میں اجنبی سہی - سید آلِ‌ احمد

نوید صادق

محفلین
نہ سہی پیار‘ حقارت سے کبھی بول کے دیکھ

نہ سہی پیار‘ حقارت سے کبھی بول کے دیکھ
کوئی تو زہر مری روح میں تو گھول کے دیکھ

میری آواز کہاں تک تری دیوار بنے
شدتِ کرب سے تو بھی تو کبھی بول کے دیکھ

اپنی تنہائی کے اس گھور اندھیرے سے نکل
کیا ہے باہر کی فضا آنکھ ذرا کھول کے دیکھ

مجھ سے دریافت نئی صبح کا سورج ہوگا
ریگِ صحرا کے اندھیروں میں مجھے رول کے دیکھ

ماند پڑ جائے گی ہر مہرِ زر و سیم کی دھوپ
مجھ کو میزانِ تحمل میں کبھی تول کے دیکھ

میرے اخلاص کی تصویر جلانے والے!
دکھ کا منظر تو درِ دیدہ و دل کھول کے دیکھ

مجھ سا خوش فہم تو ہر دُکھ کو بھلا دیتا ہے
وضع داری کے بہانے ہی سہی بول کے دیکھ

دیکھ کس طاق میں جلتا ہے ترا دُکھ احمد
سوچتا کیا ہے‘ درِ قصرِ غزل کھول کے دیکھ
 

نوید صادق

محفلین
ویران کر دیا بھرا جنگل پڑاؤ نے

ویران کر دیا بھرا جنگل پڑاؤ نے
رکھا ہے دل میں سبز قدم کس لگاؤ نے

بے لطف دوستی کے سفر نے تھکا دیا
ساحل پہ دے کے مارا بھنور سے جو ناؤ نے

اے دوست! زخم تہمتِ تازہ لگا کہ پھر
سرسبز کر دیا ہے شجر سکھ کے گھاؤ نے

ان قربتوں کا ہدیۂ اخلاص کچھ تو دے
خوش بخت کر دیا تجھے جن کے لگاؤ نے

اُن پستوں کو روح کی نزدیکیوں سے دیکھ
کاٹا ہے جن کو دل کی ندی کے بہاؤ نے

تجھ کو تو رفعتوں کا وہ بادل بنا گیا
تسخیر کر لیا جسے دُکھ کے الاؤ نے

کیا کیا بسنت ہونٹ تراشے ہیں دستِ فن
مواج کر دیا ہے تبسم کٹاؤ نے

اب تو عذابِ مصلحت‘ اے ہم سفر! نہ دے
پتھرا دیے ہیں دیدہ و دل رکھ رکھاؤ نے

احمد زبانِ صدق کی تذلیل کی قسم
تہذیب یافتہ کیا فن کے جھکاؤ نے
 

نوید صادق

محفلین
ہم ذات کے اوراق پہ بکھری ہوئی شب ہیں

ہم ذات کے اوراق پہ بکھری ہوئی شب ہیں
معیار علیحدہ ہیں پہ انسان تو سب ہیں

آسیب زدہ ہے ترے ہونٹوں کی حلاوت
افسردۂ خاطر ترے لہجے کے سبب ہیں

دولت کی ترازو میں بھی ایمان بکا ہے؟
ہم صاحبِ کردار ہیں‘ پروردہ رب ہیں

دیروز کے چہرے کی عبارت بھی ذرا پڑھ
معمار ہیں آئندہ کے قاتل ترے کب ہیں

سوگند ہمیں صبح کے کھلتے ہوئے در کی
تعزیر لگاؤ کہ ہمیں رہزنِ شب ہیں

ہم دونوں محبت کے سوا جانتے کیا تھے
ایسے تو نہ تھے دوست کہ جس حال میں اب ہیں

وہ حُسن کا پیکر ہے کہ اعصاب کا قاتل
آنکھیں کسی آہو کی ہیں یاقوت سے لب ہیں

جسموں کے ذخائر کا سمندر ہے مگر ہم
اک چشم ستم پیشہ سے اخلاص طلب ہیں
 

نوید صادق

محفلین
دھوپ کو اوڑھ کے سائے سے نکل کر آتے

دھوپ کو اوڑھ کے سائے سے نکل کر آتے
اپنے قدموں سے مرے گھر کبھی چل کر آتے

ذہن‘ نایافت بشارت کا سمندر ہوتا
حرف تہذیب کی خوشبو میں جو پل کر آتے

اس الاؤ سے مجھے خوف بہت آتا ہے
اجنبی! پیار کے کپڑے تو بدل کر آتے

سہل‘ فردا کے تقاضوں کی مسافت ہوتی
غم دیروز سے باہر جو نکل کر آتے

جانے کس خواب کی تعبیر سے ٹکرائے ہو
اتنے زخمی تو نہ ہوتے جو سنبھل کر آتے

رتجگا اتنا مناتے کہ سحر ہو جاتی
قربِ روئیدہ سے اک پل جو بہل کر آتے

حوصلہ مند ہی احمد یہ ادا رکھتا ہے
سوئے مقتل کبھی مجرم نہیں چل کر آتے
 

نوید صادق

محفلین
موسم کی طرح رنگ بدلتا بھی بہت ہے

موسم کی طرح رنگ بدلتا بھی بہت ہے
ہم زاد مرا قلب کا سادہ بھی بہت ہے

نفرت بھی محبت کی طرح کرتا ہے مجھ سے
وہ پیار بھی کرتا ہے رُلاتا بھی بہت ہے

وہ شخص بچھڑتا ہے تو برسوں نہیں ملتا
ملتا ہے تو پھر ٹوٹ کے ملتا بھی بہت ہے

خوشحال ہے مزدور بہت عہدِ رواں کا
ماتھے پہ مگر اس کے پسینہ بھی بہت ہے

برسا ہے سرِ دشتِ طلب ابر بھی کھل کر
سناٹا مری روح میں گونجا بھی بہت ہے

تم یوں ہی شریک غم ہستی نہیں ٹھہرے
سچ بات تو یہ ہے تمہیں چاہا بھی بہت ہے

اُٹھتی ہی نہیں آنکھ حیا سے کبھی اُوپر
دوپٹہ مگر سر سے ڈھلکتا بھی بہت ہے

ہر دُکھ کو تبسم میں اُڑا دیتا ہے احمد
بچوں کی طرح پھوٹ کے روتا بھی بہت ہے
 

نوید صادق

محفلین
شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں

شب کی آغوش میں سو جاتا ہوں
سنگ ہوں موم بھی ہو جاتا ہوں

دل کا دروازہ کھلا مت رکھو
یاد آنکھوں میں پرو جاتا ہوں

جس کے لہجے میں وفا کھلتی ہو
میں تو اُس شخص کا ہو جاتا ہوں

دن میں سہتا ہوں بصیرت کا عذاب
شام کے شہر میں کھو جاتا ہوں

میری خاطر نہ تکلف کیجیے
میں تو کانٹوں پہ بھی سو جاتا ہوں

گاہے اظہار کو دیتا ہوں ہنر
گاہے دیوالیہ ہو جاتا ہوں

جب بھی بحران کا رَن پڑتا ہے
میں تری ذات میں کھو جاتا ہوں

میں ہوں احساس کی برکھا احمد
چشم اعصاب بھگو جاتا ہوں
 

نوید صادق

محفلین
اس توقع پہ آس رکھتا ہوں

اس توقع پہ آس رکھتا ہوں
آنکھ چہرہ شناس رکھتا ہوں

جانے کس لمحہ تو پلٹ آئے
اک یہی دل میں آس رکھتا ہوں

نہ سہی زر ادا تری قربت
دولتِ درد پاس رکھتا ہوں

مسکرا کر تو دیکھ ایک نظر
ہدیۂ صد سپاس رکھتا ہوں

صحبتِ گفتگو عطا تو کر
شہد ایسی مٹھاس رکھتا ہوں

سر سے پا تک شفق گلاب ہو تم
میں دھنک کا لباس رکھتا ہوں

مسکراتا ہوں بے سبب احمد
یا طبیعت اُداس رکھتا ہوں
 

نوید صادق

محفلین
وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں

وقت کے طشت میں رکھا ہوا پتھر ہوں میں
حرف کا دشت ہوں معنی کا سمندر ہوں میں

کون جانے کہ یہ خوشبو ہے عبارت مجھ سے
کیسے سمجھاؤں کہ پھولوں کا مقدر ہوں میں

مجھ کو آتا نہیں کاندھے پہ جنازہ رکھنا
منجمد شہر! حرارت کا پیمبر ہوں میں

اب بھی آتی ہے ترے قرب کے ایام کی آنچ
اب بھی احساس کا ذخار سمندر ہوں میں

آخر شب ہے‘ مری ذات سے نظریں نہ چرا
اے غمِ ہجر! ترے قد کے برابر ہوں میں

شہر میں حفظ مراتب کا بہت قحط ہے اب
آپ چاہیں تو چلے آئیں کہ گھر پر ہوں میں
 

نوید صادق

محفلین
اس نے اقرار کیا ہے مگر انکار کے ساتھ

اس نے اقرار کیا ہے مگر انکار کے ساتھ
سلسلہ جڑ تو گیا حُسنِ طرح دار کے ساتھ

صاحبِ دل ہیں‘ کوئی رُت ہو‘ بھرم رکھتے ہیں
اپنا رشتہ ہے ازل سے رَسَن و دار کے ساتھ

اب کسے تن پہ سجائے گا کڑی دھوپ میں پیڑ
ٹوٹ کر پتے لگے بیٹھے ہیں دیوار کے ساتھ

اِک ذرا دیر ٹھہر جا بُتِ خاموش مزاج!
نطق زنجیر تو کر لوں لبِ اظہار کے ساتھ

عمر بھر کس نے اصولوں کو ترازو رکھا
کون رُسوا ہوا اس شہر میں کردار کے ساتھ

ایک لمحے کو کھلا تھا درِِ مقتل شب کا
رغبتِ خاص ہے ہر صبح کو تلوار کے ساتھ

کس نے ترتیب دیا ذروں سے عالم کا نظام
مہر و مہ کس نے نمائش کیے پرکار کے ساتھ

آنکھ پتھرا گئی تکتے ہوئے رستہ لیکن
روح کا ربط ہے قائم رُخِ دلدار کے ساتھ

میرا خالق ہے مرے فن کی ضمانت احمد
حرف ترتیب سے چنتا نہیں معیار کے ساتھ
 

نوید صادق

محفلین
غزل

جنگل سے گزرنا پڑتا ہے
ہر سائے سے ڈرنا پڑتا ہے

کب لوٹ کے آتا ہے کوئی
یہ زخم تو بھرنا پڑتا ہے

ہر شام اُجڑ جاتے ہیں ہم
ہر صبح سنورنا پڑتا ہے

دہلیز تو پار وہ کر لیتا
طوفاں سے گزرنا پڑتا ہے

اب جیب بھی خائف رکھتی ہے
بچوں سے بھی ڈرنا پڑتا ہے

یہ پیٹ کا دوزخ بھی کیا ہے
سو طرح سے بھرنا پڑتا ہے

سر ہے تو یہ پتھر آئیں گے
برداشت تو کرنا پڑتا ہے

کیا تم سے ہاتھ ملائیں ہم
خفت سے گزرنا پڑتا ہے

اے زیست! سفر طے کتنا کریں
اک روز تو مرنا پڑتا ہے

کتنی بھی بلندی سر کر لو
نیچے تو اُترنا پڑتا ہے

اک دشت سراب ہے یہ‘ احمد
خوابوں کو بکھرنا پڑتا ہے
 

نوید صادق

محفلین
غزل

آتشِ کرب سے گزرتا ہوں
اب دعاؤں سے پیٹ بھرتا ہوں

تم سے ملنے کا حوصلہ ہی نہیں
بدگمانی سے اتنا ڈرتا ہوں

اس اذیت میں جی رہا ہوں
صبح مرتا ہوں‘ شام مرتا ہوں

سوچ پتھرا گئی اسی دُکھ میں
سطح دریا پہ کب اُبھرتا ہوں

ابر کھل کر برس نہ جائے کہیں
بادلوں کی گرج سے ڈرتا ہوں

نکہتِ حرفِ جاودانی ہوں
دھڑکنوں کو غزل میں بھرتا ہوں

اپنے پیڑوں کا پھل نہیں کھاتا
مسکراتا ہوں‘ صبر کرتا ہوں

صبح سے شام کی مسافت تک
دُھوپ کے دشت سے گزرتا ہوں

خود گڑھا کھودتا ہوں اپنے لیے
اور پھر خود ہی اس کو بھرتا ہوں

دُکھ کی بے مہریوں کا موسم ہے
سُکھ کی آشفتگی سے ڈرتا ہوں

تیرے دل میں اُتار کر سورج
اپنی آنکھوں میں رات بھرتا ہوں

اہرمن کون ہے‘ فرشتہ کون
مہرباں دوستوں سے ڈرتا ہوں

اے زمانہ! میں اب کھلونا نہیں
اَب میں بچوں سے پیار کرتا ہوں

کون ہوتا ہے خلوتوں میں مکیں
رات بھر کس سے بات کرتا ہوں

اَب میں اپنے ہی شہر سے احمد
مثلِ گردِ سحر گزرتا ہوں
 

نوید صادق

محفلین
غزل

چراغِ راہ بجھا ہے تو سوچتا ہوں میں
نہ جانے کون تھا جس سے بچھڑ گیا ہوں میں

درِ سماع سے دستک جو دے کے لوٹ آئی
شکستِ قیمت دل کی وہ اک صدا ہوں میں

ہیں میرے گرد مرے دوستوں کے دُکھ کتنے
کوئی بھی لمحۂ فرصت ہو‘ سوچتا ہوں میں

نہ جانے کون سی خوش فہمیٔ وفا کو لیے
دُکھوں کے تیز الاؤ میں جل رہا ہوں میں

کسے یقیں ہے رہیں گے بھی استوار سدا
تعلقات کی دہلیز پر کھڑا ہوں میں

غمِ حیات سے جب بھی ملا ہے مجھ کو فراغ
تمہاری یاد کی بانہوں میں آ گیا ہوں میں

کوئی بتائے کبھی لوٹ کر بھی آئیں گے
گئے سموں کو جو آواز دے رہا ہوں میں

تو اپنا ہاتھ ذرا اپنے دل پہ رکھ کے تو دیکھ
دھڑک اُٹھے گا یقینا کہ غم زدہ ہوں میں

نظر ملا کہ مرا حوصلہ جوان رہے
سکوتِ شہر! ترے سامنے کھڑا ہوں میں

نہ پوچھ دل پہ جو گزری ہے جستجو میں تری
خود اپنے گھر کا پتہ پوچھتے پھرا ہوں میں

لگا نہ ہاتھ مرے جسم کو تو بادِ وفا!
گزرتے وقت کی ڈھلوان پر کھڑا ہوں میں

جو تیرا قرب بھی گزرے تو ٹھوکریں کھائے
رہِ وفا میں وہ پتھر بنا ہوا ہوں میں

شعور ہے تو مری ذلتوں کو سجدہ کر
ترے وقار کی بنیاد ہو گیا ہوں میں

جہاں کسی کے تبسم کی اک کرن بھی نہیں
غمِ حیات کے اُس موڑ پر کھڑا ہوں میں

رکھا نہ اُس نے مرے پیار کا بھرم احمد
وہ آدمی کہ جسے اب بھی پوجتا ہوں میں
 

نوید صادق

محفلین
غزل

دُکھ کی دیوار تلے روح کو سستانے دو
یہ جو طوفاں سا اُمڈ آیا ہے‘ رُک جانے دو

مدتوں بعد تو پلٹا ہے بدل کر ملبوس
گھر کا دروازہ کھلا رکھو‘ اسے آنے دو

وقت بیمار مسافر ہے‘ گزر جائے گا
رائگاں ایک بھی لمحہ نہ کوئی جانے دو

اک تہی دست ہے اور ایک مقدر کا دھنی
کتنے مقبول ہوئے شہر میں دیوانے دو

عمر بھر کون سا برسا ہے کرم کا بادل
گھر میں آتا ہے جو سیلابِ بلا‘ آنے دو

آئنہ سامنے رہنے دو ابھی ماضی کا
سلوٹیں دیکھ کے پیشانی پہ پچھتانے دو

محبسِ ربط سے باہر تو نہیں جا سکتا
قید جتنا بھی رکھو اشک تو تھم جانے دو

زندگی کرب کے سانچے میں ڈھلی جاتی ہے
اب تو اس پیکر بے مثل کو گھر آنے دو
 

نوید صادق

محفلین
غزل

چھا گئے بامِ جدائی پہ سحاب
ہو گئے خواب‘ تبسم کے گلاب

عمر بھر ہم سر قربت ٹھہرے
دل میں دیکھا نہ اُترتا مہتاب

پہلے تہذیب کا مکتب تھے دیے
اب سکھاتی ہیں ہوائیں آداب

کتنا بھی پیار کا بادل برسے
دل کا صحرا نہیں ہوتا سیراب

کرب کی دھوپ مسلسل جو پڑے
سوکھ جاتا ہے بدن کا تالاب

اے ہوا! بند دریچہ مت کھول
ٹوٹ جائے نہ کہیں صبح کا خواب

دستِ خامہ میں ہے لرزش کی لکیر
طاسِ تحریر ہے دشتِ بے آب

ایک بھی گھر نہ بچے گا اب کے
پورے جوبن پہ ہے برکھا کا شباب

دن کا اُجیالا ہے قاتل احمد
اب اندھیرے میں مہکتا ہے گلاب
 

نوید صادق

محفلین
غزل

ترے لہو میں ہے شامل مرے خلوص کی بو
مجھے اُجاڑنے والے! مرا شعور ہے تو

میں تیرے شہر میں یوں صبح و شام کاٹتا ہوں
نڈھال زخموں سے ہو جیسے دشت میں آہو

خدا کے واسطے یہ کھیت مت اُجاڑنے دو
زمیں کی کھاد بنا دو بدن کا گرم لہو

میں تیرے نام کا کتبہ اُٹھائے پھرتا ہوں
جبین دہر کی تابندگی! کہاں ہے تو

فقیہِ شہر بتا اتنی قحط سالی کیوں
ہے اختیار تو کر ان کی بھوک کا دارو

زبان و حرف قفس ہوں‘ خیال و فکر صلیب
تم ان خطوط پہ دو گے دماغ و دل کو نمو

نکھر رہے ہیں نئی رُت میں خار و خس احمد
بکھر رہی ہے چمن میں گلاب کی خوشبو
 

نوید صادق

محفلین
غزل

اب حل مسائل کوئی سوچا نہیں جاتا
حالات کے گرداب سے نکلا نہیں جاتا

اب گھر میں سکوں کی کوئی تصویر نہیں ہے
اب شہر کی سڑکوں پہ بھی گھوما نہیں جاتا

ہر آنکھ جہاں سنگِ ملامت لیے اُٹھے
آئینۂ احساس بچایا نہیں جاتا

دل پاؤں پکڑتا ہے مگر لب نہیں ہلتے
اب جاتے ہوئے شخص کو پکڑا نہیں جاتا

سوچوں تو اُبھرتے نہیں خال و خدِ الفاظ
چاہوں بھی تو اب خط اُسے لکھا نہیں جاتا

ہر لمحہ نیا دُکھ مجھے زنجیر کیے ہے
باہر قفس فکر سے آیا نہیں جاتا

کس شخص کا دل جیتو گے اس شہر میں احمد
اس آنکھ کا کاجل تو چرایا نہیں جاتا
 

نوید صادق

محفلین
غزل

جب سے پیدا ہوا ہوں تنہا ہوں
خواب میں تتلیاں پکڑتا ہوں

قامت و قد میں ہوں پہاڑ مگر
اپنے اندر میں ریزہ ریزہ ہوں

چھاؤں کرتا ہوں شہر میں تقسیم
اپنے چہرے پہ دھوپ ملتا ہوں

بجھ گیا ہے الاؤ جذبوں کا
سوچ کی رہگذر پہ تنہا ہوں

مرثیہ ہوں جو مصلحت برتو
دل سے چاہو تو ایک نغمہ ہوں

بیعتِ حاکم غلط کرنا
لعنتِ زندگی سمجھتا ہوں

جو شبِ تیرہ میں چمکتا ہے
میں وہ کردار کا ستارہ ہوں

مہرباں سائے یاد آتے ہیں
ہاڑ کی دوپہر میں جلتا ہوں

جانے والوں کے لکھ رہا ہوں کرم
آنے والوں کی سوچ پڑھتا ہوں

شمعِ دل تو جلا کے دیکھ مجھے
تیری منزل کا سیدھا رستہ ہوں

ہر تہی خُلق عہد میں احمد
غم زدوں کے لیے مسیحا ہوں
 

نوید صادق

محفلین
غزل

چھپے گی سامنے آ کر یہ خستہ حالی کیا
ملے گا شہر میں ہم کو مکان خالی کیا

چھلک پڑے جو تمہیں دیکھ کر‘ بتاؤ مجھے
ان آنسوؤں نے مری آبرو بچا لی کیا

یہ دھڑکنیں ہیں علامت‘ چھپا ہوا تو نہیں
نظر کی اوٹ میں پیکر کوئی خیالی کیا

کسی طرح تو طلسمِ سکوتِ لب ٹوٹے
کوئی تو رنگِ تبسم‘ یہ قحط سالی کیا

یہاں تو سب ہی پریشاں دکھائی دیتے ہیں
دُکھوں کے شور میں ہوگا بدن سوالی کیا

جواں ہوئے تو کئی سال ہو گئے احمد
ہے اب بھی اُس کی طبیعت میں لا اُبالی کیا
 

نوید صادق

محفلین
غزل

وہ حبسِ لب بڑھا کہ بدن ڈولنے لگا
میں جب سکوتِ شہر کا در کھولنے لگا

اک خوف سا لگا مجھے خالی مکان سے
کل رات اپنے سائے سے دل ہولنے لگا

انگڑائی لے رہا ہو کوئی جیسے بام پر
خورشید روئے شرق پہ پر تولنے لگا

دوں گا کسے صدا کہ سماعت کو آ سکے
اے یادِ یار! زخم اگر بولنے لگا

ہم اہلِ اعتماد کنارے پہ آ گئے
گرداب میں سفینہ اگر ڈولنے لگا

روشن ہوئے نہ تھے ابھی آثار صبح کے
دل بانجھ جرأتوں کی گرہ کھولنے لگا

احمد میں اپنے صدق پہ ثابت ثمر رہا
نفرت کا زہر قرب اگر گھولنے لگا
 

نوید صادق

محفلین
غزل

کُھلا تھا اک یہی رستہ تو اور کیا کرتا
نہ دیتا ساتھ ہوا کا تو اور کیا کرتا

بہت دنوں سے پریشان تھا جدائی میں
جو اَب بھی تجھ سے نہ ملتا تو اور کیا کرتا

نہ کوئی دشتِ تسلی‘ نہ ہے سکون کا شہر
اُجالتا جو نہ صحرا تو اور کیا کرتا

بشر تو آنکھ سے اندھا تھا کان سے بہرہ
تجھے صدا جو نہ دیتا تو اور کیا کرتا

مرے سفر میں محبت کا سائبان نہ تھا
بدن پہ دھوپ نہ ملتا تو اور کیا کرتا

ترے حضور بھی جب اذنِ مدعا نہ ملا
متاعِ جاں نہ گنواتا تو اور کیا کرتا

حصارِ یاد کی زنجیر توڑ کر احمد
کھلی فضا میں نہ آتا تو اور کیا کرت
 
Top