ملنے کو تجھ سے دل تو مرا بے قرار ہے
تو آ کے مل نہ مل یہ ترا اختیار ہے
جس جس کے پاس دوستو جس جس کا یار ہے
بہتر چمن سے گھر میں اسی کے بہار ہے
تم زخم دل کی میرے خبر پوچھتے ہو کیا
تیر نگاہ دل کے تو اب وار پار ہے
گر دشمنی پہ دوست نے باندھی مرے کمر
دشمن ہے اب جو کوئی مرا دوست دار ہے
لگتی نہیں پلک سے مری اب ذرا پلک
آنے کا اس کے جب سے مجھے انتظار ہے
اے شہسوار اس کو بھی کر لے تو اب شکار
یہ صید دل بھی عمر سے امیدوار ہے
یہ کچھ تو حال تیرے دیوانے کا اب ہوا
جیدھر کو جاوے آہ اسے مار مار ہے
اے گل تجھے عزیز ہوں رکھتا میں اس لیے
یعنی کہ تجھ میں ایک رمق بوئے یار ہے
یہ کس کے دل کو چھین کے کرتے ہیں پائمال
ان ظالموں کا آہ یہی کاروبار ہے
آصفؔ خدا کے واسطے مت دے بتوں کو دل
یہ وہ ہیں جن کے قول کا کیا اعتبار ہے
آصف الدولہ