کئی سال پہلے لکھی تھی یہ باتیں کتنی سچی ہیں
کل مذہب پوچھ کر بخش دی تھی جان میری
آج فرقہ پوچھ کر اس نے ہی لے لی جان میری
مت کرو رفع یدین پر اتنی بحث مسلمانو
نماز تو ان کی بھی ہوجاتی ہے جن کے ہاتھ نہیں ہوتے
تم ہاتھ باندھنے اور ہاتھ چھوڑ نے پر بحث میں لگے رہو
اور دشمن تمہارے ہاتھ کاٹنے کی شازش میں لگے ہیں
زندگی کے فریب میں ہم نے ہزاروں سجدے قضا کر ڈالے
ہمارے جنّت کے سردار نے تو تیروں کی برسات میں بھی نماز قضا نہیں کی
سجدہ عشق ہو تو عبادت میں مزہ آتا ہے
خالی سجدوں میں تو دنیا ہی بسا کرتی ہے
لوگ کہتے ہیں کہ بس فرض ادا کرنا ہے
ایسا لگتا ہے کوئ قرض لیا ہو رب سے
تیرے سجدے کہیں تجھے کافر نہ کردیں
تو جھکتا کہیں اور ہے اور سوچتا کہیں اور ہے
کوئ جنّت کا طالب ہے تو کوئ غم سے پریشان ہے
ضرورت سجدہ کرواتی ہے عبادت کون کرتا ہے
کیا ہوا تیرے ماتھے پر ہے تو سجدے کا نشاں
کوئ ایسا سجدہ بھی کر جو چھوڑ جائے زمیں پر نشاں
پھر آج حق کے لیےجاں فدا کرے کوئ
وفا بھی جھوم اٹھے یوں وفا کرے کوئ
نماز چودہ سو سالوں سے انتظار میں ہے
کہ مجھے صحابہ کی طرح ادا کرے کوئ
اک خدا ہی تو ہے جو سجدوں میں مان جاتا ہے
ورنہ یہ انسان تو جان لے کر بھی راضی نہیں ہوتا
دے دی اذاں مسجدوں میں حی الصلوہ حی الفلاح
اور لکھدیا باہر تخت پر اندر نہ آئے فلاں اور فلاں
خوف ہوتا ہے شیطان کو بھی آج کے مسلمان کو دیکھ کر
نماز بھی پڑھتا ہے تو مسجد کا نام دیکھ کر
مسلمانوں کے ہر فرقے نے ایک دوسرے کو کافر کہا
اک کافر ہی ہے جو اس نے ہم سب کو مسلمان کہا