"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عمر سیف

محفلین
ایسا شجر ہوں جس کا سایا بھی نہیں ہے
مجھ پر موسم ِ بہار کبھی آیا بھی نہیں ہے
جانے کس احساس کی منزل پر کھڑا ہوں میں
تُجھ کو نہیں کیا یاد تو بُھلایا بھی نہیں ہے
 

عمر سیف

محفلین
آج گھر کی غلام گردش میں
اوڑھ کر زندگی کو سو جائیں
رات سے رات تلک رات رہی
رات سے رات تلک سو جائیں
 

عمر سیف

محفلین
کہا نہیں تھا وفا منزلیں نہیں رکھتی
تجھے یہ راستہ لگتا ہے اب بتا کیسا
فراق،درد،ستم،اشک اور تنہائی
ملا ہے مجھ کو محبت کا یہ صلہ کیسا
 

عمر سیف

محفلین
یہ راز ہے میری زندگی کا
پہنے ہوئے ہوں کفن خودی کا

پھر نشترِ غم سے چھیڑتے ہیں
اک طرز ہے یہ بھی دل دہی کا

او لفظ و بیاں میں چھپانے والے
اب قصد ہے اور خامشی کا

مرنا تو ہے ابتدا کی اک بات
جینا ہے کمال منتہی کا

ہاں سینہ گلوں کی طرح کر چاک
دے مر کے ثبوت زندگی کا
 

عمر سیف

محفلین
سوزِ غم دے کے مجھے اس نے یہ ارشاد کیا
جا تجھے کشمکشِ دہر سے آزاد کیا

وہ کریں بھی تو کن الفاظ میں تیرا شکوہ
جن کو تری نگہِ لطف نے برباد کیا

دل کی چوٹوں نے کبھی چین سے رہنے نہ دیا
جب چلی سرد ہوا میں نے تجھے یاد کیا

اب میں سو جان سے اس طرزِ تکلم کے نثار
پھر تو فرمائیے کیا آپ نے ارشاد کیا

اس کا رونا نہیں کیوں تم نے کیا دل برباد
اس کا غم ہے کے بہت دیر میں برباد کیا

اتنا مانوس ہوں میں فطرت سے کلی جب کلی
جھک کے میں نے یہ کہا مجھ سے کچھ ارشاد کیا

مجھ کو تو ہوش نہیں تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
 

عمر سیف

محفلین

وصال ُرت کی یہ پہلی دستک ہی سرزنش تھی
کہ ہجر موسم نے رستے رستے سفر کا آغاز کیا
تمہارے ہاتھوں کالمس جب میری وفا کی ہتھیلوں پر حنا بنے گا
تو سوچ لو گی
رفاقتوں کا سنہرا سورج غروب کے امتحان میں
ہمارے باغوں سے سے گر کبھی تتلیوں کی خوشبو نہ گزر پائے تو یہ نہ کہنا کہ تتلیوں نے گلاب رستے بدل لیے ہیں
اگر کوئی شام یوں بھی آئے کے ہم تم لگے پرائے
تو جان لینا
کے شام بے بس تھی شب کی تاریکیوں کے ہاتھوں
تمہاری خوہش کی مٹھیاں بے دھانیوں میں کبھی کھلیں تو یقین کرنا
کہ میری چاہت کے جگنوؤں نے
تمھارے ہاتھوں کے لمس تازہ کی خوہشوں میں
بڑے گھنیرے اندھیرے کاٹے
مگر یہ خدشے ، یہ وسوسے تو تکلفاََ ہیں

ہم اپنے جذبوں کو منجمدرائیگانیوں کے سپرد کر کے
یہ سوچ لے گے
کہ ہجر موسم تو وصل کی پہلی شام سے ہی
سفر کا آغاز کر چکا تھا

نوشی گیلانی
 

عمر سیف

محفلین
کتنا شفاف ہے بدن تیرا
کل جو تو میرے پاس سے گزری
میں نے دیکھا تھا تیرے چہرے پر
جھیل کا سا سکون چھایا ہے
اور تیرے دل پر جب نظر ڈالی
میں نے وہ حشر سا بپا دیکھا
جس طرح زلزلہ سا آیا ہے
 

سارہ خان

محفلین
ضبط نے کہا:
یہ راز ہے میری زندگی کا
پہنے ہوئے ہوں کفن خودی کا

پھر نشترِ غم سے چھیڑتے ہیں
اک طرز ہے یہ بھی دل دہی کا

او لفظ و بیاں میں چھپانے والے
اب قصد ہے اور خامشی کا

مرنا تو ہے ابتدا کی اک بات
جینا ہے کمال منتہی کا

ہاں سینہ گلوں کی طرح کر چاک
دے مر کے ثبوت زندگی کا

:great:
 

عمر سیف

محفلین
محلہ سائیں سائیں کر رہا ہے
مرے اندر کا انساں مر رہا ہے
جمی ہے سوچ پر قدموں کی چاپیں
نہ جانے کون پیچھا کر رہا ہے
 

حجاب

محفلین
ترکِ تعلق کھیل نہیں ہے پہلے پہل گھبرائے بہت
اپنی انا کے پاگل پن پر اکثر ہم پچھتائے بہت

اُس کو بھی معلوم نہیں تھا ہم بھی کچھ ناواقف تھے
عشق سے مشکل کھیل میں پڑنا دونوں کو تڑپائے بہت

فرطِ حیا سے سرخ ہوا تھا میرے عرضِ حال پہ جو
اتنا اُس کو بھولنا چاہوں وہ چہرہ یاد آئے بہت

کیسا زعم کہاں کے تیور کس کی خودی اور کیسی انا
یارو سچّی بات تو یہ ہے کھو کے اُسے پچھتائے بہت

اُس کی آنکھیں بھی بوجھل تھیں شائد وہ بھی رویا تھا
وہ بھی ہم کو بھول نہ پایا یاد اُسے ہم آئے بہت

نرگس بیلا جوہی چمپا سب اُس کی تصویریں ہیں
رات کی رانی کا ہر جھونکا اُس کی یاد دلائے بہت

امبوا پر کوئل کی کوک سے دل میں ہوک سی اُٹھتی ہے
اُس پر بھیگا سا یہ موسم دل کی آگ بڑھائے بہت

صبر و ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ہیں آج خلیل
اُس کی یاد کا چھبتا کانٹا اشکِ خون رلائے بہت۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
جنسِ دنیا سے گزر جاتے ہیں
ایسا کرتے ہیں کہ مر جاتے ہیں

دل ٹوٹے تو سرِ محفل بھی
بال بے وجہ بکھر جاتے ہیں

اب نہ دیکھو میری بنجر آنکھیں
چڑھتے دریا تو اُتر جاتے ہیں

اب نہ مڑ مڑ کر پکارو اُن کو
لوگ رستے میں ٹہر جاتے ہیں

خالی دامن سے شکایت کیسی
اشک آنکھوں میں تو بھر جاتے ہیں

تم کہاں جاؤ گے؟ سوچو محسن
لوگ تھک ہار کے گھر جاتے ہیں


محسن نقوی
 

عمر سیف

محفلین
یہ چاہتیں یہ پذیرائیاں بھی جھوٹی ہیں
یہ عمر بھر کی شناسائیاں بھی جھوٹی ہیں

یہ لفظ لفظ محبت کی یورشیں بھی فریب
یہ زخم زخم مسیحائیاں بھی جھوٹی ہیں

مرے جُنوں کی حقیقت بھی سر بسر جھوٹی
ترے جمال کی رعنائیاں بھی جھوٹی ہیں

کُھلی جوآنکھ تو دیکھا کہ شہرِفُرقت میں
تری مہک تری پرچھائیاں بھی جھوٹی ہیں

فریب کار ہیں اِظہار کے سب وسیلے بھی
خیال و فکر کی گہرائیاں بھی جھوٹی ہیں

تمام لفظ و معانی بھی جھوٹ ہیں ساجد
ہمارے عہد کی سچائیاں بھی جھوٹی ہیں


اعتبار ساجد
 

نوید ملک

محفلین
یہ دل کی بات کسی کو نہیں بتانے کی
ازل سے ریت ہے جگ سے اسے چھپانے کی

بہت ہی سہل ہے وعدہ وفا کا کر لینا
ذرہ سی ڈال لو عادت اسے نبھانے کی

سمیٹ سکتے ہو تم جیت اپنی مٹھی میں
ہمیں تو پہلے ہی عادت ہے ہار جانے کی

عجیب لوگ ہیں خو اپنی چھوڑتے ہی نہیں
بسا بسا کے سدا بستیاں مٹانے کی

کچھ ایسی ٹھان لی دل نے کہ ڈوبنا ہی پڑا
بھپرتی موجوں سے لڑنے کی، پار جانے کی

ہمیں خبر تھی کسی روز چھوڑ جاؤ گے
نہیں ہے تم کو ضرورت کسی بہانے کی

(فاخرہ بتول)
 

عمر سیف

محفلین
سرِ صحرا مسافر کو ستارہ یاد رہتا ہے
میں چلتا ہوں مجھے چہرا تمہارا یاد رہتا ہے

تمہارا ظرف ہے تم کو محبت بھول جاتی ہے
ہمیں تو جس نے ہنس کر بھی پکارا یاد رہتا ہے

محبت اورنفرت ، تلخی اور شیرینی
کس نے کس طرح کا پھول مارا یاد رہتا ہے

محبت میں جو ڈوبا ہو اسے ساحل سے کیا لینا
کسے اس بہر میں جا کر کنارہ یاد رہتا ہے

بہت لہروں کو پکڑا ڈوبنے والے ک ہاتھوں نے
یہی بس ایک دریا کا نظارا یاد رہتا ہے

صدائیں ایک سی یکسانیت میں ڈوب جاتی ہیں
ذرا سا مختلف جس نے پکارا یاد رہتا ہے

عدیم ہاشمی
 

نوید ملک

محفلین
جودسترس سے دور ہوں، وہ خواب لیکے کیا کروں
ثواب کی تلاش تھی، عذاب لیکے کیا کروں

سطر سطر میں ہے شکن ، ورق ورق پھٹا ہوا
شکستہ زندگی کی یہ کتاب لیکے کیا کروں

نوید ایک سفر میں تھا، سفر میں میں ہوں آج بھی
کہ منزلوں کی جُستجو، سراب لیکے کیا کروں
 

عمر سیف

محفلین
سنو!
پتھر نہیں ہونا۔۔۔

ہوا کی جو بھی مرضی ہو
مقدر جو بھی کچھ چاہے
زمیں پر چار سو رنج و الم کی بارشیں برسیں
تمہارے لب پہ بکھرے سارے نغمے نوحے بن جائیں
سفر کی دھول بن جائیں

کوئی تارا نہ جگنو ہو
اندھیرا ہی اندھیرا ہو

سبھی سپنے بکھر جائیں
سبھی لہجے بدل جائیں

میری یادوں سے اک پل بھی
کبھی غافل نہیں ہونا

سنو! پتھر نہیں ہونا
سنو! پتھر نہیں ہونا۔۔۔
 

نوید ملک

محفلین
اُس نے کہا تم کون ہو
میں نے کہا حسرت تیری

اس نے کہا تکتا ہے کیا
میں نے کہا صورت تیری

اس نے کہا چاہتا ہے کیا
میں کہا محبت تیری

اس نے کہا پچھتائے گا
میں نے کہا قسمت میری
 

عمر سیف

محفلین
ہم پہ جب ادراک کے سر بستہ دَر کُھلتے گئے
اپنی ہستی سبھی عیب و ہنر کُھلتے گئے

درد اُٹھا، آس ٹوٹی، سانس اُکھڑی اور پھر
زندگی کے لمحئہ معتبر کُھلتے گئے

بے وفا بھی، کج ادا بھی، اور تھوڑا بےوفا
مجھہ پہ اُس کی عاشقی کے سب ہنر کُھلتے گئے

حالِ دل پوچھا تھا اُس نے اک کہانی کی طرح
ہم کہ اُس کی چال سے تھے بے خبر کُھلتے گئے

لفظ وہ تیرے نہیں تھے تھا ہمیں اتنا یقیں
اک ذرا کوشش سے تیری نامہ بر کُھلتے گئے

تیرے آنے کی خبر ہو یا ہو دھڑکا ہجر کا
دل کے درد سارے ہی تیرے نام پر کُھلتے گئے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top