محرومی
تو بھی تقدیر نہیں درد بھی پابندہ نہیں
تجھ سے وابستہ وہ ایک عہد، وہ پےمانِ وفا
رات کے آخری آنسو کی طرح ڈوب گیا
خواب انگیز نگاہیں وہ لب درد فریب
اک فسانہ ہے جو کچھ یاد رہا کچھ نہ رہا
میرے دامن میں نہ کلیاں ہیں نہ کانٹے نہ غبار
شام کے سائے میں دا ماندہ سَحر بیٹھ گئی
کارواں لَوٹ گیا مل نہ سکی منزلِ شوق
اک امید تھی سو خاک بسر بیٹھ گئی!
ایک دوراہے پہ حیران ہوں کس سمت بڑھوں
اپنی زنجیروں سے آزاد نہیں ہوں شاید
میں بھی گردش گہِ ایّام کا زندانی ہوں
درد ہی درد ہوں فریاد نہیں ہوں شاید
زیرِ مژگاں تپشِ آہ کے پگھلائے ہوئے
جھلملاتے ہوئے تاروں سے مجھے کیا لینا
تیرے آنسو مرے داغوں کو نہیں دھو سکتے
تیرے پھولوں کی بہاروں سے مجھے کیا لینا
اپنے انجام کی تشویش اب آیندہ نہیں!
اختر الایمان