میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
تتلیاں اڑتی ہیں اور ان کو پکڑنے والے
‏سعیٔ ناکام میں اپنوں سے بچھڑ جاتے ہیں

‏✍️ مصطفی زیدی
 

سیما علی

لائبریرین
وہ عکس بن کے میری چشمِ تر میں رہتا ہے
‏عجیب شخص ہے پانی کے گھر میں رہتا ہے

‏✍️ محترمہ بسمل صابری
 

سیما علی

لائبریرین
ہر شخص بَد حواس سا لگتا ہے اِن دنوں
‏پھیلا ہے وہ تناؤ کے پاگل ہے زندگی

‏✍️ منظر ؔ بھوپالی
 

سیما علی

لائبریرین
غم ہمیں کھا رہا ہے تو کیا غم
‏ہم بھی تو غم کو کھائے بیٹھے ہیں

‏کھوئے جانے کا اپنے دھیان نہیں
‏کچھ تو ایسا ہی پائے بیٹھے ہیں

‏✍️ میر مہدی مجروح
 

سیما علی

لائبریرین
اہلِ دل پر نہ وہ غصّہ ہے، نہ وہ قہر و ستم
‏خیر سے آج وہ انسان بنے بیٹھے ہیں

‏دیکھتے ہی نہیں قصدًا وہ ہماری جانب
‏جان کر ہم سے وہ انجان بنے بیٹھے ہیں

‏✍️ سیّد نصیر الدّین نصیرؔ
 

سیما علی

لائبریرین
بالاہتمام ظلم کی تجدید کی گئی
‏اور ہم کو صبر و ضبط کی تاکید کی گئی

‏اول تو بولنے کی اجازت نہ تھی ہمیں
‏اور ہم نے کچھ کہا بھی تو تردید کی گئی

‏✍️ اقبال عظیم
 

سیما علی

لائبریرین
گھر سجانے کا تصور تو بہت بعد کا ہے
‏پہلے یہ طے ہو کہ اس گھر کو بچائیں کیسے

‏✍️ ڈاکٹر وسیم بریلوی
 

سیما علی

لائبریرین
جو داستاں نہ بنے دردِ بیکراں ہے وہی
‏جو آنکھ ہی میں رہے وہ نمی سمندر
‏ہے

‏✍️ شکیب جلالی
 

سیما علی

لائبریرین
‏خلط ملط ہیں برے بھلے، دیکھنا پڑے گا
یہ طے ہوا ہے کہ اب مجھے دیکھنا پڑے گا

ہمارے چاروں طرف تماشا ہے پتلیوں کا
ہمیں بصیرت کی آنکھ سے دیکھنا پڑے گا
✍مُنیر انور
 

سیما علی

لائبریرین
عزم بہزاد

میں عمر کے رستے میں چپ چاپ بکھر جاتا
ایک روز بھی گر اپنی تنہائی سے ڈر جاتا

میں ترک تعلق پہ زندہ ہوں سو مجرم ہوں
کاش اس کےلئے جیتا ، اپنے لئے مر جاتا

اس روز کوئی خوشبو قربت میں نہیں جاگی
میں ورنہ سنور جاتا اور وہ بھی نکھر جاتا

اس جانِ تکلم کو تم مجھ سے تو ملواتے
تسخیر نہ کرپاتا حیران تو کرجاتا

کل سامنے تھی منزل اور پیچھے مری آوازیں
چلتا تو بچھڑ جاتا رکتا تو سفر جاتا

میں شہر کی رونق میں گم ہو کہ بہت خوش تھا
ایک شام بچا لیتا کسی روز تو گھر جاتا

محروم فضاوں میں مایوس نظاروں میں
تم عزم نہیں ٹھہرے میں کیسے ٹھہر جاتا
 

سیما علی

لائبریرین
زور پیدا جسم و جاں کی ناتوانی سے ہوا
شور شہروں میں مسلسل بے زبانی سے ہوا

دیر تک کی زندگی کی خواہشیں اس بت کو ہیں
شوق اس کو انتہا کا عمر فانی سے ہوا

میں ہوا ناکام اپنی بے یقینی کے سبب
جو ہوا سب میرے دل کی بد گمانی سے ہوا

ہے نشاں میرا بھی شاید شش جہات دہر میں
یہ گماں مجھ کو خود اپنی بے نشانی سے ہوا

تھا منیرؔ آغاز ہی سے راستہ اپنا غلط
اس کا اندازہ سفر کی رائگانی سے ہوا

منیر نیازی
 

سیما علی

لائبریرین
کتنے بے درد ہیں صَرصَر کو صبا کہتے ہیں
کیسے ظالم ہیں کہ ظلمت کو ضیا کہتے ہیں

جبر کو میرے گناہوں کی سزا کہتے ہیں
میری مجبوری کو تسلیم و رضا کہتے ہیں

غم نہیں گر لبِ اظہار پر پابندی ہے
خامشی کو بھی تو اِک طرزِ نوا کہتے ہیں

کُشتگانِ ستم و جور کو بھی دیکھ تو لیں
اہلِ دانش جو جفاؤں کو وفا کہتے ہیں

کل بھی حق بات جو کہنی تھی سرِ دار کہی
آج بھی پیشِ بتاں نامِ خدا کہتے ہیں

یوں تو محفل سے تری اُٹھ گئے سب دل والے
ایک دیوانہ تھا وہ بھی نہ رہا کہتے ہیں

یہ مسیحائی بھی کیا خوب مسیحائی ہے
چارہ گر موت کو تکمیلِ شِفا کہتے ہیں

بزمِ زنداں میں ہوا شورِ سلاسل برپا
دہر والے اسے پائل کی صدا کہتے ہیں

آندھیاں میرے نشیمن کو اڑانے اٹھیں
میرے گھر آئے گا طوفانِ بلا کہتے ہیں

اُن کے ہاتھوں پہ اگر خون کے چھینٹے دیکھیں
مصلحت کیش اسے رنگِ حنا کہتے ہیں

میری فریاد کو اِس عہد ہوس میں ناصر
ایک مجذوب کی بے وقت صدا کہتے ہیں

(نوابزادہ نصراللہ خان)
..................
 

سیما علی

لائبریرین
اب شور سلاسل میں سرور ازلی ہے
پھر پیش نظر سنت سجاد ولی ہے

غارت گر یہ اہل ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

ہم راہروئے دشت وفا روز ازل سے
اور قافلہ سالار حسین ابن علی ہے

(نواب زادہ نصراللہ خان ناصر)
 
اب شور سلاسل میں سرور ازلی ہے
پھر پیش نظر سنت سجاد ولی ہے

غارت گر یہ اہل ستم بھی کوئی دیکھے
گلشن میں کوئی پھول نہ غنچہ نہ کلی ہے

کب اشک بہانے سے کٹی ہے شب ہجراں
کب کوئی بلا صرف دعاؤں سے ٹلی ہے

ہم راہروئے دشت وفا روز ازل سے
اور قافلہ سالار حسین ابن علی ہے

(نواب زادہ نصراللہ خان ناصر)
یہ اشعار نوابزادہ صاحب نے کشمیر کے لیے کہے تھے۔ میرا پسندیدہ کلام ہے۔ شیئر کرنے کا شکریہ۔
آپاجی۔ یہ کلام میاں شہر یار نے گایا ہے اور کیا خوب گایا ہے۔ اگر آپ نے نہیں سنا تو ایک بار ضرور سنیں۔
 
Top