میرے پسندیدہ اشعار

شمشاد خان

محفلین
میرے داغِ دل سے ہے روشنی، اسی روشنی سے ہے زندگی
مجھے ڈر ہے اے مرے چارہ گر یہ چراغ تو ہی بجھا نہ دے
(شکیل بدایونی)
 

مومن فرحین

لائبریرین
ہمیں تھے جو تیرے آنے تلک جلے ورنہ
سبھی چراغ سر رہ گزر نہ تھے ایسے
ملے تو خیر نہ ملنے پہ رنجشیں کیسی
کہ اس سے اپنے مراسم تھے پر نہ تھے ایسے

فراز
 

شمشاد خان

محفلین
میں آرزوئے جاں لکھوں، یا جانِ آرزؤُ
تو ہی بتا دے ناز سے، ایمانِ آرزؤُ

آنسو نکل رہے ہیں تصور میں بن کے پھول
شاداب ہو رہا ہے گلستان آرزؤُ

ایمان و جاں نثار تری اک نگاہ پر
تُو جان آرزو ہے تو ایمان آرزؤُ
(اختر شیرانی)
 

مومن فرحین

لائبریرین
وہ نام حاصلِ فن ہوکے میرے فن میں رہا
کہ رُوح بن کے مری سوچ کے بدن میں رہا
سکونِ دل کے لیے میں کہاں کہاں نہ گئی
مگر یہ دل، کہ سدا اُس کی انجمن میں رہا
 

شمشاد خان

محفلین
سب یاروں کے ہوتے سوتے ہم کس سے گلے مل کر روتے
کب گلیاں اپنی گلیاں تھیں کب شہر ہمارا اس دن تھا

جب تجھ سے ذرا غافل ٹھہرے ہر یاد نے دل پر دستک دی
جب لب پہ تمہارا نام نہ تھا ہر دکھ نے پکارا اس دن تھا
(احمد فراز)
 

مومن فرحین

لائبریرین
تم اپنا رنج و غم اپنی پریشانی مجھے دے دو
تمہیں غم کی قسم اس دل کی ویرانی مجھے دے دو

ساحر صاحب
 

شمشاد خان

محفلین
ہمیں پر ختم کیوں ہو داستان خانہ ویرانی
جو گھر صحرا نظر آئے تو اس میں بجلیاں رکھ دو
(زبیر رضوی)
 

مومن فرحین

لائبریرین
غنچے ھیں گل ہے سبزہ ہے ابر بہار ہے
سب جمع ہو چکے ھیں تیرا انتظار ہے
اے دوست آ بھی جا کہ میں تصدیق کر سکوں
سب کہہ رہے ھیں آج فضا خوشگوار ہے
 

شمشاد خان

محفلین
یہ رحمت ابدی ہے نہ ہو جو طغیانی
اسی کی بوند میں رقصاں ہے کشف بارانی

گھٹا میں دیکھیے قطروں کی اس کے جولانی
خم شراب پہ جس سے پڑے گھڑوں پانی

یہ کیاریوں میں چمک کر گہر سے جڑتا ہے
بلائے قحط سے یہ بیچ کھیت لڑتا ہے
(نسیم امروہی)
 

شمشاد خان

محفلین
بادل کالا، کوئل کالی، اس سے کالی رات ہے
اس سے کالی زلف تری جو ساون کی ہمراز ہے

بیلا گورا، جوہی گوری، اس سے گوری چاندنی
اس سے گورا مکھڑا تیرا جس پہ مجھ کو ناز ہے
(نقش لائلپوری)
 

مومن فرحین

لائبریرین
کون سی بات ہے تم میں ایسی
اتنے اچھے کیوں لگتے ہو
ہم سے نہ پوچھو ہجر کے قصّے
اپنی کہو اب تم کیسے ہو
 

شمشاد خان

محفلین
اس نے سکوت شب میں بھی اپنا پیام رکھ دیا
ہجر کی رات بام پر ماہ تمام رکھ دیا

آمد دوست کی نوید کوئے وفا میں عام تھی
میں نے بھی اک چراغ سا دل سر شام رکھ دیا
(احمد فراز)
 
Top