شمشاد
لائبریرین
بھینس موٹی اور خوش طبع ہوتی ہے۔
بھینسوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ وہ سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بھینس کا وجود بہت سے انسانوں کے لیے باعث مسرت ہے۔ ایسے انسانوں کے لیے بھینس کے علاوہ مسرتیں بس گنی گنائی ہوتی ہیں۔ بھینس سے ہماری محبت بہت پرانی ہے۔ بھینس ہمارے بغیر رہ لے گی لیکن ہم بھینس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بھینس اتنی ہی بےوقوف ہے جتنی دکھائی دیتی ہے۔ یا اس سے زیادہ۔ کیا بھینسیں ایک دوسرے سے محبت کرتی ہیں۔ غالباً نہیں۔ محبت اندھی ہوتی ہے مگر اتنی اندھی نہیں۔ بھینس کے بچے شکل و صورت میں ننھیال ددھیال پر جاتے ہیں۔ لٰہذا فریقین ایک دوسرے پر تنقید نہیں کر سکتے۔ بھینس اگر ورزش کرتی اور غذا کا کا خیال رکھتی تو شاید چھریری ہو سکتی تھی۔ لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ بعض لوگ مکمل احتیاط کرنے کے باوجود بھی موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بھینس کا محبوب مشغلہ جگالی کرنا ہے۔ پھر تالاب میں لیٹے رہنا ہے۔ وہ اکثر نیم باز آنکھوں سے افق کو تکتی رہتی ہے۔ لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ وہ کیا سوچتی ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں سوچتی، بھینس اگر سوچ سکتی تو رونا کس بات کا تھا۔
ڈارون کی تھیوری کے مطابق صدیوں سے یہ جانور اسی کوشش میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہتر بنا سکے۔ یہاں تک کہ بندر انسان بن گئے ہیں۔ مگر بھینس نے محض سستی کی وجہ سے اس تگ و دو میں حصہ نہیں لیا، مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ ارتقائی دور ختم ہو چکا۔
(شفیق الرحٰمن کی کتاب “ مزید حماقتیں “ سے اقتباس)
بھینسوں کی قسمیں نہیں ہوتیں۔ وہ سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ بھینس کا وجود بہت سے انسانوں کے لیے باعث مسرت ہے۔ ایسے انسانوں کے لیے بھینس کے علاوہ مسرتیں بس گنی گنائی ہوتی ہیں۔ بھینس سے ہماری محبت بہت پرانی ہے۔ بھینس ہمارے بغیر رہ لے گی لیکن ہم بھینس کے بغیر نہیں رہ سکتے۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ بھینس اتنی ہی بےوقوف ہے جتنی دکھائی دیتی ہے۔ یا اس سے زیادہ۔ کیا بھینسیں ایک دوسرے سے محبت کرتی ہیں۔ غالباً نہیں۔ محبت اندھی ہوتی ہے مگر اتنی اندھی نہیں۔ بھینس کے بچے شکل و صورت میں ننھیال ددھیال پر جاتے ہیں۔ لٰہذا فریقین ایک دوسرے پر تنقید نہیں کر سکتے۔ بھینس اگر ورزش کرتی اور غذا کا کا خیال رکھتی تو شاید چھریری ہو سکتی تھی۔ لیکن کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ کیونکہ بعض لوگ مکمل احتیاط کرنے کے باوجود بھی موٹے ہوتے چلے جاتے ہیں۔
بھینس کا محبوب مشغلہ جگالی کرنا ہے۔ پھر تالاب میں لیٹے رہنا ہے۔ وہ اکثر نیم باز آنکھوں سے افق کو تکتی رہتی ہے۔ لوگ قیاس آرائیاں کرتے ہیں کہ وہ کیا سوچتی ہے۔ وہ کچھ بھی نہیں سوچتی، بھینس اگر سوچ سکتی تو رونا کس بات کا تھا۔
ڈارون کی تھیوری کے مطابق صدیوں سے یہ جانور اسی کوشش میں ہے کہ وہ اپنے آپ کو بہتر بنا سکے۔ یہاں تک کہ بندر انسان بن گئے ہیں۔ مگر بھینس نے محض سستی کی وجہ سے اس تگ و دو میں حصہ نہیں لیا، مگر اب کچھ نہیں ہو سکتا کیونکہ ارتقائی دور ختم ہو چکا۔
(شفیق الرحٰمن کی کتاب “ مزید حماقتیں “ سے اقتباس)