"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

سارہ خان

محفلین
شمشاد نے کہا:
سارہ خان نے کہا:
افسانے درد محرومی کے دہرائے نہیں جاتے
کچھ ایسے زخم ہوتے ہیں جو دِکھلائے نہیں جاتے
تمنا۔۔آرزو۔۔حسرت۔۔اُمید۔۔وصل اور چاہت
یہ لاشے رکھ لیے جاتے ہیں۔۔دفنائے نہیں جاتے

تمنا۔۔آرزو۔۔حسرت۔۔اُمید۔۔وصل اور چاہت
یہ لاشے رکھ لیے جاتے ہیں۔۔دفنائے نہیں جاتے

بہت خوب، زبردست شعر ہے۔
شکریہ ۔۔۔
 

سارہ خان

محفلین
اس جہاں میں خوشی سے زیادہ ہے غم
قہقوں سے پوچھ لو
آنسوؤں سے پوچھ لو

سیدھے راستے زیادہ ہیں کہ پیچ وخم
حادثوں سے پوچھ لو
منزلوں سے پوچھ لو

زندگی پہ یوں تو ہر کوئی نثار ہے
آدمی کو آدمی سے کتنا پیار ہے
کون کس کے واسطے ہے محترم
دوستوں سے پوچھ لو
دشمنوں سے پوچھ لو

ان ہی خوبیوں میں ہیں خرابیاں بڑی
وقت سے کریں خطاب روک کر گھڑی
بے حسی بھی کھا رہی ہے ہوش کی قسم
نیتوں سے پوچھ لو
مقصدوں سے پوچھ لو

کس کے دل کی آگ نے ضمیر کو چھوا
کون اپنے سامنے جواب دہ ہوا
جرم بے شمار ہیں ،عدالتیں ہیں کم
مجرموں سے پوچھ
منصفوں سے پوچھ لو!
 

شمشاد

لائبریرین
شکریہ سارہ جی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فلسفہِ عشق میں پیش آئے سوالوں کی طرح
ہم پریشاں ہی رہے اپنے خیالوں کی طرح

شیشہ گر بیٹھ رہے ذکرِ مسیحہ لے کر
اور ہم ٹوٹ گئے کانچ کے پیالوں کی طرح

جب بھی انجامِ محبت نے پکارا خود کو
وقت نے پیش کیا ہم کو مثالوں کی طرح

ذکر جب ہو گا محبت میں تباہی کا کہیں
یاد ہم آئیں گے دنیا کو حوالوں کی طرح​
(سدرشن فاخر)
 

عمر سیف

محفلین
ہاتھ میرے بھول بیٹھے دستکیں دینے کا فن
بند مجھ پر جب سے اس کے گھر کا دروازہ ہوا​
 

شمشاد

لائبریرین
یہ غزل مجھے بہت پسند ہے
ٕ
ہونٹوں پہ کبھی ان کے میرا نام ہی آئے
آئے تو سہی برسرِ الزام ہی آئے

حیراں ہیں لب بستہ ہیں دلگیر ہیں غنچے
خوشبو کی زبانی تیرا پیغام ہی آئے

لمحاتِ مسرت ہیں تصور سے گریزاں
یاد آئے ہیں جب بھی غم و الام ہی آئے

تاروں سے سجا لیں گے راہِ شہرِ تمنا
مقدور نہیں صبح چلو شام ہی آئے

یادوں کے، وفاؤں کے، عقیدوں کے، غموں کے
کام آئے جو دنیا میں تو اس نام ہی آئے

کیا رہا بدلنے کا گلہ ہمسفروں سے
جس راہ سے چلے تیرے در و بام ہی آئے

تھک ہار کے بیٹھیں ہیں سرِ کوئے تمنا
کام آئے تو پھر جذبہء ناکام ہی آئے

باقی نہ رہی ساکھ ‘ ادا ‘ دشتِ جنوں کی
دل میں اگر اندیشہء انجام ہی آئے
(ادا بدایونی)​
 

شمشاد

لائبریرین
مہدی حسن کی زبان سے تو میں نے نہیں سنا، البتہ استاد امانت علیخان کی آواز میں سنا ہے۔ ان کی گائیکی نے اس غزل کو چار چاند لگا دیئے ہیں۔
 

حجاب

محفلین
روٹھ جانے کی عادتیں نہ گئیں
دل جلانے کی عادتیں نہ گئیں
زخم کھا کر بھی تجھ سے، ترا نام
گنگنانے کی عادتیں نہ گئیں
پیار سے جو بھی مل گیا اُس کو
دُکھ سنانے کی عادتیں نہ گئیں
چاند کی، شرم سے نقابوں میں
منہ چھپانے کی عادتیں نہ گئیں
دو دلوں کواُجاڑ کے ہنسنا
یہ زمانے کی عادتیں نہ گئیں
چاند جیسا ہر اک حسین چہرہ
دل کو بھانے کی عادتیں نہ گئیں
بیسیوں بار آزما کے ہمیں
آزمانے کی عادتیں نہ گئیں
رات کے پچھلے پہر اے ایاز
گھر کوآنے کی عادتیں نہ گئیں۔(ایاز احمد )
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

شمشاد

لائبریرین
سوچا نہیں اچھا برا
دیکھا سنا کچھ بھی نہیں
مانگا خدا سے ہر وقت
تیرے سوا کچھ بھی نہیں

دیکھا تجھے چاہا تجھے
سوچا تجھے پوجا تجھے
میری وفا میری خطا
تیری خطا کچھ بھی نہیں

جس پر ہماری آنکھ نے
موتی بچھائے رات بھر
بھیجا وہی کاغذ اسے
ہم نے لکھا کچھ بھی نہیں

ایک شام کی دہلیز پر
بیٹھے رہے وہ دیر تک
آنکھوں سے کیں باتیں بہت
منہ سے کہا کچھ بھی نہیں

دو چار دن کی بات ہے
دل خاک میں مل جائے گا
آگ پہ جب کاغذ رکھا
باقی بچا کچھ بھی نہیں
 

حجاب

محفلین
بھول جائیں تو آج بہتر ہے
سلسلے قُرب کے جدائی کے
بجھ چکی خواہشوں کی قندیلیں
لٹ چکے شہر آشنائی کے
رائیگاں ساعتوں کی کیا کہیئے
زخم ہوں پھول ہوں ستارے ہوں
موسموں کا حساب کیا رکھنا
جس نے جیسے بھی دن گزارے ہوں
زندگی سے شکائیتیں کیسی
اب نہیں ہیں اگر گِلے تھے کبھی
بھول جائیں کہ جو ہوا سو ہوا
بھول جائیں کہ ہم ملے تھے کبھی
اکثر اوقات چاہنے پر بھی
فاصلوں میں کمی نہیں ہوتی
بعض اوقات جانے والوں کی
واپسی کی خوشی نہیں‌ ہوتی۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
حجاب نے کہا:
بھول جائیں تو آج بہتر ہے
سلسلے قُرب کے جدائی کے
بجھ چکی خواہشوں کی قندیلیں
لٹ چکے شہر آشنائی کے
رائیگاں ساعتوں کی کیا کہیئے
زخم ہوں پھول ہوں ستارے ہوں
موسموں کا حساب کیا رکھنا
جس نے جیسے بھی دن گزارے ہوں
زندگی سے شکائیتیں کیسی
اب نہیں ہیں اگر گِلے تھے کبھی
بھول جائیں کہ جو ہوا سو ہوا
بھول جائیں کہ ہم ملے تھے کبھی
اکثر اوقات چاہنے پر بھی
فاصلوں میں کمی نہیں ہوتی
بعض اوقات جانے والوں کی
واپسی کی خوشی نہیں‌ ہوتی۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
بہت خوب۔
 

شمشاد

لائبریرین
تم جسے روٹھا ہوا چھوڑ گئے تھے اک دن
ہم نے اس شام کو سینے سے لگا رکھا ہے

جانے والے نے کہا تھا کہ وہ لوٹ آئے گا ضرور
اک اسی آس پہ دروازہ کھلا رکھا ہے
 

شمشاد

لائبریرین
ڈاکٹر صاحب انہوں نے تو پتہ نہیں کب کرنا تھا، میں نے حقِ ناظم استعمال کرتے ہوئے لہد کو لحد کر دیا ہے۔
 

شمشاد

لائبریرین
اک بے پراہ نوں دے کے دل اسی دید دا سودا کر بیٹھے
رب چاہڑے توڑ محبتاں نوں اسی عشق دا سودا کر بیٹھے

مکھ یار دا سمجھ قرآن لیا، در یار نوں کعبہ جان لیا
رب بخشے نہ بخشے اودھی رضا، اسی یار نوں سجدہ کر بیٹھے

تیری محفل دا عجب دستور ڈِٹا، کوئی سرمد تے منصور ڈِٹا
جہڑے آئے تماشا ویکھن نوں او اپنا تماشا کر بیٹھے
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top