ماوراء
محفلین
“پیرکامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ سے اقتباس تھا۔شمشاد نے کہا:بہت خوبصورت ہے۔ کہیں سے اقتباس لیا ہے یا خود سے لکھا ہے؟
“پیرکامل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم“ سے اقتباس تھا۔شمشاد نے کہا:بہت خوبصورت ہے۔ کہیں سے اقتباس لیا ہے یا خود سے لکھا ہے؟
ضبط نے کہا:شکریہ۔
شوہر بھی تو اکثر یہی کام کرتے دیکھے جاتے ہیں۔
شمشاد نے کہا:ضبط نے کہا:شکریہ۔
شوہر بھی تو اکثر یہی کام کرتے دیکھے جاتے ہیں۔
جی بجا ارشاد لیکن انہیں تنخواہ نہیں ملتی۔
ضبط نے کہا:ایسے ہمسائے بھی کہاں ملتے ہیں۔
واہ۔ بہت خوب۔ضبط نے کہا:‘‘ ماں کا دل ‘‘
ابّا جی مجھے مارتے تھی تو امی بچا لیتی تھیں۔ ایک دن میں نے سوچا کہ اگر امّی پٹائی کر دیں گی تو ابّا کیا کریں گے اور یہ دیکھنے کے لیے کہ کیا ہوتا ہے میں نے امی کا کہا نہ مانا۔ انہوں نے کہا کے بازار سے دہی لادو۔ میں لینے نہیں گیا۔ انہوں نے سالن کم کر دیا۔ میں نے زیادہ اصرار کیا۔ میں نے کپڑے میلے کر لیے، میرا لہجہ بھی گستاخانہ تھا۔ مجھے پوری توقع تھی کہ امی مجھے ضرور ماریں گی۔ انہوں نے یہ کیا کہ مجھے سینے سے لگا کر کہا ‘‘ کیوں دلور پُتر میں صدقے بیمار تو نہیں تو ‘‘۔
اس وقت میرے آنسو تھے کے رُکتے نہیں تھے۔
( مرزا ادیب کو امی پیار سے دلور کہتی تھیں)
[align=left:8a89ce8fe9]مرزا ادیب کی خود نوشت سوانخ “ مِٹی کا دیا “ سے اقتباس ۔۔۔[/align:8a89ce8fe9]
واقعی۔سارہ خان نے کہا:بہت خوب ضبط۔۔۔ یہ میرا بھی پسندیدہ اقتباس ہے۔۔۔۔ واقعی ماں کے دل جیسا دنیا میں کسی کا دل نہیں ہو سکتا۔۔۔
شمشاد نے کہا:ہر چیز کی مدت اور میعاد ہوتی ہے سوائے انسان کے
انسان کی زندگی :
پانی کا بلبلہ
ہوا کے دوش پہ رکھا چراغ
پلک سے گرتا ہوا آنسو
ہوا کا جھونکا