"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

شمشاد

لائبریرین
خوبیاں اتنی تو نہیں ہم میں
کہ کسی کے دل میں گھر کر جائیں گے
پر بھلانا بھی آساں نہیں ہو گا
ایسا کچھ کر جائیں گے​
 

عمر سیف

محفلین
جب تلک اک تشنگی باقی رہے گی
تیرے اندر دلکشی باقی رہے گی

ہو کوئی برباد اسے سے تجھے کیا
تیرے رخ پہ تازگی باقی رہے گی

تیری خاطر چھوڑ دوں گا میں تجھے
غم کے اندر اک خوشی باقی رہے گی

جھیل آنکھوں میں ہے دیکھا آفتاب
میرے اندر چاندنی باقی رہے گی

مہربانی آپ کی ہے نظرِ کرم
ہر طرف یہ روشنی باقی رہے گی

جو مل بھی جائے یہ دنیا اور تو
پھر بھی شائد اک کمی باقی رہے گی​
 

ماوراء

محفلین
بوچھی نے کہا:
ماوراء نے کہا:
بوچھی نے کہا:
ماوراء نے کہا:
نہیں فرصت یقیں مانو ہمیں کُچھ اور کرنے کی
تیری باتیں تیری یادیں بہت مصروف رکھتی ہیں​



:roll: :lol: مریم بچاری اپنے مجازی خدا کے لئے یہ شعر بی ایس بی پر لکھکر گئی ہے :lol: :lol: اور تم اسے اٹھا کر یہاں لے آئی :p
میں مریم کو فون کرتی ہوں تمھارا شعر چوری ہوا :lol:
ہاہاہاہاہاہا۔ مریم کا مجازی خدا کہاں سے آ گیا؟ اس کی شادی تو ابھی نہیں ہوئی نا۔
اف اور اس کو نہ بتانا۔ :p :lol:


اسکا ہے نا مجازی خدا کے اب کے گئی تھی پاکستان تو نکاخ کرکے واپس پلٹی ہے ۔
یہ شعر :lol: اسکے مجازی نے ہی اسکو ایم ایس ایم کیا تھا آج بتا رہی تھی ۔
میں نے بتایا ماورہ وہاں سے اٹھا کر ادھر لے آئی ہے :lol: :lol: :p
اچھا۔ مجھ سے کوئی پوچھ بھی رہا تھا کہ مریم کی شادی ہو گئی، مجھے معلوم ہی نہیں تھا۔ اچھا تو وہ نکاح کرنے گئی ہوئی تھی۔ :p
اور اس کو میرا پیغام دینا کہ اس کا مجازی خدا جو اشعار بھیجتا ہے وہ نیٹ پر نہ لکھا کرے۔(صرف اپنے تک رکھا کرے۔ :p ) وہ بھی تو اس کے اشعار اٹھا کر بی ایس بی پر لکھ جاتی ہے نا۔ :D
 

عمر سیف

محفلین
[align=right:8ce1ba6be2]ابھی کیا کہیں، ابھی کیا سنیں
کہ سرِ فصیلِ سکوتِ جاں
کفِ روز و شب پہ شرار نُما
وہ جو حرف حرف چراغ تھا
اسے کِس ہوا نے بُجھا دیا
ٔ
کبھی لب ہِلیں گے تو پوچھنا

سرِ شھرِ عہدِ وصالِ دل
وہ جو نکہتوں کا ہجوم تھا
اسے دستِ موجِ فراق نے
تہہِ خاک کب سے مِلا دیا

کبھی گُل کھلیں گے تو پوچھنا

ابھی کیا کہیں، ابھی کیا سُنیں
یُوں ہی خواہشوں کے فِشار میں
کبھی بے سبب، کبھی بے خلل
کہاں، کون، کِس سے بچھڑ گیا
کسے، کس نے، کیسے گنوا دیا

کبھی پھر ملیں گے تو پوچھنا ۔۔۔[/align:8ce1ba6be2]
 

شمشاد

لائبریرین
آہ چاندنی بھی میری طرح جاگ رہی ہے
پلکوں پہ ستاروں کو لیئے رات کھڑی ہے

وہ ماتھے کا مطلع ہو کہ ہونٹوں کے دو مصرعے
بچپن کی غزل ہی میری محبوب رہی ہے

غزلوں نے وہیں زلفوں کے پھیلا دیئے سائے
جن راہوں پہ دیکھا ہے بہت دھوپ کڑی ہے

ہم دلی بھی ہو آئے ہیں لاہور بھی گھومے
اے یار مگر تیری گلی تیری گلی ہے
(بشیر بدر)
 

عمر سیف

محفلین
شکریہ شمشاد

رات بھر ایک چاپ سی پھرتی رہی چاروں طرف
جان لیوا خوف تھا لیکن ہوا کچھ بھی نہیں
 

عمر سیف

محفلین
شکریہ شمشاد۔

[align=right:140f55b6d9]رات کے دوسرے کنارے پر
جانے کیا بات ہے کہ شام ڈھلے
خوف نادیدہ کہ اشارے پر
جھلملاتے ہوئے چراغ کی لَو
مجھ سے کہتی ہے " افتخار عارف! "
رات کے دوسرے کنارے پر
" ایک رات اور انتظار میں ہے "
کوئی چپکے سے دل میں کہتا ہے
رات پہ بس اس چلے نہ چلے
خواب تو اپنے اختیار میں ہے
[/align:140f55b6d9]
 

شمشاد

لائبریرین
ماچس

میری دنیا ہے کاغذ کی
کسی دن آگ نہ لگ جائے
خود میرے ہی ہاتھوں سے
کہ ہاتھوں میں میرے
ماچس کی ڈبیہ رکھی رہتی ہے
اگرچہ میں بہت محتاط ہوں
ماچس کے جلانے میں
بجھانے میں
مگر بارود تو بارود ہے
کب معاف کرتا ہے
نہ دل کو صاف کرتا ہے
(بشریٰ رحمٰن)
 

شمشاد

لائبریرین
ٹکرا ہی گئی میری نظر ان کی نظر سے
دھونا ہی پڑا ہاتھ مجھے قلب و جگر سے

اظہارِ محبت نہ کیا بس اسی ڈر سے
ایسا نہ ہو گِر جاؤں کہیں ان کی نظر سے

اے ذوقِ طلب جوشِ جنوں یہ تو بتا دے
جانا ہے کہاں اور ہم آئے ہیں کدھر سے

فیاض اب آیا ہے جنوں جوش پہ اپنا
ہنستا ہے زمانہ میں گزرتا ہوں جدھر سے
(فیاض ہاشمی)
 

سارہ خان

محفلین
اُجڑے ہُوے لوگوں سے گریزاں نہ ہُوا کر
حالات کی قبروں کے یہ کتبے بھی پڑھا کر

ہر وقت کا ہنسنا تجھے برباد نہ کردے
تنہائی کے لمحوں میں کبھی رو بھی لیا کر

اے دل تجھے دشمن کی بھی پہچان کہاں ہے
تو حلقہء یاراں میں بھی محتاط رہا کر

کیا جانئے کیوں تیز ہوا سوچ میں گم ہے
خوابیدہ پرندوں کو درختوں سے اڑا کر

اس شخص کے تم سے بھی مراسم ہیں تو ہونگے
وہ جھوٹ نہ بولے گا مرے سامنے آکر

پہلا سا کہاں اب مری رفتار کا عالم
اے گردش دوراں ذرا تھم تھم کے چلا کر

اک روح کی فریاد نے چونکا دیا مجھکو
تو اب تو مجھے جسم کے زنداں سے رہا کر

اب ٹھوکریں کھائے گا کہاں اے غم احباب
میں نے تو کہا تھا کہ مرے دل میں رہا کر

اس شب کے مقدر میں سحر ہی نہیں محسن
دیکھا ہے کئی بار چراغوں کو بُجھا کر

(محسن نقوی)
 

عمر سیف

محفلین
بہت خوب سارہ۔

ہوائیں لوٹ آئیں گی ۔۔۔
اگرچہ میں سمجھتا ہوں
کہ کوئی راستہ لوٹا نہیں کرتا
نہ دریا مُڑ کے آتے ہیں
نہ شامیں واپسی کی سوچ پہ ایمان رکھتی ہیں
اگرچہ میں سمجھتا ہوں
کہ لمحے تو فقط آگے ہی بڑھتے ہیں
مگر افسردگی کی اس پُرانی روح سے لگتا ہے
( جو میرے دِل پہ چائی )
محبّت میں تو کچھ بھی طے نہیں ہوتا
محبّت کب کسی طے شدہ رستے پہ چلتی ہے
میری افسردگی چُپکے سے میرے کان میں کہتی ہے
فرحت سوچتے کیا ہو !
یہ دیکھو
یہ بھلا کیا ہے
ذرا آنکھیں تو کھولو نیند میں ڈُوبے ہوئے غم کی
ہوائیں لوٹ آئی ہیں ۔۔۔
 

عمر سیف

محفلین
[align=right:53ac955842]تیرا ہجر تیرا وصال بھی
تیرے خواب تیرے خیال
میری تشنگی نہ بجھا سکے
تیری یاد کو نہ مٹا سکے
میں یہ سوچتا ہوں کبھی کبھی
تیرے ہجر میں میری زندگی
نہ ہی رنگ ہے ،نہ ہی روپ ہے
نہ یہ چھاوں ہے، نہ ہی دھوپ ہے
نہ خوشی ہے نہ ہی ملال ہے
یہ بس اک تشنہ سوال ہے
وہ رفاقتوں کے سفر سبھی
میری گفتگو کے ہنر سبھی
تیرے ہجر کے جو نذر ہوئے
سبھی خواب گردِسفر ہوئے
وہ جو خواب تھے وہ گزر گئے
جو ملا ہے یہی نصیب ہے
تیرا ساتھ تو کہیں کھو گیا
تیرا ہجر میرے قریب ہے
تیرے ہجر کا یہ ہر اک پل
میری عمر بھر کا حصول ہے
میری بے بسی کا تو غم نہ کر
تیرا ہجر مجھ کو قبول ہے[/align:53ac955842]
 

دھنک

معطل
تمنا پھر مچل جائے اگر تم ملنے آجاؤ
یہ موسم بھی بدل جائے اگر تم ملنے آجاؤ

مجھے غم ہے کہ میں نے زندگی میں کچھ نہیں پایا
یہ غم دل سے نکل جائے اگر تم ملنے آجاؤ

یہ دنُیا بھر کے جھگڑے، گھر کے قصے،کام کی باتیں
بلا ہر ایک ٹل جائے اگر تم ملنے آجاؤ
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top