"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

عمر سیف

محفلین
ان دنوں شہر بھر کے رستوں میں
تھم گئی ہے بلا کی ویرانی
عکس در عکس ڈستی رہتی ہے
بے صدا آئینوں کو حیرانی
سارے چہروں کے رنگ پھیکے ہیں
ساری آنکھیں اُجاڑ لگتی ہیں
سارے دن آہٹوں کی گنتی میں
ساری راتیں پہاڑ لگتی ہیں
بُجھتی جاتی ہیں یاد کی شمعیں
اپنی پلکوں سے آنسوؤں کے نگین
ٹُوٹتے ہیں تو دل نہیں چُنتا
جیسے شاخوں سے زرد رو پتّے
ٹُوٹتے ہیں، کوئی نہیں چُنتا
تُو کہاں ہے، کہاں نہیں ہے تُو
ہم سے کیا پوچھنا مزاجِ حیات
ہپم تو بس اک دریدہ دامن میں
بھر کے خاکسترِ دیارِ وفا
لے کے صدیوں کی باس پھرتے ہیں
اِن دنوں شہر بھر کے رستوں میں
ہم اکیلے اُداس پھرتے ہیں
اب یہ سوچیں تو آنکھ بھر آئے
اِن اکیلے اُجاڑ رستوں میں
تو بھی شاید کہیں نظر آئے
 

عیشل

محفلین
رُخ پہ تازہ گلاب رکھ دینا
جلتی آنکھوں میں خواب رکھ دینا
ہم مسافر ہیں اک صحرا کے
راستے میں سراب رکھ دینا
 

عمر سیف

محفلین
پلٹ کر آئیں زمانے وہی محبت کے
کہ رنگ جلنے لگیں اور صبا ٹھہر جائے
کسی کا ساتھ ملے اس طرح امجد
کہ وقت چلتا رہے اور راستہ ٹھہر جائے
 

wahab49

محفلین
صورت جنکی بھولی بھالی دل تاریک سمندر
ایسے یار کے پیار سے محسن صحراؤں کے ناگ بھلے​
 

عمر سیف

محفلین
افق کو افق سے ملا دینے والے
یہ رستے ہیں کتنے تھکا دینے والے

یہ دن ہیں نئے اپنی خاصیتوں میں
کئی نام دل سے بھلا دینے والے

بتا دینا عمریں اسے کھوجنے میں
جو مل جائے اس کو گنوا دینے والے

پھر اپنے کئے پر پشیمان رہنا
یہ ہم ہی ہیں خود کو سزا دینے والے

منیر اس زمانے میں رہبر بہت ہیں
حقیقت کو الجھن بنا دینے والے

منیر نیازی
 

عیشل

محفلین
میں ریزہ ریزہ ہوں اپنے وجود کے اندر
وہ حرف حرف چنے گا کتاب کر دے گا
مجھے یقین ہے اک روز میرا ہمسفر
اداس روح کو گلاب کر دے گا
 

عمر سیف

محفلین
چوک سے چل کر، منڈی سے ہو کر
لال گلی سے گزری ہے کاغذ کی کشتی
بارش کے لاوارث پانی پر بیٹھی بیچاری کشتی
شہر کی آوارہ گلیوں میں سہمی سہمی گھوم رہی ہے
پوچھ رہی ہے
ہر کشتی کا ساحل ہوتا ہے کیا میرا بھی کوئی ساحل ہوگا
بھولے بھالے اک بچے نے
بےمعنی کو معنی دے کر
ردی کے کاغذ پر کیسا ظلم کیا
 

عیشل

محفلین
میں خود زمیں ہوں مگر ظرف آسماں کا ہے
کہ ٹوٹ کر بھی میرا حوصلہ چٹان کا ہے
خیر یہ قفس تو مقّدر میں تھا مگر محسن
ہوا میں شور ابھی تک میری اڑان کا ہے
 

حجاب

محفلین
اب کے برس بھی نینوں میں رتجگے بسے رہے
اب کے برس بھی اندھیروں میں سحر ڈھونڈتے رہے
اب کے برس بھی فضا تعصب سے پُر تھی
اب کے برس بھی خنجر آستینوں میں چھپے رہے
اب کے برس بھی بھروسہ ہم دوستوں پر کرتے رہے
اب کے برس بھی ترے آنے کی ہم کو آس تھی
اب کے برس بھی انتظار میں جلتے رہے
اب کے برس بھی سندیسے ہوا لاتی رہی
اب کے برس بھی نرگس کے پھول کمرہ بھرتے رہے۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عیشل

محفلین
یہ کیا کہ روز ایک سا غم ایک سی امید
اس رنج بے خمار کی انتہا بھی ہو
یہ کیا کہ ایک ہی طور سے گذرے تمام عمر
جی چاہتا ہے کہ اب کوئی تیرے سوا بھی ہو
 

شائستہ

محفلین
شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌یاد رکھنا
میں‌ آخری جنگ لڑ رہا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌ یاد رکھنا

ہوائیں پیغام دے گئی ہیں‌کہ مجھے دریا بلا رہا ہے
میں‌ بات ساری سمجھ گیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

نہ جانے کوفے کی کیا خبر ہو نہ جانے کس دشت میں بسر ہو
میں پھر مدینے سے جارہا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌ یاد رکھنا

مجھے عزیزان من! محبت کا کوئی بھی تجربہ نہیں ہے
میں اس سفر میں‌ نیا نیا ہوں ، مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

مجھے کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے تابش
میں عادتا سب سے کہہ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

عباس تابش
 

شائستہ

محفلین
اے دوست دعا اور مسافت کو بہم رکھ
یہ میری ہتھیلی ہے یہاں پہلا قدم رکھ

ایسے تو زمانہ مجھے جینے نہیں دے گا
میں کچھ بھی نہیں تیرا مگر میرا بھرم رکھ

اس بات پہ دنیا سے مری بنتی نہیں ہے
کہتی ہے کہ تلوار اٹھا اور قلم رکھ

میں جب بھی کہیں راہ میں گرنے لگا تابش
آواز سی آئی مرے قدمون پہ قدم رکھ
عباس تابش
 

حجاب

محفلین
میں نے کہا میرے لئے کچھ دعا کرو
اُس نے کہا دعا پہ نہ تکیہ کیا کرو
میں نے کہا ذہن پہ رہتا ہے بوجھ سا
اُس نے کہا چھپ کے کہیں رو لیا کرو
میں نے کہا کام و دہن بے مزہ سے ہیں
اُس نے کہا حافظ و غالب پڑھا کرو
میں نے کہا دوست نبھائیں گے میرا ساتھ
اُس نے کہا وقت پہ یہ تجربہ کرو
میں نے کہا ڈوبتی جاتی ہے وقتِ نبض
اُس نے کہا کوئی غزل ابتداء کرو
میں نے کہا اصل کی مجھ کو تلاش ہے
اُس نے کہا کہ اپنا تعاقب کیا کرو
میں نے کہا کہ شہر میں تشہیر ہوگئی
اُس نے کہا کہ اپنی حدوں میں رہا کرو
میں نے کہا بہشت حقیقت ہے یا مجاز
اُس نے کہا غور نہ اتنا کیا کرو
میں نے کہا خدمتِ احباب کا صلہ
اُس نے کہا جو کام کرو بے ریا کرو
میں نے کہا وسیلہء کسب نشاطِ فکر
اُس نے کہا ضیافت موجِ صبا کرو
میں نے کہا شعارِ زمانہ ہے سخت گیر
اُس نے کہا شعور سے ردِ بلا کرو
میں نے کہا کہ بڑھنے لگی تیرگی بہت
اُس نے کہا سیم تنوں میں رہا کرو
میں نے کہا حصول نکو کاریء جہاں
اُس نے کہا صحبتِ بد سے بچا کرو۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
اے جھلستے ہوئے جسموں کے خُدا
جلتی دوپہر پہ بادل کر دے
خوشبو آئی ہے تو لوٹے نہ کبھی
اب ہوا کو بھی شل کر دے
 

نوید ملک

محفلین
شائستہ نے کہا:
شکستہ خواب و شکستہ پا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌یاد رکھنا
میں‌ آخری جنگ لڑ رہا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌ یاد رکھنا

ہوائیں پیغام دے گئی ہیں‌کہ مجھے دریا بلا رہا ہے
میں‌ بات ساری سمجھ گیا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

نہ جانے کوفے کی کیا خبر ہو نہ جانے کس دشت میں بسر ہو
میں پھر مدینے سے جارہا ہوں ، مجھے دعاؤں میں‌ یاد رکھنا

مجھے عزیزان من! محبت کا کوئی بھی تجربہ نہیں ہے
میں اس سفر میں‌ نیا نیا ہوں ، مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

مجھے کسی سے بھلائی کی اب کوئی توقع نہیں ہے تابش
میں عادتا سب سے کہہ رہا ہوں مجھے دعاؤں میں یاد رکھنا

عباس تابش

دعاؤں میں تو یاد رکھے ہوئے ہیں ۔ پر شکر ہے آپکی واپسی ہوئی :)
 

نوید ملک

محفلین
تیرے بارے میں جب سوچا نہیں تھا
میں تنہا تھا مگر اتنا نہیں تھا

تیری تصویر سے کرتا تھا باتیں
میرے کمرے میں آئینہ نہیں تھا

سمندر نے مجھے پیاسا ہی رکھا
میں جب صحرا میں تھا پیاسا نہیں تھا

منانے ، روٹھنے کے کھیل میں ہم
بچھڑ جائیں گے یہ سوچا نہیں تھا

سنا ہے بند کر لیں اس نے آنکھیں
کئی راتوں سے وہ سویا نہیں تھا
 

عمر سیف

محفلین
سمندر کا تماشا کر رہا ہوں
میں ساحل ہو کے پیاسا مر رہا ہوں

اگرچہ دل میں صحرا کی تپش ہے
مگر میں ڈُوبنے سے ڈر رہا ہوں

میں اپنے گھر کی ہر شے کو جلا کر
شبستانوں کو روشن کر رہا ہوں

قفس میں مجھ پہ جو بیتی سو بیتی
چمن میں بھی شکستہ پر رہا ہوں

اُٹھے گا حشر کیا محشر میں مجھ پر
میں خود ہنگامہِ محشر رہا ہوں

کسا ہے جھوٹ کا پھندا گلے میں
میں سچائی کی خاطر مر رہا ہوں

وہی پتھر لگا ہے میرے سر پر
میں جس پتھر کو سجدے کر رہا ہوں

مری گردش میں ہر سازِ الم ہے
جہانِ درد کا محور رہا ہوں

بنائی جو مرے دستِ ہنر نے
اُسی تصویر سے اب ڈر رہا ہوں

تراشے شہر میں نے بخش کیا کیا
مگر میں خود سدا بے گھر رہا ہوں

بخش لائلپوری
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top