زندگی کیا ہوئے وہ اپنے زمانے والے
یاد آتے ہیں بہت دل کو دکھانے والے
اجنبی بن کے نہ مل عمر گریزاں ہم سے
تھے کبھی ہم بھی ترے ناز اٹھانے والے
کس سے پوچھوں یہ سیاہ رات کٹے گی کس دن
سو گئے جا کے کہاں خواب دکھانے والے
اختر سعید
نگارِ وقت اب اسے لہو سے کیا چمن کریں ؟
یہ دستِ جاں کہ ہانپتا رہا سراب اوڑھ کر
لَبوں کے حرفِ نرم کی تپش سے مَت جگا اِسے
یہ دِل تو کب کا سو چُکا " ردائے خواب" اوڑھ کر
محسن نقوی
روز تاروں کی نمائش میں خلل پڑتا ہے
چاند پاگل ہے اندھیرے میں نکل پڑتا ہے
اُس کی یاد آئی ہے سانسو ذرا آہستہ چلو
دھڑکنوں سے بھی عبادت میں خلل پڑتا ہے
(راحت اندوری)
ہجرِ بے موت کو تسلیم کئے لیتے ہیں
ہم خیالات کی تکفین کئے لیتے ہیں
بات تو سجدہء جذباتِ جنوں خیز کی ہے
یار کے یار کی تعظیم کئے لیتے ہیں
چاند پر زور نہیں دل تو ہے بس میں اپنے
تم کہو تو یہی دو نیم کئے لیتے ہیں