"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

تیشہ

محفلین
گم اپنی محبت میں دونوں نایاب ہو تم،نایاب ہیں ہم
کیا ہمکو کھلی آنکھیں دیکھیں اک خواب ہو تم،اک خواب ہیں ہم ،

آنکھیں جو ہیں اپنے چہرے پر اک ساون ہے اک بھادوں ہے
اے غم کی ندی تو فکر نہ کر اسوقت بڑے سیراب ہیں ہم ،

اس وقت تلاطم خیز ہیں ہم گردش میں تمھیں بھی لے لیں گے
اس وقت نہ تیر اے کشتی ِدل اس وقت تو خود گرداب ہیں ہم ،

اک ہنس پرانی یادوں کا بیٹھا ہوا کنکر چنتاُ ہے
تپتی ہوئی ہجر کی گھڑیوں میں سوکھا ہوا اک تالاب ہیں ہم ،

اے چشم ِفلک اے چشم ِزمیں ہم لوگ تو پھر آنے کو نہیں
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم ،

کیا اپنی حقیقت کی ہستی مٹی کا ایک حباب ہیں ہم
دو چار گھڑی کا سپنا ہیں دو چار گھڑی کا خواب ہیں ہم ۔
 

شائستہ

محفلین
باہر کا دھن اتا جاتا اصل خزانہ گھر میں ہے
ہر دھوپ میں جو مجھے سایا دے وہ سچا سایا گھر میں ہے

پاتال کے دکھ وہ کیا جانے جو سطح پر ہیں ملنے والے
ہیں ایک حوالہ دوست میرے ، اور ایک حوالہ گھر میں ہے

میری عمر کے اک اک لمحے کو میں نے قید کیا ہے لفظوں میں
جو ہارا ہوں یا جیتا ہوں وہ سب سرمایہ گھر میں ہے

تو ننھا منھا ایک دیا ، میں ایک سمندر اندھیرا
تو جلتے جلتے بجھنے لگا ، اور پھر بھی اندھیرا گھر میں ہے

کیا سوانگ بھرے روٹی کے لیے عزت کے
چلو شام ہوی گھر کو چلوکوکوٰی شخص اکیلا گھر میں ہے

اک ہجر زدہ بابل پیاری ، تیرے جاگتے بچوں سے ہاری
اے شاعر کس دنیا میں ہے تو تیری تنہا دنیا گھر میں ہے

دنیا میں کھپائے سال کئ ، اخر میں کھلا احوال یہی
وہ باہر کا ہو یا گھر کا ہو ، ہر دکھ کا مداوا گھر میں ہے
 

عمر سیف

محفلین
سبھی کچھ تیرا دیا ہوا، سبھی راحتیں، سبھی الفتیں
کبھی محبتیں، کبھی فرقیتیں، کبھی دوریاں، کبھی قُربتیں

یہ سُخن جو ہم نے رقم کیے، یہ ہیں سب ورق تیری یاد کے
کوئی لمحہ صبحَ وصال کا، کئی شام ہجر کی مُدتیں

جو تمھاری مان لیں ناصحا، تو رہے گا دامنِ دل میں کیا
نہ کسی عدو کی عداوتیں، نہ کسی صنم کی سروتیں

چلو آؤ تم کو دیکھائیں ہم، جو بچا ہے مقتلِ شہر میں
یہ مزار اہلِ صفا کے ہیں، یہ ہیں اہلِ صدق کی تربتیں

مری جان آج کا غم نہ کر، نہ جانے کاتبِ وقت نے
کسی اپنے کل میں بھی بھول کر کہیں لکھ رکھی ہوں مسرتیں

فیض احمد فیض
 

ماوراء

محفلین


چراغ شب کو جیسے آندھیاں اچھی نہیں لگتیں
کچھ ایسے ہی ہمیں خوش فہمیاں اچھی نہیں لگتیں

جنہیں سونے کے پنجرے میں غذا مل جائے چاندی کی
انہیں عمر بھر آزادیاں اچھی نہیں لگتیں

بلندی پر کبھی پہنچائے گا میرا ہنر مجھ کو
مجھے قدموں کے نیچے سیڑھیاں اچھی نہیں لگتیں

وہ جن کے دل میں فصل غم نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں
انہیں پھولوں پہ بیٹھی تتلیاں اچھی نہیں لگتیں

وہ حسن و دلکشی کو جانتے پہچانتے کب ہیں
کہ جن کو کھلکھلاتی لڑکیاں اچھی نہیں لگتیں

مرا جی چاہتا ہے ان کو میں آئینہ دکھلاؤں
وہ جن کو دوسروں کی خوبیاں اچھی نہیں لگتیں

مجھے کانٹوں بھرے رستوں پہ یہ چلنے کو کہتا ہے
دل برباد کو مجبوریاں اچھی نہیں لگتیں۔​
 

عمر سیف

محفلین
خود کو پانے کی طلب میں آرزو اس کی بھی تھی
میں جو مل جاتا تو اس میں آبرو اس کی بھی تھی

زندگی اک دوسرے کو ڈھونڈنے میں کٹ گئی
جستجو میری بھی دشمن تھی، عدو اس کی بھی تھی

میری باتوں میں بھی تلخی تھی سمِ تنہائی کی
زہر شہنائی میں ڈوبی گفتگو اس کی بھی تھی

رات بھر آنکھوں میں اس کا مرمریں پیکر رہا
چاندنی کے جھلملانے میں نمو اس کی بھی تھی

گھر سے اس کا بھی نکلنا ہو گیا آخر محال
میری رسوائی سے شہرت کو بہ کو اس کی بھی تھی

کچھ مجھے بھی سیدھے سادھے رستوں سے بیر ہے
کچھ بھٹک جانے کے باعث جستجو اس کی بھی تھی

وہ جسے سارے زمانے نے کہا میرا رقیب
میں نے اس کو ہمسفر جانا، کہ تو اس کی بھی تھی

ظہور نظر
 

حجاب

محفلین
اُس کو پہلی بار خط لکھا تو دل دھڑکا بہت
کیا جواب آئے گا، کیسے آئے گا ڈر تھا بہت

جان دے دیں گے اگر دنیا نے راستہ روکا
اور کوئی حل نہ نکلا ، ہم نے گو سوچا بہت

اب سمجھ لیتے ہیں میٹھے لفظ کی کڑواہٹیں
ہوگیا ہے زندگی کا تجربہ تھوڑا بہت

سوچ لو پہلے، ہمارے ہاتھ میں پھر ہاتھ دو
عشق والوں کے لئے ہیں آگ کے دریا بہت

وہ تھی آنگن میں پڑوسی کے، میں گھر کی چھت پہ تھا
دوریوں نے آج بھی دونوں کا تڑپایا بہت۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اس سے پہلے تو کبھی احساس ہوتا ہی نہ تھا
تجھ سے مل کر سوچتے ہیں، رو لیئے تنہا بہت۔(منظر بھوپالی)
 

عمر سیف

محفلین
اندھیری شب دیا سا جل رہا ہے
تیرا سایہ بھی ہمراہ چل رہا ہے

سلگتی پہر کا دکھ شام بن کر
میری آنکھوں کے رستے ڈھل رہا ہے

میرے اندر خاموشی گونجتی ہے !
بدن میرا کبھی جنگل رہا ہے

وہ جب بھی ٹوٹ کر برسا ہے مجھ پر
ترستی روح میں جل تھل رہا ہے

برف سے ہاتھ نے چھوا تھا مجھ کو
بدن اب تک وہیں سے جل رہا ہے

اداسی آنسوؤں میں بہہ نہ جائے
جدائی کا زمانہ چل رہا ہے

کیا میں نے ارادہ جب سفر کا
میرے سر پر گھنا بادل رہا ہے

میرے خوابوں کی بنجر کوکھ سونی
یہ دکھ اندر ہی اندر پل رہا ہے

مریم عرفان
 

عیشل

محفلین
کچھ اس طرح سے وفا کی مثال دیتا ہوں
سوال کرتا ہے کوئی تو ٹال دیتا ہوں
اسی سے کھاتا ہوں اکثر فریب منزل کا
میں جس کے پاؤں کا کانٹا نکال دیتا ہوں
 

عمر سیف

محفلین
دیکھ کر اس کو فسردہ میری تنہائی پر
شہر کا شہر ہی مائل ہے پذیرائی پر

تھا وہ منتظر ہی کچھ ایسا کہ پڑی رہیں جس سے
یہ خراشیں مرے آئینہِ بینائی پر

میرے الفاظ کا نامفہوم سمجھنے والا
مجھ کو حیرت ہے تیری حاشیہ آرائی پر

وقت نے شمعِ سرِراہ بنایا ہے اسے
تھا جو مامور ہواؤں کی پذیرائی پر

جیسے دُنیا میں کوئی دوسرا چہرہ ہی نہ ہو
یوں نظر جا کے رکی ہے کسی ہرجائی پر

جس کو معلوم نہیں عشق کسے کہتے ہیں
کیسا حیران ہے خاور میرے رسوائی پر

رحمن خاور
 

ماوراء

محفلین
سمجھ نہ پائے ہیں زندگی کو ہزار راتوں کی داستاں میں
کہیں پہ گاڑیں صلیبیں اس نے، کہیں صلیبوں پہ چل رہی ہے۔​
 

عمر سیف

محفلین
سانس لیتا بھی سزا لگتا ہے
اب تو مرنا بھی روا لگتا ہے

موسمِ گل میں سرِ شاخ گلاب
شعلہ بھڑکے تو بجا لگتا ہے

مسکراتا ہے جو اس عالم میں
بخدا، مجھ کو خدا لگتا ہے

اتنا مانوس ہوں سناٹے سے
کوئی بولے تو برا لگتا ہے

ان سے مل کر بھی نہ کافور ہوا
درد یہ سب سے جُدا لگتا ہے

نطق کا ساتھ نہیں دیتا ذہن
شکر کرتا ہوں، گلہ لگتا ہے

اس قدر تند ہے رفتارِ حیات
وقت بھی رشتہ بپا لگتا ہے

احمد ندیم قاسمی
 

عمر سیف

محفلین
سنو پانی میں یہ کس کی صدا ہے
کوئی دریا کی تہہ میں رو رہا ہے

اندھیری رات کا تنہا مسافر
مری پلکوں میں‌اب سویا ہوا ہے

سمیٹو اور سینے میں چھپا لو
یہ سناٹا بہت پھیلا ہوا ہے

مجھے ان نیلی آنکھوں‌ نے بتایا
تمہارا نام پانی پر لکھا ہے

بشیر بدر
 

عمر سیف

محفلین
اس نے میرا نام شوریدہ سروں میں لکھ دیا
اور خود کو امن کے پیغمبروں میں لکھ دیا

جب ملا تبدیلئ تاریخ کا موقع اُسے
نام خود اپنا سنہرے اکشروں میں لکھ دیا (اکشر= حرف)

شاہی محلوں سے مٹا کر مجھ کو بےحس وقت نے
جا بہ جا سہمے شکستہ مقبروں میں لکھ دیا

جب کتابوں کے لگے انبار تو میں نے بھی پھر
ایک سا مضمون سارے تبصروں میں لکھ دیا

میں نے اُس کو ناقدِ اعظم کہا کچھ سوچ کر
اُس نے مجھ کو عصر کے دیدہ وروں میں لکھ دیا

میں نے یوں ہی نام آزر رکھ لیا تھا بے سبب
اُس نے بھی میرا مقدر پتھروں میں لکھ دیا
ڈاکٹر فریاد آزر
 

عمر سیف

محفلین
وہ جو آ جاتے ہیں آنکھوں میں ستارے لے کر
جانے کس دیس گئے خواب ہمارے لے کر

چھاؤں میں بیٹھنے والے ہی تو سب سے پہلے
پیڑ گِرتا ہے تو آجاتے ہیں آرے لے کر

وہ جو آسودہِ ساحل ہیں انہیں کیا معلوم
اب کے موج آئی تو پلٹے گی کنارے لے کر

ایسا لگتا ہے کہ ہر موسمِ ہجراں میں بہار
ہونت رکھ دیتی ہے شاخوں پہ تمھارے لے کر

شہر والوں کو کہاں یاد ہے وہ خواب فروش
پھرتا رہتا ہے جو گلیوں میں غبارے لے کر

نقدِ جاں صرف ہوا کلفتِ ہستی میں فراز
اب جو زندہ ہیں تو کچھ سانس ادھارے لے کر

احمد فراز
 

ماوراء

محفلین

ہم سے گو دُور دُور رہتے ہیں
دل میں لیکن ضرور رہتے ہیں

لوگ اتنے قصور کر کے بھی
کس طرح بے قصور رہتے ہیں۔​
 

ماوراء

محفلین
گزر گئے جو خوشبوئے رائیگاں کی طرح
وہ چند روز میری زندگی کا حاصل تھے

اب ان سے دور کا بھی واسطہ نہیں ناصر
وہ ہم نوا جو میرے رتجگوں میں شامل تھے۔​
 

عمر سیف

محفلین
وہ ایک سوچا ہوا ناز سا تکلم میں
نظر میں ایک جھجک سی کوئی بنائی ہوئی

لبوں پہ ایک تبسم ذرا لجایا ہوا
جبیں پہ بزم مروت سجی سجائی ہوئی

ڈھکا ڈھکا سا تکبر وہ بات سننے میں
تھی جس میں حسن کی نازش کہیں چھپائی ہوئی

بدن میں خوف کی لرزش بھی، اور دعوت بھی
گریز کرتی ہوئی اور قریب آئی ہوئی

کچھ اس کو دیکھ کے کھلتا نہ تھا کہ کیا ہے وہ
فریب دیتی ہوئی یا فریب کھائی ہوئی

امجد اسلام امجد
 

عمر سیف

محفلین
مزاجِ دل نہ ملا، دوست کی رضا نہ ملی
پتے کی بات کابھی حسبِ مدعا نہ ملی

ہر اِک نگاہ سے اک داستاں ہوئی تخلیق
کہ جو نگاہ ملی، خالقِ فسانہ ملی

مرے فسانے کے آغاز پہ نہ کر تنقید
کہ اس فسانے کو تقریبِ ابتداء نہ ملی

ترے خزانہِ رحمت کا ظرف اتنا تھا
کہ زندگی کو کوئی جراتِ خطا نہ ملی

دماغِ شکوہ تھا لیکن عدم وہ چشمِ حسیں
بڑے فریب سے ہنس ہنس کے دوستانہ ملی

عبدالحمید عدم
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top