"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شائستہ

محفلین
یار کے غم کو عجب نقش گری آتی ہے
پور پور آنکھ کی مانند بھری جاتی ہے

بےتعلق نہ ہمیں جان کہ ہم جانتے ہیں
کتنا کچھ جان کے یہ بےخبری آتی ہے

اس قدر گوندھنا پڑتی ہے لہو سے مٹی
ہاتھ گُھل جاتے ہیں پھر کوزہ گری آتی ہے

کتنا رکھتے ہیں وہ اس شہرِ خموشاں کا خیال
روز ایک ناؤ گلابوں سے بھری آتی ہے

زندگی کیسے بسر ہوگی کہ ہم کو تابش
صبر آتا ہے نہ آشفتہ سری آتی ہے




عباس تابش
 

نوید ملک

محفلین
دیکھا ہے زندگی کو کچھ اتنے قریب سے
چہرے تمام لگنے لگے ہیں عجیب سے
اے روحِ عصر جاگ کہاں سو رہی ہے تو
مقتل کو راہ ملتی ہے کوئے حبیب سے
 

ظفری

لائبریرین

دیکھ کے گھر سنسان سہیلی
مت ہو حیران سہیلی

کون ملا جا کر دنیا سے
کون ہوا انجان سہیلی

میں بھی تھک کر گر سکتا ہوں
میں بھی ہوں انسان سہیلی

ہوتا ہے ہر شور کے پیچھے
ایک خاموش جہان سہیلی

دھوکہ بھی تو ہوسکتی ہے
یہ میری مسکان سہیلی

پیار کو تُو ہی کہا کرتی تھی
بلکل وہم وگمان سہیلی

ہونٹ ہنسیں اور آنکھیں رو دیں
یہ بھی ہے امکان سہیلی​
 

شائستہ

محفلین
ظفری نے کہا:

دیکھ کے گھر سنسان سہیلی
مت ہو حیران سہیلی

کون ملا جا کر دنیا سے
کون ہوا انجان سہیلی

میں بھی تھک کر گر سکتا ہوں
میں بھی ہوں انسان سہیلی

ہوتا ہے ہر شور کے پیچھے
ایک خاموش جہان سہیلی

دھوکہ بھی تو ہوسکتی ہے
یہ میری مسکان سہیلی

پیار کو تُو ہی کہا کرتی تھی
بلکل وہم وگمان سہیلی

ہونٹ ہنسیں اور آنکھیں رو دیں
یہ بھی ہے امکان سہیلی​

بہت زبردست
 

شائستہ

محفلین
جو اتر کے زینہ شام سے تیری چشم خوش میں سما گئے
وہی جلتے بجھتے چراغ سے میرے بام و در کو سجاگئے

یہ عجب کھیل ہے پیار کا ، میں نے آپ دیکھا یہ معجزہ
وہ جو لفظ میرے گماں میں تھے تیری زباں پہ آگئے

وہ جو گیت تم نے سنا نہیں ، میری عمر بھر کا ریاض تھا
میرے درد کی تھی وہ داستاں جسے تم ہنسی میں اڑا گئے

وہ چراغ جان کبھی جس کی لو نہ کسی ہوا سے نگوں ہوئی
تیرے بے وفائی کے وسوسے اسے چپکے چپکے بجھاگئے

وہ تھا چاند شام وصال کا کہ تھا روپ تیرے جمال کا
میری روح سے میری آنکھ تک کسی روشنی میں نہاگئے

یہ بندگان نیاز ، یہ تمام ہیں وہی لشکری
جنہیں زندگی نے امان نہ دی تو تیرے حضور میں آگئے

وہ عجب پھول سے لفظ تھے تیرے ہونٹ ‌جس سے مہک اٹھے
میرے دشت خواب میں دور تک کوئی باغ جیسے لگا گئے

میری عمر سے نہ سمٹ سکے میرے دل میں اتنے سوال تھے
میرے دل میں جتنے جواب تھے تیری اک نگاہ میں آگئے
 

شائستہ

محفلین
اتنا آساں نہیں مسند پہ بٹھایا گیا میں
شہرِ تہمت تیری گلیوں میں پھرایا گیا میں

یہ تو اب عشق میں جی لگنے لگا ہے کچھ کچھ
اس طرف پہلے پہل گھیر کے لایا گیا میں

خوف اتنا تھا کہ دیوار پکڑ کر نکلا
اس سے ملنے کے لئے صورتِ سایہ گیا میں

تجھ سے کچھ کہنے کی ہمت ہی نہیں تھی ورنہ
ایک مدّت تری دہلیز تک آیا گیا میں

خلوتِ خاص میں بُلوانے سے پہلے تابش
عام لوگوں میں بہت دیر بٹھایا گیا میں



عباس تابش
 

عمر سیف

محفلین
بے نور ہوچکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم
 

عمر سیف

محفلین
بے نور ہوچکی ہے بہت شہر کی فضا
تاریک راستوں میں کہیں کھو نہ جائیں ہم
اس کے بغیر آج بہت جی اداس ہے
جالب چلو کہیں سے اسے ڈھونڈ لائیں ہم
 

حجاب

محفلین
لفظ پتّوں کی طرح اُڑنے لگے چاروں طرف
کیا ہوا چلتی رہی آج میرے چاروں طرف

میں نے خود کو جو سمیٹا تو اُسی لمحےمیں
اور بھی چاروں طرف پھیل گئے چاروں طرف

پہلے تو ایک طرف بیٹھ گیا وہ آ کر
اور پھر ایک طرف اُس نے کئے چاروں طرف

کوئی اطراف کی اب فکر اُسے کیا ہوگی
ساتھ ہی ساتھ وہ پھرتا ہے لئے چاروں طرف

آسماں پر کوئی تصویر بناتا ہوں ظفر
کہ رہے ایک طرف اور لگے چاروں طرف

٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪ ( ظفر اقبال )
 

شمشاد

لائبریرین
ظالم تھا وہ اور ظلم کی عادت بھی بہت تھی
مجبور تھے ہم اس سے محبت بھی بہت تھی

اس بُت کے ستم سہہ کے دیکھا ہی دیئے ہم نے
گو اپنی طبیعت میں بغاوت بھی بہت تھی

واقف ہی نہ تھا رمزِ محبت سے وہ، ورنہ
دل کے لیے تھوڑی سی عنایت بھی بہت تھی

یوں ہی نہیں مشہورِ زمانہ میرا قاتل
اس شخص کو اس فن میں مہارت بھی بہت تھی

کیا دورِ غزل تھا کہ لہو دل میں بہت تھا
اور دل کو لہو کرنے کی فرصت بھی بہت تھی

ہر شام سناتے تھے حسینوں کو غزل ہم
جب مال بہت تھا تو سخاوت بھی بہت تھی

بلوا کے ہم “ عاجز “ کو پشیماں بھی بہت ہیں
کیا کیجیئے کمبخت کی شہرت بھی بہت تھی
(کلیم عاجز)
 

تیشہ

محفلین
ہمیں اپنے چہرے کے خدوخال ہی یاد نہیں
ہمیں خود سے بھی شنا سائی کب تھی

تیری بیزاری کو دیکھکر ہم الگ ہوئے
تم لاکھ کہو وہ بے وفائی کب تھی

ہمیں اندھیروں میں بھٹک جانے کا الزام نہ دو
بہت ہاتھ مارے مگر راہ سجھاُئی کب تھی

اُس گرمجوشی کے ،جسکا تمھیں دعوی تھا بہت
ہم منتظر رہے تم نے دکھائی کب تھی ۔ ۔
تنہا رہتے ہو کسی سے ملتے نہیں کہا تھا تم نے
اک تیرے سوا کسی سے آشنائی کب تھی
محبت تو چہرے کے ہر خال سے ٹپکتی ہے
تم نے سمجھ لی جو بات ہم نے بتائی کب تھی

یہ لزرتی کج دیواریں گر ہی جانی تھیں آخر
تیری محبت میں سب کچھ تھا سچائی کب تھی ،۔ ۔
 

نوید ملک

محفلین
خود کو کسی کی راہ گذر کس لئے کریں
تو ہمسفر نہیں تو سفر کس لئے کریں
جب تو نے ہی نگاہ میں رکھا نہیں ہمیں
اب اور کسی کے ذہن میں گھر کس لئے کریں
منسوبِ جاں ہو اور کوئی پیکرِجمال
کر سکتے ہیں یہ کام مگر کس لئے کریں
 

شائستہ

محفلین
اُس نے کہا کہ ہم بھی خریدار ہو گئے
بِکنے کو سارے لوگ ہی تیّار ہو گئے

اُس نے کہا کہ ایک وفادار چاہئے
سارے جہاں کے لوگ وفادار ہو گئے

اُس نے کہا کہ کوئ گُنہگار ہے یہاں
جو پارسا تھے، وہ بھی گُنہگار ہو گئے

اُس نے کہا کہ عاجز و مسکین ہے یہاں
سب لوگ گردِ کوچہ و بازار ہر گئے

اُس نے کہا کہ کاش کوئ جنگ جُو ملے
آپس میں یار بر سرِ پیکار ہو گئے

اُس نے کہا عدیم، میرا ہا تھ تھامنا
چاروں طرف سے ہا تھ نمودار ہو گئے
عدیم ہاشمی
 

عمر سیف

محفلین
عمر بھر چلتے رہے آنکھوں پہ پٹی باندھ کر
زندگی کو ڈھونڈنے میں زندگی برباد کی
(راحت اندوری)
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top