میں اجنبی سہی - سید آلِ‌ احمد

نوید صادق

محفلین
شاخِ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے

شاخِ آشوب پہ کب کوئی کلی کھلتی ہے
یہ الگ بات کہ اک آس لگا رکھی ہے

کتنا ساکت ہے ترے عہد کے اخلاص کا جسم
سوچ کی آنکھ بھی پتھرائی ہوئی لگتی ہے

پھر کوئی تازہ مصائب کا بھنور دیکھیں گے
آب تسکیں پہ کوئی لہر نئی اُبھری ہے

حوصلہ ہار گیا دل تو چھٹی درد کی دُھند
سوچ کے پاؤں ہوئے شل تو سحر دیکھی ہے

آنکھ ہر لمحہ نئے جھوٹ میں سرگرداں ہے
دل ہر اک لحظہ نئی چوٹ کا زندانی ہے

اب کسے دل میں جگہ دیں کہ جسے پیار کیا
کاہشِ رنج ہی معیارِ وفا ٹھہری ہے

سرِ تسلیم ہے خم‘ شوق سے آوازہ کسو
چپ کی تلوار سے یہ سنگ زنی اچھی ہے

نہ کوئی رنگِ تبسم‘ نہ حرارت کی رمق
زندگی ہے کہ کوئی سوکھی ہوئی ٹہنی ہے

سخت بوجھل ہوں میں اب دُکھ کے سفر سے احمد
رات دن ضبط کی شہ رگ سے لہو جاری ہے
 

نوید صادق

محفلین
منجمد ہو گیا لہو دل کا

منجمد ہو گیا لہو دل کا
تیرے غم کا چراغ کیا جلتا

وہ بھی دن تھے کہ اے سکونِ نظر!
تو مری دسترس سے باہر تھا

بجھ گئی پیاس آخرش اے دل!
ہو گیا خشک آنکھ کا دریا

تو مرا پیار مجھ کو لوٹا دے
جانے والے اُداسیاں نہ بڑھا

پاس خاطر ہے شہر میں کس کو
کون کرتا ہے اعترافِ وفا

تیری خواہش بھنور بھنور ساحل
میری منزل سکوت کا صحرا

پوچھتی تھی خزاں بہار کا حال
شاخ سے ٹوٹ کر گرا پتا

کیسے ٹھہرے ہو سوچ میں احمد
اتنی سردی میں رات کو تنہا
 

نوید صادق

محفلین
خاک آلود ہو گئے ابرو

خاک آلود ہو گئے ابرو
کٹ گئے اعتماد کے بازو

تیرے جذبے کے ہاتھ پتھر ہیں
میری سوچوں کے پاؤں میں گھنگرو

سینۂ سنگ بھی دھڑکنے لگا
چل گیا تیری آنکھ کا جادو

گونجتا ہے دماغ سوچوں سے
برہنہ ہے سکون کا پہلو

اس اُداسی کو کون دور کرے
وہم کا کس کے پاس ہے دارو

دھڑکنوں کا شکیب ٹوٹتا ہے
کس لیے چپ ہے میرے داتا تو!

کس مسافت کے بعد پہنچا ہے
تیرے رُخسار پر مرا آنسو

ہر خوشی کو جھلس گئی احمد
شہر انفاس میں دُکھوں کی لو
 

نوید صادق

محفلین
پلکوں سے اب کے ابر جو کھل کر برس گیا

پلکوں سے اب کے ابر جو کھل کر برس گیا
فرطِ وفا سے دل کا ہر اک تار کس گیا

اُمید کے چراغ کی لَو خود ہی بجھ گئی
دل کو جو کچھ سکون تھا‘ اب کے برس‘ گیا

کس نے متاعِ رونق بازار چھین لی
یہ روشنی کا شہر کوئی کیسے ڈَس گیا

جس سے وفا کی کوئی توقع نہ تھی مجھے
کتنے خلوص سے وہ مرے دل میں بس گیا

جو کونپلیں بھی شاخ پہ پھوٹیں وہ جل گئیں
جو پھول بھی کھلا وہ نمی کو ترس گیا

میں نے تو کوئی دُکھ اسے اب تک نہیں دیا
کیوں اس کے لب سے پیار کے لہجے کا رَس گیا

دیکھی نہ انبساط کی چھاؤں تمام عمر
احمد غموں کی دُھوپ میں چہرہ جھلس گیا
 

نوید صادق

محفلین
نگارِ شب ترا مہمان ہو رہا ہوں میں

نگارِ شب ترا مہمان ہو رہا ہوں میں
وفا میں کرب کی پہچان ہو رہا ہوں میں

کھرچ رہا ہوں گئے موسموں کی ہر نسبت
نئی رُتوں کا شبستان ہو رہا ہوں میں

محیطِ تیرہ شبی کو شگفتِ لب دے کر
طلوعِ صبح کا امکان ہو رہا ہوں میں

ترے کرم سے لباسِ وقار ہے تن پر
تری نگاہ پہ قربان ہو رہا ہوں میں

سرابِ ہجر کی مرطوب صحبتوں کی قسم
حدیثِ وصل کا عنوان ہو رہا ہوں میں

امیر شہر پہ حرفِ ادق کی صورت ہوں
غریب شہر پہ آسان ہو رہا ہوں میں

عداوتوں پہ تلا ہے حریفِ آئینہ
ثبوتِ عکس‘ مری جان! ہو رہا ہوں میں

نشاطِ لذتِ دیروز پر ہوں شرمندہ
خود احتساب کی میزان ہو رہا ہوں میں

نہ کوئی ماتھا کشادہ‘ نہ کوئی دل روشن
معاشِ وقت پہ حیران ہو رہا ہوں میں

یہ کس کی‘ کوئے طلب میں‘ تلاش ہے احمد
یہ کس اُمید کا دربان ہو رہا ہوں میں
 

نوید صادق

محفلین
نعرہ تن تنانا‘ تن تنانا ہُو کیا ہے

نعرہ تن تنانا‘ تن تنانا ہُو کیا ہے
دشت کہتے ہیں کسے‘ کون ہوں میں‘ تو کیا ہے

روح گھائل ہے بھلا کیسے بدن کو سمجھائے
اس کڑی دھوپ میں تسکین کا پہلو کیا ہے

تجھ سے اک پل بھی جدا ہوں تو تڑپ اُٹھتا ہوں
اے مرے پیار کی آسودہ خلش! تو کیا ہے

کونپلیں شاخ پہ پھوٹیں بھی تو جل جاتی ہیں
پیڑ حیراں ہیں‘ نمو چیز ہے کیا‘ لُو کیا ہے

تو فرشتہ ہے نہ جب قادرِ لغزش احمد
یہ اَنا کیا ہے تری اور یہ تری خو کیا ہے
 

نوید صادق

محفلین
سوکھے ہوئے لبوں کی صدا کا اسیر ہوں

سوکھے ہوئے لبوں کی صدا کا اسیر ہوں
میں خواہشوں کے طاس کی ٹیڑھی لکیر ہوں

ہر لمحہ رُخ بدلتے مزاجوں کو کیا کہوں
میں آپ اپنے شہر میں اپنی نظیر ہوں

جسموں کی تیز آنچ سے محفوظ رکھ مجھے
اے شورشِ حیات! میں اب گوشہ گیر ہوں

دستِ طلب دراز کروں کس کے سامنے
آئے نہ جس پہ حرفِ انا وہ فقیر ہوں

ردِعمل ہے تو مرے خوابِ سکون کا
یا میں تری جبیں کی ادُھوری لکیر ہوں

احمد میں کس کے لب سے غزل پرورش کروں
غالب ہوں میں نہ شہر تغزل کا میر ہوں
 

نوید صادق

محفلین
نگارِ غم تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں

نگارِ غم تری آہٹ پہ جب سے جاگا ہوں
میں خواب خواب بھنور آئنوں کو تکتا ہوں

نہ کوئی رنگ توقع‘ نہ نقشِ پائندہ
کسے بتاؤں کہ کن خواہشوں کا ڈھانچہ ہوں

کسے دکھاؤں وہ آنکھیں جو جیت بھی نہ سکا
کسے بتاؤں کہ کن آنسوؤں کا سپنا ہوں

نہ تازگی ہی بدن میں نہ پُرسکون تھکن
میں شاخِ عمر کا وہ زرد و سبز پتا ہوں

جہاں یقین کے تلووں میں آبلے پڑ جائیں
میں حادثات کی ان گھاٹیوں میں اُترا ہوں

وہ نغمگی جسے سازِ سلیقگی نہ ملا
میں تشنہ رنج اُسی کا سراب پیما ہوں

یہ اور بات قرینے کی موت بھی نہ ملی
مگر یہ دیکھ کہ کس تمکنت سے زندہ ہوں

جو پڑھ سکے تو بہت ہے یہ ملگجی صورت
میں تیرے دُکھ کا بدن ہوں میں تیرا سایہ ہوں

ورق ورق ہوں مگر صحن زیست میں احمد
مشاہدات کے جوہر کا اک ذخیرہ ہوں
 

نوید صادق

محفلین
تم مرا دُکھ تروتازہ نہیں رہنے دیتے!

تم مرا دُکھ تروتازہ نہیں رہنے دیتے!
دشت کو ابر تو پیاسا نہیں رہنے دیتے؟

واہمے نت نئی اشکال بنا لیتے ہیں
ورقِ دل کو بھی سادہ نہیں رہنے دیتے

کتنے بے رحم ہیں یہ ہاتھ کہ فصلِ گل میں
شجر سبز پہ پتا نہیں رہنے دیتے

اب تو کچھ ایسے بچھڑ جاتے ہیں یارانِ کہن
آنکھ میں عکسِ تمنا نہیں رہنے دیتے

میری اَچھائیاں آئینہ بنانے والو!
کیوں مجھے شہر میں رُسوا نہیں رہنے دیتے

کتنے سفاک طبیعت ہیں شناسا چہرے
ایک لمحے کو بھی تنہا نہیں رہنے دیتے

ہم سے بے درد زمانے میں نہ دیکھے ہوں گے
اپنے ہی گھر کو جو اپنا نہیں رہنے دیتے

اب ترا نام جفا پیشہ ہوا کے جھونکے
ریگِ صحرا پہ بھی لکھا نہیں رہنے دیتے

اتنے سورج نکل آئے ہیں اُفق پر احمد
زیر دیوار بھی سایہ نہیں رہنے دیتے
 

نوید صادق

محفلین
پھر تقابل میں خجالت کے کھلونے آئے

پھر تقابل میں خجالت کے کھلونے آئے
ہاتھ میں سنگ اُٹھائے ہوئے بونے آئے

یوں تو اب بھی ترے خط ڈاک میں مل جاتے ہیں
کوئی تحریر تو آنکھوں کو بھگونے آئے

اس سے پہلے کہ کڑی دھوپ میں میلا ہو بدن
تو اسے لمس کی خوشبو سے بھی دھونے آئے

دھیان میں پھر سے گئی رُت کے سہانے سپنے
کرب کے گہرے سمندر میں ڈبونے آئے

قرب بھی جس کا رہا ہجر کے صحرا کی طرح
اب وہ جذبہ مرے بستر پہ نہ سونے آئے

پھر فریبوں نے دلِ زار کو زنجیر کیا
پھر مجھے حرفِ تسلی کے کھلونے آئے

میں ترے پھول سے انگاروں کو چھو کر تڑپوں
تیرا بچپن مرے گھر دودھ بلونے آئے

ان کہے لفظ نہ چہرے پہ برہنہ ہو جائیں
تیری آنکھوں میں مرا خواب نہ رونے آئے

کس کو اُفتاد پڑی ہے کہ اُٹھائے خفت
کون اس شہر میں اب نیکیاں ڈھونے آئے

آئے بے شک ترے آنگن میں چراغاں کرنے
اپنی پہچان کوئی ہم سا نہ کھونے آئے

التجا ہے نئے موسم کی نمو سے احمد
بے ثمر پیڑ مرے گھر میں نہ بونے آئے
 

نوید صادق

محفلین
ناواقف و شناسا ذرا بھی نہیں لگی

ناواقف و شناسا ذرا بھی نہیں لگی
خوش بھی نہیں ہوئی وہ خفا بھی نہیں لگی

خواہش کی جلتی دُھوپ کی رُت بھی گزر گئی
یخ بستہ موسموں کی ہوا بھی نہیں لگی

دُکھ بھی نفس کی آنکھ کا کاجل نہ بن سکا
اچھی بدن پہ سُکھ کی قبا بھی نہیں لگی

شاخِ خلش پہ سُوکھ گئی لمس کی کلی
ہاتھوں پہ آرزُو کی حنا بھی نہیں لگی

مہکا نہیں سکون کی ساعت کا کوئی پھول
اس سال دوستوں کی دُعا بھی نہیں لگی

مت پوچھ کس خیال کا بادل تنا رہا
صحرا میں تیز دھوپ ذرا بھی نہیں لگی

دستک تو نصف شب درِ احساس پر ہوئی
مشفق سپردگی کی صدا بھی نہیں لگی

احمد تمام عمر وفا کا سفر کیا
دشتِ اَنا میں ضربِ خطا بھی نہیں لگی
 

نوید صادق

محفلین
وہ بھی اُٹھا کے سنگِ ملامت اُداس تھا

وہ بھی اُٹھا کے سنگِ ملامت اُداس تھا
ہم کو بھی دوستی کے تقدس کا پاس تھا

ٹھوکر لگی تو آنکھ سے آنسو نکل پڑے
اک سنگِ رہگزار وفا غرقِ یاس تھا

پگھلا دیا تھا روح کو دوری کی آنچ نے
تیرے دُکھوں کا رنگ بدن کا لباس تھا

تم آ گئے تو لب پہ تبسم بھی آ گیا
ورنہ تو شام ہی سے مرا دل اُداس تھا

نفرت کی تیز دھارنے شہ رگ ہی کاٹ دی
اتنا خلوص تھا کہ سراپا سپاس تھا

مدت ہوئی جسے پسِ حد نظر چھپے
اس تیرگی کا حل اُسی سورج کے پاس تھا

احمد گھرے ہو آ کے کہاں شورِ شہر میں
تنہائیوں کا دشت تمہیں کتنا راس تھا
 

نوید صادق

محفلین
خواہشیں شہر اَنا میں سب امیروں سی لگیں

خواہشیں شہر اَنا میں سب امیروں سی لگیں
جستجوئیں‘ ہاتھ پھیلائے فقیروں سی لگیں

رات بھر بیکل رہا یادوں کے جلتے دشت میں
دھیان میں جو صورتیں بھی آئیں‘ تیروں سی لگیں

آرزوئیں‘ پابجولاں‘ صف بہ صف ٹھہری ہوئیں
دل سے تا بہ ذہن‘ جسموں میں اسیروں سی لگیں

جتنے دُکھ دیکھے‘ تبسم ریز تھے‘ اطرافِ جاں
اور خوشیاں‘ دل گرفتہ راہگیروں سی لگیں

میں ترے خط کی عبارت پڑھ کے روتا کس لیے
جتنی سطریں تھیں مقدر کی لکیروں سی لگیں

یوں تو پیشانی کشادہ تھی سمندر کی طرح
کتنی سوچیں تھیں جو ماتھے پر جزیروں سی لگیں

میں ترے ترشے ہوئے معیار کی بینائی تھا
لفظ و معنی کی چٹانیں تک لکیروں سی لگیں

یک نفس احمد لبِ ساکت کی تاریکی چھٹی
دو غزل پروردہ آنکھیں مجھ کو ہیروں سی لگیں
 

نوید صادق

محفلین
سنگِ نظر سے ٹوٹے ہوئے آئنے تو دیکھ

سنگِ نظر سے ٹوٹے ہوئے آئنے تو دیکھ
ان کی طرف بھی ایک نظر ہو سکے‘ تو دیکھ

شاید میں تیرے دھیان میں پھر سے اُبھر سکوں
میں اجنبی سہی‘ مجھے پہچان کے تو دیکھ

کس کس ادا سے چھانی ہے صحرائے شب کی خاک
آنکھوں میں رتجگوں کے نئے زاویے تو دیکھ

کتنے دُکھوں کے سامنے سینہ سپر ہوں میں
ناواقفِ نشاطِ الم! حوصلے تو دیکھ

کن لذتوں کے در نہ کھلے ہم پہ کیا کہیں
یہ غم کسی کی ذات سے تجھ کو ملے تو دیکھ

کچھ دن تو تجربات کے شعلوں پہ دل جلا
میری طرح سے دہر میں کچھ سانحے تو دیکھ

وارفتگیٔ شوق عجب مرحلوں میں ہے
جذبِ طلب کے پھیلے ہوئے سلسلے تو دیکھ

کن خواہشوں کا گرم لہو زیب خاک ہے
میں جن سے ہو کے آیا ہوں وہ راستے تو دیکھ

ہم اہلِ دل سے ترکِ مراسم کا دُکھ نہ پوچھ
شاخِ شجر سے ٹوٹ کے پتا گرے تو دیکھ

آئینۂ وفا ہے‘ سراپا خلوص ہے
احمد کے ساتھ چند گھڑی بیٹھ کے تو دیکھ
 

نوید صادق

محفلین
خواہشوں کی کپاس دُھن لو گے؟

خواہشوں کی کپاس دُھن لو گے؟
تم بھی آوازہ کوئی سن لو گے

کون سمجھا ہے اس کسک کی زباں
دل کی دھڑکن تو تم بھی سن لو گے

دوستی کر رہے ہو‘ یہ تو بتاؤ
پاپ لو گے کہ کوئی پن لو گے

کتنے خوابوں کو دو گے تعبیریں
شاخ سے کتنے پھول چن لو گے

سوچ کی جرأتوں کو قید کرو
جال تو تم ہزار بن لو گے

اس الاؤ سے اب گزر جاؤ
کون سا زندگی سے ہن لو گے

تم اگر سن لو مجھ پہ کیا گزری
رنج سے اپنے سر کو دُھن لو گے

تم سے جو پُرخلوص ہوں احمد
ایسے تم کتنے نام چن لو گے
 

نوید صادق

محفلین
اک خواب سا وجود بریدہ بدن ملا

اک خواب سا وجود بریدہ بدن ملا
دل کی طرح دماغ بھی بے پیرہن ملا

میں بھی شکست شیشۂ دل سے تھا مضمحل
وہ بھی اُداس‘ رات‘ سر انجمن ملا

دُھندلا دئیے ہوس نے تقدس کے آئنے
ہم نے جسے خدا کہا وہ اہرمن ملا

مت پوچھئے سفر کی رفاقت کا ہم سے دُکھ
جو بھی ملا‘ وفا کی قسم‘ راہزن ملا

یہ اور بات دل تھے کدورت کی خستہ قبر
لہجوں میں نکہتوں سے بھرا بانکپن ملا

میں سنگِ سدِ راہ ذہانت تھا دہر میں
انسان دوستی سے مجھے حسنِ فن ملا

شل ہو گئیں دماغ کی شوریدہ سر رگیں
سوچوں کو دشت میں وہ اذیت کا رن ملا

اک حرفِ اشتیاق نہ آیا زبان پر
احمد وہ اپنے آپ میں اتنا مگن ملا
 

نوید صادق

محفلین
حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے

حبس تنہائی نہ دے حبس میں کیا رکھا ہے
دل سا انگارہ تو پہلے ہی بجھا رکھا ہے

اے مرے شہر کی بے رحم زمیں کچھ تو بتا
تو نے ہر موڑ پہ کیوں سنگِ جفا رکھا ہے

اک ترا دُکھ ہو تو چہرے پہ بکھیرا جائے
کتنے غم ہیں جنہیں سینے سے لگا رکھا ہے

آپ کا اپنا تو اس میں کوئی پتھر ہی نہیں
کس لیے دوش پہ کہسار اُٹھا رکھا ہے

تو مری آنکھ کے گرداب کے نزدیک نہ آ
اس میں وہ زہر ہے جو تجھ سے چھپا رکھا ہے

رکھ رکھاؤ کے چراغوں کی لویں بجھ جائیں
اس توقع کی اذیت میں بھی کیا رکھا ہے

میں ترے رنج کے پتھراؤ سے گھبراتا ہوں
ورنہ اس جسم کو زخموں سے سجا رکھا ہے

تو مرے کرب کے احساس سے کب گزرا ہے
یہ تو وہ دُکھ ہے جو دھڑکن میں چھپا رکھا ہے

خود کو اب اتنی اذیت بھی نہ دیجے احمد
سوچیے شدتِ احساس میں کیا رکھا ہے
 

نوید صادق

محفلین
ہمیں پہ شہر میں اُٹھا ہے سنگ آوازہ

ہمیں پہ شہر میں اُٹھا ہے سنگ آوازہ
ہمیں نے رُخ پہ ملا خونِ گرم کا غازہ

اُداسیوں کی کڑی دُھوپ مجھ پہ رحم نہ کھا
گئے دنوں کی وفا کا یہی ہے خمیازہ

ہے تار تار کچھ اتنا لباس حال مرا
شعورِ ذات بھی کسنے لگا ہے آوازہ

مجھے بھی دے گا کوئی شہر میں کبھی ترتیب
ہے کوئی آنکھ کہ بکھرا ہوا ہے شیرازہ

یہ اور بات کئی حسن دلفریب ملے
کھلا نہ ہم پہ کسی کی ادا کا دروازہ

ہر ایک دُکھ کو بڑے صبر سے سہا احمد
پہ حادثات میں چہرہ رہا ترو تازہ
 

نوید صادق

محفلین
صبر کی موت سے سرگشتہ رہوں اچھا ہے

صبر کی موت سے سرگشتہ رہوں اچھا ہے
ایسی آزادی سے زنداں کا سکوں اچھا ہے

سرخ پتھر سے کئی سال تراشے ہوئے بت
حبس کی ضرب سے میں چیخ پڑوں اچھا ہے

جس کی تعمیر میں زخموں سے سجایا ہے بدن
اب وہی سنگ اُٹھاتا ہے‘ کہوں‘ اچھا ہے

خود ہی گھائل بھی ہو پتھر بھی اُٹھائے خود ہی
زندگی! تیرا یہ اندازِ جنوں اچھا ہے

تو چمکتے ہوئے چہروں کے بھنور میں کھو جا
میں شرافت کے اندھیروں میں رہوں اچھا ہے

کس نے رُسوائی کے پیکر کو عطا کی توقیر؟
کچھ تو فرمائیے کس شخص کا خوں اچھا ہے

میری تنہائی کا یہ دشت نہ آباد کرو
آپ ہی روؤں میں اب آپ ہنسوں اچھا ہے

ریزہ ریزہ کی طرح حد نظر تک بکھروں
فرش پر اتنی بلندی سے گروں اچھا ہے

میرے سینے میں دھڑکتا ہوا دل ہے احمد
جس قدر حسن کے نزدیک رہوں اچھا ہے
 

نوید صادق

محفلین
سنسناتے ہوئے پتھر نے مجھے چونکایا

سنسناتے ہوئے پتھر نے مجھے چونکایا
جب کسی جذبۂ خودسر نے مجھے چونکایا

سلوٹیں دیکھ‘ کوئی اُلٹے قدم لوٹا ہے
رات‘ تنہائی میں‘ بستر نے مجھے چونکایا

اس کو پہلے ہی سفر کا مرے اندازہ تھا
یک بیک راہ کے پتھر نے مجھے چونکایا

اپنے آئینے کی قیمت سے تہی علم تھا میں
تیری آواز کے کنکر نے مجھے چونکایا

گرد ہر چہرہ خورشید پہ جم سکتی ہے
ملگجی شام کے منظر نے مجھے چونکایا
 
Top