بہت اچھا جناباقبال کی برکتیں
“ارے میاں ضربِ کلیم ! بھئ کہاں ہو ضربِ کلیم“
“میاں ضربِ کلیم - ابھی تک زبورِ عجم کو اسکول لے کر نہیں گئے۔ جاؤ اور ذرا پیامِ مشرق کو میرے پاس بھیج دو۔“
“مولوی صاحب یہ کیا؟“ میں نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا، “یہ ضربِ کلیم، یہ زبورِ عجم - - - - “
“ہاں میاں، مولوی عبدالصمد خان نے فخر سے اپنی گنجی چندیا کھجاتے ہوئے کہا “مجھے اقبال سے بڑی عقیدت ہے، وہ میرے محسن ہیں، وہ میرے رزاق ہیں، انہوں نے میرا گھر بھر دیا، میں ان کا معتقد ہوں۔ میں نے اظہارِ عقیدت کے طور پر اپنے سب بچوں کے نام ان کی تصانیف پر رکھ دیے ہیں۔“
“ضربِ کلیم چھٹی کلاس میں پڑھتا ہے، بی بی زبورِ عجم دوسری جماعت کی طالبہ ہے، پیامِ مشرق گھڑی سازی کی دکان پر کام سیکھ رہا ہے اور کلامِ جبریل قرآن پاک حفظ کر رہا ہے۔ اور میری بڑی بیٹی اسرارِ خودی کالج کی طالبہ ہے اور میں نے اپنی بیوی کا نام بھی غفورن بی بی چھوڑ کر بانگِ درا رکھ چھوڑا ہے۔“
اتنے میں اندر سے دستک ہوئی۔ “ذرا سُنیے مولوی صاحب “
مولوی صاحب دروازے کی طرف لپکے، “ہاں پھوپھی فاطمہ، کوئی خوشخبری ہے کیا؟“
“ہاں مولوی صاحب! مبارک ہو، خدا نے آپکو جڑواں بچے دیئے ہیں اور دونوں ہی لڑکے ہیں۔“
مولوی صاحب آ کر بیٹھ گئے۔ خوشی سے ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔
“خدا نے دو بچے ایک دم عطا کیے ہیں میاں۔“
“مبارک باد قبول کریں مولوی صاحب!“
“ہاں میاں! خدا کا احسان ہے۔ اچھا میاں! خدا تمہاری خیر کرے، ان کے نام تو بتاؤ۔ اقبال کی کتابوں کے نام تو قریب قریب ختم ہو گئے۔ تاہم دماغ لڑاؤ اور کوئی اچھے سے دو نام سوچو۔“
“سوچ لیئے، مولوی صاحب! سوچ لیئے۔“
“ہاں ہاں بتاؤ۔“
“شکوہ اور جوابِ شکوہ“
(ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب “سدا بہار“ سے اقتباس)
بہت اچھا جناباقبال کی برکتیں
“ارے میاں ضربِ کلیم ! بھئ کہاں ہو ضربِ کلیم“
“میاں ضربِ کلیم - ابھی تک زبورِ عجم کو اسکول لے کر نہیں گئے۔ جاؤ اور ذرا پیامِ مشرق کو میرے پاس بھیج دو۔“
“مولوی صاحب یہ کیا؟“ میں نے حیرت زدگی کے عالم میں پوچھا، “یہ ضربِ کلیم، یہ زبورِ عجم - - - - “
“ہاں میاں، مولوی عبدالصمد خان نے فخر سے اپنی گنجی چندیا کھجاتے ہوئے کہا “مجھے اقبال سے بڑی عقیدت ہے، وہ میرے محسن ہیں، وہ میرے رزاق ہیں، انہوں نے میرا گھر بھر دیا، میں ان کا معتقد ہوں۔ میں نے اظہارِ عقیدت کے طور پر اپنے سب بچوں کے نام ان کی تصانیف پر رکھ دیے ہیں۔“
“ضربِ کلیم چھٹی کلاس میں پڑھتا ہے، بی بی زبورِ عجم دوسری جماعت کی طالبہ ہے، پیامِ مشرق گھڑی سازی کی دکان پر کام سیکھ رہا ہے اور کلامِ جبریل قرآن پاک حفظ کر رہا ہے۔ اور میری بڑی بیٹی اسرارِ خودی کالج کی طالبہ ہے اور میں نے اپنی بیوی کا نام بھی غفورن بی بی چھوڑ کر بانگِ درا رکھ چھوڑا ہے۔“
اتنے میں اندر سے دستک ہوئی۔ “ذرا سُنیے مولوی صاحب “
مولوی صاحب دروازے کی طرف لپکے، “ہاں پھوپھی فاطمہ، کوئی خوشخبری ہے کیا؟“
“ہاں مولوی صاحب! مبارک ہو، خدا نے آپکو جڑواں بچے دیئے ہیں اور دونوں ہی لڑکے ہیں۔“
مولوی صاحب آ کر بیٹھ گئے۔ خوشی سے ان کا چہرہ تمتما رہا تھا۔
“خدا نے دو بچے ایک دم عطا کیے ہیں میاں۔“
“مبارک باد قبول کریں مولوی صاحب!“
“ہاں میاں! خدا کا احسان ہے۔ اچھا میاں! خدا تمہاری خیر کرے، ان کے نام تو بتاؤ۔ اقبال کی کتابوں کے نام تو قریب قریب ختم ہو گئے۔ تاہم دماغ لڑاؤ اور کوئی اچھے سے دو نام سوچو۔“
“سوچ لیئے، مولوی صاحب! سوچ لیئے۔“
“ہاں ہاں بتاؤ۔“
“شکوہ اور جوابِ شکوہ“
(ڈاکٹر صفدر محمود کی کتاب “سدا بہار“ سے اقتباس)