میری ڈائری کا ایک ورق

عمر سیف

محفلین
نوکر

ہمارے کال میں ماہرِ اقتصادیات تھے۔ ایک دن ہم نے ان کا اشتہار اخبار میں پڑھا جو انہوں نے نوکر کے لیے دیا تھا، اشتہار کا ایک ایک لفظ چلا چلا کر اقتصادیات پنے کی شکایت کر رہا تھا۔ لکھا تھا۔

‘‘ ضرورت ہے ایک نوجوان صالح، خوش خصال و اطوار کی جس پر پورا پورا بھروسہ کیا جا سکے۔ اعلٰی درجے کے اخلاق کا مالک ہو، نہایت تندرست اور توانا ہو، سگریٹ پینے والے بالکل درخواست نہ دیں۔ اچھے خاندان والے کو ترجیح دی جائے گی، خوش خط ہو، پرندوں سے محبت کرتا ہو، زندہ دل ہو، مصیبت میں ہرگز نہ گھبرائے، کفایت شعار ہو، موٹر بھی چلا سکتا ہو، جوتوں کی مرمت بھی کرسکتا ہو، بندوق چلا سکتا ہو، چارپائی بُن سکتا ہو، حساب کا ماہر ہو، ضرورت پر حجام کا کام بھی باخوبی انجام دے سکتا ہو، کپڑے دھو سکتا ہو، تنخواہ پندرہ سو روپے ماہوار دی جائے گی۔ پہلے چھ ماہ ملازمت عارضی ہوگی۔ اس کے بعد ڈیڑھ سو روپے ماہوار الاؤنس ملے گا‘‘۔

[align=left:baa2028aac]پرواز۔ از شفیق الرحمٰن۔[/align:baa2028aac]
 

شمشاد

لائبریرین
بہت خوب ضبط بھائی

مجھے امید ہے ایسا نوکر نہ اس زمانے میں ملا ہو گا اور نہ ہی آج کے دور میں ملے گا۔
 

شمشاد

لائبریرین
ایک اچھے ہمسائے کے لیے

ضروری اجزاء :

زبان ایک عدد جو برا نہ بولے
دل ایک عدد جو مہربان اور بڑا ہو
دماغ ایک عدد جس میں قوتِ برداشت ہو
آنکھیں دو عدد جو دوسروں کی برائیاں نہ دیکھیں
ہاتھ دو عدد جو دوسروں کی مدد کو بڑھیں
کان دو عدد جو افواہ نہ سنیں
چٹکی بھر مسکراہٹ اور خوشی

ترکیب :

سب اجزاء آپسمیں اچھی طرح ملا لیں۔ جب اچھی طرح مل جائیں تو تھوڑا تھوڑا کر کے ہر اس شخص کو روزانہ دیں جس سے آپ ملیں۔
 

عمر سیف

محفلین
‘‘ ماں کا دل ‘‘

ابّا جی مجھے مارتے تھی تو امی بچا لیتی تھیں۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امّی پٹائی کر دیں گی تو ابّا کیا کریں گے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہا نہ مانا۔ انہوں نے کہا کے بازار سے دہی لادو۔ میں لینے نہیں گیا۔ انہوں نے سالن کم کر دیا۔ میں نے زیادہ اصرار کیا۔ میں نے کپڑے میلے کر لیے، میرا لہجہ بھی گستاخانہ تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی مجھے ضرور ماریں گی۔ انہوں نے یہ کیا کہ مجھے سینے سے لگا کر کہا ‘‘ کیوں دلور پُتر میں صدقے بیمار تو نہیں تو ‘‘۔
اس وقت میرے آنسو تھے کے رُکتے نہیں تھے۔
( مرزا ادیب کو امی پیار سے دلور کہتی تھیں)

[align=left:b6a0d4a8b8]مرزا ادیب کی خود نوشت سوانخ “ مِٹی کا دیا “ سے اقتباس ۔۔۔[/align:b6a0d4a8b8]
 

ماوراء

محفلین
ضبط نے کہا:
‘‘ ماں کا دل ‘‘

ابّا جی مجھے مارتے تھی تو امی بچا لیتی تھیں۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امّی پٹائی کر دیں گی تو ابّا کیا کریں گے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہا نہ مانا۔ انہوں نے کہا کے بازار سے دہی لادو۔ میں لینے نہیں گیا۔ انہوں نے سالن کم کر دیا۔ میں نے زیادہ اصرار کیا۔ میں نے کپڑے میلے کر لیے، میرا لہجہ بھی گستاخانہ تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی مجھے ضرور ماریں گی۔ انہوں نے یہ کیا کہ مجھے سینے سے لگا کر کہا ‘‘ کیوں دلور پُتر میں صدقے بیمار تو نہیں تو ‘‘۔
اس وقت میرے آنسو تھے کے رُکتے نہیں تھے۔
( مرزا ادیب کو امی پیار سے دلور کہتی تھیں)

[align=left:8a89ce8fe9]مرزا ادیب کی خود نوشت سوانخ “ مِٹی کا دیا “ سے اقتباس ۔۔۔[/align:8a89ce8fe9]
واہ۔ بہت خوب۔
:cry:
 

سارہ خان

محفلین
بہت خوب ضبط۔۔۔ یہ میرا بھی پسندیدہ اقتباس ہے۔۔۔۔ واقعی ماں کے دل جیسا دنیا میں کسی کا دل نہیں ہو سکتا۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
ہر چیز کی مدت اور میعاد ہوتی ہے سوائے انسان کے

انسان کی زندگی :

پانی کا بلبلہ
ہوا کے دوش پہ رکھا چراغ
پلک سے گرتا ہوا آنسو
ہوا کا جھونکا
 

حجاب

محفلین
کسی مفکر کا قول ہے کہ " بد نصیب ہے وہ شخص جس پر کوئی اعتماد نہ کرتا ہو اور اُس سے بھی بدتر ہے وہ شخص جو کسی کو اعتماد کے قابل نہ سمجھے“ دراصل اعتماد ہی وہ قوت اور طاقت ہے جو ہمیں دوسروں کے قریب لاتی ہے اور اسی کے ذریعے دوسرے ہمارے قریب آتے ہیں ۔جو لوگ دوسروں سے الگ تھلگ اور اپنی ذات کے خول میں بند رہتے ہیں ، کبھی پُرسکون اور مطمئن زندگی نہیں گزار سکتے ۔کسی پر اعتماد نہ کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم دوسروں کے بارے میں نفرت ، خوف اور شک و شبہات کا شکار ہیں اور جہاں یہ چیزیں ہوں وہاں اعتماد کا احساس ہرگز نہیں پنپ سکتا بلکہ ایسا شخص تناؤ ، افسردگی ، اضمحلال ، بدمزاجی ، اور غم و غصّے کا شکار رہتا ہے اور کئی قسم کی نفسیاتی پیچیدگیاں بھی اُسے گھیر سکتی ہیں ۔کیونکہ حیاتیاتی اور فطری طور پر ہمیں ایسے لوگوں اور ماحول کی ضرورت ہوتی ہے جس سے ہم متعلق ہوں ، جہاں ہم دیکھے جائیں ، جہاں ہمیں خوش آمدید کہا جائے ، اور جہاں ہمیں سُنا جائے ۔لازمی سی بات ہے کہ ایسے ماحول کے لیئے ہمیں با اعتماد دوستوں کی ضرورت ہوتی ہے جو ہمیں سمجھتے ہوں اور جنہیں ہم سمجھ سکیں ۔
امریکہ میں مقیم ڈاکٹر سیّد اسلم کے بقول " جن افراد کے خیر خواہ دوست زیادہ ہوتے ہیں وہ زیادہ صحت مند رہتے ہیں کیونکہ وہ اپنی باتیں سُنا کر ، اپنے دل کا بوجھ ہلکا کرکے زیادہ طاقت ور ہوجاتے ہیں ، اس لیئے کہ انہیں اظہارِ ذات کا پوری طرح موقع مل جاتا ہے ۔“ یہ چیز بھی دیکھی گئی ہے کہ اگر کوئی شخص ہماری پریشانی سُن کر توجہ و دل سوزی سے تسلی ہی دیدے یا صرف حوصلہ افزائی ہی کردے ، خواہ مسئلہ حل نہ ہو اور مادّی طور پر وہ کوئی اعانت بھی نہ کرے ، اس کے باوجود ہماری شخصیت پر اس کا مثبت اثر ہوتا ہے ۔ گفتگو کرنے سے مسائل کی تفہیم و تشریح بہتر انداز سے ہوجاتی ہے اور ہم ان پر ٹھنڈے دل و دماغ سے غور کرنے پر آمادہ ہو جاتے ہیں ۔مایوسی کا گراف گِر جاتا ہے اور مسائل کو حل کرنے کے لیئے ایک نئی تحریک پیدا ہوتی ہے اور سچّی بات تو یہ ہے کہ بیشتر افراد کو اسی تحریک کی ضرورت ہوتی ہے پھر جلد یا بدیر مسائل کا کوئی نہ کوئی حل تو وہ نکال ہی لیتے ہیں ۔
ڈاکٹر کرسچین برناڈ قلب کے معروف سرجن ہیں ، اُن کا کہنا ہے کہ ۔"دنیا کے کسی بھی کونے میں رہنے والے انسان کو بااعتماد دوستوں کی ضرورت ہمیشہ رہتی ہے ، کیونکہ ہمارا جسم بعض اوقات " بھاپ کا انجن “ ہوتا ہے جس کے دریچے سے گاہے بگاہے بھاپ کا اخراج ہونا ضروری ہوتا ہے تاکہ اس کا میکنزم ٹھیک طرح کام کرتا رہے ۔اپنے مسائل کو بااعتماد لوگوں سے بیان کرنے سے عفونت ، سرطان ، کرب اور عارضہ قلب کم ہوتے ہیں اور اپنی کمزوریوں کے اعتراف سے طاقت میں اضافہ ہوتا ہے ۔جو لوگ اس بھاپ کو اپنے وجود کے اندر رکھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ دوسرے معنوں میں اپنے دل و جان کے دشمن بنے ہوئے ہیں ۔میں مریضوں کو ڈسچارج کرتے وقت ایک بات ضرور کہتا ہوں کہ ایسے با اعتماد دوست بناؤ جو تمہیں سُن سکیں اور جنہیں تم بھی سُن سکو۔“
دراصل ہم عموماً جن مسائل میں الجھے رہتے ہیں وہ بعض اوقات ہماری نظر میں دوسروں سے مختلف ہوسکتے ہیں لیکن جب ہم اپنے کسی با اعتماد دوست سے ان پر بات کرتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہماری سوچ درست نہیں تھی بلکہ دیگر کئی لوگ بھی اسی قسم کے مسائل سے دوچار ہیں ، پھر ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہم جس نفرت ، خوف یا پریشانی میں گرفتار ہیں ، اس سے تو بیشتر لوگوں کا واسطہ رہتا ہے ۔گویا یہ چیز ہمیں زندگی کے حقائق کو سمجھنے اور ان سے مقابلہ کرنے میں خاصی مدد گار اور معاوِن ثابت ہوتی ہے ۔
نفسیات کے ماہرین کی اکثریت اس بات سے اتفاق کرتی ہے کہ جیسے جیسے لوگوں کا ایک دوسرے پر اعتماد کمزور پڑتا جا رہا ہے، روحانی اقدار کو زوال اور مادّہ پرستی کو اہمیت دی جا رہی ہے اور لوگ باہمی میل جول کے بجائے انفرادی زندگی گزارنے کی طرف گامزن ہو رہے ہیں اسی اعتبار سے لوگوں میں نفسیاتی مسائل بھی بڑھ رہے ہیں ۔ اینگزائٹی اور ڈپریشن جس کی بڑی مثالیں ہیں ان امراض کے شکار افراد کے ساتھ بھی سب سے بڑا مسئلہ یہی ہوتا ہے کہ وہ کسی پر اعتماد نہیں کرتے اور پوری دنیا اُنہیں بے حس، مفاد پرست اور ظالم نظر آتی ہے ، اُن کا اس سے زیادہ بہتر علاج اور کوئی نہیں ہو سکتا کہ اُنہیں دوسروں پر اعتماد کرنا سکھا دیا جائے ۔
نفسیاتی ہی نہیں سائنسی طور پر بھی یہ چیز ثابت ہوئی ہے کہ با اعتماد دوستوں کو حالِ دل سُنانے سے صحت پر مثبت اثرات واقع ہوتے ہیں ۔اس ضمن میں نیویارک اسٹیٹ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایک ہفتے تک تقریباً سو سے زائد مردوں اور عورتوں کے بلڈ پریشر کا مشاہدہ کیا ۔انہیں پتہ چلا کہ جب با اعتماد دوست آپس میں گفتگو کر رہے تھے تو اُن کا بلڈ پریشر اُس سے کم رہا جتنا اُس وقت تھا جب وہ کسی اجنبی سے بات کر رہے تھے ۔یہ فرق زیادہ نہ سہی لیکن اس تھوڑے سے فرق کے بھی صحت پر نمایاں اثرات ظاہر ہوتے ہیں ۔اس کی وجہ سائنسدانوں نے یہ بتائی کہ اجنبی یا ایسے لوگ جن کے بارے میں ہم زیادہ نہیں جانتے اُن سے گفتگو کرتے وقت ہم محتاط رہتے ہیں جبکہ با اعتماد دوستوں سے گفتگو کے دوران ہم زیادہ بے پرواہ اور پُرسکون ہوتے ہیں ۔
با اعتماد ، ہمدرد اور اچھا دوست ایک بڑی نعمت ہے اور یقیناً خوش نصیب ہیں وہ لوگ جنہیں ایسے افراد کی قربت حاصل ہے اور جو اُن کی قدر کرتے ہیں ، خواہ وہ بیوی ، شوہر ، دوست ، سہیلی ، بہن بھائی ، والدین یا کسی بھی روپ میں ہوں اور کوئی وجہ نہیں کہ آپ ایسے خوش نصیبوں میں شامل نہ ہو سکیں تاہم اس کے لیئے پہلے آپ کو خود اپنے آپ کو دوسروں کے لیئے قابلِ بھروسہ بنانا پڑے گا ۔
اور آخر میں ایک سب سے اہم بات یہ کہ دوسروں پر اعتماد کرنے کا مطلب بھی ایک طرح سے اپنی ہی ذات پر اعتماد کرنا ہے ۔
یہی وجہ تھی کہ آسکر وائلڈ اکثر کہا کرتا تھا کہ " میں اپنے دوستوں پر اعتماد کرتا ہوں اور میرے دوست اُسے میری خود اعتمادی کا نام دیتے ہیں ۔"
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪ ( ریاض احمد منصوری کا اداریہ ) ٪٪٪٪٪
 

شمشاد

لائبریرین
حجاب صاحبہ
0008.gif
اقتباس ہے۔

بھلا دوستوں کے بغیر بھی کوئی زندگی ہے۔
 
Top