میری ڈائری کا ایک ورق

شمشاد

لائبریرین
ماں
حضرت موسٰی علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر تھے۔ آپ جب کوہ طور پر اللہ تعالٰی سے ہمکلام ہونے کے لیے جاتے تو آپ کی سلامتی کی دعا آپ کی والدہ کے مقدس لبوں پر ہوتی تھی۔ والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد جب آپ کوہ طور پر جا رہے تھے تو غیب سے آواز آئی “ اے موسٰی ذرا سنمبھل کر چل۔ اب تمہارے لیے دعا کرنے والے لب خاموش ہیں۔“
 

عمر سیف

محفلین
حجاب نے کہا:
[align=right:be244e1e4b]تم نے کبھی ایک محبت بھرے دل کو کسی کی محبت کے ہاتھوں قتل ہوتے دیکھا ہے؟ محبت جب محبت کو مارنے چلے تو قضا سے زیادہ تکلیف دیتی ہے،جسم سے روح کھینچ لیتی ہے،پر سانس چھوڑ دیتی ہے۔جسم کو پانی بھرا چھالا بنا دیتی ہے ،تکلیف دہ،اذیت ناک۔
مجھ سے بحبت کے خدا نے پوچھا۔اے میری پیاری،تیری چشمِ بینا وہ دکھ نہیں دیکھ سکتی جو میں دیکھ پاؤں،سو تو اپنی محبت کو بخش دے کسی اور کے نام پر۔
میں نے جھولی پھیلا کر محبت کی خیرات مانگی،خود دکھ مستعار مانگا،دینے والے نے میری جھولی بھر دی اور اب محبت خون بن کر میری رگوں میں دوڑتی ہے اور آنکھوں سے رستی ہے،روز میری محبت پر کوڑے برسائے جاتے ہیں،میں مطلوب کے سمندر سے روز طالب بن کر سوال کرتی ہوں ،پر خالی ہاتھ لوٹتی ہوں۔نہیں جانتی کہ محبت اتنی تکلیف دہ ہے یا میرا نصیب، یا میرا نصیب ہی ادھ جلی لکڑی کی طرح ہے جو سلگتا ہی رہتا ہے،کوئی جھونکا اس کی تیزی کو ذرا کی ذرا بھڑکاتا ہے اور پھر کسی رویے کی سردی اس آگ کو دھیما کردیتی ہے یا شائد میری سوچ سرد پڑ چکی ہے یا پھر شائد میرے ذہن میں ایک موسم آکر جم گیا ہے،خزاں کا ،اداسی کا،بے کلی کا، کوئی تو ہو جو پل دو پل کو ہی سہی، دھیمے سے میرے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر بے آواز لبوں سے اور بولتی آنکھوں کے ساتھ ہولے سے یہ کہہ دے ، چلو ، اپنے دکھ اور خوشیاں آدھی بانٹ لیں ،میری کچھ خوشیاں تم جی لو ،تمہارے کچھ دکھ میں سہہ لوں، کوئی تو ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(عفت جیا کی تصنیف۔ابھی ہے وقت مٹّھی میں ۔ سے اقتباس)
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:be244e1e4b]
اچھا اقتباس ہے۔
 

عمر سیف

محفلین
شمشاد نے کہا:
ماں
حضرت موسٰی علیہ السلام جلیل القدر پیغمبر تھے۔ آپ جب کوہ طور پر اللہ تعالٰی سے ہمکلام ہونے کے لیے جاتے تو آپ کی سلامتی کی دعا آپ کی والدہ کے مقدس لبوں پر ہوتی تھی۔ والدہ محترمہ کے انتقال کے بعد جب آپ کوہ طور پر جا رہے تھے تو غیب سے آواز آئی “ اے موسٰی ذرا سنمبھل کر چل۔ اب تمہارے لیے دعا کرنے والے لب خاموش ہیں۔“
:( :(
 

شمشاد

لائبریرین
مجھے بھی یہی خیال آیا تھا لیکن میں نے لکھا نہیں۔

دعا ہے اللہ کریم ان پر بےشمار رحمتیں نازل فرمائے۔
 

عمر سیف

محفلین
کمال کی بات یہ ہے کہ وہ اپنے کمرے میں سو رہی ہیں۔ پر پھر بھی یاد آ رہی ہیں۔ اللہ سب کی ماؤں کو سلامت رکھے۔ آمین۔
 

شمشاد

لائبریرین
فن
اس دور کی ارزاں ترین چیز جسے عدم نے دو بوتلوں کے عوض بیچ دیا، ساحر نے مفلسی کے ہاتھوں اسے فلمی دنیا کے حوالے کر دیا، غالب نے مغل درباروں اور شاہی خاندانوں کی مدح سرائی کی میراث بنا دیا۔

میں نے جب تک فن سے پیار کیا، مجھے فاقے ملے اور جب بیچ دیا تو سب کچھ مل گیا۔
(ساحر)
 

شمشاد

لائبریرین
وقت

گزرتا ہوا وقت بھی عجیب چیز ہے۔ یہ کچھ کے لیے امید کا پیغام اور کچھ کے لیے نقارہ تباہی ثابت ہوتا ہے۔ وقت کا سب سے بڑا المیہ یا خوشی یہ ہے کہ یہ رواں رہتا ہے، رکتا نہیں۔

جس دن کی خوشی کے لیے انسان ساری زندگی محنت کرتا ہے وہ دن بھی گزر جاتا ہے اور جس گھڑی کے خوف سے انسان ساری زندگی لرزاں رہتا ہے، وہ گھڑی بھی گزر جاتی ہے۔
 

ظفری

لائبریرین
خلافِ فطرت واقعہ رونما ہوجائے تو اس پر اظہارِ حیرت فطرت کے عین مطابق ہے ۔ مگر کچھ لوگ اپنی عقل و فہم کے مطابق توقعات باندھ لیتے ہیں ۔ جن کے پورا نہ ہونے پر انہیں اس سےزیادہ عجیب لگتا ہے ، جتنا کسی خلافِ معمول امر کے ہونے پر لگنا چاہیئے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
نیند کیوں رات بھر نہیں آتی

نیند تو صحت کے لیے نہایت ضروری چیز ہے۔ لیکن یاد رکھیئے خواب آور گولیوں کا استعمال خطرے سے خالی نہیں۔ اس لیے سمجھدار لوگ، ادیب، شاعر، تاجر پیشہ، عشق پیشہ حضرات نیند لانے کے لیے ہمارے ہاں کی حسبِ ذیل مطبوعات استعمال کرتے ہیں۔

۔۔۔ جدید لسانیات کے اساسی اصول، 100 صفحے، قیمت 4 روپے

۔۔۔ تنقید کے مابعد الطبیعاتی نظریات، 216 صفحے، قیمت 6 روپے

فیملی سائز مطلوب ہو تو حضرت خوگوش لکھنوی کا تازہ ترین ناول “ خوابِ خرگوش“ استعمال کیجیئے۔ 125 صفحات پر محیط اس لاثانی تحفے کی قیمت فقط 18 روپے۔ محصول ڈاک معاف۔

خوراک :

1) بڑوں کے لیے چار سے آٹھ صفحے
2) بچوں کے لیے دو صفحے
3) تین سال سے کم عمر بچوں کو فقط کتاب کی شکل دکھا دینا کافی ہے۔
4) مقررہ خوراک سے زیادہ استعمال نہ کیجیئے۔ خراٹے آنے کا ڈر ہے۔

(ابن انشاء کے کالم “ ہماری کمرشل سروس“ سے)
 

حجاب

محفلین
[align=right:079865ad83]زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں ، وہاں حروف اہم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عزّو جل ہوتا ہے ۔کوئی ماں ، کوئی باپ ، بہن بھائی ، کوئی دوست نہیں ہوتا پھر ہمیں پتہ چلتا ہے ، ہمارے پیروں کے نیچے کوئی زمین ہے نہ سر کے اوپر آسمان، بس ایک اللہ تعالیٰ عزّوجل ہے جو ہمیں اس خلاء میں بھی تھامے ہوئے ہے پھر پتہ چلتا ہے کہ ہم زمین پر پڑی مٹّی کے ڈھیر میں پڑے ایک ذرّے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتّے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے پھر پتہ چلتا ہے ،ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے ،صرف ہمارا کردار ختم ہوجاتا ہے ۔کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمیرہ احمد کے ناول ۔پیرِ کامل صلّی اللہُ علیہ وسلّم ، سے اقتباس ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:079865ad83]
 

ظفری

لائبریرین
حجاب نے کہا:
[align=right:6b731ea7f3]زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں ، وہاں حروف اہم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عزّو جل ہوتا ہے ۔کوئی ماں ، کوئی باپ ، بہن بھائی ، کوئی دوست نہیں ہوتا پھر ہمیں پتہ چلتا ہے ، ہمارے پیروں کے نیچے کوئی زمین ہے نہ سر کے اوپر آسمان، بس ایک اللہ تعالیٰ عزّوجل ہے جو ہمیں اس خلاء میں بھی تھامے ہوئے ہے پھر پتہ چلتا ہے کہ ہم زمین پر پڑی مٹّی کے ڈھیر میں پڑے ایک ذرّے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتّے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے پھر پتہ چلتا ہے ،ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے ،صرف ہمارا کردار ختم ہوجاتا ہے ۔کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمیرہ احمد کے ناول ۔پیرِ کامل صلّی اللہُ علیہ وسلّم ، سے اقتباس ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:6b731ea7f3]

جزاک اللہ ۔۔۔ اقتباس واقعی ، ایمان والوں کے لیے ایک بھرپور حقیقت ہے ۔
 

ظفری

لائبریرین
خوشی کے لمحات مختصر ہوتے ہیں ۔ جبکہ دکھ اور تکلیف کا دورانیہ کم ہو تو تب بھی بہت لگتا ہے اور ان کے گزرجاتے کے بعد انہیں بھلا دینا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔ تاہم وقت گذرنے کے ساتھ سب زخم مندمل ہوجاتے ہیں لیکن اگر یہی زخم کبھی دوبارہ ہرا ہوجائے تو تکلیف کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔
 

ماوراء

محفلین
حجاب نے کہا:
[align=right:2a044f781d]زندگی میں ہم کبھی نہ کبھی اس مقام پر آ جاتے ہیں جہاں سارے رشتے ختم ہو جاتے ہیں ، وہاں حروف اہم ہوتے ہیں اور اللہ تعالیٰ عزّو جل ہوتا ہے ۔کوئی ماں ، کوئی باپ ، بہن بھائی ، کوئی دوست نہیں ہوتا پھر ہمیں پتہ چلتا ہے ، ہمارے پیروں کے نیچے کوئی زمین ہے نہ سر کے اوپر آسمان، بس ایک اللہ تعالیٰ عزّوجل ہے جو ہمیں اس خلاء میں بھی تھامے ہوئے ہے پھر پتہ چلتا ہے کہ ہم زمین پر پڑی مٹّی کے ڈھیر میں پڑے ایک ذرّے یا درخت پر لگے ہوئے ایک پتّے سے زیادہ کی وقعت نہیں رکھتے پھر پتہ چلتا ہے ،ہمارے ہونے یا نہ ہونے سے صرف ہمیں فرق پڑتا ہے ،صرف ہمارا کردار ختم ہوجاتا ہے ۔کائنات میں کوئی تبدیلی نہیں آتی ، کسی چیز پر کوئی اثر نہیں پڑتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عمیرہ احمد کے ناول ۔پیرِ کامل صلّی اللہُ علیہ وسلّم ، سے اقتباس ۔
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
[/align:2a044f781d]

زبردست۔ اور بالکل سچ۔ :(
 

ماوراء

محفلین
ظفری نے کہا:
خوشی کے لمحات مختصر ہوتے ہیں ۔ جبکہ دکھ اور تکلیف کا دورانیہ کم ہو تو تب بھی بہت لگتا ہے اور ان کے گزرجاتے کے بعد انہیں بھلا دینا آسان نہیں ہوتا ۔۔۔ تاہم وقت گذرنے کے ساتھ سب زخم مندمل ہوجاتے ہیں لیکن اگر یہی زخم کبھی دوبارہ ہرا ہوجائے تو تکلیف کی شدت کئی گنا بڑھ جاتی ہے ۔
کیا یہ آپ کے اپنے خیالات ہیں؟

ویسے میرے خیال میں ہماری زندگی میں خوشی کے لمحات زیادہ ہوتے ہیں۔ ہر وہ لمحہ، دن جو آرام و سکون سے گزر جائے میرے لیے سب سے بڑی خوشی یہی ہے۔ ہاں یہ الگ بات ہے کہ ہم اکثر خوشیوں کو بھرپور انداز میں محسوس نہیں کر پاتے۔ اور اکثر دکھوں کو ہم ساری زندگی سینوں سے لگائے رکھتے ہیں۔
 
Top