عمر سیف
محفلین
ان دنوں شہر بھر کے رستوں میں
تھم گئی ہے بلا کی ویرانی
عکس در عکس ڈستی رہتی ہے
بے صدا آئینوں کو حیرانی
سارے چہروں کے رنگ پھیکے ہیں
ساری آنکھیں اُجاڑ لگتی ہیں
سارے دن آہٹوں کی گنتی میں
ساری راتیں پہاڑ لگتی ہیں
بُجھتی جاتی ہیں یاد کی شمعیں
اپنی پلکوں سے آنسوؤں کے نگین
ٹُوٹتے ہیں تو دل نہیں چُنتا
جیسے شاخوں سے زرد رو پتّے
ٹُوٹتے ہیں، کوئی نہیں چُنتا
تُو کہاں ہے، کہاں نہیں ہے تُو
ہم سے کیا پوچھنا مزاجِ حیات
ہپم تو بس اک دریدہ دامن میں
بھر کے خاکسترِ دیارِ وفا
لے کے صدیوں کی باس پھرتے ہیں
اِن دنوں شہر بھر کے رستوں میں
ہم اکیلے اُداس پھرتے ہیں
اب یہ سوچیں تو آنکھ بھر آئے
اِن اکیلے اُجاڑ رستوں میں
تو بھی شاید کہیں نظر آئے
تھم گئی ہے بلا کی ویرانی
عکس در عکس ڈستی رہتی ہے
بے صدا آئینوں کو حیرانی
سارے چہروں کے رنگ پھیکے ہیں
ساری آنکھیں اُجاڑ لگتی ہیں
سارے دن آہٹوں کی گنتی میں
ساری راتیں پہاڑ لگتی ہیں
بُجھتی جاتی ہیں یاد کی شمعیں
اپنی پلکوں سے آنسوؤں کے نگین
ٹُوٹتے ہیں تو دل نہیں چُنتا
جیسے شاخوں سے زرد رو پتّے
ٹُوٹتے ہیں، کوئی نہیں چُنتا
تُو کہاں ہے، کہاں نہیں ہے تُو
ہم سے کیا پوچھنا مزاجِ حیات
ہپم تو بس اک دریدہ دامن میں
بھر کے خاکسترِ دیارِ وفا
لے کے صدیوں کی باس پھرتے ہیں
اِن دنوں شہر بھر کے رستوں میں
ہم اکیلے اُداس پھرتے ہیں
اب یہ سوچیں تو آنکھ بھر آئے
اِن اکیلے اُجاڑ رستوں میں
تو بھی شاید کہیں نظر آئے