"میری پسند"

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

پاکستانی

محفلین
سنو لڑکی ۔۔۔
ابھی تم عشق مت کرنا
ابھی گڑیا سے کھیلو تم
تمھاری عمر ہی کیا ہے
فقط سترہ برس کی ہو
ابھی معصوم بچّی ہو
نہیں معلوم ابھی تم کو
کہ جب یہ عشق ہوتا ہے
تو انساں کتنا روتا ہے
ستارے ٹوٹ جاتے ہیں !
سہارے چھوٹ جاتے ہیں
ابھی تم نے نہیں دیکھا
کہ جب ساتھی بچھڑتے ہیں
تو کتنے درد ملتے ہیں
کہ ہر فرقت کے موسم میں
ہزاروں غم ابھرتے ہیں
ہزاروں زخم کھلتے ہیں
سنو لڑکی !
میری مانو
پڑھائی پر توجہ دو
کتابوں میں گلابوں کو
کبھی بھولے سے مت رکھنا
کتابیں جب بھی کھولو گی
یہ کانٹوں کی طرح دل میں
چبھیں گے خوں بہائیں گے
تمھیں پہروں ستائیں گے
کسی کو خط نہیں لکھنا
لکھائی پکڑی جاتی ہے
بڑی رسوائی ہوتی ہے
کسی کو فون مت کرنا
صدائیں دل دکھاتی ہیں
وہ آوازیں ستاتی ہیں
میری نظمیں نہیں پڑھنا
یہ محشر اٹھا دیں گی
تمھیں پاگل بنا دیں گی
سنو لڑکی !!!
میری مانو
ابھی تقدیر سے تم
کھل کہ مت لڑنا
ابھی گڑیا سے کھیلو تم
ابھی تم عشق مت کرنا
 

پاکستانی

محفلین
آنکھیں کھلی رہیں گی تو منظر بھی آئیں گے
زندہ ہے دل تو اور ستمگر بھی آئیں گے

پہچان لو تمام فقیروں کے خدوخال
کچھ لوگ شب کو بھیس بدل کر بھی آئیں گے

گہری خموش جھیل کے پانی کو یوں نہ چھیڑ
چھینٹے اّڑے تو تیری قبا پر بھی آئیں گے

خود کو چھپا نہ شیشہ گروں کی دکان میں
شیشے چمک رہے ہیں تو پتھر بھی آئیں گے

اّس نے کہا--گناہ کی بستی سے مت نکل
اِک دن یہاں حسین پیمبر بھی آئیں گے

اے شہریار دشت سے فرصت نہیں--مگر
نکلے سفر پہ ہم تو تیرے گھر بھی آئیں گے

*محسن* ابھی صبا کی سخاوت پہ خوش نہ ہو
جھونکے یہی بصورتَ صرصر بھی آئیں گے
 

عمر سیف

محفلین
لاکھ کوئی ٹھکرا دے
سارے وعدے جھٹلا دے
توڑ کر سبھی بندھن
راہ ہجر دِکھلا دے
پھر بھی آس چاہت کی
آرزو محبت کی
دل سے تو نہیں جاتی
 

ظفری

لائبریرین

سچ یہ ہے بیکار ہمیں غم ہوتا ہے
جو چاہا تھا دنیا میں ، کم ہوتا ہے

ڈھلتا سورج ، پھیلا جنگل ، رستہ گم
ہم سے پوچھو ، کیسا عالم ہوتا ہے

غیروں کو کب فرصت ہے دکھ دینے کی
جب ہوتا ہے کوئی ہمدم ہوتا ہے

زخم تو ہم نے ان آنکھوں سے دیکھے ہیں
لوگوں سے سنتے ہیں ، مرہم ہوتا ہے

ذہن کی شاخوں پر اشعار آجاتے ہیں
جب تیری یادوں کا موسم ہوتا ہے

(جاوید اختر)
 

شائستہ

محفلین
محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ ملا
اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ ملا

گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے
بہت تلاش کیا کوئی آدمی نہ ملا

تمام رشتوں کو میں گھر پہ چھوڑ آیا تھا
پھر اس کے بعد مجھے کوئی اجنبی نہ ملا

خدا کی اتنی بڑی کائنات میں، میں نے
بس ایک شخص کو مانگا مجھے وہی نہ ملا

بہت عجیب ہے یہ قربتوں کی دوری بھی
وہ میرے ساتھ رہا اور مجھے بھی نہ ملا
 

شائستہ

محفلین
لطف وہ عشق میں پائے ہیں‌کہ جی جانتا ہے
رنج بھی ایسے اٹھائے ہیں‌کہ جی جانتا ہے

جو زمانے کے ستم ہیں‌ وہ زمانہ جانے
تو نے دل، اتنے ستائے ہیں کہ جی جانتا ہے

مسکراتے ہوئے وہ مجمع اغیار کے ساتھ
آج یوں وہ بزم میں آئے ہیں کہ جی جانتا ہے

سادگی ، بانکپن،اغماض،شرارت، شوخی
تو نے انداز وہ پائے ہیں کہ جی جانتا ہے

کعبہ و دیر میں پتھرا گئیں ہیں دونوں آنکھیں
اس قدر اپنے پرائے ہیں‌کہ جی جانتا ہے

داغ وارفتہ کو ہم آج تیرے کوچے سے
اس طرف کھینچ لائے ہیں کہ جی جانتا ہے
 

شائستہ

محفلین
دھوپ کے دشت میں شیشے کی ردائیں دی ہیں
زندگی، تُونے ہمیں کیسی سزائیں دی ہیں

اک دعا گو نے رفاقت کی تسلّی کیلئے
عمر بھر ہجر میں جلنے کی سزائیں دی ہیں

دل کو بُجھنے کا بہانہ کوئ درکار تو تھا
دُکھ تو یہ ہے، تیرے دامن نے ہوائیں دی ہیں
 

شائستہ

محفلین
باتوں باتوں میں بچھڑنے کا اشارہ کرکے
خود بھی رویا وہ بہت، ہم سے کنارہ کرکے

سوچتا رہتا ہوں، تنہائ میں ، انجامِ خلوص
پھر اُسی جرمِ محبّت کو دوبارہ کرکے

دیکھ لیتے ہیں، چلو، حوصلہ اپنے دل کا
اور کچھ روز، تیرے ساتھ گُزارا کرکے

ایک ہی شہر میں رہنا ہے، مگر ملنا نہیں
دیکھتے ہیں، یہ اذیت بھی گوارہ کرکے
اعتبار ساجد
 

شائستہ

محفلین
نہ گنواؤ اپنا سکون تُم میری چاہ میں
میں غُبار ہوں، تو بکھیر دو، مجھے راہ میں

تُجھے کھو کے، تیری انا کا میں نے بھرم رکھا
کئ کُلفتیں، کئ مُشکلیں تھیں، نباہ میں

تیرے آنسوؤں نے بدل دیئے، میرے راستے
کئ لوگ تھے، میری راہ میں، میری چاہ میں

بڑی بد مزہ سی گُزر رہی ہے، یہ زندگی
نہ ثواب میں وہ مزہ رہا، نہ گُناہ میں
 

عمر سیف

محفلین
اے خدا جو مجھے پندِ شکینائی دے
اس کی آنکھوں کو مرے زخم کی گہرائی دے

تیرے لوگوں سے گلہ ہے مرے آئینوں کو
ان کو پتھر نہیں دیتا تو بینائی دے

جس کی ایما پہ کیا ترکِ تعلق سب نے
اب وہی شخص مجھے طعنہِ تنہائی دے

یہ دہن زخم کی صورت ہے میرے چہرے پر
یا مرے زخم کو بھر کیا مجھے گویائی دے

احمد فراز
 

حجاب

محفلین
کیا ہوتا ہے خزاں بہار کے آنے جانے سے
سب موسم ہیں دل کھلنے اور دل مُرجھانے سے
ایک دیا کب روک سکا ہے رات کو آنے سے
لیکن دل کچھ سنبھلا تو ایک دیا جلانے سے
جو پھولوں اور کانٹوں کی پہچان نہیں رکھتا
پھول نہیں رکتے گھر اُس کا بھی مہکانے سے
جلتے نظر نہیں‌ آئے اور جل کر خاک ہوئے
دور کا رشتہ اپنا بھی نکلا پروانے سے
کتنا اچھا لگتا ہے ایک عام سا چہرہ بھی
صرف محبت بھرا تبسّم لب پر لانے سے
گئے دنوں میں رونا بھی تو کتنا سچّا تھا
دل ہلکا ہوجاتا تھا جب اشک بہانے سے
بھیگی رات کا سنّاٹا کرتا ہے وہی باتیں
زخم ہرے ہوتے ہیں جو باتیں یاد آنے سے
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

عمر سیف

محفلین
دیارِ دل کی راہ میں چراغ سا جلا گیا
ملا نہیں تو کیا ہوا وہ شکل تو دیکھا گیا

وہ دوستی تو خیر اب نصیبِ دشمناں ہوئی
وہ چھوٹی چھوٹی رنجشوں کا لطف بھی چلا گیا

جدائیوں کے زخم دورِ زندگی نے بھر دئیے
تجھے بھی نیند آگئی مجھے بھی صبر آگیا

پکارتی ہیں فرصتیں، کہاں گئی وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی اُنہیں کہ آسمان کھا گیا

یہ صبح کی سفیدیاں یہ دوپہر کی زردیاں
اب آئینے میں دیکھتا ہوں میں کہاں چلا گیا

ناصر کاظمی
 

شائستہ

محفلین
دکھ فسانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں
دل بھی مانا نہیں‌کہ تجھ سے کہیں

آج تک اپنی بے کلی کا سبب
خود بھی جانا نہیں‌کہ تجھ سے کہیں

بے طرح حال دل ہے اور تجھ سے
دوستانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں

ایک تو حرف آشنا تھا مگر
اب زمانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں

قاصد! ہم فقیر لوگوں کا
اک ٹھکانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں

اے خدا درد دل ہے بخشش دوست
آب و دانہ نہیں کہ تجھ سے کہیں

اب تو اپنا بھی اس گلی میں فراز
آنا جانا نہیں کہ تجھ سے کہیں
 

عمر سیف

محفلین
میں جتنا بھی بھلاتا ہوں تم اتنا یاد آتے ہو
خدارا ترکِ الفت میں مجھے کیوں یوں ستاتے ہو
بھری محفل میں بت بن کر تیرے ساتھ رہتا ہوں
مگر تم ہو اثر کو پاس پا کر بھی بھلاتے ہو!
( بشیر احمد اثر )
 

نوید ملک

محفلین
لہو رونے سے ڈرتا ہوں جدا ہونے سے ڈرتا ہوں
مری آنکھیں بتاتی ہیں کہ میں سونے سے ڈرتا ہوں

مری انگلی پکڑ لینا مجھے تنہا نہیں کرنا
یہ دنیا ایک میلہ ہے تمہیں کھونے سے ڈرتا ہو

جو ہنستی ہو تو کیوں پلکوں کے گوشے بھیگ جاتے ہیں
تمہیں معلوم ہے میں اس طرح رونے سے ڈرتا ہوں

یہ جب سے خواب دیکھا ہے مجھے تم چھوڑ جاؤ گی
میں اب ڈرتا ہوں خوابوں سے میں اب سونے سے ڈرتا ہوں

(عاطف سعید)
 

نوید ملک

محفلین
بے کلی ، بے خودی ، بے بسی دے گیا
کچھ نئے تجربے اجنبی دے گیا

اُس کی سوداگری میں بھی انصاف تھا
زندگی دے گیا ، زندگی لے گیا

اُس کے آ جانے سے ہر کمی مٹ گئی
جاتے جاتے وہ اپنی کمی دے گیا

سوچنے کیلئے پل کی مہلت نہ دی
جاگنے کیلئے اِک صدی دے گیا

لے گیا جسم سے جان و دل کھینچ کر
ہاں مگر روح کی تازگی دے گیا
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top