زہیر عبّاس
محفلین
ناممکن کی طبیعیات از میچو کاکو
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation) - حصّہ چہارم (آخری حصّہ )
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
الجھاؤ کے بغیر دور دراز منتقلی
دور دراز منتقلی میں پیش قدمی کافی اسراع پذیر ہے .٢٠٠٧ء میں ایک اور اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا. طبیعیات دانوں نے ایک ایسا دور دراز منتقلی کا طریقہ پیش کر دیا جس میں الجھاؤ کی ضرورت نہیں تھی. ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کوانٹم دور دراز منتقلی کے عمل میں الجھاؤ ہی سب سے مشکل عمل ہے. اس مسئلہ کا حل دور دراز منتقلی میں نئے دریچے کھول سکتا ہے.
"ہم روشنی کی اس شعاع کی بات کر رہے ہیں جو لگ بھگ ٥ ہزار ذرّوں پر مشتمل ہے جو ایک جگہ سے غائب ہو کر کہیں بھی دوسری جگہ حاضر ہو جاتے ہیں."برسبین ، آسٹریلیا میں واقع آسٹریلین ریسرچ کونسل سینٹر آف ایکسیلنس فار کوانٹم ایٹم آپٹکس کے طبیعیات دان "ایسٹون بریڈلی"(Aston Bradley) نے یہ بات کہی. جنہوں نے اس نئےسرکردہ دور دراز منتقلی کے طریقے میں مدد کی ہے .
" ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری اسکیم اصل خیالی نظریئے سے اپنی روح میں کافی قریب ہے." انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا . ان کے طریقے میں ، وہ اور ان کے رفقائے کار روبیڈیم ایٹموں کی شعاع کو لے کر اس میں موجود تمام اطلاعات کو لے کر روشنی کی شعاع میں بدلتے ہیں ، پھر اس روشنی کی شعاع کو فائبر آپٹک تاروں کے ذریعہ بھیجتے ہیں اور پھر اصل روشنی کی شعاع کے ایٹموں کو دور دراز مقام پر دوبارہ بنا لیتے ہیں. اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو یہ طریقہ دور دراز منتقلی کے راستے میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کر دے گا اور بڑھتے ہوئے اجسام کی دور دراز منتقلی کے بالکل نئے دریچے کھول دے گا.
اپنے اس طریقے کو کوانٹم دور دراز منتقلی سے ممتاز کرنے کے لئے ڈاکٹر بریڈلی اس کو "مستند دور دراز منتقلی " (Classical Teleportation)کہتے ہیں.(یہ بات تھوڑا سا مغالطے میں ڈالنے والا ہے ، کیونکہ یہ طریقہ بھی کافی حد تک کوانٹم نظریئے کی بنیاد پر ہے بجز اس کے کہ اس کی بنیاد الجھاؤ پر نہیں ہے.)
اس نئے اور انوکھے دور دراز منتقلی کے طریقے کی کنجی ایک مادّے کی نئی حالت ہے جس کو " بوس آئن سٹائن تکاثف"(Bose Einstein Condensate)یا بی ای سی کہتے ہیں جو پوری کائنات کا سب سے سرد مادّہ ہے. قدرتی طور پر سب سے زیادہ سرد درجہ حرارت مطلق صفر سے ٣ کیلون اوپر ہے.(اس کی وجہ بگ بینگ کے دھماکے کی بچی ہوئی حرارت ہے. جو کائنات میں ابھی بھی پائی جاتی ہے .) مگر ایک بی ای سی ایک ڈگری کے دس لاکھ سے لے کر ایک ارب حصّے تک صفر درجہ حرارت سے اوپر ہو سکتا ہے، یہ ایک ایسا درجہ حرارت ہے جو صرف تجربہ گاہوں میں ہی پایا جاتا ہے.)
جب کچھ مخصوص مادوں کو مطلق صفر کے قریب ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو ان کے ایٹم سب سے نچلے درجے تک پر شکستہ ہو جاتے ہیں . اس طرح سے تمام ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مربوط یا اتصالی حالت میں آ جاتے ہیں. تمام ایٹموں میں موجود موجی فعل ایک دوسرے پر چڑھ جاتا ہے لہٰذا ایک طریقے سے ایک بی ای سی عظیم دیوہیکل بڑا ایٹم بن جاتا ہے جس میں شامل تمام ایٹم مل کر ہم آہنگ ہو کر تھر تھرا تھے ہیں. مادّے کی اس عجیب اور انوکھی حالت کی پیشن گوئی آئن سٹائن اور" ستیاندر ناتھ بوس"(Satyendrnath Bose) نے ١٩٢٥ میں کر دی تھی، مگر اس کو بننے میں مزید ٧٠ سال لگے اور آخر کار یونیورسٹی آف کولوراڈو میں واقع ایم آئی ٹی کی لیب میں١٩٩٥ء اس کو بنا لیا گیا.
اب ہم بتاتے ہیں کہ بریڈلی اور اس کے ساتھیوں کا بنایا ہوا دور رہیّتی آلہ کیسے کام کرتا ہے . سب سے پہلے وہ روبیڈیم کے سرد ترین ایٹموں کی ایک جماعت کو بی ای سی حالت میں لیتے ہیں. پھر وہ ایک مادّے کی شعاع کو بی ای سی پر مارتے ہیں (یہ شعاع بھی روبیڈیم ایٹموں سے بنی ہوتی ہے ). شعاع میں شامل ایٹم بھی پر شکستہ حالت میں توانائی کے سب سے نچلے درجے میں آنا چاہتے ہیں ، لہٰذا وہ اپنی زائد توانائی کو روشنی کے ارتعاش کی صورت میں بہا دیتے ہیں . یہ روشنی کی شعاع فائبر آپٹیکل تار کے ذریعہ بھیج دی جاتی ہے . حیرت انگیز طور پر روشنی کی وہ شعاع اپنے اندر وہ تمام کوانٹم کی اطلاعات محفوظ رکھتی ہے جو اصل مادّے کی شعاع کو بیان کر سکے.(مثلاً تمام ایٹموں کا مقام اور سمتی رفتار). اس کے بعد روشنی کی شعاع ایک اور بی ای سی سے ٹکراتی ہے ، جو روشنی کی شعاع کو اصلی مادّے کی شعاع میں بدل دیتی ہے.
یہ نیا دور دراز منتقلی کا طریقہ شاندار وعید لے کر آیا ہے کیونکہ یہ ایٹموں کی الجھاؤ والی چیز کا استعمال نہیں کرتا. مگر اس طریقہ میں کچھ مسائل بھی ہیں. اس کا سارا دارومدار ر بی ای سی کی خصوصیت پر ہے جن کو تجربہ گاہ میں بھی بنانا مشکل ہوتا ہے . مزید براں یہ کہ بی ای سی کے خصائص بہت ہی مخصوص ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایسا برتاؤ کرتی ہے کہ جیسے وہ ایک ہی ایٹم ہو . اصولی طور پر کوانٹم کا عجیب و انوکھا برتاؤ جو ہم ایٹمی پیمانے پر دیکھتے تھے اب خالی آنکھ سے بی ای سی کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں. کسی زمانے میں یہ بات ناممکن سمجھی جاتی تھی.
بی ای سی کا فوری استعمال ایٹمی پیمانے کی لیزر میں ہو سکتا ہے، ظاہر ہے جس کی بنیاد ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھر ا تھے ہوئے فوٹون کی مربوط شعاعیں ہی ہوں گی. مگر بی ای سی ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہوئے ایٹموں کی جماعت ہے، لہٰذا یہ بات بھی ممکن ہے کہ ایک ایسی بی ای سی ایٹموں کی شعاع بنائی جا سکے جو سب کی سب مربوط ہوں. دوسرے الفاظ میں ، ایک بی ای سی لیزر کی نقل بنا سکتی ہے ، جس کو ہم ایٹمی لیزر یا مادّے کی لیزر کہہ سکتے ہیں . لیزر کا تجارتی استعمال بہت ہی زبردست ہوگا اور ایٹمی لیزر سے بنی ہوئی تجارتی اشیاء میں بھی ایسا گہرا اثر ڈال سکتی ہیں. مگر کیونکہ بی ای سی صرف اس درجہ حرارت پر بنائی جا سکتی ہے جو مطلق صفر سے تھوڑا سے اوپر ہو لہٰذا اس میدان میں پیش رفت ہرچند متوازی مگر پھر بھی کافی آہستہ ہے.
اس میدان میں اب تک کی ہوئی پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے کب تک ہم اپنے آپ کو دور دراز منتقل کرنے کے قابل ہو جائیں گے ؟ طبیعیات دان سمجھتے ہیں اور پر امید ہیں کہ آیندہ آنے والے سالوں میں وہ پیچیدہ سالموں کو دور دراز منتقل کر سکتے ہیں . اس کے بعد دوسرا مرحلہ اگلی ایک دہائی میں مکمل ہو سکتا ہے جس میں کسی ڈی این اے یا پھر کسی جرثومے کو دور دراز منتقل کیا جا سکے گا. نظریاتی طور پر سائنس فکشن فلموں میں دکھائی جانے والی انسانوں کی دور دراز منتقلی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن در حقیقت اس قسم کے کارنامے کو انجام دینے میں فنی مسائل بہت ہی زیادہ ہیں. دنیا میں موجود سب سے اچھی تجربہ گاہیں بھی ابھی صرف ننھے روشنی کے فوٹون اور انفرادی ایٹموں کو مربوط کر پائی ہیں. کوانٹم مربوطیت بڑے اجسام جیسے حضرت انسان میں پیدا کرنے کا سوال آنے والی کافی عرصے تک پیدا ہی نہیں ہوتا . اصل میں اگر روز مرہ کی چیزوں کو دور منتقل کرنا ممکن ہو تو بھی اس کام میں کئی صدیاں یا پھر اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے.
کوانٹم کمپیوٹر ز
کوانٹم دور دراز منتقلی کے مقدر کے ساتھ ہی کوانٹم کمپیوٹر ز میں ہونے والی پیش رفت کی قسمت جڑی ہوئی ہے. دونوں کوانٹم کی طبیعیات اور ایک ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں . دونوں میدانوں کے درمیان زبردست اخصاب (Fertilization)موجود ہے. کوانٹم کمپیوٹر ز ایک دن ہماری میزوں پر رکھے ہوئے ڈیجیٹل کمپیوٹر ز سے بدل دیے جائیں گے. حقیقت میں مستقبل میں ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب دنیا کی معیشت اس طرح کے کمپیوٹرز پر انحصار کر رہی ہوگی ، لہٰذا اس طرح کی ٹیکنالوجی میں زبردست قسم کے تجارتی مفاد چھپے ہیں. ایک دن سلیکان ویلی، زنگ آلود پٹی بن جائی گی جو کوانٹم کمپیوٹنگ سے نمودار ہوئی ٹیکنالوجی سے بدل چکی ہوگی.
عام کمپیوٹر ثنائی نظام پر کام کرتا ہے جو ایک اور صفر پر مشتمل ہوتا ہے ، جن کو بٹس کہتے ہیں. مگر کوانٹم کمپیوٹر اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں. وہ کیو بٹس پر کام کرتے ہیں جو صفر اور ایک کی مقدار کے درمیان کی قدریں بھی استعمال کر سکتے ہیں. ذرا ایک ایسے ایٹم کا تصوّر کریں جو کسی مقناطیسی میدان میں رکھا ہوا کسی لٹو کی طرح گھوم رہا ہے اس کا محور یا تو اوپر یا نیچے دونوں جانب ہو سکتا ہے . عقل عامہ ہمیں بتاتی ہے کہ ایٹم کا گھماؤ یا تو اوپر کی جانب یا پھر نیچے کی جانب ہو سکتا ہے مگر دونوں جانب ایک ساتھ نہیں ہو سکتا. مگر کوانٹم کی عجیب و غریب دنیا میں ، ایٹم کو دونوں حالتوں کو جمع کرکے بیان کیا جا سکتا ہے یعنی اوپر اور نیچے دونوں کی جانب کے گھماؤ کو جمع کرکے بتایا جا سکتا ہے. کوانٹم کی زیریں دنیا میں ، ہر جسم کو تمام حالتوں کو جمع کر کے بیان کیا جا سکتا ہے.(اگر بڑے جسم مثلاً بلی کو کوانٹم میں بیان کیا جائے گا تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ نے زندہ بلی کے موجی فعل اور مردہ بلی کے موجی فعل دونوں کو جمع کرکے بیان کیا ہوگا ، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلی نہ زندہ ہوگی نہ ہی مردہ . اس کو مزید تفصیل سے تیرہویں باب میں بیان کیا جائے گا.)
اب ایک ایسی ایٹمی رسی کا تصور کریں جو مقناطیسی میدان میں ایک صف میں کھڑی ہے ، جس میں ایٹموں کا گھماؤ کسی ایک طرف ہوا ہے . اگر لیزر کی شعاع اس ایٹم کی رسی پر ماری جائے گی تو وہ ان ایٹموں کی جماعت سے ٹکرا کر واپس آ جائے گی. اس سارے عمل میں کچھ ایٹموں کے محور کا گھماؤ تبدیل ہو جائے گا. آنے اور جانے والی لیزر کی شعاع کو ناپنے سے ہم ایک پیچیدہ کوانٹم حسابی عمل انجام دے چکے ہیں جس میں کئی گھماؤ کی تبدیلیوں کو ناپنا شامل ہے.
کوانٹم کمپیوٹر ابھی تک اپنے ابتدائی دور میں ہیں. اب تک کا ورلڈ ریکارڈ جو کوانٹم کمپیوٹر نے بنایا ہے وہ ٣ * ٥ = ١٥ کا ہے، ایک ایسا حسابی عمل جو شاید ہی آج کے دور کے بڑے کمپیوٹر ز کی جگہ لے سکے. کوانٹم دور دراز منتقلی اور کوانٹم حساب دونوں میں ایک مشترکہ مہلک کمزوری ہے: ایک بڑے ایٹموں کے گروہ میں مربوطی کو قائم رکھنا . اگر کسی طرح سے یہ مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں میدانوں میں یہ ایک انقلابی دریافت ہوگی .
سی آئی اے اور دوسرے خفیہ ادارے کوانٹم کمپیوٹر ز میں زبردست دلچسپی رکھتے ہیں. دنیا کے رازوں کی اکثریت میں ایک خفیہ کنجی ہوتی ہے جو ایک بہت ہی" بڑا عدد صحیح"(Large Integer) ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ کسی کو تقسیم کرکے مفرد عدد کو نکلنا ہوتا ہے. اگر وہ کنجی کسی دو نمبروں سے بنی ہو ، جس میں ہر ایک سو اعداد پر مشتمل ہو تو ایک عددی کمپیوٹر کو اس کو حل کرنے کے لئے ایک سو برس سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہوگا. ایسا کوئی بھی رمز آج کے دور میں توڑا نہیں جا سکتا.
١٩١٤ء میں بیل لیب کے "پیٹر شور"(Peter Shor) نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ کسی بھی بڑے نمبر کو توڑنا کوانٹم کمپیوٹر کے لئے بچوں کا کھیل ہے. اس دریافت نے جلد ہی خفیہ اداروں . نظری طور پر کوانٹم کمپیوٹر دنیا کے تمام رمزوں کو توڑ سکتے ہیں. کوانٹم کمپیوٹرز سے دور حاضر کے کمپیوٹر ز کے مروجہ نظام کی سیکیورٹی کو مکمل خطرہ لاحق ہے. دنیا کا پہلا ملک جس نے اس قسم کا نظام بنا لیا وہ دوسری اقوام اور اداروں کے راز حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا.
کچھ سائنس دانوں کو اس بات کی پوری امید ہے کہ مستقبل میں دنیا کی معیشت کا سارا دارو مدار ان کوانٹم کمپیوٹر ز پر ہوگا .اس بات کا کافی امکان ہے کہ سلیکان کی بنیاد پر بننے والے کمپیوٹر ز اپنی حسابی استعداد کی آخری طبیعیاتی حد تک ٢٠٢٠ء میں پہنچ جائیں گے. اگر ہم ٹیکنالوجی کو مزید آگے تک لے کر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں نیا مزید طاقتور کمپیوٹر لازمی طور پر درکار ہوگا. کچھ لوگ انسانی دماغ جیسی قوّت کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ حاصل کرنے کی تلاش میں بھی ہیں .
ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے. اگر ہم اتصال کا مسئلہ حل کر لیں تو نا صرف ہم دور دراز منتقلی کے مسائل پر قابو پا لیں گے بلکہ ہم ہر قسم کی ٹیکنالوجی میں نا قابل تصوّر طریقوں سے کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ آگے بڑھ سکیں گے. یہ دریافت اس قدر اہم ہوگی کہ میں اس پر دوبارہ اگلے ابواب میں بات کروں گا .
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ، ایٹموں کو آپس میں مربوط رکھنا تجربہ گاہ میں بھی قائم رکھنا غیر معمولی طور پر مشکل کام ہے . چھوٹی سی چھوٹی تھر تھرا ہٹ بھی دو ایٹموں کے باہم ربط کو خراب کر کے حساب کتاب کے عمل کو تباہ کر سکتی ہے. آج کے دور میں صرف کچھ ایٹموں میں ہی مربوطی کیفیت کو قائم رکھنا بھی انتہائی مشکل کام ہے. جو ایٹم نینو سیکنڈوں میں غیر مربوط ہو جاتے تھے اب ان کی مربوطی کا وقت بڑھ کر ایک سیکنڈ تک ہو گیا ہے . دور دراز منتقلی کو نہایت تیزی کے ساتھ ایٹموں کے دوبارہ غیر مربوط ہونے سے پہلے مکمل ہونا ہوگا . بس یہی ایک ایسی بات ہے دور دراز منتقلی اور کوانٹم حسابی عمل پر پابندی لگا دیتی ہے.
ان تمام تر چیلنجز کے باوجود ، آکسفورڈ یونیورسٹی میں کام کرنے والے "ڈیوڈ ڈویچے"(David Deutsch) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ مسائل حل کر لئے جائیں گے: حالیہ نظری پیش رفت اور قسمت کے بھروسے (ایک کوانٹم کمپیوٹر کو) بننے میں کم از کم پچاس برس کا عرصہ لگے گا ....یہ ایک بالکل ہی نیا طریقہ ہوگا جس کے ذریعہ قدرت کو انضباط کیا جا سکے گا."
ایک کارآمد کوانٹم کمپیوٹر کو بنانے کے لئے ہمیں سینکڑوں سے لے کر دسیوں لاکھ ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھراتے ہوئے درکار ہوں گے جو ہماری موجودہ قابلیت اور بساط سے کہیں زیادہ ہے. کپتان کرک والی دور دراز منتقلی تو بہت ہی مشکل ہے . ہمیں کپتان کرک کے جڑواں کے ساتھ کوانٹم الجھاؤ پیدا کرنا ہوگا . نینو ٹیکنالوجی اور جدید کمپیوٹر کے ساتھ بھی ایسا کرنا نہایت ہی مشکل نظر آتا ہے.
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دور دراز منتقلی ایٹمی پیمانے پر تو موجود ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم پیچیدہ اور نامیاتی مادّے بھی آنے والی کچھ دہائیوں میں دور منتقل کر سکیں. لیکن بڑے اجسام کو حقیقت میں اگر دور دراز منتقل کرنا ممکن بھی ہوا تو اس کے لئے ہمیں آنے والی کئی دہائیوں سے لے کر صدیوں یا اس سے بھی زیادہ تک کا انتظار کرنا ہوگا . لہٰذا پیچیدہ سالموں بلکہ وائرس یا زندہ خلیہ کی دور دراز منتقلی جماعت "I" کی ناممکنات میں شامل ہے جو شاید اسی صدی تک ممکن ہو جائے. اگرچہ طبیعیات کے قوانین کی رو سے انسان کی دور دراز منتقلی تو ممکن ہے لیکن ایسا ہونا واقعی ممکن بھی ہوا تو بھی اس کام میں کئی صدیاں لگ جائیں گی . لہٰذا اس قسم کی دور دراز منتقلی کو میں جماعت "II" کی ناممکنات میں شامل کروں گا.
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
4۔ دور دراز منتقلی (Teleportation) - حصّہ چہارم (آخری حصّہ )
-----------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------------
الجھاؤ کے بغیر دور دراز منتقلی
دور دراز منتقلی میں پیش قدمی کافی اسراع پذیر ہے .٢٠٠٧ء میں ایک اور اہم سنگ میل عبور کرلیا گیا. طبیعیات دانوں نے ایک ایسا دور دراز منتقلی کا طریقہ پیش کر دیا جس میں الجھاؤ کی ضرورت نہیں تھی. ہمیں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ کوانٹم دور دراز منتقلی کے عمل میں الجھاؤ ہی سب سے مشکل عمل ہے. اس مسئلہ کا حل دور دراز منتقلی میں نئے دریچے کھول سکتا ہے.
"ہم روشنی کی اس شعاع کی بات کر رہے ہیں جو لگ بھگ ٥ ہزار ذرّوں پر مشتمل ہے جو ایک جگہ سے غائب ہو کر کہیں بھی دوسری جگہ حاضر ہو جاتے ہیں."برسبین ، آسٹریلیا میں واقع آسٹریلین ریسرچ کونسل سینٹر آف ایکسیلنس فار کوانٹم ایٹم آپٹکس کے طبیعیات دان "ایسٹون بریڈلی"(Aston Bradley) نے یہ بات کہی. جنہوں نے اس نئےسرکردہ دور دراز منتقلی کے طریقے میں مدد کی ہے .
" ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہماری اسکیم اصل خیالی نظریئے سے اپنی روح میں کافی قریب ہے." انہوں نے اس بات کا دعویٰ کیا . ان کے طریقے میں ، وہ اور ان کے رفقائے کار روبیڈیم ایٹموں کی شعاع کو لے کر اس میں موجود تمام اطلاعات کو لے کر روشنی کی شعاع میں بدلتے ہیں ، پھر اس روشنی کی شعاع کو فائبر آپٹک تاروں کے ذریعہ بھیجتے ہیں اور پھر اصل روشنی کی شعاع کے ایٹموں کو دور دراز مقام پر دوبارہ بنا لیتے ہیں. اگر ان کا یہ دعویٰ صحیح ہے تو یہ طریقہ دور دراز منتقلی کے راستے میں کھڑی سب سے بڑی رکاوٹ کو دور کر دے گا اور بڑھتے ہوئے اجسام کی دور دراز منتقلی کے بالکل نئے دریچے کھول دے گا.
اپنے اس طریقے کو کوانٹم دور دراز منتقلی سے ممتاز کرنے کے لئے ڈاکٹر بریڈلی اس کو "مستند دور دراز منتقلی " (Classical Teleportation)کہتے ہیں.(یہ بات تھوڑا سا مغالطے میں ڈالنے والا ہے ، کیونکہ یہ طریقہ بھی کافی حد تک کوانٹم نظریئے کی بنیاد پر ہے بجز اس کے کہ اس کی بنیاد الجھاؤ پر نہیں ہے.)
اس نئے اور انوکھے دور دراز منتقلی کے طریقے کی کنجی ایک مادّے کی نئی حالت ہے جس کو " بوس آئن سٹائن تکاثف"(Bose Einstein Condensate)یا بی ای سی کہتے ہیں جو پوری کائنات کا سب سے سرد مادّہ ہے. قدرتی طور پر سب سے زیادہ سرد درجہ حرارت مطلق صفر سے ٣ کیلون اوپر ہے.(اس کی وجہ بگ بینگ کے دھماکے کی بچی ہوئی حرارت ہے. جو کائنات میں ابھی بھی پائی جاتی ہے .) مگر ایک بی ای سی ایک ڈگری کے دس لاکھ سے لے کر ایک ارب حصّے تک صفر درجہ حرارت سے اوپر ہو سکتا ہے، یہ ایک ایسا درجہ حرارت ہے جو صرف تجربہ گاہوں میں ہی پایا جاتا ہے.)
جب کچھ مخصوص مادوں کو مطلق صفر کے قریب ٹھنڈا کیا جاتا ہے تو ان کے ایٹم سب سے نچلے درجے تک پر شکستہ ہو جاتے ہیں . اس طرح سے تمام ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا سکتے ہیں جس کے نتیجے میں وہ مربوط یا اتصالی حالت میں آ جاتے ہیں. تمام ایٹموں میں موجود موجی فعل ایک دوسرے پر چڑھ جاتا ہے لہٰذا ایک طریقے سے ایک بی ای سی عظیم دیوہیکل بڑا ایٹم بن جاتا ہے جس میں شامل تمام ایٹم مل کر ہم آہنگ ہو کر تھر تھرا تھے ہیں. مادّے کی اس عجیب اور انوکھی حالت کی پیشن گوئی آئن سٹائن اور" ستیاندر ناتھ بوس"(Satyendrnath Bose) نے ١٩٢٥ میں کر دی تھی، مگر اس کو بننے میں مزید ٧٠ سال لگے اور آخر کار یونیورسٹی آف کولوراڈو میں واقع ایم آئی ٹی کی لیب میں١٩٩٥ء اس کو بنا لیا گیا.
اب ہم بتاتے ہیں کہ بریڈلی اور اس کے ساتھیوں کا بنایا ہوا دور رہیّتی آلہ کیسے کام کرتا ہے . سب سے پہلے وہ روبیڈیم کے سرد ترین ایٹموں کی ایک جماعت کو بی ای سی حالت میں لیتے ہیں. پھر وہ ایک مادّے کی شعاع کو بی ای سی پر مارتے ہیں (یہ شعاع بھی روبیڈیم ایٹموں سے بنی ہوتی ہے ). شعاع میں شامل ایٹم بھی پر شکستہ حالت میں توانائی کے سب سے نچلے درجے میں آنا چاہتے ہیں ، لہٰذا وہ اپنی زائد توانائی کو روشنی کے ارتعاش کی صورت میں بہا دیتے ہیں . یہ روشنی کی شعاع فائبر آپٹیکل تار کے ذریعہ بھیج دی جاتی ہے . حیرت انگیز طور پر روشنی کی وہ شعاع اپنے اندر وہ تمام کوانٹم کی اطلاعات محفوظ رکھتی ہے جو اصل مادّے کی شعاع کو بیان کر سکے.(مثلاً تمام ایٹموں کا مقام اور سمتی رفتار). اس کے بعد روشنی کی شعاع ایک اور بی ای سی سے ٹکراتی ہے ، جو روشنی کی شعاع کو اصلی مادّے کی شعاع میں بدل دیتی ہے.
یہ نیا دور دراز منتقلی کا طریقہ شاندار وعید لے کر آیا ہے کیونکہ یہ ایٹموں کی الجھاؤ والی چیز کا استعمال نہیں کرتا. مگر اس طریقہ میں کچھ مسائل بھی ہیں. اس کا سارا دارومدار ر بی ای سی کی خصوصیت پر ہے جن کو تجربہ گاہ میں بھی بنانا مشکل ہوتا ہے . مزید براں یہ کہ بی ای سی کے خصائص بہت ہی مخصوص ہوتے ہیں کیونکہ وہ ایسا برتاؤ کرتی ہے کہ جیسے وہ ایک ہی ایٹم ہو . اصولی طور پر کوانٹم کا عجیب و انوکھا برتاؤ جو ہم ایٹمی پیمانے پر دیکھتے تھے اب خالی آنکھ سے بی ای سی کے ذریعہ دیکھ سکتے ہیں. کسی زمانے میں یہ بات ناممکن سمجھی جاتی تھی.
بی ای سی کا فوری استعمال ایٹمی پیمانے کی لیزر میں ہو سکتا ہے، ظاہر ہے جس کی بنیاد ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھر ا تھے ہوئے فوٹون کی مربوط شعاعیں ہی ہوں گی. مگر بی ای سی ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھرا تھے ہوئے ایٹموں کی جماعت ہے، لہٰذا یہ بات بھی ممکن ہے کہ ایک ایسی بی ای سی ایٹموں کی شعاع بنائی جا سکے جو سب کی سب مربوط ہوں. دوسرے الفاظ میں ، ایک بی ای سی لیزر کی نقل بنا سکتی ہے ، جس کو ہم ایٹمی لیزر یا مادّے کی لیزر کہہ سکتے ہیں . لیزر کا تجارتی استعمال بہت ہی زبردست ہوگا اور ایٹمی لیزر سے بنی ہوئی تجارتی اشیاء میں بھی ایسا گہرا اثر ڈال سکتی ہیں. مگر کیونکہ بی ای سی صرف اس درجہ حرارت پر بنائی جا سکتی ہے جو مطلق صفر سے تھوڑا سے اوپر ہو لہٰذا اس میدان میں پیش رفت ہرچند متوازی مگر پھر بھی کافی آہستہ ہے.
اس میدان میں اب تک کی ہوئی پیش رفت کو مد نظر رکھتے ہوئے کب تک ہم اپنے آپ کو دور دراز منتقل کرنے کے قابل ہو جائیں گے ؟ طبیعیات دان سمجھتے ہیں اور پر امید ہیں کہ آیندہ آنے والے سالوں میں وہ پیچیدہ سالموں کو دور دراز منتقل کر سکتے ہیں . اس کے بعد دوسرا مرحلہ اگلی ایک دہائی میں مکمل ہو سکتا ہے جس میں کسی ڈی این اے یا پھر کسی جرثومے کو دور دراز منتقل کیا جا سکے گا. نظریاتی طور پر سائنس فکشن فلموں میں دکھائی جانے والی انسانوں کی دور دراز منتقلی میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے، لیکن در حقیقت اس قسم کے کارنامے کو انجام دینے میں فنی مسائل بہت ہی زیادہ ہیں. دنیا میں موجود سب سے اچھی تجربہ گاہیں بھی ابھی صرف ننھے روشنی کے فوٹون اور انفرادی ایٹموں کو مربوط کر پائی ہیں. کوانٹم مربوطیت بڑے اجسام جیسے حضرت انسان میں پیدا کرنے کا سوال آنے والی کافی عرصے تک پیدا ہی نہیں ہوتا . اصل میں اگر روز مرہ کی چیزوں کو دور منتقل کرنا ممکن ہو تو بھی اس کام میں کئی صدیاں یا پھر اس سے بھی زیادہ وقت لگ سکتا ہے.
کوانٹم کمپیوٹر ز
کوانٹم دور دراز منتقلی کے مقدر کے ساتھ ہی کوانٹم کمپیوٹر ز میں ہونے والی پیش رفت کی قسمت جڑی ہوئی ہے. دونوں کوانٹم کی طبیعیات اور ایک ہی ٹیکنالوجی کا استعمال کرتے ہیں . دونوں میدانوں کے درمیان زبردست اخصاب (Fertilization)موجود ہے. کوانٹم کمپیوٹر ز ایک دن ہماری میزوں پر رکھے ہوئے ڈیجیٹل کمپیوٹر ز سے بدل دیے جائیں گے. حقیقت میں مستقبل میں ایک دن ایسا ضرور آئے گا جب دنیا کی معیشت اس طرح کے کمپیوٹرز پر انحصار کر رہی ہوگی ، لہٰذا اس طرح کی ٹیکنالوجی میں زبردست قسم کے تجارتی مفاد چھپے ہیں. ایک دن سلیکان ویلی، زنگ آلود پٹی بن جائی گی جو کوانٹم کمپیوٹنگ سے نمودار ہوئی ٹیکنالوجی سے بدل چکی ہوگی.
عام کمپیوٹر ثنائی نظام پر کام کرتا ہے جو ایک اور صفر پر مشتمل ہوتا ہے ، جن کو بٹس کہتے ہیں. مگر کوانٹم کمپیوٹر اس سے کہیں زیادہ طاقتور ہوتے ہیں. وہ کیو بٹس پر کام کرتے ہیں جو صفر اور ایک کی مقدار کے درمیان کی قدریں بھی استعمال کر سکتے ہیں. ذرا ایک ایسے ایٹم کا تصوّر کریں جو کسی مقناطیسی میدان میں رکھا ہوا کسی لٹو کی طرح گھوم رہا ہے اس کا محور یا تو اوپر یا نیچے دونوں جانب ہو سکتا ہے . عقل عامہ ہمیں بتاتی ہے کہ ایٹم کا گھماؤ یا تو اوپر کی جانب یا پھر نیچے کی جانب ہو سکتا ہے مگر دونوں جانب ایک ساتھ نہیں ہو سکتا. مگر کوانٹم کی عجیب و غریب دنیا میں ، ایٹم کو دونوں حالتوں کو جمع کرکے بیان کیا جا سکتا ہے یعنی اوپر اور نیچے دونوں کی جانب کے گھماؤ کو جمع کرکے بتایا جا سکتا ہے. کوانٹم کی زیریں دنیا میں ، ہر جسم کو تمام حالتوں کو جمع کر کے بیان کیا جا سکتا ہے.(اگر بڑے جسم مثلاً بلی کو کوانٹم میں بیان کیا جائے گا تو اس کا مطلب ہوگا کہ آپ نے زندہ بلی کے موجی فعل اور مردہ بلی کے موجی فعل دونوں کو جمع کرکے بیان کیا ہوگا ، جس کا مطلب یہ ہوگا کہ بلی نہ زندہ ہوگی نہ ہی مردہ . اس کو مزید تفصیل سے تیرہویں باب میں بیان کیا جائے گا.)
اب ایک ایسی ایٹمی رسی کا تصور کریں جو مقناطیسی میدان میں ایک صف میں کھڑی ہے ، جس میں ایٹموں کا گھماؤ کسی ایک طرف ہوا ہے . اگر لیزر کی شعاع اس ایٹم کی رسی پر ماری جائے گی تو وہ ان ایٹموں کی جماعت سے ٹکرا کر واپس آ جائے گی. اس سارے عمل میں کچھ ایٹموں کے محور کا گھماؤ تبدیل ہو جائے گا. آنے اور جانے والی لیزر کی شعاع کو ناپنے سے ہم ایک پیچیدہ کوانٹم حسابی عمل انجام دے چکے ہیں جس میں کئی گھماؤ کی تبدیلیوں کو ناپنا شامل ہے.
کوانٹم کمپیوٹر ابھی تک اپنے ابتدائی دور میں ہیں. اب تک کا ورلڈ ریکارڈ جو کوانٹم کمپیوٹر نے بنایا ہے وہ ٣ * ٥ = ١٥ کا ہے، ایک ایسا حسابی عمل جو شاید ہی آج کے دور کے بڑے کمپیوٹر ز کی جگہ لے سکے. کوانٹم دور دراز منتقلی اور کوانٹم حساب دونوں میں ایک مشترکہ مہلک کمزوری ہے: ایک بڑے ایٹموں کے گروہ میں مربوطی کو قائم رکھنا . اگر کسی طرح سے یہ مسئلہ حل ہو جائے تو دونوں میدانوں میں یہ ایک انقلابی دریافت ہوگی .
سی آئی اے اور دوسرے خفیہ ادارے کوانٹم کمپیوٹر ز میں زبردست دلچسپی رکھتے ہیں. دنیا کے رازوں کی اکثریت میں ایک خفیہ کنجی ہوتی ہے جو ایک بہت ہی" بڑا عدد صحیح"(Large Integer) ہوتا ہے اور اس کے ذریعہ کسی کو تقسیم کرکے مفرد عدد کو نکلنا ہوتا ہے. اگر وہ کنجی کسی دو نمبروں سے بنی ہو ، جس میں ہر ایک سو اعداد پر مشتمل ہو تو ایک عددی کمپیوٹر کو اس کو حل کرنے کے لئے ایک سو برس سے بھی زیادہ کا عرصہ درکار ہوگا. ایسا کوئی بھی رمز آج کے دور میں توڑا نہیں جا سکتا.
١٩١٤ء میں بیل لیب کے "پیٹر شور"(Peter Shor) نے اس بات کا مظاہرہ کیا کہ کسی بھی بڑے نمبر کو توڑنا کوانٹم کمپیوٹر کے لئے بچوں کا کھیل ہے. اس دریافت نے جلد ہی خفیہ اداروں . نظری طور پر کوانٹم کمپیوٹر دنیا کے تمام رمزوں کو توڑ سکتے ہیں. کوانٹم کمپیوٹرز سے دور حاضر کے کمپیوٹر ز کے مروجہ نظام کی سیکیورٹی کو مکمل خطرہ لاحق ہے. دنیا کا پہلا ملک جس نے اس قسم کا نظام بنا لیا وہ دوسری اقوام اور اداروں کے راز حاصل کرنے کے قابل ہو جائے گا.
کچھ سائنس دانوں کو اس بات کی پوری امید ہے کہ مستقبل میں دنیا کی معیشت کا سارا دارو مدار ان کوانٹم کمپیوٹر ز پر ہوگا .اس بات کا کافی امکان ہے کہ سلیکان کی بنیاد پر بننے والے کمپیوٹر ز اپنی حسابی استعداد کی آخری طبیعیاتی حد تک ٢٠٢٠ء میں پہنچ جائیں گے. اگر ہم ٹیکنالوجی کو مزید آگے تک لے کر جانا چاہتے ہیں تو ہمیں نیا مزید طاقتور کمپیوٹر لازمی طور پر درکار ہوگا. کچھ لوگ انسانی دماغ جیسی قوّت کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ حاصل کرنے کی تلاش میں بھی ہیں .
ہر چیز داؤ پر لگی ہوئی ہے. اگر ہم اتصال کا مسئلہ حل کر لیں تو نا صرف ہم دور دراز منتقلی کے مسائل پر قابو پا لیں گے بلکہ ہم ہر قسم کی ٹیکنالوجی میں نا قابل تصوّر طریقوں سے کوانٹم کمپیوٹر کے ذریعہ آگے بڑھ سکیں گے. یہ دریافت اس قدر اہم ہوگی کہ میں اس پر دوبارہ اگلے ابواب میں بات کروں گا .
جیسا کہ میں نے پہلے بتایا ، ایٹموں کو آپس میں مربوط رکھنا تجربہ گاہ میں بھی قائم رکھنا غیر معمولی طور پر مشکل کام ہے . چھوٹی سی چھوٹی تھر تھرا ہٹ بھی دو ایٹموں کے باہم ربط کو خراب کر کے حساب کتاب کے عمل کو تباہ کر سکتی ہے. آج کے دور میں صرف کچھ ایٹموں میں ہی مربوطی کیفیت کو قائم رکھنا بھی انتہائی مشکل کام ہے. جو ایٹم نینو سیکنڈوں میں غیر مربوط ہو جاتے تھے اب ان کی مربوطی کا وقت بڑھ کر ایک سیکنڈ تک ہو گیا ہے . دور دراز منتقلی کو نہایت تیزی کے ساتھ ایٹموں کے دوبارہ غیر مربوط ہونے سے پہلے مکمل ہونا ہوگا . بس یہی ایک ایسی بات ہے دور دراز منتقلی اور کوانٹم حسابی عمل پر پابندی لگا دیتی ہے.
ان تمام تر چیلنجز کے باوجود ، آکسفورڈ یونیورسٹی میں کام کرنے والے "ڈیوڈ ڈویچے"(David Deutsch) اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یہ مسائل حل کر لئے جائیں گے: حالیہ نظری پیش رفت اور قسمت کے بھروسے (ایک کوانٹم کمپیوٹر کو) بننے میں کم از کم پچاس برس کا عرصہ لگے گا ....یہ ایک بالکل ہی نیا طریقہ ہوگا جس کے ذریعہ قدرت کو انضباط کیا جا سکے گا."
ایک کارآمد کوانٹم کمپیوٹر کو بنانے کے لئے ہمیں سینکڑوں سے لے کر دسیوں لاکھ ایٹم ہم آہنگی کے ساتھ تھر تھراتے ہوئے درکار ہوں گے جو ہماری موجودہ قابلیت اور بساط سے کہیں زیادہ ہے. کپتان کرک والی دور دراز منتقلی تو بہت ہی مشکل ہے . ہمیں کپتان کرک کے جڑواں کے ساتھ کوانٹم الجھاؤ پیدا کرنا ہوگا . نینو ٹیکنالوجی اور جدید کمپیوٹر کے ساتھ بھی ایسا کرنا نہایت ہی مشکل نظر آتا ہے.
لہٰذا ہم کہہ سکتے ہیں کہ دور دراز منتقلی ایٹمی پیمانے پر تو موجود ہے اور ہو سکتا ہے کہ ہم پیچیدہ اور نامیاتی مادّے بھی آنے والی کچھ دہائیوں میں دور منتقل کر سکیں. لیکن بڑے اجسام کو حقیقت میں اگر دور دراز منتقل کرنا ممکن بھی ہوا تو اس کے لئے ہمیں آنے والی کئی دہائیوں سے لے کر صدیوں یا اس سے بھی زیادہ تک کا انتظار کرنا ہوگا . لہٰذا پیچیدہ سالموں بلکہ وائرس یا زندہ خلیہ کی دور دراز منتقلی جماعت "I" کی ناممکنات میں شامل ہے جو شاید اسی صدی تک ممکن ہو جائے. اگرچہ طبیعیات کے قوانین کی رو سے انسان کی دور دراز منتقلی تو ممکن ہے لیکن ایسا ہونا واقعی ممکن بھی ہوا تو بھی اس کام میں کئی صدیاں لگ جائیں گی . لہٰذا اس قسم کی دور دراز منتقلی کو میں جماعت "II" کی ناممکنات میں شامل کروں گا.