میری ڈائری کا ایک ورق

ماہ وش

محفلین
حجاب نے کہا:
[align=right:1b19d349be]زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں ، وہاں حروف اہم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عزّو جل ہوتا ہے ۔کوئی ماں ، کوئی باپ ، بہن بھائی ، کوئی دوست نہیں ہوتا پھر ہمیں پتہ چلتا ہے ، ہمارے پیروں کے نیچے کوئی زمین ہے نہ سر کے اوپر آسمان، بس ایک اللہ تعالیٰ عزّوجل ہے جو ہمیں اس خلاء میں بھی تھامے ہوئے ہے پھر پتہ چلتا ہے کہ ہم زمین پر پڑی مٹّی کے ڈھیر میں پڑے ایک ذرّے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتّے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے پھر پتہ چلتا ہے ،ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے ،صرف ہمارا کردار ختم ہوجاتا ہے ۔کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمیرہ احمد کے ناول ۔پیرِ کامل صلّی اللہُ علیہ وسلّم ، سے اقتباس ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:1b19d349be]

زندگی میں کہیں‌اور وہ مقام آتا ہو یہ نہ آتا ہو حرم پاک کے پہلے دیدار کے وقت میری ایسی ہی کیفیت تھی ، ہیبت ، جلال ، رحم اور حلم ، الفاظ اپنے معنی، احساس اپنا تاثر، وجدان اپنا ادراک اور عشق اپنا شوق کھو دیتا ہے ، آپ کی پچھلی زندگی آنسو بن کر بہہ جاتی ہے ۔ اور کیا لکھوں کچھ نہیں لکھا جاتا۔
 

عمر سیف

محفلین
ایک دفعہ ایک گائے ایک ندی میں نہا رہی تھی اس نے دیکھا کہ ایک بچھو پانی میں ڈوب رہا ہے ۔ گائے نے ترس کھا کر اپنی دم کی مدد سے اسے اپنی پیٹھ پر بٹھا لیا اور اور ندی سے باہر لے آئی ۔ جیسے ہی ندی سے وہ باہر آئی ۔ بچھو نے ذور سے اس کی پیٹھ پر کاٹا۔ پاس ہی ایک خرگوش یہ منظر دیکھ رہا تھا اس نے بچھو کو برا بھلا کہا اور گائے سے کہا کہ تم نے خوامخواہ اس موزی کی جان بچائی۔ گائے نے جواب دیا میری فطرت ہی کچھ ایسی ہے۔جس کی وجہ سے میں تمام لوگوں کی نظر میں قیمتی ہوں اور اس بچھو کی فطرت جیسی ہے اس کی وجہ سے یہ حقیر ہے۔ میں اپنے مالک کے بچوں کو دودھ دیتی ہوں، اس کے کھیتوں میں ہل چلاتی ہوں، اور جب میں کسی کام کی نہیں رہتی تو لوگ میرا گوشت کھاتے ہیں۔ میری فطرت کی وجہ سے میری زندگی ایسی ہے ، کہ لوگ مجھے بڑی بڑی قیمتوں میں خریدتے ہیں۔ میری زندگی میں میرا خیال رکھتے ہیں ۔
سچ کسی نے کہا ہے ہے زندگی کا مقصد اوروں کے کام آنا۔ اور اپنے لئے جینا کچھ چیز نہیں اصل زندگی وہی ہے جو دوسروں کے لئے گذاری جائے۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہنستے ہوئے بچوں کا تصور کرو تو یوں لگتا ہے کہ ساری دنیا روشن ہو گئی ہے۔ بڑی عمر کے لوگوں کی خوشی یا ہنسی میں یہ بات نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اول تو ان میں بچوں کا خلوص اور بے فکری نہیں ہوتی، اور دوسرے بڑی عمر کے لوگ الگ الگ افراد ہوتے ہیں۔ لیکن بچے تو پھولوں یا پرندوں کی طرح فطرت کا جزو ہوتے ہیں۔ چنانچہ ان کی خوشی یا ناخوشی یہی تاثر پیدا کرتی ہے کہ ساری دنیا ہنس رہی ہے یا پھر آنسو بہا رہی ہے۔
 

حجاب

محفلین
[align=right:420bcdd2be]جس دنیا میں ہم رہتے ہیں ، یہاں کی زندگی کا ایک مقصد ہے ، اور وہ ہے ذاتِ باری تعالیٰ کی پہچان ، اس چھپے ہوئے خزانے کو پہچاننے کے لیئے ہر سو جا بجا اُس کی قدرت کے مظاہر بکھرے ہوئے ہیں ۔اپنی پہچان کے لیئے وہ ان ہی نشانات کی طرف پہچاننے والے کی بار بار توجہ مبذول کرواتا ہے ، کہیں فرماتا ہے ۔ اس میں عقل والوں کے لیئے نشانیاں ہیں ۔“ کہیں علم والوں کے لیئے نشانیاں ہیں ، کچھ غور و فکر کرنے والوں کے لیئے نشانیاں ہیں ،کہیں فقہیوں کے لیئے اور کہیں عمل کرنے والوں کے لیئے نشانیاں بیان فرمائی ہیں ۔ جس کا جس طبقہء فکر سے تعلق ہے ،اسے اُس کے لیئے بیان کردہ نشانات کے ذریعے ذاتِ باری تعالیٰ کو پہچاننا ہے ۔کونین کو اسی پہچاننے والے کے لیئے آراستہ کیا جو سب سے بڑھ کر پہچاننے والا ہے ، جو سرورِ کونین سیّد الانبیاء محبوبِ خدا صلّی اللہُ وسلّم ہے ۔ طبعی طور پر ہم دیکھتے ہیں کہ مخلوق عدم سے وجود میں آتی ہے اور پھر رفتہ رفتہ وجود سے عدم کی طرف چلتی ہے ۔ایک وقت آتا ہے کہ بلکل معدوم ہوجاتی ہے ۔ہر نظر آنے والی بڑی سے بڑی ، ہر نظر آنے والی چھوٹی سے چھوٹی مخلوق ، سب کے ساتھ یہی ہوتا آیا ہے ، ہو رہا ہے اور ہوتا رہے گا ۔
انسان کا امتیاز ، انسان کی تخصیص یہ ہے کہ اُسے خالقِ کائنات نے اپنی پہچان کے لیئے پیدا فرمایا اور فرمایا ! میں ایک چھپا ہوا خزانہ تھا ، میں نے چاہا کہ پہچانا جاؤں ، اس مقصد کے لیئے میں نے پہچاننے والا پیدا فرمایا ۔انسان کو ظاہر کردیا اور خود چھپا رہا اور حکم دے دیا کہ مجھے ڈھونڈو اور دوسروں پر میری کبریائی ظاہر کرو ۔
تمہارے اندر پہچان کی صلاحیت رکھ دی ہے ، تمہارے اندر بھی اور کائنات کے اندر بھی پہچان کے نشانات رکھ دیئے ہیں ۔اب اپنا کام شروع کرو ، اپنا آپ مٹاتے جاؤ اور مجھے ظاہر کرتے جاؤ ، میں انہی نشانات میں چھپا ہوا ہوں ، تم ویسے بھی مٹ جانے والے ہو ۔اگر میری خاطر مِٹو گے تو میری ہی طرف لوٹو گے مگر کامیابی کے ساتھ سرخرو ہوکر ۔بے مقصد زندگی گزار کر بھی میری طرف ہی واپس آنا ہے مگر ناکام و نامراد اس دنیا کی زندگی ہی انسان کو کامیابی و کامرانی یا ناکامی میں سے کسی ایک کا انتخاب کرنا ہوتا ہے پھر اُن کے قوانین پر عمل بھی کرنا ہوتا ہے کیونکہ نتیجہ عمل سے حاصل ہوتا ہے۔
اگر کامیابی چاہیئے تو سچّوں کے ساتھ ہونا پڑتا ہے ناکامی کے لیئے تو کسی قانون کسی ضابطے کی ضرورت نہیں ہوتی ، بس کامیابی کے اصولوں سے روگردانی کرنا ہوتی ہے ، ناکامی خود بخود قدم چومتی ہے ۔
اُن لوگوں کو کامیابی مبارک جنہوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر ہر خواہش کا گلا گھونٹ دیا اور ہر اُس شئے کو ترک کردیا جو اُن کے ربِّ ذوالجلال کے درمیان حائل ہو سکتی تھی ۔اُن کا مقام کیا جانیں ، بس اللہ ہی جانتا ہے ۔
ڈاکٹر ابو اعجاز رستم کی تصنیف ۔پُراسرار بندے ۔ سے اقتباس ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:420bcdd2be]
 

فرحت کیانی

لائبریرین
۔۔۔۔اہمیت دکھ کی نہیں بلکہ دکھ دینے والوں کی ہوتی ہے۔

۔۔۔۔رشتوں اور انسانوں سے بڑھ کر کچھ نہیں ہوتا بشرطیکہ وہ مخلص ہوں۔
 

شمشاد

لائبریرین
آسمان کی برکات بارش اور زمین کی برکات پودوں، پھلوں، چوپاؤں اور مویشیوں کی کثرت اور امن و سلامی کے حصول کی شکل میں ہیں۔ آسمان اور زمین کی برکات کا ذکر کرنے کی حکمت یہ ہے کہ آسمان باپ کی مانند اور زمین ماں کی طرح ہے اور اللہ تعالٰی کی تخلیق و تدبیر سے سارے منافع انہی دونوں کے ذریعے سے میسر آتے ہیں۔

(امام رازی رحمۃ اللہ علیہ)
 
میں اپنی ڈائری پر ہمیشہ لکھتا تھا اپنے تحریروں کو مخاطب کرتے ہوئے!

اے میرے الفاظ مجھے معاف کرنا!
میں نے ہی تم کو تخلیق کیا ہے اور میں ہی ایک دن تم کو جلادوں گا کیونکہ مجھے تم پر بھروسہ نہیں!
کسی دن تم میری عزت پاش پاش کر سکتے ہو!
کیوں نہ پہلے میں ہی تم کو عدم کی سولی پر چڑھا دوں!
پھر میں نے ایسا ہی کیا تھا!
آج میری ڈائریاں میرے ذہن میں ہیں اور میرے الفاظ راکھ ہوچکے ہیں!!
 

wahab49

محفلین
میں نے اس خیال سے ایک بار ڈائری خریدی تھی۔
میرا پہلا لکھا کچھ یوں تھا۔
آج میں نے بمورخہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کو یہ ڈائری خریدی ھے اور آج کے بعد اسے روزانہ لکھنا یاد رکھوں گا۔
دوسری سطر کچھ یوں تھی۔۔
مجھے بھول جاتا ھے اسلیے آج یہ بھی لکھ رھا ھوں کہ یہ ڈائری میری الماری کے اوپر والے خانی کی دراز میں رکھے ھوئے بکس کی ساری چیزوں کے نیچے رکھے ھوئے لفافے کے اندر دوسرے لفافے میں ہے۔

پھر تقریباً دو سال بعد وہ ڈائری ایک دن کچھ ڈھونڈتے ڈھونڈتے ملی۔

اس دن کے بعد سے ڈائری خریدنے سے بھی توبہ کر لی۔
 
میرے روزنامچہ کا ایک حصہ

ابتدا


اللہ رب العزت کے نام سے کہ جس نے میری احسن تخلیق فرمائی اور مجھے اچھی صورت پر دنیا میں بھیجا۔ اپنے پسندیدہ دین پر قائم گھرانے میں پیدا کیا اور ہر پل ہر لمحہ میری راہنمائی کی۔

ہاں! اُسی رب العزت کے نام سے کہ میں برائیوں کے سمندر کی جتنی گہرائی میں بھی ڈوبا، اُس نے میرا ضمیر ہمیشہ زندہ رکھا جو مجھے سیدھی راہ سجھاتا رہا۔

اُسی رب العزت کے نام سے کہ جس نے اپنے حبیب رسول اکرم محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی کیا۔ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر لاکھوں درود اور کروڑوں سلام کہ میرے مالک اللہ نے ہمیں اسی کا حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ اللعالمین ہیں اور ہم جیسے گناہگاروں کے لئے نویدِ نجات ہیں۔

اے میرے مالک! میں تیرا بہت ہی گناہگار بندہ ہوں۔ مجھے ہمیشہ سیدھی راہ پر قائم اور اپنی حفظ و امان میں رکھ۔ مجھے تیرے رحم و کرم سے امید ہے کہ تیرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا امتی ہونا ضرور میری بخشش کا سبب ہوگا۔

28 مارچ 2006
 
میری ڈائری کا ایک اور ورق

یکم اپریل ٢٠٠٦ء
سنیچر

یکم اپریل کی مناسبت سے ہمارے یہاں ''اپریل فول'' ایک بہت مشہور اصطلاح ہے۔ اکثر پڑھے لکھے جاہل اس دن ایک بیہودہ حرکت یہ کرتے ہیں کہ کسی جاننے والے یا انجانے بندے کو کوئی جھوٹ بول کر بے وقوف بناتے ہیں، تنگ کرتے ہیں۔ اس حرکت کی تاریخ یہ بیان کی جاتی ہے کہ اسپین میں جب مسلمانوں کی حکومت چھن گئی تو غیر مسلم قابضوں نے وہاں کے مسلمانوں سے وعدہ کیا کہ وہ انہیں بحری جہاز میں کسی دوسری ریاست میں چھوڑ آئیں گے۔ تمام مسلمانوں نے ان پر اعتبار کیا اور بحری جہاز میں سوار ہوگئے۔ بیچ پانی میں جاکر وہ جہاز ڈبودیا گیا اور سارے مسلمان شہید ہوگئے۔ کفار اس دن کی یاد اس لئے مناتے ہیں کہ انہوں نے مسلمانوں کو دھوکہ دے کر ماردیا لیکن افسوس ہے ان نام نہاد مسلمانوں پر جو اس دن کی یاد نجانے کس لئے مناتے ہیں؟
اگر ہمارے معاشرے کی اندرونی سطح پر غور کیا جائے تو بڑے پیمانے پر تبدیلیاں آرہی ہیں۔ اگر کچھ لوگ ماڈرن ازم کو اپنانے میں حد سے بڑھ رہے ہیں تو ایسے لوگوں کی تعداد بھی کچھ کم نہیں جو اب اسلام کو اپنانے کی طرف آرہے ہیں۔ ایسی کئی مثالیں میرے سامنے ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب میں صبح ادارہ کو آنے کے لئے گھر سے نکلتا ہوں تو بس اسٹاپ تک جانے کے لئے ذرا سا پیدل جانا پڑتا ہے۔ میں اکثر صبح دیکھا کرتا کہ ایک لڑکی کھلے بال رکھے، اور چھوٹی قمیض پہنے اکثر جاتی نظر آتی۔ راہ چلتے لوگ اسے گھور گھور کردیکھتے، شاید وہ کسی جگہ ملازمت کرتی ہو۔ کچھ دن پہلے میں نے اسے دیکھا کہ اس نے بال باندھ کر اسکارف پہننا شروع کردیا، اب دو تین دن سے دیکھ رہا ہوں کہ عبایا بھی پہننے لگی ہے۔ اس تبدیلی پر اگرچہ میں اسے مبارکباد تو نہیں دے سکتا لیکن دل کو ایک خوشی ضرور ہوتی ہے، نجانے وہ کون ہے مگر کسی کی بہن ہے، کسی کی بیٹی ہے۔۔۔۔۔ زیادہ تر راہ چلتے لوگ حجاب کی ہوئی لڑکیوں/ عورتوں پر غلط نگاہ نہیں ڈالتے، ہاں! فیشن کرنے والی لڑکیاں تو درحقیقت خود ہی اپنی طرف متوجہ کررہی ہوتی ہیں۔
ہم م م م م م۔۔۔۔۔ موضوع سے ہٹ کر کافی کچھ لکھنے لگا ہوں۔ اب اپنی زندگی کے واقعات کی طرف لوٹ آنے سے پہلے ایک اور بات کا سرسری ذکر کہ پاکستان اور سری لنکا کے درمیان پہلا پانچ روزہ ٹیسٹ میچ برابر ہوگیا ہے۔
 
٢٩/مئی ٢٠٠٦ء
سوموار

آج۔۔۔ ٢٩/مئی٢٠٠٦ء۔۔۔ میری انیسویں سالگرہ ہے۔۔۔ مجھے دنیا میں آئے ہوئے ١٩سال بیت چکے ہیں۔۔۔ ایک طویل عرصہ۔۔۔ اس ١٩سالہ سفر زندگی کے باوجود۔۔۔کتنے رنگ ہےں جو نہیں دیکھے۔۔۔ کتنے ذائقہ ہیں جو چکھے نہ جاسکے۔۔۔ کتنے پل ہےں جو جےے نہ گئے۔۔۔ کتنی مشکلات ہےں جن کا سامنا نہ کیا گیا۔۔۔ کتنی خوشیاں ہیں جن کے لئے ترسا گیا۔۔۔ کتنے درد ہیں جن میں تڑپا نہ گیا۔۔۔
دل کی تمنا ہے کہ بقیہ زندگی مختصر ہو۔۔۔ زیادہ نہ ہو۔۔۔ کوئی خاص وجہ نہیں۔۔۔ مگر تھک چکا ہوں۔۔۔ بہت زیادہ۔۔۔ اب اور جینے کی خواہش نہیں۔۔۔ آرام کرنا چاہتا ہوں۔۔۔
خدا تعالیٰ سے دعا ہے کہ ابرِ رحمت کے سائے تلے رکھے اور سیدھے راستے پر چلائے۔ آمین


عمر کے اُنّیس سال

آج پورے ہوگئے ہیں عمر کے اُنّیس سال
یعنی مجھ سے کھوگئے ہیں عمر کے اُنّیس سال

لاکھ دیتا ہوں صدا، پر لوٹ آتے ہی نہیں
جا کہیں پہ سوگئے ہیں عمر کے اُنّیس سال

ایک پل بھی اب مجھے واپس نہ دیں گے یہ کبھی
دور مجھ سے جو گئے ہیں عمر کے اُنّیس سال

ان شاء اللہ اب کوئی مشکل نہ مشکل پاؤں گا
بیج ایسا بوگئے ہیں عمر کے اُنّیس سال

کوئی پوچھے کیا ہے یہ اُنّیس؟ تو عمار کہہ
دس کے اوپر نو گئے ہیں عمر کے اُنّیس سال

٢٩/مئی ٢٠٠٦ء
 

شمشاد

لائبریرین
خان صاحب بہت اچھا لگا آپ کی ڈائری پڑھ کے۔

لکھتے رہیے۔

اور ہاں ذرا “ تعارف “ کے زمرے میں جا کے اپنا تعارف بھی تو کروائیں۔
 

ماوراء

محفلین
“انسان اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز سے گزرتا ہے۔ کبھی کمال کی بلندیوں کو جا چھوتا ہے، کبھی زوال کی گہرائیوں تک جا پہنچتا ہے۔ ساری زندگی وہ ان ہی دونوں انتہاؤں کے درمیان سفر کرتا رہتا ہے اور جس راستے پر وہ سفر کرتا ہے، وہ شکر کا ہوتا یا نا شکری کا۔ کچھ خوش قسمت ہوتے ہیں وہ زوال کی طرف جائیں یا کمال کی طرف، وہ صرف شکر کے راستے پر ہی سفر کرتے ہیں، چاہے زوال حاصل کریں یا کمال اور کچھ ایسے ہوتے ہیں جو ان دونوں راستوں پر سفر کرتے ہیں۔ کمال کے راستے پر جاتے ہوئے شکر کے اور زوال کی طرف جاتے ہوئے نا شکری کے۔ انسان اللہ کی ان گنت مخلوقات میں سے ایک مخلوق ہے۔ اشرف المخلوقات ہے مگر مخلوق ہی ہے۔ وہ اپنے خالق پر کوئی حق نہیں رکھتا، صرف فرض رکھتا ہے۔ وہ زمین پر ایسے کسی ٹریک ریکارڈ کے ساتھ نہیں اتارا گیا کہ وہ اللہ سے کسی بھی چیز کو اپنا حق سمجھ کر مطالبہ کر سکے مگر اس کے باوجود اس پر اللہ نے اپنی رحمت کا آغاز جنت سے کیا، اس پر نعمتوں کی بارش کر دی گئی اور اس کے بدلے اس سے صرف ایک چیز کا مطالبہ کیا گیا شکر کا۔ کیا محسوس کرتے ہیں آپ! اگر آپ کبھی زندگی میں کسی پر کوئی احسان کریں اور وہ شخص اس احسان کو یاد رکھنے اور آپ کا احسان مند ہونے کے بجائے آپ کو ان مواقع کی یاد دلائے، جب آپ نے اس پر احسان نہیں کیا تھا یا آپ کو یہ جتائے کہ آپ کا احسان اس کے لئے کافی نہیں تھا۔ اگر آپ اس کے لیے “یہ“ کر دیتے یا “وہ“ کر دیتے تو زیادہ خوش ہوتا۔ کیا کریں گے آپ ایسے شخص کے ساتھ؟ دوبارہ احسان کرنا تو ایک طرف، آپ تو شاید اس سے تعلق رکھنا تک پسند نہ کریں۔ ہم اللہ کے ساتھ یہی کرتے ہیں۔ اس کی نعمتوں اور رحمتوں پر اس کا شکر ادا کرنے کے بجائے ہم ان چیزوں کے نہ ملنے پر کڑھتے رہتے ہیں۔ جنہیں ہم حاصل کرنا چاہتے تھے۔ اللہ پھر بھی رحیم ہے، وہ ہم پر اپنی نعمتیں نازل کرتا رہتا ہے۔ ان کی تعداد میں ہمارے اعمال کے مطابق کمی بیشی کرتا رہتا ہے مگر ان کا سلسلہ کبھی بھی مکمل طور پر منقطع نہیں کرتا۔“

پیر کامل صلی اللہ علیہ والٰہ وسلم از عمیرہ احمد۔
 

ماوراء

محفلین
“اسلام کو سمجھ کر سیکھیں تو آپ کو پتہ چلے گا کہ اس میں کتنی وسعت ہے۔ یہ تنگ نظری اور تنگ دل کا دین نہیں ہے نہ ہی ان دونوں چیزوں کی اس میں گنجائش ہے۔ یہ میں سے شروع ہو کر ہم پر جاتا ہے۔ فرد سے معاشرے تک۔ اسلام آپ سے یہ نہیں کہتا کہ آپ چوبیس گھنٹے سر پر ٹوپی، ہاتھ میں تسبیح پکڑے ہر جگہ مصلٰے بچھائے بیٹھے رہیں۔ ہر بات میں اس کا حوالے دیتے رہیں۔ نہیں، یہ تو آپ کی زندگی سے۔۔۔۔۔آپ کی اپنی زندگی سے حوالہ چاہتا ہے۔ یہ تو آپ سے راست بازی اور پارسائی کا مطالبہ کرتا ہے۔ دیانتداری اور لگن چاہتا ہے۔ اخلاص اور استقامت مانگتا ہے۔ ایک اچھا مسلمان اپنی باتوں سے نہیں اپنے کردار سے دوسروں کو متاثر کرتا ہے۔“
 
Top