گرتی ہوں اگر میں تو سنبھل کیوں نہیں جاتی
اٹھتیُ ہوں تو گرنے کا عمل کیوں نہیں جاتا
ان چیختی خاموشیوں کو چھوڑ کر کبھی
تنہائیوں کے گھر سے نگل کیوں نہیں جاتی
روز زخم مل رہا ہے مستقل مجھے
لمحہ ہے تو پھر خود ہی بدل کیوں نہیں جاتا
آنسو کی شکل خون ِجگر آنکھ سے بہہ کر
ہر غم کی طرح یہ بھی پگھلِ ِ کیوں نہیں جاتا، ۔۔