دل مضطرب ہے اور طبیعت اُداس ہے
لگتا ہےآج دل کے کوئی آس پاس ہے
پھر تشنہ لب کھڑا ھوں سمندر کے سامنے
یہ میری پیاس ہے کہ سمندر کی پیاس ہے
کھلتا نہیں نگاہ پہ کہ کس جگہ پہ ھوں
شہر ِ طلب ہے یاکوئی دشت ِ ہراس ہے
یہ سادگی نہیں تو اُسے اور کیا کہوں
پھر آسماں سے مجھ کو بھلائی کی آس ہے
جانے ھوائے شب کی اداؤں کو کیا ھوا
شوریدہ سر ہے اور دریدہ لباس ہے
کرامت بخاری