بسکہ ہوں دل تنگ خوش آتا ہے صحرائے قفس
بلبل بے بال و پر رکھتی ہے سودائے قفس
پالنا منظور ہے تو دست پرور کر اسے
طائر وحشی مبادا دیکھ مر جائے قفس
دیکھ کے صیاد کو محو تماشا ہو گئی
بلبل تصویر سے مت پوچھ ایذائے قفس
ہم دعا ہو ہم صفیرو تا اجابت ہو قریں
رحم کھا کر باغ میں صیاد پھر لائے قفس
ہم صفیر اس باغ کے سب قید تیرے ہو چکے
عشق مجھ کو بھی دکھا دے تو تماشائے قفس
گل کی خاطر قید میں رہتی ہے ورنہ باغباں
نالۂ جاں سوز سے بلبل کے جل جائے قفس
تیلیاں گنتے ہی گنتے عمر کے دم ہو چکے
تخت سے اڑ کر نہ پہنچے عشق بالائے قفس
خواجہ رکنُ الدین عشق