میرے پسندیدہ اشعار

تیشہ

محفلین
لاکھ پردوں میں رہوں بھید میرے کھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
میں نے دیکھا ہے کہ جب میری زباں ڈولتی ہے
chusni.gif
شاعری سچ بولتی ہے ۔ :(

میں نے اس فکر میں کاٹیں ہیں کئی راتیں کئی دن
میرے شعروں میں تیرا نام نہ آئے ، لیکن
جب تیری سانس میری سانس میں رس گھولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے
شاعری سچ بولتی ہے ۔
 

شمشاد

لائبریرین
دل اُٹھا زندگی سے یوں جیسے
آپ کا اعتبار اُٹھتا ہے!

دل جلاتا ہے وہ تو حیرت کیا؟
سنگ ہی سے شرار اُٹھتا ہے!
(سرور
 

زینب

محفلین
مت ڈھونڈ اپنی قسمت کو ہاتھوں کی لکیروں میں
قسمت انکی بھی ہوتی ہے، جنکے ہاتھ نہین ہوتے
 

شمشاد

لائبریرین
جان تم پر نثار کرتے ہیں
بس یہی کاروبار کرتے ہیں

صاحبو! ہم غزل کی صورت میں
زخمِ دل آشکار کرتے ہیں

تم اُدھر اہتمامِ دار کرو
ہم اِدھر ذکرِ یار کرتے ہیں

ہم ہیں خود زندگی سے شرمندہ
آپ کیوں شرمسار کرتے ہیں؟

اہلِ دنیا کی گر یہی ضد ہے
خامشی اختیار کرتے ہیں

پہلے دنیا سے دل لگاتے ہیں
پھر گلے ہم ہزار کرتے ہیں

خود تماشا ہیں، خود تماشائی
اس طرح خود کو خوار کرتے ہیں

کس قدر سادہ لوح ہیں سرور!
حسن کا اعتبار کرتے ہیں!
(سرور عالم راز سرور)​
 

سارا

محفلین
مجھے جو بھی دشمنِ جاں ملا وہی پختہ کارجفا ملا
نہ کسی کی ضرب غلط پڑی نہ کسی کا وار خطا ہوا

مجھے ہمسفر بھی ملا تو کوئی ستم ظریف میری طرح
کہیں منزلوں کا تھکا ہوا ،کئی راستوں کا لٹا ہوا۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
سارا جی یہ ستم ضریف کو ستم ظریف کر لیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

انقلابِ زیست لازم ہے مگر اب کیا کہیں
ہم ہی گویا رہ گئے ہیں آزمانے کے لئے

جی میں ہے سرور کہ اب کچھ جی چلیں اپنے لئے
اک زمانہ جی لئے ہم اک زمانے کے لئے
(سرور)
 

شمشاد

لائبریرین
آخر ہماری خاک بھی برباد ہوگئی
اُس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہوگئی

دل کس قدر شکستہ ہوا تھا کہ رات میر
آئی جو بات لب پہ سو فریاد ہو گئی
(میر تقی میر)​
 

شمشاد

لائبریرین
بات شکوے کی ہم نے گاہ نہ کی
بلکہ دی جان اور آہ نہ کی

گُل و آئینہ ماہ و خور کن نے
چشم اُس چہرے پر سیاہ نہ کی
(میر تقی میر)​
 

زینب

محفلین
بھٹک بھٹک کے اسے ڈھونڈتے پھرومحسن

وہ درمیان یقین وقیاس رہتہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

شمشاد

لائبریرین
کیا کروں شرح خستہ جانی کی
میں نے مر مر کے زندگانی کی

حالِ بد گفتنی نہیں میرا
تم نے پوچھا تو مہربانی کی
(میر)
 

زینب

محفلین
بھولتا کون ھے

عمر کی شاخ پے کھلنے والی اس اک اولین شام کو

بے سبب جو لگا اس الزام کو

پھر تیرے نام کو

بھولتا کون ھے
 

شمشاد

لائبریرین
آج کل بے قرار ہیں ہم بھی
بیٹھ جا چلنے ہار ہیں ہم بھی

آن میں کچھ ہیں آن میں کچھ ہیں
تحفۂ روزگار ہیں ہم بھی

منع گریہ نہ کر تُو اے ناصح
اس میں بے اختیار ہیں ہم بھی

مدعی کو شراب ہم کو زہر
عاقبت دوستدار ہیں ہم بھی

گرز خود رفتہ ہیں ترے نزدیک
اپنے تو یادگار ہیں ہم بھی

میر نام اک جواں سنا ہوگا
اُسی عاشق کے یار ہیں ہم بھی
(میر تقی میر)​
 
Top