھے ہوئے ہنس
جو تعلق کو نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

گھر پہنچتا ہے کوئی اور ہمارے جیسا
ہم ترے شہر سے جاتے ہوئے مر جاتے ہیں

کس طرح لوگ چلے جاتے ہیں اُٹھ کر چُپ چاپ
ہم تو یہ دھیان میں لاتے ہوئے مر جاتے ہیں

اُن کے بھی قتل کا الزام ہمارے سر ہے
جو ہمیں زہر پلاتے ہوئے مر جاتے ہیں

یہ محبّت کی کہانی نہیں مرتی لیکن
لوگ کردار نبھاتے ہوئے مر جاتے ہیں

ہم ہیں وہ ٹوٹی ہوئی کشتیوں والے تابش
جو کناروں کو ملاتے ہوئے مر جاتے ہیں



عباس تابش
 

ظفری

لائبریرین
بہت ہی خوب شائستہ جی ۔۔۔ہممم ۔۔ آج کل عباس تابش صاحب کی غزلیں ارسال ہو رہیں ہیں اور میں بھی ان کے مشاہدے اور حقیقت پسندی کا بہت قائل ہوں ۔ امید ہے آپ یہ سلسلہ جاری رکھیں گی ۔
 

ظفری

لائبریرین

دل نے وحشت گلی گلی کر لی
اب گلہ کیا ، بہت خوشی کر لی

یار، دل تو بلا کا تھا عیّاش
اُس نے کس طرح خودکشی کر لی

نہیں آئیں گے اپنے بس میں ہم
ہم نے کوشش رہی سہی کر لی

اب تو مجھکو پسند کر لو تُم
میں نے خود میں بہت کمی کر لی​
 

سارہ خان

محفلین
ہم اپنے آپ میں گم تھے ہمیں کیا خبر تھی
کہ ماورائے غمِ جاں بھی ایک دنیا تھی

وفا پہ سخت گراں ہے تیرا وصالِ دوام
کہ تجھ سے مل کر بچھڑنا میری تمنا تھی

ہوا تجھ سے بچھڑنے کے بعد معلوم
کہ تو نہیں تھا ترے ساتھ ایک دنیا تھی

خوشا وہ دل جو سلامت رہے بزعمِ وفا
نگاہ اہلِ جہاں ورنہ سنگِ خارا تھی

دیارِ اہلِ سخن پر سکوت ہے کہ جو تھا
فراز میری غزل بھی صدا بصحرا تھی

احمد فراز
 

عمر سیف

محفلین
چُپ کے عالم میں وہ تصویر سی صورت اس کی
بولتی ہے تو بدل جاتی ہے رنگت اس کی

سیڑھیاں چڑھتے وہ اچانک ملی تھی مجھ کو
اس کی آواز میں موجود تھی حیرت اس کی

آنکھ رکھتے ہو تو اس آنکھ کی تحریر پڑھو
منہ سے اقرار نہ کرنا تو ہے عادت اس کی

وہ اگر جا بھی چکی ہے تو نہ آنکھیں کھولو
ابھی محسوس کئے جاؤ رفاقت اس کی

دِل دھڑکتا ہے تو وہ آنکھ بلاتی ہے مجھے
سانس آتی ہے تو ملتی ہے بشارت اس کی

( شہزاد احمد )
 

حجاب

محفلین
دل درد کی شدّت سے خوں گشتہ و سی پارہ
اس شہر میں پھرتا ہے اک وحشی و آوارہ
شاعر ہے کہ عاشق ہے جوگی ہے کہ بنجارہ
دروازہ کُھلا رکھنا
آنکھوں میں تو اک عالم آنکھوں میں تو دنیا ہے
ہونٹوں پر مگر مہریں منہ سے نہیں کہتا ہے
کس چیز کو کھو بیٹھا کیا ڈھونڈنے نکلا ہے
دروازہ کُھلا رکھنا
ہاں تھام محبت کی گر تھام سکے ڈوری
ساجن ہے تیرا ساجن اب تجھ سے کیا چوری
یہ جس کی منادی ہے بستی میں تیری گوری
دروازہ کُھلا رکھنا
شکوؤں کو اُٹھا رکھنا آنکھوں کو بچھا رکھنا
اک شمع دریچے کی چوکھٹ پہ جلا رکھنا
مایوس نہ پِھر جائے ہاں پاسِ وفا رکھنا
دروازہ کُھلا رکھنا دروازہ کُھلا رکھنا
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top