میری ڈائری کا ایک ورق

حجاب

محفلین
ضبط نے کہا:
جس نے محبّت کی ہو وہ محبّت کرنے والوں کے تمام زادِراہ سے واقف ہوتا ہے۔۔۔خوش اُمیدی۔۔۔امکان۔۔۔گُمان ویقین۔۔۔۔وصل۔۔۔یا پھر نارسائی کا درد، جُدائی کے آنسُو،سوزوغم۔۔۔۔تڑپ اور پھر بے تحاشہ صبر۔۔۔یہی زادِراہ ہوتا ہے محبّت کے ماروں کا۔۔۔۔لیکن لڑکوں کی محبّت اور لڑکیوں کی محبّت میں واضح فرق ہوتا ہے۔۔۔مرد اپنی محبّت کے لیے جدّوجہد کرتا ہے متعلقین سے بلا جھجھک اپنا مدّعا بیان کر سکتا ہے۔۔قسمت اچھی ہو تووصل کے گلاب مٹھی میں مہک اُٹھتے ہیں جبکہ لڑکیاں۔۔۔۔؟۔۔۔۔۔
ہمارے یہاں ساٹھ فیصد لڑکیاں ایسی ہی ہوتی ہیں۔۔۔جنہیں محبّت تو ہو جاتی ہے، لیکن اپنے پیاروں کی عزّت و محبّت، معاشرتی روایات کی پیروی۔۔رُسوائی کا خوف ایسی کئی مجبوریاں ان کے گرد مجبوری بن جاتی ہیں۔۔۔جنہیں عام طور سے طعنہ بنا دیا جاتا ہے کہ محبّت کسی اور سے کی اور شادی کسی اور سے۔۔۔کوئی ان لڑکیوں کے دلوں میں جھانک کر تو دیکھے۔۔۔کہ وہ کیا چاہتی ہیں۔۔۔۔محبّت وصولنے کی خواہش کوئی انہونی نہیں ہے،خواہشوں کا ہمزاد ہر لمحے ہمارے ساتھ ہوتا ہے، اس ہمزاد کو قابو کرنے کا ہنر آنا چاہئے۔۔۔محبّت کے دو ہی رُخ ہوتے ہیں۔۔۔خواہشوں کی بے لگام یلغار ساتھ لے کر چلیں تو اس میں ذات کا نقصان اور بگاڑ پوشیدہ ہے۔۔۔دوسرے رُخ کو ہر زاویہ نگاہ سے سوچنے اور پرکھنے پر آگہی دان ہوتی ہے۔۔صبر کی کئی منزلیں دل میں قیام پذیر ہوتی ہیں۔۔۔یہی وہ مقام ہوتا ہے جب محبّت دائمی ہونے کا فخر حاصل کرتی ہے۔۔۔۔یوں بھی تو ہوتا ہے کہ ذات پر وصل کا پانی برسنے سے محبّت کے چراغ گُل ہونے لگتے ہیں۔۔نام تو محبّت ہوتا ہے ،حنظل کی طرح کڑوی ہوجاتی ہےیہ۔۔ہمیں محسوس بھی نہیں ہوتا لبوں پرتلخیوں کے خار اُگنے لگتے ہیں۔۔۔شعوری کوشش سے یاد دہانی کروانی پڑتی ہے کہ کبھی ہم میں محبّت تھی۔۔اندھیرا بڑھتا ہی جائے تو محبّت اپنے ہونے پر مشتبہ ہو جاتی ہے۔۔سو محبّت کو دائم رکھنے کے لیے اس کی شیرینی کو محسوس کرنے کے لیے تھوڑا سا ہجر جھیل لیا جائے تو کچھ مضائقہ نہیں، آخر کو زندگی اتنی طویل تو نہیں۔ فانی شئے کا کیا بھروسہ۔بہت کچھ خود سے فرض کر لینے سے بھی ہمیں صبر آجاتا ہے ہان جس شخص کی کمی ہمیں محسوس ہوتی ہے اُس کی جگہ کوئی نہیں لے سکتا
بہت اچھا اقتباس ہے،کس کی تحریر ہے اور کتاب کا نام؟
 

عمر سیف

محفلین
اخبار میں پڑھا تھا کسی نے اقتباس کیا ہوا تھا۔ افسانے کا نام “ زادِ راہ “ ۔ مصنف کا نام نہیں لکھا تھا۔
 

عمر سیف

محفلین
پیدا تو وہ ایک ہی گلاب کے پودے پر ایک ہی شاخ پر ہوئے تھے مگر دیکھنے میں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ پھول کو اپنے حسن پر ناز تھا، وہ ہمیشہ کانٹے کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔جب بھی کانٹے نے پھول سے دوستی کرنی چاہی اس نے تحقیر سے انکار کر دیا کہ میں ایک خوبصورت پھول ہوں اور تو ایک بدصورت کانٹا۔ایک دن ایسا ہوا کہ سکول کے کچھ سٹوڈنٹس باغ میں پکنک منانے آئے۔اُن کو گلاب کے اس پودے پر لگا ہوا یہ پھول بہت اچھا لگا۔ایک سٹوڈنٹ نے پھول کو شاخ سے توڑنے کی کوشش کی تو وہ کانٹا اس کے ہاتھ پر چبھ گیا۔خون نکل آیا۔ وہ رونے لگا۔ سٹوڈنٹ کی ٹیچر وہاں آئیں اور انہوں نے اسے خوب ڈانٹا کہ آپ نے پھول توڑنے کی کیوں کوشش کی۔پھول کی جان بچی تو اس نے سوچا کہ میں نے کس قدر غلط سوچا۔اس نے کانٹے سے دوستی کرلی۔ سچ کہا جاتا ہے کہ اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی کوئی چیز بے مقصد نہیں ہوتی۔ہر ایک کی عزت ، قدر و قیمت ہوتی ہے۔
 

نوید ملک

محفلین
ضبط نے کہا:
پیدا تو وہ ایک ہی گلاب کے پودے پر ایک ہی شاخ پر ہوئے تھے مگر دیکھنے میں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ پھول کو اپنے حسن پر ناز تھا، وہ ہمیشہ کانٹے کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔جب بھی کانٹے نے پھول سے دوستی کرنی چاہی اس نے تحقیر سے انکار کر دیا کہ میں ایک خوبصورت پھول ہوں اور تو ایک بدصورت کانٹا۔ایک دن ایسا ہوا کہ سکول کے کچھ سٹوڈنٹس باغ میں پکنک منانے آئے۔اُن کو گلاب کے اس پودے پر لگا ہوا یہ پھول بہت اچھا لگا۔ایک سٹوڈنٹ نے پھول کو شاخ سے توڑنے کی کوشش کی تو وہ کانٹا اس کے ہاتھ پر چبھ گیا۔خون نکل آیا۔ وہ رونے لگا۔ سٹوڈنٹ کی ٹیچر وہاں آئیں اور انہوں نے اسے خوب ڈانٹا کہ آپ نے پھول توڑنے کی کیوں کوشش کی۔پھول کی جان بچی تو اس نے سوچا کہ میں نے کس قدر غلط سوچا۔اس نے کانٹے سے دوستی کرلی۔ سچ کہا جاتا ہے کہ اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی کوئی چیز بے مقصد نہیں ہوتی۔ہر ایک کی عزت ، قدر و قیمت ہوتی ہے۔

خوب
 

عمر سیف

محفلین
نوید ملک نے کہا:
ضبط نے کہا:
پیدا تو وہ ایک ہی گلاب کے پودے پر ایک ہی شاخ پر ہوئے تھے مگر دیکھنے میں ایک دوسرے سے مختلف تھے۔ پھول کو اپنے حسن پر ناز تھا، وہ ہمیشہ کانٹے کو تحقیر کی نگاہ سے دیکھتا تھا۔جب بھی کانٹے نے پھول سے دوستی کرنی چاہی اس نے تحقیر سے انکار کر دیا کہ میں ایک خوبصورت پھول ہوں اور تو ایک بدصورت کانٹا۔ایک دن ایسا ہوا کہ سکول کے کچھ سٹوڈنٹس باغ میں پکنک منانے آئے۔اُن کو گلاب کے اس پودے پر لگا ہوا یہ پھول بہت اچھا لگا۔ایک سٹوڈنٹ نے پھول کو شاخ سے توڑنے کی کوشش کی تو وہ کانٹا اس کے ہاتھ پر چبھ گیا۔خون نکل آیا۔ وہ رونے لگا۔ سٹوڈنٹ کی ٹیچر وہاں آئیں اور انہوں نے اسے خوب ڈانٹا کہ آپ نے پھول توڑنے کی کیوں کوشش کی۔پھول کی جان بچی تو اس نے سوچا کہ میں نے کس قدر غلط سوچا۔اس نے کانٹے سے دوستی کرلی۔ سچ کہا جاتا ہے کہ اللہ پاک کی پیدا کی ہوئی کوئی چیز بے مقصد نہیں ہوتی۔ہر ایک کی عزت ، قدر و قیمت ہوتی ہے۔

خوب

شکریہ
 

حجاب

محفلین
[align=right:8ff5eaad86]محبت نفرت کا سیدھا سادہ شیطانی روپ ہے۔محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیّار ہے۔ہمیشہ دوراہوں پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے۔اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ہے۔محبت کے جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کُن سزا نہیں ہوتی،ہمیشہ عمر قید ہوتی ہے۔محبت کا مزاج ہوا کی طرح ہے ،کہیں ٹِکتا نہیں۔محبت میں بیک وقت توڑنے اور جوڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے،جب تک روز اس تصویر میں رنگ نہ بھرو تصویر فیڈ ہونے لگتی ہے،روز سورج نہ چڑھے تو دن نہیں ہوتا،اسی طرح جس روز محبت کا آفتاب طلوع نہ ہو،رات رہتی ہے۔تم ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتے تم نے مجھے فلسفی بنا دیا ہے۔تمہیں کیا پتہ زمین کا ہر قطعہ سورج کیوں مانگتا ہے؟ جس شخص سے محبت ملے ،ہمیشہ اُسی کے پاس رہنے کو کیوں جی چاہتا ہے؟ وہ خدا جانے،کب اور کیسے اتنی اردو سیکھ گئی تھی۔کچھ لوگوں کو ایک دن کے لئے بھی اپنا من چاہا آفتاب نہیں ملتا۔سیمی،ان اندھیروں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو ہمیشہ روشنیوں سے ہٹ کر رہتے ہیں ؟ میں نے پوچھا۔
اس نے مجھ پر نظر ڈالی اور پھر لا تعلق ہوگئی۔اُسے میرے اندھیروں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔میرے " اظہارِ عشق “ سے اُس کا وقت ضائع ہوتا تھا۔
(بانو قدسیہ کی تصنیف " راجہ گدھ “ سے لیا گیا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:8ff5eaad86]
 

عمر سیف

محفلین
حجاب نے کہا:
[align=right:f98aa56599]محبت نفرت کا سیدھا سادہ شیطانی روپ ہے۔محبت سفید لباس میں ملبوس عمرو عیّار ہے۔ہمیشہ دوراہوں پر لا کر کھڑا کر دیتی ہے۔اس کی راہ پر ہر جگہ راستہ دکھانے کو صلیب کا نشان گڑا ہوتا ہے۔محبت کے جھمیلوں میں کبھی فیصلہ کُن سزا نہیں ہوتی،ہمیشہ عمر قید ہوتی ہے۔محبت کا مزاج ہوا کی طرح ہے ،کہیں ٹِکتا نہیں۔محبت میں بیک وقت توڑنے اور جوڑنے کی صلاحیت ہوتی ہے۔محبت تو ہر دن کے ساتھ اعادہ چاہتی ہے،جب تک روز اس تصویر میں رنگ نہ بھرو تصویر فیڈ ہونے لگتی ہے،روز سورج نہ چڑھے تو دن نہیں ہوتا،اسی طرح جس روز محبت کا آفتاب طلوع نہ ہو،رات رہتی ہے۔تم ان باتوں کو سمجھ نہیں سکتے تم نے مجھے فلسفی بنا دیا ہے۔تمہیں کیا پتہ زمین کا ہر قطعہ سورج کیوں مانگتا ہے؟ جس شخص سے محبت ملے ،ہمیشہ اُسی کے پاس رہنے کو کیوں جی چاہتا ہے؟ وہ خدا جانے،کب اور کیسے اتنی اردو سیکھ گئی تھی۔کچھ لوگوں کو ایک دن کے لئے بھی اپنا من چاہا آفتاب نہیں ملتا۔سیمی،ان اندھیروں کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جو ہمیشہ روشنیوں سے ہٹ کر رہتے ہیں ؟ میں نے پوچھا۔
اس نے مجھ پر نظر ڈالی اور پھر لا تعلق ہوگئی۔اُسے میرے اندھیروں سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔میرے " اظہارِ عشق “ سے اُس کا وقت ضائع ہوتا تھا۔
(بانو قدسیہ کی تصنیف " راجہ گدھ “ سے لیا گیا۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:f98aa56599]

اچھا اقتباس ہے۔ “ محبت نفرت کا سیدھا سادہ شیطانی روپ ہے“۔
خوب کہا۔
 

ماوراء

محفلین
انسان کی حقیقت ان چیزوں میں نہیں ہے، جو وہ ظاہر کرتا ہے، بلکہ ان چیزوں میں ہے جنہیں وہ ظاہر نہیں کر سکتا۔
اس لئے اگر تو اسے سمجھنا چاہتا ہے تو ان باتوں پر دھیان نہ دے جو وہ کہتا ہے، بلکہ ان باتوں کو سن! جو اس کی زبان سے ادا نہیں ہوئیں!
 

نوید ملک

محفلین
یادیں

زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ انکی یادیں کسی طور بھلائے نہیں بھولتیں ، ان گزرے ہوئے لمحات کی یادیں ہمیشہ کیلئے ہمارے دل ودماغ میں مہکتے ہوئے گلشن کی طرح رچ بس جاتی ہیں ۔ان کی خوشبو سے ہر وقت دل و دماغ معطر رہتا ہیں ۔ یادوں کا یہ انمول خزانہ ہر کسی کے پاس ہوتا ہے۔ کسی کے پاس آنسوؤں کی شکل میں تو کسی کے پاس مہکتے ہوئے پھولوں کی طرح اور کسی کے پاس نوکیلے کانٹوں کی صورت میں۔ لیکن یہ یادیں کسی کے پاس کسی بھی صورت میں ہوں ہر کوئی انہیں دل سے لگائے رکھتا ہے کہ یہی اسکی زندگی کا حصول ہوتا ہے ۔
 

عمر سیف

محفلین
نوید ملک نے کہا:
یادیں

زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ انکی یادیں کسی طور بھلائے نہیں بھولتیں ، ان گزرے ہوئے لمحات کی یادیں ہمیشہ کیلئے ہمارے دل ودماغ میں مہکتے ہوئے گلشن کی طرح رچ بس جاتی ہیں ۔ان کی خوشبو سے ہر وقت دل و دماغ معطر رہتا ہیں ۔ یادوں کا یہ انمول خزانہ ہر کسی کے پاس ہوتا ہے۔ کسی کے پاس آنسوؤں کی شکل میں تو کسی کے پاس مہکتے ہوئے پھولوں کی طرح اور کسی کے پاس نوکیلے کانٹوں کی صورت میں۔ لیکن یہ یادیں کسی کے پاس کسی بھی صورت میں ہوں ہر کوئی انہیں دل سے لگائے رکھتا ہے کہ یہی اسکی زندگی کا حصول ہوتا ہے ۔

اچھا اقتباس ہے۔
 

نوید ملک

محفلین
ضبط نے کہا:
نوید ملک نے کہا:
یادیں

زندگی میں رونما ہونے والے واقعات اتنے قیمتی ہوتے ہیں کہ انکی یادیں کسی طور بھلائے نہیں بھولتیں ، ان گزرے ہوئے لمحات کی یادیں ہمیشہ کیلئے ہمارے دل ودماغ میں مہکتے ہوئے گلشن کی طرح رچ بس جاتی ہیں ۔ان کی خوشبو سے ہر وقت دل و دماغ معطر رہتا ہیں ۔ یادوں کا یہ انمول خزانہ ہر کسی کے پاس ہوتا ہے۔ کسی کے پاس آنسوؤں کی شکل میں تو کسی کے پاس مہکتے ہوئے پھولوں کی طرح اور کسی کے پاس نوکیلے کانٹوں کی صورت میں۔ لیکن یہ یادیں کسی کے پاس کسی بھی صورت میں ہوں ہر کوئی انہیں دل سے لگائے رکھتا ہے کہ یہی اسکی زندگی کا حصول ہوتا ہے ۔

اچھا اقتباس ہے۔

شکراً
 

عمر سیف

محفلین
کسی نے بوٹے سے پوچھا۔ “ بوٹے تو یہ بتا تو اگنے میں اتنی دیر کیوں لگاتا ہے؟“۔

بوٹا بولا۔ “اس لیے کہ زمین کی کشش مجھے اُگنے نہیں دیتی“۔

“ ہائیں ایسا ہے۔ بُری بات“۔

بوٹا بولا۔ “ زمین کو بُرا نہ کہو“۔

“ کیوں نہ کہیں“۔

“اس لئے کہ اگر زمین مجھے اُگنے سے نہ روکے تو میں کبھی نہ اُگ سکوں“۔

“ یہ کیا بات ہوئی؟“۔

“ رکاوٹ نہ ہو تو حرکت ممکن ہی نہیں۔ یہ قانونِ فطرت ہے صاحبو۔ روکاوٹیں دراصل رحمیتیں ہیں۔ روکاوٹیں حرکت پیدا کرتی ہیں۔ جن کے پہنچ جانے کا خطرہ ہو ان کے راستے میں روکاوٹیں آتی ہیں۔ بڑے روکاوٹیں پیدا نہ کریں تو چھوٹوں میں احتجاج پیدا نہ ہو۔ریولٹ (Revolt) نہ ہو۔ حرکت پیدا نہ ہو۔اور حرکت نہ ہو تو زندگی نہ ہو۔ کچھ بھی نہ ہو“۔
 

حجاب

محفلین
[align=right:c3960c2691]تم نے کبھی ایک محبت بھرے دل کو کسی کی محبت کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا ہے؟ محبت جب محبت کو مارنے چلے تو قضا سے زیادہ تکلیف دیتی ہے،جسم سے روح کھینچ لیتی ہے،پر سانس چھوڑ دیتی ہے۔جسم کو پانی بھرا چھالا بنا دیتی ہے ،تکلیف دہ،اذیت ناک۔
مجھ سے بحبت کے خدا نے پوچھا۔اے میری پیاری،تیری چشمِ بینا وہ دکھ نہیں دیکھ سکتی جو میں دیکھ پاؤں،سو تو اپنی محبت کو بخش دے کسی اور کے نام پر۔
میں نے جھولی پھیلا کر محبت کی خیرات مانگی،خود دکھ مستعار مانگا،دینے والے نے میری جھولی بھر دی اور اب محبت خون بن کر میری رگوں میں دوڑتی ہے اور آنکھوں سے رستی ہے،روز میری محبت پر کوڑے برسائے جاتے ہیں،میں مطلوب کے سمندر سے روز طالب بن کر سوال کرتی ہوں ،پر خالی ہاتھ لوٹتی ہوں۔نہیں جانتی کہ محبت اتنی تکلیف دہ ہے یا میرا نصیب، یا میرا نصیب ہی ادھ جلی لکڑی کی طرح ہے جو سلگتا ہی رہتا ہے،کوئی جھونکا اس کی تیزی کو ذرا کی ذرا بھڑکاتا ہے اور پھر کسی رویے کی سردی اس آگ کو دھیما کردیتی ہے یا شائد میری سوچ سرد پڑ چکی ہے یا پھر شائد میرے ذہن میں ایک موسم آکر جم گیا ہے،خزاں کا ،اداسی کا،بے کلی کا، کوئی تو ہو جو پل دو پل کو ہی سہی، دھیمے سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بے آواز لبوں سے اور بولتی آنکھوں کے ساتھ ہولے سے یہ کہہ دے ، چلو ، اپنے دکھ اور خوشیاں آدھی بانٹ لیں ،میری کچھ خوشیاں تم جی لو ،تمہارے کچھ دکھ میں سہہ لوں، کوئی تو ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(عفت جیا کی تصنیف۔ابھی ہے وقت مٹّھی میں ۔ سے اقتباس)
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:c3960c2691]
 
Top