چلیں یہ بات تو سمجھ میں آگئی کہ انسان بندر کی نسل سے نہیں ہے لیکن اب یہ بھی سمجھائیں کہ ایک ہی جد سے دو بالکل الگ الگ نوع کیسے بنیں۔ کیا ایک گدھے کی نسل کتے یا بھیڑیے وغیرہ میں بدل سکتی ہے؟
ایک ہی جدمختلف علاقوں میں طویل مدت تک الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے مختلف انواع میں ارتقا کر سکتی ہے۔سخت موسمیاتی تبدیلیوں، جغرافیائی پیچیدگیوں اور دیگر محرکات کی وجہ سے اگر انکا آپس میں زیادہ عرصہ تک کوئی رابطہ نہ رہے تو یہ جد باہم بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے۔ اور یوں نئی انواع کا آغاز ہوتا ہے۔
جدید ریسرچ کے مطابق نوع انسانی کی افریقہ سے باہر ہجرت کے دوران اس نے نی ایندرٹھیل نامی ایک اور نوع، جو کہ اب معدوم ہو چکی ہے، کیساتھ
ملاپ کیا اور اولاد پیدا کی۔ یوں نی ایندرٹھیل
ڈی این اے کے باقیات ایشیائی اور یورپی انسانوں میں تو پائے جاتے ہیں البتہ پیشتر افریقی نسل انسان اس سے محروم ہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ
نی ایندر ٹھیل بندر نہیں تھے۔ اگر وہ بندر ہوتے تو انکے کیساتھ اولاد پیدا نہ ہو سکتی۔ وہ نوع انسانی کے قریب ترین "رشتہ دار" تھے اور انکے کیساتھ 99،5 فیصد ڈی این اے شیئر کرتے تھے۔ مگر پھر کسی ناگہانی آفت، شاید انکی آماج گاہ میں انسانوں کی آمد کے بعد یہ نوع چالیس ہزار سال قبل ناپید ہو گئی۔ اور یوں نظریہ ارتقا کے قدرتی انتخاب کی بدولت پیچھے صرف ہم انسانوں کو چھوڑ گئی۔ اگر کوئی اب بھی یہ کہے کہ انسان بندروں سے آئے تو اسے نی ایندر ٹھیل کو پہلے بندر ثابت کرنا چاہئے، کیونکہ یہ نوع نہ تو انسان تھی اور نہ ہی بندر:
میرے خیال میں آپ اور زُہیر عباس کے ” بندروں“ میں فرق ہے۔آپ دونوں پہلے اس پر اتفاق کرلیں۔
جی کیا فرق ہے؟
دوسری بات جب تک آپ یہ سوچ رکھیں گے کہ ہمیں تمام دنیا کو موجود ہ تعریف کے حامل نظریۂ ارتقاء پر لانا ہے ، بل کہ اس کے برعکس آپ کو سچائی کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ صرف اپنی بات پر اَڑ ے رہنے اورجب جی چاہے قانون کو پکڑے رکھو اور جب چاہونظریے پر ایمان لاؤ۔ یہ آپ کو ہمیشہ شرمندہ کرتی رہیں گی۔
جی جی اور ہم سچائی کو پانے کے بعد ہی نظریہ ارتقا کو مانتے ہیں۔ ہمارا کام تو صرف سائنسی حقائق بتانا ہے۔ ماننا نہ ماننا آپ کی مرضی پر ہے۔
@ زیک کی باتوں کو تو میں جھوٹ اور فریب کے پلڑے میں ڈال دیتا ہوں۔ کیوں کہ امریکہ میں ایک خاص قوم کے ساتھ رہ کر اس میں بھی تضحیک اور مکر اتنا در آیا ہے کہ اب یہ دو چیزیں اس کی پہچان بن گئیں ہیں۔
اس قسم کی گفتگو اور ذاتی حملے کیا محفل میں زیب دیتے ہیں؟ آپ زیر بحث موضوع نظریہ ارتقا پر بات کریں،
زیک پر نہیں۔
جب خدا کا ذکر آتا ہے تو دلیلیں مانگی جاتی ہے۔ قابلِ اعادہ ثبوت مانگے جاتے ہیں۔ قانون اور نظریہ میں فرق سمجھایا جاتاہے۔ لیکن جب عالمی سوسائٹی کی مخصوص سوچ کے حامل ادارے کسی کو سچ مان کر اسے سائنس بنا کر پیش کرتے ہیں تو سب کچھ بھول کر اس کے ٹھیکے لے لیے جاتے ہیں ۔ اور جاہل پاکستانیوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کمر بستہ ہوجاتےہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ نظریہ ارتقا کو سائنس بنا کر پیش نہیں کیا گیا بلکہ نظریہ ارتقا بذات خود ایک سائنس ہے جو تمام حیات میں پائی جانے والی انواع کی ابتداء پر بات کرتی ہے۔ باقی جہاں تک جاہل پاکستانیوں کو راہ راست پر لانے کا سوال ہے تو یہ عظیم کام ہمارے ہاں ایک مخصوص مذہبی مُلا ٹولا 1947 سے کر ہی رہا ہے۔ انکے ہوتے ہوئے کسی اور کی کیا مجال جو جاہل عوام کو راہ راست پر لائیں۔ یہ خود کیا کسی سے کم ہیں۔
میں آخر میں پھر یہی کہوں گا کہ اپنی مرضی کو چھوڑ کر صرف اور صرف سچائی کو تسلیم کرنے کی عادت ڈالی جائے ورنہ الل ٹپ جوابات اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
آج میں ایک بار پھر گلوبل سائنس کے مدیر محترم علیم احمد صاحب کو داد دیتا ہوں ۔جن کی تربیت اور طریقہ استدلال نے ہمیں پرویز ہود اور دیگر نام نہاد سائنسدانوں کا اصل چہرہ دیکھنے کے قابل بنایا۔
اگر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر عبداالسلام نام نہاد سائنسدان ہیں تو آغا وقار جیسے ذہین دماغ یقیناً نوبل انعام کے حقدار ہیں۔
آپ اپنے ”موحد“ لفظ کی تعریف بھی کردیں۔ براہِ کرم ترجمہ کرتے وقت غلطی نہ کیجیے تاکہ مجھےکوئی غلط فہمی نہ ہوجائے۔
یہ لڑی مذہبی بحث کیلئے نہیں ہے۔ اسکے لئے محفل کے دیگر سیکشن کا رُخ کریں۔
اس وقت میں نے ان سے حیرت سے پوچھا تھا "کیا آپ بھی ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں؟" ۔ ان کے جواب کا خلاصہ کچھ یوں تھا ۔ بگ بینگ سے لے کر اب تک کائنات میں ارتقائی عمل جاری و ساری ہے ۔ ہائیڈروجن ہیلیم میں ہیلیئم کاربن میں بدلی جارہی ہے ۔ لہٰذا ارتقاء کا مشاہدہ جب ہم روز مرہ کائنات میں کرتے ہیں تو اس سے انکار کی گنجائش نہیں بچتی۔
تو جناب یہ ہیں آپ کے استاد محترم جن کے طفیل سے میں نے بھی نظریہ ارتقاء کو سمجھنا شروع کیا ورنہ میں بھی اس سے پہلے ہارون یحییٰ کو درست اور نظریہ ارتقاء کو غلط سمجھتا تھا ۔
انہیں زیادہ نہ بھڑکائیں۔ کہیں نظریہ ارتقا کی نفی میں یہ ایک اچھے استاد سے محروم نہ ہو جائیں
باقی علیم احمد کا مشاہدہ بالکل درست ہے کہ بگ بینگ سے لیکر ابتک کل کائنات حالت ارتقا میں ہے۔