روشنی ستارا ہے راستہ ستارا ہے
شب گزار لوگوں کا اۤسرا ستارا ہے
کیوں ہمیں بلا تا ہے پچھلی رات کا تارا
ہم سیاہ بختوں کا دوسرا ستارا ہے
یوں سبھی سے ملتے ہیں ،کم کسی پہ کھلتے ہیں
گفتگو سبھی سے ہے مدعا ستارا ہے
شامِ غم سجانے کو دل کی لو بڑھانے کو
ابتداء چراغِ شب انتہا ستارا ہے
رات بھر اسے ہم نے اۤنکھ میں جگہ دی تھی
صبح یہ کُھلا ہم پر چاند کا ستارا ہے
تو فلک پہ روشن ہے میں زمیں پہ جلتا ہوں
تیری میری قسمت کا ایک سا ستارا ہے
اۤسماں سے لڑتے ہیں اس امید پر ساجد
اجنبی عدالت میں اۤشنا ستارا ہے
(ساجد امجد)