وقتِ سفر قریب ہے بستر سمیٹ لوں
بکھرا ہُوا حیات کا دفتر سمیٹ لوں
غیروں نے جو سلوک کِیا اس کا کیا گلہ
پھینکے ہیں جو دوستوں نے، وہ پتھر سمیٹ لوں
کل جانے کیسے ہوں گے کہاں ہوں گے گھر کے لوگ
آنکھوں میں ایک بار بھرا گھر سمیٹ لوں
سیلِ نظر بھی غم کی تمازت سے خشک ہو
وہ پیاس ہے، ملے تو سمندر سمیٹ لوں
اجمل بھڑک رہی ہے زمانے میں جتنی آگ
جی چاہتا ہے سینے کے اندر سمیٹ لوں