گُلِ یاسمیں
لائبریرین
حوصلے سے اسے بسر کیجئیے
زندگی معجزہ نہیں ہوتی
زندگی معجزہ نہیں ہوتی
بہت ہی اچھی مثال ہے ہمت اور حوصلہ بڑھانے کے لئےمٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے
دانہ خاک میں مل کر گل گزار ہوتا ہے
محبت کا بیج نرم دل زمین میں بویا جاتا ہے پھر موسم کی سختیاں جھیلتا ہوا پودا بنتا ہے دھوپ لگتی ہے تو دانہ پکتا ہے ورنہ خراب ہوجاتا ہے پھر اس کو کوٹا جاتا ہے تاکہ بھوسی الگ ہوجائے پھر پیسا جاتا ہے تاکہ ہستی ہی مٹ جائے پھر زور سے گوندھا جاتا ہے پھر بیلا جاتا ہے اور آخر میں آگ پر پکایا جاتا ہے۔
کونسا مرحلہ آسان ہے یہ کم ظرفوں کا نصیب نہیں کہ وہ خوشبودار روٹی بن سکیں بہت اعلیٰ ظرف چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سیما بہن اِس کی تھوڑی تشریح ہوجائے تو اچھے سے سمجھ آجائے گا کہ ریت سے کیا مقصد اخذ کیا جائےزندگی بار بار نہیں ملتی صرف ایک بار ملتی ہے اور وقت سمندر کے کنارے پھیلی ہوئی ریت کی طرح ہے تم اس میں کتنی مٹھیاں بھر سکتے ہو ایک یا پھر دو، وقت تو بس پچاس یا سو برس کا ہے، مگر اس سے زیادہ نہیں پھر سوچو، تم اس ریت کو کھا نہیں سکتے زیادہ سے زیادہ تم اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں جھونک سکتے ہو اور بہت سے لوگ اپنی زندگی میں ایسا کرتے ہیں وہ لوگ ظالم ہوتے ہیں پھر کچھ لوگ جو اس ریت کو دوسروں کی آنکھوں میں ڈالنے کی بجائے اپنی آنکھوں میں ڈال لیتے ہیں وہ لوگ بزدل اور اذیت پسند ہوتے ہیں۔
کچھ لوگ اس ریت سے محل بناتے ہیں وہ لوگ احمق ہوتے ہیں کچھ لوگ نہایت احتیاط سے ریت کے ایک ایک ذرے کو گننے لگتے ہیں وہ اس دنیا کے کنجوس ہیں کچھ لوگ اس ریت کو اپنے سر پر ڈال لیتے ہیں اور ہنسنے لگتے ہیں وہ لوگ اس دنیا کے بچے ہیں اور دنیا کی ساری معصومیت ان ہی کے نام سے قائم ہے۔
(کرشن چندر کی کتاب "باون پتے" سے اقتباس)
بھیا زندگی کے کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کسطر ح زندگی ریت کی طرح ہماری ہاتھوں سے نکلتی چلی جاتی ہے کبھی کبھی لکھنے والے اسی طرح ہمیں زندگی کے بارے میں مثالیں دے کر بتاتے ہیں کرشن چندر تو بہت بڑا نام ہے !!!اسی طر ح چالاک اور شاطر وں کی مثال دیتے ہیں کہ وہ بظاہر دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہوتا پر دراصل وہ اپنا نقصان کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔اسی طرح کچھ بیوقوف لوگ اسی طر ح سے محل تعمیر کرتے ہیں ۔۔۔جیسے ہمیشہ اُس میں رہنا ہے یہاں دراصل زندگی کی بے ثباتی مراد ہے ۔۔۔جوڑنے کو بتایا ہے کہ وہ جوڑا کچھ کام نہ آئے گا ۔۔۔پھر بچوں کی مثال دی ہے کہ صحیح معنوں میں وہ زندگی جیتے ہیں اپنی معصومیت کی وجہ سے اور دنیا کی اصل خوبصورتی اُنہی کے دم سے ہے ۔۔۔۔سیما بہن اِس کی تھوڑی تشریح ہوجائے تو اچھے سے سمجھ آجائے گا کہ ریت سے کیا مقصد اخذ کیا جائے
جی درست کہا آپ نے زندگی اصل میں دیکھا جائے تو اللہ پاک کی طرف سے ایک تحفہ ہے انسان کے لئے کیونکہ اللہ پاک نے جزا اور سزا صرف جنت ، دوزخ انسانوں کے لئے ہی رکھی ہے اگر اِس زندگی کو جس طرح ہمیں اللہ پاک نے قرآن میں ارشاد فرمایا ہے اور سُنت کے طریقے سے گزارا جائے تو ہمارے لئے آخرت میں بہت بڑا انعام ہوگا ہم لوگ اصل مقصد سے ہٹیں گیں تو پھر مصیبتیں اور مشکلاتوں کا سامنا ہوگا اور سب سے بڑی ذلت جو کہ دوزخ کا عذاب ہے اُس سے بچنے کی پوری کوشش کرنی چاھئیے کیونکہ عزت ذلت سب اللہ پاک کے قبضہ قدرت میں ہے ہم اللہ کے کاموں میں لگ جائیں گے تو اللہ پاک ہمارے کاموں میں لگ جائیں گے جس کے کاموں میں اللہ پاک لگ جائیں اُس کے کام ادھورے نہیں رہتے ۔۔۔بھیا زندگی کے کو سمجھانے کی کوشش کی ہے کہ کسطر ح زندگی ریت کی طرح ہماری ہاتھوں سے نکلتی چلی جاتی ہے کبھی کبھی لکھنے والے اسی طرح ہمیں زندگی کے بارے میں مثالیں دے کر بتاتے ہیں کرشن چندر تو بہت بڑا نام ہے !!!اسی طر ح چالاک اور شاطر وں کی مثال دیتے ہیں کہ وہ بظاہر دوسروں کی آنکھوں میں دھول جھونک رہا ہوتا پر دراصل وہ اپنا نقصان کر رہا ہوتا ہے ۔۔۔اسی طرح کچھ بیوقوف لوگ اسی طر ح سے محل تعمیر کرتے ہیں ۔۔۔جیسے ہمیشہ اُس میں رہنا ہے یہاں دراصل زندگی کی بے ثباتی مراد ہے ۔۔۔جوڑنے کو بتایا ہے کہ وہ جوڑا کچھ کام نہ آئے گا ۔۔۔پھر بچوں کی مثال دی ہے کہ صحیح معنوں میں وہ زندگی جیتے ہیں اپنی معصومیت کی وجہ سے اور دنیا کی اصل خوبصورتی اُنہی کے دم سے ہے ۔۔۔۔
زبان ِ دل سے درود و سلام ہوجائےگزشتہ روز نعت خوانی کی محفل میں ایک واقعہ سُنا سوچا کہ آپ لوگوں کہ ساتھ شئیر کرنا چاھئیے
اللہ پاک کمی بیشی اپنی رحمت سے معاف فرمائے
چودہ سو صحابہ رضی اللہ تعالی عنہ کے ساتھ ہمارے نبی ﷺ ساتھ تھے سب صحابہ اور جانور پیاسے تھے پانی کا کہیں ناموں نشان نہ تھا ہمارے نبی ﷺ نے صحابہ سے فرمایا کہ اِس پہاڑ کے پیچھے ایک حبشی غلام مشکیزہ لے کر جارہا ہے اُسے لے آو صحابہ نے ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہ سوچا کہ اتنا بڑا پہاڑ ہے چل کر جانا بھی محال ہے پتا نہیں کہ پیچھے ایک حبشی غلام مشکیزے میں پانی لے کر کھڑا ہو بھی نہ ہو جیسے ہی حکم ملا فوراً بجا لائے جب وہاں پہنچے تو اُس شخص سے کہا کہ تم ہمارے ساتھ چلو اِس مشکیزے کے ساتھ ہمارے آقا نے تمہیں بُلایا ہے اُس حبشی غلام نے کہا کہ میں یہ اپنے آقا کے لئے لے کر جارہا ہوں صحابہ نے کہا تجھے تیرے آقا نے کہا ہے ہمیں ہمارے آقا نے کہا ہے کہ لاو بہتر یہ ہے کہ ہمارے ساتھ چلو تو وہ حبشی غلام بھی ساتھ ہو لیا وہاں پہنچتے ہیں تو ہمارے نبی ﷺ سے حبشی غلام کہتا ہے کہ یہ چودہ سو لوگ کِس طرح ایک مشکیزے سے پیاس بجھا سکتے ہیں ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ بس تیرا کام ہے کہ تو میرے ہاتھوں پر مشکیزے کا منہ رکھ دے باقی کام میرا ہے جیسے ہی حبشی غلام نے مشکیزے کا منہ آپ کے ہاتھوں پر رکھا ہمارے نبی ﷺ کی دسوں انگلیوں سے چشمے بہہ نکلے ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا آجاو صحابہ اور لے آو جتنے بھی جانور ہیں سب کی پیاس بجھا دو سب نے پانی پیا مشکیزے کی طرف دیکھا تو مشکیزہ پانی سے اُتنا ہی بھرا ہوا تھا جتنا لایا گیا تھا حبشی غلام کو ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا کہ اب جاو تمہارا کام ختم ہوچکا لیکن حبشی غلام نے کہا اے نبی ﷺ مجھے بھی اپنا غلام بنا لو میں بھی آپ کی غلامی میں آنا چاہتا ہوں ہمارے نبی ﷺ نے اُس حبشی غلام کو جیسے ہی کلمہ پڑھا کر اُس کے چہرے پر ہاتھ پھیرا تو اُس کی کالک اُتر گئی اور وہ گورا ہوگیا ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا اب جاو اُس حبشی غلام نے کہا کہ اب کہاں جاوں آپ کو چھوڑ کر ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا جاو تمہارے جانے میں بھی حکمت ہے وہ غلام جاتا جاتا اور پیچھے مڑ مُڑ کر دیکھتا جاتا وہ جب اپنے آقا کے دروازے پر پہنچا تو اُس نے دروازے پر دستک دی اندر سے اُس کا مالک باہر آیا اور کہا اے شخص تو کون ہے اُس شخص نے کہا میں تیرا غلام ہوں مالک نے کہا تو میرا غلام نہیں ہوسکتا میرا غلام تو کالا تھا اُس نے یہ سارا واقعہ سُنایا یہ سب سُن کر اُس مالک نے بھی اسلام کو قبول کرلیا ۔