"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عمر سیف

محفلین
تم آؤ گی کسی دن
اور پوچھو گی
“ تمھاری زندگی میں، میں کہاں پر ہوں؟ “
تمھیں مجھ سے محبت ہے؟
کہ اپنی زندگی پیاری؟
میں بولوں گا مجھے تو زندگی اپنی پیاری ہے
یہ سُن کر
تم چلی جاؤ‌گی، مجھ کو چھوڑ کر جاناں
بِنا جانے، بنا سمجھے
کہ میری زندگی تم ہے
 

سارہ خان

محفلین
کوئی سورج سے سیکھے، عدل کیا ہے، حق رسی کیا ہے
کہ یکساں دھوپ بٹتی ہے، صغیروں میں کبیروں میں

ابھی غیروں کے دُکھ پہ بھیگنا بُھولی نہیں آنکھیں
ابھی کچھ روشنی باقی ہے لوگوں گے ضمیروں میں
 

ظفری

لائبریرین
فضا میں سرد ہوا کا خرام پہلے کا ہے
جُدائی آج ہوئی ، اہتمام پہلے کا ہے

تمہارے گھر کوئی آیا ، یہ بات بعد کی ہے
شجر پہ لکّھا ہوا میرا نام پہلے کا ہے
 

ظفری

لائبریرین

اور نہ در بدر پھرا ، اور نہ آزما مُجھے
بس میرے پردہ دار بس ، اب نہیں حوصلہ مُجھے

صبر کرو محاسبو ، وقت تُمہیں بتائے گا
دہر کو میں نے کیا دیا ، دہرسے کیا ملا مُجھے

رات لُغاتِ عمر سے، میں نے چُنا تھا ایک لفظ
لفظ ، بہت عجیب تھا، یاد نہیں رہا مُجھے

فن کو سمجھ لیا گیا ، محض عطیہِ فلک
سعی و ریاض کا صلہ ، خوب دیا گیا مُجھے​
 

عمر سیف

محفلین
يہ قول کسي کا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا
وہ کچھ نہيں کہتا ہے کہ ميں کچھ نہیں کہتا
سن سن کر ترے عشق ميں اغيار کے طعنے
ميرا ہي کليجا ہے کہ ميں کچھ نہيں کہتا
 

نوید ملک

محفلین
عمر بھر کا دے گیا کوئی ستم گر سوچنا
اس سے مل کر سوچنا اس سے بچھڑ کر سوچنا

رات خوابوں میں کئی دھندلے مناظر دیکھنا
دن کی تنہائی میں ان خوابوں کا اکثر سوچنا

ٹوٹتا رہتا ہوں پہروں میں تضادِ کرب سے
اپنے باہر مسکرانا ، اپنے اندر سوچنا

جس کو دیکھوں اس کے چہرے پر لکیریں سوچ کی
جیسے ہو جائے کسی شے کا مقدر سوچنا

میں پرندہ ہوں کسی دن شاخ سے اڑ جاؤں گا
پھر گئی گزری رتوں کا موجِ صر صر سوچنا

(ن م راشد)
 

عمر سیف

محفلین
گلی گلی مری یاد بچھی ہے پیارے رستہ دیکھ کے چل
مجھ سے اتنی وحشت ہے تو میری حدوں سے دور نکل

ایک سمے ترا پھول سا نازک ہاتھ تھا میرے شانوں پر
ایک یہ وقت کہ میں تنہا اور دکھ کے کانٹوں کا جنگل

یاد ہے اب تک تجھ سے بچھڑنے کی وہ اندھیری شام مجھے
تو خاموش کھڑا تھا لیکن باتیں کرتاتھا کاجل

میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں
میری تجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکرو عمل

میرا منہ کیا دیکھ رہا ہے، دیکھ اس کالی رات کو دیکھ
میں وہی تیرا ہمراہی ہوں ساتھ مرے چلنا ہو تو چل
(ناصر کاظمی)
 

پاکستانی

محفلین
اعمال سے ميں اپنے بہت بے خبر چلا
آيا تھا آہ کس لئے اور کيا ميں کر چلا

ہے فکر وصل صبح تو اندوہ ہجر شام
اس روزو شب کے دھندے ميں اب ميں تو مر چلا
کيا اس چمن ميں آن کے لے جائے گا کوئي
دامن کو ميرے سامنے گل جھاڑ کر چلا

طوفان بھرے تھاپاني جن آنکھوں کے سامنے
آج ابر ان کے آگے زميں کرکے تر چل​
 

پاکستانی

محفلین
بہنا کچھ اپني چشم کا دستور ہوگيا
دي تھي خدا نے آنکھ سو نامور ہوگيا

بھٹکي پھرے ہے کب سے خدايا مري دعا
دروازہ کيا قبول کا معمور ہوگي

اخوش ہيں شکتہ بالي سے اپني ہم اس لئے
پرواز کا تو دل سے خلش دور ہوگيا

شب آگيا جو بزم ميں پيارے تويک بيک
چہرے سے رنگ شمع کے کافور ہوگيا

سودا کو کہتے ہيں کہ اس سے مصاحبت
کہنا غلط يہ حرف بھي مشہور ہوگيا​
 

پاکستانی

محفلین
بلبل نے جسے جاکے گلستان ميں ديکھا
ہم نے اسے ہر خار بيابان مين ديکھا

روشن ہے وہ ہر ايک ستارے ميں زليخا
جس نور کو تو نے مہ کنعان ميں ديکھا
اے زخم جگر سودھ الماس سے خوکر
کتنا وہ مزہ تھا جو نمک دان ميں ديکھا

سودا جو ترا حال ہے اتنا تو نہيں وہ
کيا جانئيے تو نے اسے کس آن ميں ديکھا​
 

عمر سیف

محفلین
میرے ماضی کو اندھیرے میں دبا رہنے دو
میرا ماضی میری ذلت کے سوا کچھ بھی نہیں
(ساحر لدھیانوی)
 

پاکستانی

محفلین
ضبط اپنا شعار تھا، نہ رہا
دل پہ کچھ اختيار تھا، نہ رہ

دل مرحوم کو خدا بخشے
ايک ہي غمگسار تھا، نہ رہ

آ، کہ وقت سکون مرگ آيا
نالہ نا خوشگوار تھا، نہ رہ

ان کي بے مہريوں کو کيا معلوم
کوئي اميدوار تھا، نہ رہ

آہ کا اعتبار بھي کب تک
آہ کا اعتبار تھا نہ رہا​
 

پاکستانی

محفلین
ہوش بھلا بيٹھي ميں
تجھ بن ڈھول بلوچ

تيرا حال ہوا کيا
کچھ تو بول بلوچ

ظلم کيا بابل نے
جان لگي ہے رلنے

اب کيسے جيناہے
بھيد يہ کھول بلوچ

قہر يہ مجھ پر ٹوٹا
تيرا ساتھ بھي چھوٹ

ديکھ ليا جگ سارا
تو انمول بلوچا​
 

پاکستانی

محفلین
چاند کبھي تو تاروں کي اس بھيڑ سے نکلے
اور مري کھڑکي ميں آئے
بالکل تنہا اور اکيلا
ميں اس کو باہوں ميں بھرلوں
ايک ہي سانس سب کي سب وہ باتيں کرلوں
جو ميرے تالو سے چمٹي
دل ميں سمٹي رہتي ہيں
سب کچھ ايسے ہي ہوجائے جب ہے نا
چاند مري کھڑکي ميں آئے، تب ہے نا​
 

پاکستانی

محفلین
جو تم نے ٹھان ہي لي ہے
ہمارے دل سے نکلو گے
تو اتنا جان لو پيارے
سمندر سامنے ہوگا اگر ساحل سے نکلو گے
ستارے جن کي آنکھوں نے ہميں اک ساتھ ديکھا تھا
گواہي دينے آئيں گے
پرانےکاغذوں کي بالکوني سے بہت لفظ جھانکيں گے
تمہيں واپس بلائيں گے
کئي وعدے فسادي قرض خواہوں کي طرح رستے ميں روکيں گے
تمھيں دامن سے پکڑیں گے
تمہاري جان کھائيں گے
چھپا کر کس طرح چہرہ
بھري محفل سے نکلو گے
ذرا پھر سوچ لو جاناں
نکل تو جائو گے شايد
مگر مشکل سے نکلو گے​
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top