نوید صادق
محفلین
نہ سہی پیار‘ حقارت سے کبھی بول کے دیکھ
نہ سہی پیار‘ حقارت سے کبھی بول کے دیکھ
کوئی تو زہر مری روح میں تو گھول کے دیکھ
میری آواز کہاں تک تری دیوار بنے
شدتِ کرب سے تو بھی تو کبھی بول کے دیکھ
اپنی تنہائی کے اس گھور اندھیرے سے نکل
کیا ہے باہر کی فضا آنکھ ذرا کھول کے دیکھ
مجھ سے دریافت نئی صبح کا سورج ہوگا
ریگِ صحرا کے اندھیروں میں مجھے رول کے دیکھ
ماند پڑ جائے گی ہر مہرِ زر و سیم کی دھوپ
مجھ کو میزانِ تحمل میں کبھی تول کے دیکھ
میرے اخلاص کی تصویر جلانے والے!
دکھ کا منظر تو درِ دیدہ و دل کھول کے دیکھ
مجھ سا خوش فہم تو ہر دُکھ کو بھلا دیتا ہے
وضع داری کے بہانے ہی سہی بول کے دیکھ
دیکھ کس طاق میں جلتا ہے ترا دُکھ احمد
سوچتا کیا ہے‘ درِ قصرِ غزل کھول کے دیکھ
نہ سہی پیار‘ حقارت سے کبھی بول کے دیکھ
کوئی تو زہر مری روح میں تو گھول کے دیکھ
میری آواز کہاں تک تری دیوار بنے
شدتِ کرب سے تو بھی تو کبھی بول کے دیکھ
اپنی تنہائی کے اس گھور اندھیرے سے نکل
کیا ہے باہر کی فضا آنکھ ذرا کھول کے دیکھ
مجھ سے دریافت نئی صبح کا سورج ہوگا
ریگِ صحرا کے اندھیروں میں مجھے رول کے دیکھ
ماند پڑ جائے گی ہر مہرِ زر و سیم کی دھوپ
مجھ کو میزانِ تحمل میں کبھی تول کے دیکھ
میرے اخلاص کی تصویر جلانے والے!
دکھ کا منظر تو درِ دیدہ و دل کھول کے دیکھ
مجھ سا خوش فہم تو ہر دُکھ کو بھلا دیتا ہے
وضع داری کے بہانے ہی سہی بول کے دیکھ
دیکھ کس طاق میں جلتا ہے ترا دُکھ احمد
سوچتا کیا ہے‘ درِ قصرِ غزل کھول کے دیکھ