میرے پسندیدہ اشعار

سیما علی

لائبریرین
نظم....."بُڑھاپا خوب صورت ہے"......

کسی کو آپ کے بالوں کی چاندی سے محبت ہو
کسی کو آپ کی آنکھوں پہ اب بھی پیار آتا ہو
لبوں پر مسکراہٹ کے گلابی پھول کھل پائیں
جبیں کی جُھرّیوں میں روشنی سمٹی ہوئ تو
بُڑھاپا خوبصورت ہے

شکن آلود ہاتھوں پر دمکتے ریشمی بوسے
سعادت کا، عقیدت کا، تقدّس کا حوالہ ہوں
جوانی یاد کرتا دل اداسی کا سمندر ہو
اداسی ﮐﮯ سمندر میں کوئ ہمراہ تَیرے تو
بُڑھاپا خوبصورت ہے

ذرا سا لڑکھڑائیں تو سہارے دوڑ کر آئیں
نئے اخبار لا کر دیں ،پُرانے گیت سُنوائیں
بصارت کی رسائی میں پسندیدہ کتابیں ہوں
مہکتے سبز موسم ہوں، پرندے ہوں،شجر ہوں تو
بڑھاپا خوب صورت ہے

پرانی داستانیں شوق سے سنتا رہے کوئ
محبت سے دل و جاں کی تھکن چنتا رہے کوئ
ذرا سی دھوپ میں حدّت بڑھے تو چھاؤں مل جائے
برستے بادلوں میں چھتریاں تن جائیں سر پر تو
بڑھاپا خوب صورت ہے

جنہیں دیکھیں تو آنکھوں میں ستارے جگمگا اُٹھیں
جنہیں چُومیں تو ہونٹوں پر دُعائیں جھلمِلا اُٹھیں
جواں رشتوں کی دولت سے اگر دامن بھرا ہو تو
رفیقِ دل، شریکِ جاں برابر میں کھڑا ہو تو
بڑھاپا خوب صورت ہے

حمیدہ شاہین
 

شمشاد

لائبریرین
بکھر جائے گی شام آہستہ بولو
تڑک جائیں گے جام آہستہ بولو

نہ دو داغوں کے بھید آہوں کو روکو
نہ لو نالوں کا نام آہستہ بولو

نہ لے تنہائی کی راتوں میں اک دن
خموشی انتقام آہستہ بولو

یہی ہوتے ہیں آداب محبت
کہ جب لو اس کا نام آہستہ بولو

نہ جانے کون بیٹھا ہو کمیں میں
اندھیری ہے یہ شام آہستہ بولو

فغان دل سے کس کا دل پسیجا
یہ ہے سودائے خام آہستہ بولو

ابھی تو راہ میں دیوار و در ہیں
ابھی دو چار گام آہستہ بولو

بہت ہے صدمۂ یک آہ اس کو
ہے نازک یہ نظام آہستہ بولو

ابھی تو بادۂ الفت کا حقیؔ
پیا ہے ایک جام آہستہ بولو
(شان الحق حقی)
 

سیما علی

لائبریرین
نشہ ہے، جہل ہے، شر ہے، اِجارہ داری ہے
‏ہماری جنگ، کئی مورچوں پہ جاری ہے
‏یہ پُوچھنے کا تو حق ہے سب اہلِ خِدمت کو!
‏ہمارے دُکھ ہیں، خوشی کیوں نہیں ہماری ہے
‏زمِیں پہ ایسی تو آفت کبھی نہ ٹُوٹی تھی
‏خود آدمی کا وُجوُد آدمی پہ بھاری ہے
‏محشر بدایونی
 

سیما علی

لائبریرین
وہ باتیں تری وہ فسانے ترے
شگفتہ شگفتہ بہانے ترے
بس اک داغِ سجدہ مری کائنات
جبینیں تری آستانے ترے

بس اک زخمِ نظّارہ، حصہ مرا
بہاریں تری آشیانے ترے

فقیروں کا جمگھٹ گھڑی دو گھڑی
شرابیں تری بادہ خانے ترے

ضمیرِ صدف میں کرن کا مقام
انوکھے انوکھے ٹھکانے ترے

بہار و خزاں کم نگاہوں کے وہم
برے یا بھلے سب زمانے ترے

عدمؔ بھی ہے تیرا حکایت کدہ
کہاں تک گئے ہیں فسانے ترے
 

سیما علی

لائبریرین
اس سے مراسم ہوئے فسانے کی طرح
قصہ جیسے کسی دور پرانے کی طرح

وہ میرا تھا میرا تھا کبھی یوں
متاع ء جاں کسی خزانے کی طرح

رو برو بھی رہا میرے وہ سدا
قربتوں میں بھی مجھے گنوانے کی طرح

اس سے فرقت بھی گوارہ تھی مجھے کب
روٹھنا بھی اس سے تھا منانے کی طرح

ہم نے لبادہ بھلانے کا چڑھا رکھا ہے
خود کو خود ہی آزمانے کی طرح

امکان ء تجدید ء وفا سنبھالے ہیں ابھی
خواب جیسے کسی مفلس کے سجانے کی طرح

حال لوگوں کی وفاؤں کا نہ پوچھو ہم سے
لکھتے ہیں محبت بھی مٹانے کی طرح

جرم ء محبت کی سزا بھی عجب تھی
ترک ء تعلق بھی رہا اس سے نبھانے کی طرح

آؤ آج کریں مل کے پھر تجدید ء وفا
بجھتے ہوئے چراغوں کو جلانے کی طرح

دل چاہتا ہے کسی روز کہ عنبر
ہم بھی ہو جائیں زمانے کی طرح
عنبر جیلانی
 

شمشاد

لائبریرین
کاش دیکھو کبھی ٹوٹے ہوئے آئینوں کو
دل شکستہ ہو تو پھر اپنا پرایا کیا ہے
عبید اللہ علیم
 

شمشاد

لائبریرین
بس فرق اس قدر ہے گناہ و ثواب میں
پیری میں وہ روا ہے یہ جائز شباب میں

تاثیر جذب شوق کا یہ سحر دیکھیے
خود آ گئے ہیں وہ مرے خط کے جواب میں

آخر تڑپ تڑپ کے یہ خاموش ہو گیا
دل کو سکون مل ہی گیا اضطراب میں

آنکھیں ملا کے یا تو عنایت ہو ایک جام
یا زہر ہی ملا دو ہماری شراب میں

رخ آفتاب ہونٹ کنول چال حشر خیز
کس شے کی اب کمی ہے تمہارے شباب میں

دنیا میں ڈھونڈھتے رہے ہم راحتیں عبث
دنیا کی راحتیں تو ہیں تیرے عتاب میں

ساحرؔ عجیب شے ہے محبت کا درد بھی
دل مبتلا ہے ایک مسلسل عذاب میں
ساحر ہوشیارپوری
 

سیما علی

لائبریرین
شاعر: بہزاد لکھنوی

یوں تو جو چاہے یہاں صاحبِ محفل ہوجائے
بزم اُس شخص کی ہے تُو جسے حاصل ہوجائے

ناخُدا اے مری کشتی کے چلانے والے
لطف تو جب ہے کہ ہر موج ہی ساحل ہوجائے

اس لئے چل کے ہر اک گام پہ رُک جاتا ہوں
تا نہ بےکیف غمِ دُوریء منزل ہوجائے

تجھ کو اپنی ہی قسم یہ تو بتا دے مجھ کو
کیا یہ ممکن ہے کبھی تو مجھے حاصل ہوجائے

ہائے اس وقت دلِ زار کا عالم کیا ہو
گر محبت ہی محبت کے مقابل ہوجائے

پھیکا پھیکا ہے مری بزمِ محبت کا چراغ
تم جو آجاؤ تو کچھ رونقِ محفل ہوجائے

تیری نظریں جو ذرا مجھ پہ کرم فرمائیں
تیری نظروں کی قسم پھر یہی دل دل ہوجائے

ہوش اس کے ہیں ،یہ جام اس کا ہے ، تو ہے اس کا
میکدے میں ترے جو شخص بھی غافل ہوجائے

فتنہ گر شوق سے بہزاد کو کردے پامال
اس سے تسکینِ دلی گر تجھے حاصل ہوجائے
 

شمشاد

لائبریرین
زندگی درد بھی دوا بھی تھی
ہم سفر بھی گریز پا بھی تھی

کچھ تو تھے دوست بھی وفا دشمن
کچھ مری آنکھ میں حیا بھی تھی

دن کا اپنا بھی شور تھا لیکن
شب کی آواز بے صدا بھی تھی

عشق نے ہم کو غیب دان کیا
یہی تحفہ یہی سزا بھی تھی

گرد باد وفا سے پہلے تک
سر پہ خیمہ بھی تھا ردا بھی تھی

ماں کی آنکھیں چراغ تھیں جس میں
میرے ہمراہ وہ دعا بھی تھی

کچھ تو تھی رہ گزر میں شمع طلب
اور کچھ تیز وہ ہوا بھی تھی

بے وفا تو وہ خیر تھا امجدؔ
لیکن اس میں کہیں وفا بھی تھی
امجد اسلام امجد
 

سیما علی

لائبریرین
آدمی، آدمی سے ملتا ہے
دل مگر کم کسی سے ملتا ہے

بھول جاتا ہوں میں ستم اس کے
وہ کچھ اس سادگی سے ملتا ہے

مل کے بھی جو کبھی نہیں ملتا
ٹوٹ کر دل اسی سے ملتا ہے

آج کیا بات ہے کہ پھولوں کا؟
رنگ تیری ہنسی سے ملتا ہے

سلسلہ فتنۂ قیامت کا
تیری خوش قامتی سے ملتا ہے

کاروبار جہاں سنورتے ہیں
ہوش جب بے خودی سے ملتا ہے

روح کو بھی مزا محبت کا
دل کی ہمسائگی سے ملتا ہے
جگر مراد آبادی
 

سیما علی

لائبریرین
آتے آتے مرا نام سا رہ گیا
اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا

رات مجرم تھی دامن بچا لے گئی
دن گواہوں کی صف میں کھڑا رہ گیا

وہ مرے سامنے ہی گیا اور میں
راستے کی طرح دیکھتا رہ گیا

جھوٹ والے کہیں سے کہیں بڑھ گئے
اور میں تھا کہ سچ بولتا رہ گیا

آندھیوں کے ارادے تو اچھے نہ تھے
یہ دیا کیسے جلتا ہوا رہ گیا

اس کو کاندھوں پہ لے جا رہے ہیں وسیمؔ
اور وہ جینے کا حق مانگتا رہ گیا
بیخود دہلوی
 

سیما علی

لائبریرین
دوستوں کو بھی ملے درد کی دولت یا رب
میرا اپنا ہی بھلا ہو مجھے منظور نہیں

حفیظ جالندھری
 
Top