میرے پسندیدہ اشعار

زینب

محفلین
پتھر مجھے کہتا ہے میرا چاہنے والا

میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا
 

شمشاد

لائبریرین
اب دل کو آہ کرنی ہی صبح و مسا لگی
پژ مردہ اس کلی کے تئیں بھی ہوا لگی

کیوں کر بجھاؤں آتشِ سوزانِ عشق کو
اب تو یہ آگ دل سے جگر کو بھی جا لگی
(میر)
 

زینب

محفلین
اس کے کہے بغیر بھی اس کے کہے میں ہوں

مجھ کو تو اس کی چپ بھی ہے فرمان کی طرح
 

شمشاد

لائبریرین
جب تک کہ ترا گزر نہ ہووے
جلوہ مری گور پر نہ ہووے

رونے کی ہے جاگہ آہ کریے
پھر دل میں ترے اثر نہ ہووے
(میر)
 

شمشاد

لائبریرین
کرو توکّل کہ عاشقی میں نہ یوں کرو گے تو کیا کرو گے
الم جو یہ ہے تو درمندو! کہاں تلک تم دوا کرو گے
(میر)
 

فرحت کیانی

لائبریرین
وقتِ سفر قریب ہے بستر سمیٹ لوں
بکھرا ہُوا حیات کا دفتر سمیٹ لوں

غیروں نے جو سلوک کِیا اس کا کیا گلہ
پھینکے ہیں جو دوستوں نے، وہ پتھر سمیٹ لوں

کل جانے کیسے ہوں گے کہاں ہوں گے گھر کے لوگ
آنکھوں میں ایک بار بھرا گھر سمیٹ لوں

سیلِ نظر بھی غم کی تمازت سے خشک ہو
وہ پیاس ہے، ملے تو سمندر سمیٹ لوں

اجمل بھڑک رہی ہے زمانے میں جتنی آگ
جی چاہتا ہے سینے کے اندر سمیٹ لوں
 

شمشاد

لائبریرین
آخر ہماری خاک بھی برباد ہوگئی
اُس کی ہوا میں ہم پہ تو بیداد ہوگئی

دل کس قدر شکستہ ہوا تھا کہ رات میر
آئی جو بات لب پہ سو فریاد ہو گئی
(میر)
 

شمشاد

لائبریرین
میں جو بولا کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے

میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے
(میر)
 

شمشاد

لائبریرین
نیتِ شوق بھر نہ جائے کہیں
تو بھی دل سے اتر نہ جائے کہیں

آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد
آج کا دن گزر نہ جائے کہیں

نہ ملا کر اداس لوگوں سے
حسن تیرا بکھر نہ جائے کہیں

آرزو ہے کہ تو یہاں آئے
اور پھر عمر بھر نہ جائے کہیں

جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں

آؤ کچھ دیر رو ہی لیں ناصر
پھر یہ دریا اتر نہ جائے کہیں
(ناصر کاظمی)​
 

شمشاد

لائبریرین

کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے
رات بہت کالی ہے ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے
(ناصر کاظمی)​
 

شمشاد

لائبریرین

بیٹھا ہے ایک شخص مرے پاس دیر سے
کوئی بھلا سا ہو تو ہمیں دیکھتا بھی ہو

بزم سخن بھی ہو سخنِ گرم کے لیے
طاؤس بولتا ہو تو جنگل ہرا بھی ہو
(ناصر کاظمی)​
 

حجاب

محفلین
تری چوکھٹ پہ سر رکھ کے جو مر جاتے تو اچھا تھا
ہم اپنے پیار میں حد سے گزر جاتے تو اچھا تھا

بچھڑنے سے ذرا پہلے بہک جاتا جنوں میرا
مرے پہلو میں وہ گیسو بکھر جاتے تو اچھا تھا

ہمیں رسموں رواجوں سے نہیں تھا واسطہ رکھنا
ہم اپنے دل کی دنیا میں اُتر جاتے تو اچھا تھا

محبت میں جو گزرے ہیں وہی دو پل ہمارے تھے
وہی دو پل ہمیشہ کو ٹھہر جاتے تو اچھا تھا

پیامِ شوق جو میرا لیئے پھرتے تھے آوارہ
کبوتر وہ تری چھت پر اپتر جاتے تو اچھا تھا

قمر اس بے مہر دنیا میں جینا کیسا جینا ہے
ہم اپنے عشق میں جل کر نکھر جاتے تو اچھا تھا
سیّد ارشاد قمر
٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪٪
 

شمشاد

لائبریرین
پھر ساون رت کی پون چلی تم یاد آئے
پھر پتوں کی پازیب بجی تم یاد آئے

پھر کونجیں بولیں گھاس کے ہرے سمندر میں
رت آئی پیلے پھولوں کی تم یاد آئے

پھر کاگا بولا گھر کے سونے آنگن میں
پھر امرت رس کی بوند پڑی تم یاد آئے

پہلے تو میں چیخ کے رویا اور پھر ہنسنے لگا
بادل گرجا بجلی چمکی تم یاد آئے

دن بھر تو میں دنیا کے دھندوں میں کھویا رہا
جب دیواروں سے دھوپ ڈھلی تم یاد آئے
(ناصر کاظمی)​
 
Top