نظریہ ارتقاء پر اٹھائے جانے والے پندرہ اعتراضات اور ان کے جوابات

زہیر عبّاس

محفلین
اور سارے بندر انسان کیوں نہیں بنے اور جو انسان بنے وہ صرف انسان ہی کیوں بنے ہاتھی، گدھے یا گھوڑے میں کیوں نہیں تبدیل ہوئے؟
آپ اس کے لئے سوال نمبر 3 اور 6 کا ایک بار پھر مطالعہ کیجئے :
3۔ ارتقا غیر سائنسی ہے کیونکہ یہ قابل جانچ یا قابل تحریف نہیں ہے۔ یہ ایسے حالات کے بارے میں بات کرتا ہے جس کا مشاہدہ نہیں کیا گیا اور اس کو کبھی بھی دہرایا نہیں جا سکتا۔
ارتقاء کی اس طرح سے برخاستگی اس اہم اختلاف کو نظر انداز کر دیتی ہے جو اس میدان کو کم از کم دو وسیع علاقوں میں بانٹتا ہے۔ اصغری ارتقاء اور اکبری ارتقاء۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے – وہ تبدیلیاں جو آغاز انواع کا پیش خیمہ ہوتی ہیں ، نئی انواع کا ماخذ۔ اکبری ارتقاء اس کا مطالعہ کرتا ہے کہ کس انواع کی سطح کے اوپر کس طرح سے تقسیمی جماعت تبدیل ہوتی ہے۔ اس کے شواہد اکثر اوقات رکازی نامچوں اور ڈی این اے کے تقابل سے حاصل ہوتے ہیں جو مختلف جانداروں کے آپس میں باہمی نسبت کو جاننے کے لئے بنائے جاتے ہیں۔
3i7jkJMzLlqXDLX3rsG0GqZUFgqqz9b7YvMB0buynNrffF-32QBHkEx5AkOczTSjP0X8TjNfLCPOpB582qnbzcowKIxuPKUp9uKA7QWBK6aTDZxzDE2_4CJ-TAmVklowfuGO6AhQVisqPaCZ_w

خاکہ 4 ۔ اصغری ارتقاء انواع کے درمیان ہونے والی تبدیلیوں کو گزرے وقت میں دیکھتا ہے جبکہ اکبری ارتقاء انواع کی سطح کے اوپر تقسیمی جماعت کی تبدیلی کا مطالعہ کرتا ہے۔

ان دنوں اکثر تخلیقی بھی اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اصغری ارتقاء تجربہ گاہ ( جیسا کہ خلیہ، پودوں اور پھل مکھی کی تحقیقات میں ) میں کی گئی جانچوں میں اور میدان (جیسا کہ گرانٹ کی گالاپگوس سنہری چڑیوں کی ارتقائی عمل سے گزرتی چونچ کی تحقیق میں ) ثابت ہو چکے ہیں۔ قدرتی چناؤ اور دوسرے طریقے - جیسا کہ لوئی جسمیہ تبدیلی، ہم زیستی اور دوغلیت - وقت کے ساتھ آبادی پر گہرے اثرات ڈال سکتے ہیں۔

اکبری ارتقاء کی تحقیق کی تاریخی نوعیت میں براہ راست مشاہدات کے بجائے رکازیات اور ڈی این اے سے استنباط کرنا ہوتا ہے ۔ اس کے باوجود تاریخی سائنس (بشمول فلکیات، ارضیات اور آثار قدیمہ کا علم، اور ارتقائی حیاتیات) میں قیاسات کو اس طرح سے جانچا جا سکتا ہے کہ آیا وہ طبعی ثبوتوں کے ساتھ ہم آہنگ ہیں اور آیا کہ وہ مستقبل کی دریافتوں کے لئے قابل تصدیق اندازوں تک لے جاتے ہیں یا نہیں۔ مثال کے طور پر ارتقاء کہتا ہے کہ انسانوں کے اولین آباؤ اجداد (لگ بھگ پچاس لاکھ برس پرانے) اور جدید انسان (لگ بھگ ایک لاکھ برس پہلے) کے ظہور کے درمیان انسان نما جانور جیسی خصوصیات والے جاندار ملنے چاہئیں جس میں بتدریج بندروں کی کم اور انسانوں جیسی زیادہ خاصیت ہوں، حقیقت میں رکازی نامچہ یہی چیز بیان کرتا ہے۔ تاہم کسی کو جدید انسان کے رکاز جراسی دور (چودہ کروڑ چالیس لاکھ برس پہلے) کے طبقات میں پیوستہ نہ تو ملتے ہیں نہ ہی ملنے چاہئیں۔ ارتقائی حیاتیات معمولات میں اس سے کہیں زیادہ بہتر اندازے قائم کر سکتی ہے اور محققین مسلسل اس کی جانچ کر رہے ہیں۔

ارتقاء کو دوسرے طریقوں سے بھی رد کیا جا سکتا ہے۔ اگر ہم مردہ مادّے سے کسی ایک پیچیدہ حیات کی خود سے بڑھوتری کا ثبوت دیکھ لیں تو ہو سکتا ہے کہ چند مخلوقات جن کو رکازی نامچوں میں دیکھا گیا ہے اس طریقے سے پیدا ہوئی ہوں گی۔ اگر فوق ذہین خلائی مخلوق نمودار ہو جائے اور زمین پر حیات کی تخلیق کا دعویٰ کرے (بلکہ کسی ایک مخصوص نوع کا بھی)، تو خالص ارتقائی توضیح بھی شکوک و شبہات کا شکار ہو جائے گی۔ تاہم ابھی تک کسی نے کوئی ایسا ثبوت پیش نہیں کیا۔

یہ بات غور طلب ہے کہ قابل تکذیب کا تصوّر بطور سائنس کی تعریفی خاصیت کے فلسفی کارل پوپر نے ١٩٣٠ء میں پیش کیا۔ حال ہی میں اس کے تصوّر کی مزید توسیع نے اس کے اصول کی تنگ تشریح کو پھیلایا خاص طور پر اس لئے کہ یہ سائنسی جدوجہد کی کافی ساری شاخوں کو کم کر دیتی ہے۔

6۔ اگر انسان بندروں کی اولاد ہیں، تو اب تک بندر کیوں موجود ہیں؟
یہ سب سے عام کیا جانے والے اعتراض ہے جو ارتقاء کے بارے میں لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ سب سے پہلی غلطی تو یہ ہے کہ ارتقاء یہ نہیں تعلیم دیتا کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں؛ بلکہ یہ بیان کرتا ہے کہ دونوں کے جد ایک ہی تھے۔
MAQn8z3wCt8ZIgEYsB-fNHgmued51t4F9Y3joAQHPdw-AyepHEYbNHTle7-ssZPxM0DATQ-D3X6nypOC8TRtFd2kMxI83x67ZyiY8swbSEZ86_gLK8XCXwe5QpqtYtOP4q35FWYPcr1aZQTnfw

خاکہ 6 نئی انواع پہلے سے موجود نوع سے الگ ہو کر ہی وجود میں آتی ہیں۔
یہ اعتراض اس بات کو پوچھنے کے ہم پلہ ہے جو مزید گہری غلطی ہے ، " اگر بچے، بالغوں سے پیدا ہوتے ہیں، تب اب بھی کیوں بالغ موجود ہیں؟" نئی انواع پہلے سے موجود نوع سے الگ ہو کر ہی وجود میں آتی ہیں اور جب جانداروں کی آبادی اپنی اصل نسلی خاندان سے جدا ہو کر کافی تغیر حاصل کر لیتی ہے تب وہ ہمیشہ اپنا امتیاز باقی رکھتی ہے ۔ مورث نوع اس کے بعد لامحدود عرصے تک باقی رہ سکتی ہے یا وہ معدوم بھی ہو سکتی ہے۔
 

arifkarim

معطل
لیکن لاکھوں برس پرانے جو انسانی فوسلز ملے ہیں ان کی رو سے ان لاکھوں سال میں انسان نے مزید ترقی کیوں نہیں کی؟ اور سارے بندر انسان کیوں نہیں بنے اور جو انسان بنے وہ صرف انسان ہی کیوں بنے ہاتھی، گدھے یا گھوڑے میں کیوں نہیں تبدیل ہوئے؟
پہلے تو آپ اس غلطی کا اژالہ کریں کہ انسان بندروں سے آئے ہیں۔ بندروں کی انواع بہت سی ہیں جبکہ انسان کی صرف ایک ہی نوع حیات ہے۔ البتہ نظریہ ارتقاء کے مطابق انواع خواہ انسانی ہوں یا بندروں کی سب کا جد امجد ایک ہی ہے۔ ذیل میں انسانوں اور بندروں کا جد دیکھ لیں:
Hominoidea-7.png
 

سید عمران

محفلین
آپ اس کے لئے سوال نمبر 3 اور 6 کا ایک بار پھر مطالعہ کیجئے :
ابھی بھی یہ معمہ سمجھ میں نہیں آرہا ہے۔ نمبر 3 کی رو سے ارتقاء غیر سائنسی ہے جبکہ اب تک ہونے والے مباحثوں میں مذہب اور سائنس کی بنیادپر ہی باتیں ہورہی ہیں۔ اگر یہ سائنس نہیں ہے تو بات ہی ختم۔
دوسرے یہ کہ انسان بندر کی اولاد ہے یا بندر انسان کا جد ۔ گھما پھرا کر بات تو ایک ہی ہوئی۔
 

سید عمران

محفلین
پہلے تو آپ اس غلطی کا اژالہ کریں کہ انسان بندروں سے آئے ہیں۔ بندروں کی انواع بہت سی ہیں جبکہ انسان کی صرف ایک ہی نوع حیات ہے۔ البتہ نظریہ ارتقاء کے مطابق انواع خواہ انسانی ہوں یا بندروں کی سب کا جد امجد ایک ہی ہے۔ ذیل میں انسانوں اور بندروں کا جد دیکھ لیں:
Hominoidea-7.png
تو کیا صرف بندروں ہی میں ارتقاء ہوا ہے؟ اور صرف ان کا ہی جد ایک تھا؟ دیگر جانوروں کے جد الگ الگ تھے؟ اور صرف بندر ہی انسان کیوں بنے؟ ہاتھی یا گدھے گھوڑے انسان یا کچھ اور کیوں نہیں بنے؟
اور اب انسان کچھ اور کیوں نہیں بن رہا؟
 

arifkarim

معطل
دوسرے یہ کہ انسان بندر کی اولاد ہے یا بندر انسان کا جد ۔ گھما پھرا کر بات تو ایک ہی ہوئی۔
نہ تو انسان بندر کی اولاد ہے اور نہ ہی بندر انسان کا جد۔ یہ سب مسائل فلسفہ کریشنزم کے پھیلائے ہوئے ہیں جو پہلے انسان کی سابقہ ارتقائی حالتوں کو بندروں کی "تخلیق" سے تشبیہ دیتا ہے اور یوں گھما پھرا کر نظریہ ارتقا کو ہی رد کر دیتا ہے۔
 

arifkarim

معطل
تو کیا صرف بندروں ہی میں ارتقاء ہوا ہے؟ اور صرف ان کا ہی جد ایک تھا؟ دیگر جانوروں کے جد الگ الگ تھے؟ اور صرف بندر ہی انسان کیوں بنے؟ ہاتھی یا گدھے گھوڑے انسان یا کچھ اور کیوں نہیں بنے؟
اور اب انسان کچھ اور کیوں نہیں بن رہا؟
زمین پر پائے جانی والی تمام حیات کا جد امجد ایک ہی ہے البتہ مختلف انواع کے مختلف جد ہیں۔ آپکو اوپر بارہا بتایا جا چکا ہے کہ بندر انسان نہیں بنے لیکن آپ پھر بھی اڑے ہوئے ہیں کہ انسان بندروں سے آئے۔ نیز انسان کا ارتقا ختم نہیں ہوا۔ ہمارے بدلتے لائف اسٹائل کی بدولت ہمارے اجسام مسلسل حالت ارتقا میں ہیں۔ چند ہزار یا لاکھ سال بعد انسانوں کا قد کاٹھ، رنگت کیا ہوگی، کوئی نہیں جانتا۔
 

سید عمران

محفلین
زمین پر پائے جانی والی تمام حیات کا جد ایک ہی ہے البتہ مختلف انواع کے مختلف جد ہیں۔ آپکو اوپر بارہا بتایا جا چکا ہے کہ بندر انسان نہیں بنے لیکن آپ پھر بھی اڑے ہوئے ہیں کہ انسان بندروں سے آئے۔ نیز انسان کا ارتقا ختم نہیں ہوا۔ ہمارے بدلتے لائف اسٹائل کی بدولت ہمارے اجسام مسلسل حالت ارتقا میں ہیں۔ چند ہزار یا لاکھ سال بعد انسانوں کا قد کاٹھ، رنگت کیا ہوگی، کوئی نہیں جانتا۔
چلیں یہ بات تو سمجھ میں آگئی کہ انسان بندر کی نسل سے نہیں ہے لیکن اب یہ بھی سمجھائیں کہ ایک ہی جد سے دو بالکل الگ الگ نوع کیسے بنیں۔ کیا ایک گدھے کی نسل کتے یا بھیڑیے وغیرہ میں بدل سکتی ہے؟
 

نور وجدان

لائبریرین
زہیر عباس بھائی ۔۔۔کچھ اعتراضات جو بہت پہلے میں نے اٹھائے تھے وہ یہاں پیسٹ کر رہی ہوں ۔۔ ان کے جواب سائنس کی رو سے کیا ہوں گے ۔۔ایک طالب علم کی حیثیت سے مزمل شیخ بسمل بھائی آپ بھی مدد کریں ۔۔

  • ایک سوال جو میرے ذہن میں بار بار پریشان کر رہا ہے وہ یہ ہے کہ: سپیز کی بنیاد : ری پروڈکشن پر رکھی گئی ہے . یعنی وہ نوع جو آپس میں ری پرو ڈیوس کر سکتے ہیں . اس لحاظ سے نیند تھالس کا انسان سے انٹر بریڈ کرنا اور سائنس دانوں کا دعوی کرنا کہ یہ Hybridization سے وجود میں آئے ایک اور مخمصے کا شکار کر دیا ہے . آپ کی اس بارے میں کیا رائے ہے . اگر یہ واقعی سچ ہے تو مجھے اس کے سارے حقائق جاننے ہیں کیونکہ ہم سائنس کی وہ باتیں تو مان رہیں جو ہمارے آنے سے پہلے کی تھیں اب چونکہ ہضم نہیں ہو رہی تو نہ مانیں ... مان لینا چاہے مگر تمام سولات کو دور کرنے کے بعد . اس ضمن میں پہلا سوال تو میرا اوپر ہی لکھا جا چکا ہے ... سپیز کی درجہ بندی ری پرو ڈکشن کی بنیاد پر ہوئی . اگر نہیں تو کس بنیاد پر ہے َ ؟ اگر ری پرو ڈکشن نہیں تو دو سپیسز کی انٹر بریڈنگ کا سوال ؟؟
"In the last few years, we've documented interbreeding between Neanderthals and modern humans, but we never thought we'd be so lucky to find someone so close to that event
  • دوسرا سوال میرا یہ ہے کہ چالیس ہزار سال میں فوسلز کے معدنی ذخائر بن جاتے ہیں مگر یہ ہر جاندار کی ہاف لائف پر منحصر ہوتا ہے اس لحاظ سے نیند تھالس کے فوسلز کی ہاف لائف کیا ہے َ ؟ تاکہ ان کی ریڈیو میڑنگ کے بارے میں اندازہ میں خود لگا سکوں اور جان سکوں ان کی عمر کیا ہے ََ؟؟
  • تیسرا سوال یہ ہے کہ : سائنس دان کہتے ہیں کہ نیند تھالس اس وجہ سے ختم ہوگئے کیونکہ وہ افزائش نسل نہیں کر سکے تھے . ان کی افزائش نسل کا دورانینہ 28 ہزار سال ہے ... یہ بھی ایک لمبا عرصہ ہے . کیا وجو ہات تھیں کہ وہ ختم ہوگئے ؟ کس وجہ سے سروائو نہیں کر سکے . پھر یہ اگر ان کی انٹر بریڈنگ کو درجہ بندی کے تصور سے ہٹا کر دیکھا جائے تو بھی وہ پہلے کون سے انسان تھے جن سے انہوں نے انٹر بریڈنگ کی .. اور ان انسانوں کا ڈی این اے میرے خیال میں 90 فیصد تک تو ایک جیسا ہونا چاہیے .. اس ضمن میں مجھے آپ اب بتائیں .
  • سوالنمبر4:نیندر تھالس کی نوع کا جینیاتی مواد خوردبینی جانوروں سے لیا گیا اور اس بات کا ذکر آپ کے دئے گئے لنک میں موجود ہے . کیا بیکٹریا اور فنجائی کے اندر نامیاتی بدلاؤ سے ان سے لیے گئے انزائمز نے کوئی کیمیائی تبدیلی ڈی این میں نہیں کی ہوگی ََ؟
  • پانچواں سوال : ڈی این اے کو mtDNA سے لیا گیا جو کہ ڈی این اے کا ایک جزو ... اس جزو سے ڈی این اے کی sequencing کی گئی .. ایک نامکمل چیز کیسے مکمل کو پیدا کر سکتی .. اس بات پر سائنس دان خود معترض ہیں اور ان کے لنک میں اوپر بھی دے چکی ہوں . ان کے مطابق اس سے کبھی بھی ایک مکمل Genome نہیں بنایا جا سکتا ہے
  • چھٹا سوال : اس جزو کی سیکیونسنگ کا کوئی سادہ سا لنک دے دیں یا کوئی وڈیو کہ کیسے سیکونسنگ کی گئی ہوسکے تو اس کا کوڈ پورا بتادیں اور نیند تھالس سپیشز کے ڈی این اے کا کوڈ بھی اور اس انسان کا کاوڈ بھی جس س سے انٹر بریڈ نگ کی گئی ہے .
  • سوال نمبر7: آپ نے جو لنک دیا اس میں بیکٹریا کا انزائم استعمال کیا گیا .. وہ کیوں گیا ؟ اور اس سے 0.18% ڈی این اے کی مشابہت انسان سے تھے جو کہ 1 فیصد بھی نہیں ہے . اس طریقے کے مطابق سادہ امینو ایسڈ کو جوڑ کر ( وہ بھی mt DNA) کے امینو ایسڈ ... کو انٹروڈیوس بیکٹریا کے اندر کروا کے جینٹک انجیرنگ کروائی گئی ؟؟ اگر ایسا ہے تو اس میں ہم نے کون سا خام مواد ڈالا جس سے ہم مکمل ایک جینم حاصل کر سکیں ؟؟
  • سواسلنبر 8: اگر انسان کی نیندر تھالس سے انٹر بریڈنگ ہوئی تو کوڈنگ کیسے ہوئی ڈی این اے کی ؟ اس ڈی این اے کا کوڈ کیا ہے ؟ اور اگر میوٹیشن ہوجائیں تو یہ بھی خطرہ کہ نیندر تھالس سے انسان پیدا ہی نہ ہوں ... جو کہ دو مختلف انواع میں متوقع بھی ہے . اس کے بعد اگر میو ٹیش دو انواع پیدا ہونے کا خطرہ ہوا ا.. ایک تو پرائیمیٹس کے آرڈر کی Family Hominidae کے جتنے بھی جانوروں کے ڈی این اے ہوں گے ان سے مشابہ ہونے چاہیے . اس سلسلے میں مجھے وضاحت درکار ہے
  • سوالنمر9 : اگر ہم سچ جاننے کی جستجو رکھتے ہیں اس سلسلے میں ہمیں اس کی کمپیوٹرائزڈ تصویر کے بجائے ایک کلون بنا کر دکھانا چاہیے ... ایک مشابہت سے کچھ نہیں ہوتا جب تک ایک کلون وجود میں نہیں آجاتا تب تک تو اس ڈی این اے کے مواد پر بھروسہ کرنا پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہے ... کیونکہ کلوننگ ہی بتا سکتی ہے کہ یہ ڈی این اے کتنا ٹھیک ہے .. سو وہ کلون کیوں نہیں بنایا گیا ... سائنس دان ہونے کے ناطے اگر میرے پاس یہ سط ذرائع ہوتے تو میں سب سے پہلے اس تیار شدہ ڈی این اے کا کلون بناتی کہ جو مفروضہ میں نے بنایا وہ کتنا ٹھیک ہے . ایک تجربہ سے دوسرا مفروضہ بنا کر ایک مکمل تصویر میں دنیا کو ضرور دیکھتی تاکہ باریک بینیوں میں جانے کے بجائے اس کلون کی دیکھ ساری دنیا یقین کر لیتی .
  • سوالنمبر 10 : ایک م. ڈی این اے نے مجھے یہ بتایا کہ یہ صرف بتایا کہ یورپ کے لوگ میں مرد یا عورت میں سے کوئی ماں باپ ہوگا،، اگر میں ایسا سوچوں کہ نیدر تھالس نے یورپ کی کسی عورت کے ساتھ انٹربریڈنگ کی تو کیا یہ مٖفروضہ ٹھیک ہوگا ... اس صورت میں یہ کہا جا سکستا ہے کہ نیند تھالس افریقہ سے ہوں گے کیوںکہ وہاں کے مکین یا حالات اس کے بر عکس کی کسی یورپی نیندر تھالس نے افریقی انسان سے انٹر بریڈ کیا ہے .. مگر انٹر بریڈنگ کے اس تناظر میں سائنس کا پورا نامن کلیچر کا کیا ہوگا جس میں ''نوع '' کو افزائسش نسل کی بنیاد پر ایک منفرد درجہ دیا گیا اور اگر ایسا ہے تو پھر نیندر تھالس آپس میں بریڈ کرسکتے ہں کسی اور ''نوع؛'' کے ساتھ نہیں .. اس سے ہمارا سائنس کا کنگ ڈم متاثر ہوگا... اگر نہیں ہوگا تو کیسے َََ؟؟؟
  • سوالنمبر11:امینو ایسڈ میں چار بنیادی پالی مرز ہوتے ہیں .. اس ڈی این کو ری انجنیر کرنے کے لیے ہم نے سائیٹو سائن اور اور تھائمائن کی 13 فیصد فریگمنٹ کیوں لیا اور باقی دو پالیمز ہونے چاہیے تھے ڈی این کے ،، یعنی ایڈانائن اور گوا نائن ... جس کا ذکر اس لنک میں نہیں ہے ، یہی لکھا گیا ہے کہ ایک اور پالمر 51 فیصد لیا گیا ... وہ کونسا پالیمر تھا ؟ اور اس کے بعد 13 او51 کو جمع کرو باقی کچھ 100-64 ٓ برابر 34 .. باقی 34 فیصد کیا ڈلا گیا ... اس کے بعد اس کو ہم نے اس میں سے دونوں ایکس اور وائے کروموسومز نکال کر یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ میل ہے ... ... ایک نامکمل پالیمرز کی چین سے یہ فیصلہ کیسے ہوگیا ؟ اور اسکی الیلز ا مشرقی ایشیا اور امریکہ سے ملتی ہے .. جینیناتی مواد کی کیس خصوصیت سے یہ پتا چلایا گیا؟ کیا ان کی تصویر بنا کر .. اگر ایک تصویر یا ایک سمپل تھا اس نے دو جگہوں کی دلیل کیسے دے دی َ ؟
  • سوالنبر 12: جنیم کے پروپورشن کا ٹیبل سمجھ نہیں آرہا ..الیل شئیرنگ کے ٹیبل کی وضاحت کردیں مجھے سمجھ نہیں آئی اسکی .
  • سوالنمر 13:کل میں نے ایک لنک شئیر کیا تھا جس میں یہ بتایا گیا تھا ان کا اوورل اور نیزل ٹریک انسانوں سے مختلف ی ہے اور اب جو لنک دیا ہے آپ نے اس میں بتایا گیا ہے کہ ان کا وذڈم دانت انسانوں جیسا ہے اور ان میں مولرز بھی تھے ، تو ان میں انسزر اور کینائین بھی تھے کیونکہ انسان میں تو یہ تینوں قسموں کے دانت ہوتے ہیں .
  • سوالنمر 14 :اس لنک میں یہ بھی بتایا گیا کہ سائنس دان ابھی تک مکمل یقین نہیں رکھتے ان کو اور معلومات درکار ہیں .. انہوں نے پورا جنیوم تیار کر لیا ہے پھر کس قسم کی معلومات درکار ہیں ؟؟؟
  • Organisms decompose after death. Water, oxygen and microbes break down DNA. Within 100,000 years, all DNA is destroyed. Ancient DNA tends to be found in small quantities. The DNA that is extracted is generally fragmentary and damaged. Some damage results in changes to the DNA sequence. Cytosine can change to uracil, which is read by copying
  • errors are very common at the ends of molecules.enzymes as thymine, resulting in a C to T transition. Changes from G to A also occur. DNA
  • سوالنبر 15ؒ: ان چار پالیمرز پر پورا ڈی این اے مشتمل ہے ان کی آپس مین اوور لیپنگ یا بدلاؤ آگیا ہے ... اس کے بعد ڈی این اے اصلی حالت میں نہیں ... کیمیائی عمل کا ایک اصول ہے کہ تخریب کے تعمیر نہیں کی جاسکتی ہے اور کی جائے تو بھی وہ اصل حالت میں نہیں ہوتی .. اس سلسلے میں آپ کی کیا رائے ہے .
  • سوالنمر 16ؒ :اس لنک میں یہ لکھا ہوا کہ جینم مکمل طور پر آلود ہو چکا ہے کہ اس کی تفریق تک ممکن نہیں رہی اس لیے ڈی این اے کی اصل حالت کیا تھی سائنس دان یہ جان نہیں سکے اور اتنا جان سکے کہ کچھ جینز ان کے انسانوں سے ملتے ہیں ... اس کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کیونکہ میری تو وہی بات ہے جب اصل پورا نہیں ہے اور اس اصل کی خامیاں کہاں کہاں ہیں یہ بھی معلوم نہں ہو رہا تو نقل کیسے یعنی ری انجنیر کیسے کیا جاسکتا ہے اور اگر ری انجنیر نہیں ہو سکتا تو ان کی درجہ بندی کیسے ؟
http://www.urduweb.org/mehfil/threads/سائنس-اور-مذہب-کے-اس-ٹکراؤ-پر-آپکی-رائے؟.74405/page-12
 
آخری تدوین:

آصف اثر

معطل
نہ تو انسان بندر کی اولاد ہے اور نہ ہی بندر انسان کا جد۔ یہ سب مسائل فلسفہ کریشنزم کے پھیلائے ہوئے ہیں جو پہلے انسان کی سابقہ ارتقائی حالتوں کو بندروں کی "تخلیق" سے تشبیہ دیتا ہے اور یوں گھما پھرا کر نظریہ ارتقا کو ہی رد کر دیتا ہے۔
میرے خیال میں آپ اور زُہیر عباس کے ” بندروں“ میں فرق ہے۔آپ دونوں پہلے اس پر اتفاق کرلیں۔
دوسری بات جب تک آپ یہ سوچ رکھیں گے کہ ہمیں تمام دنیا کو موجود ہ تعریف کے حامل نظریۂ ارتقاء پر لانا ہے ، بل کہ اس کے برعکس آپ کو سچائی کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ صرف اپنی بات پر اَڑ ے رہنے اورجب جی چاہے قانون کو پکڑے رکھو اور جب چاہونظریے پر ایمان لاؤ۔ یہ آپ کو ہمیشہ شرمندہ کرتی رہیں گی۔
@ زیک کی باتوں کو تو میں جھوٹ اور فریب کے پلڑے میں ڈال دیتا ہوں۔ کیوں کہ امریکہ میں ایک خاص قوم کے ساتھ رہ کر اس میں بھی تضحیک اور مکر اتنا در آیا ہے کہ اب یہ دو چیزیں اس کی پہچان بن گئیں ہیں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
زہیر عباس بھائی ۔۔۔کچھ اعتراضات جو بہت پہلے میں نے اٹھائے تھے وہ یہاں پیسٹ کر رہی ہوں ۔۔ ان کے جواب سائنس کی رو سے کیا ہوں گے
آپ کے سوالات بہت زیادہ ٹیکنیکل ہیں۔ میرا علم اتنا نہیں ہے کہ میں اس کے خاطر خواہ جواب دے سکوں۔ آپ فیس بک پر سائنس کی دنیا جوائن کرکے اپنے سوالات وہاں پوسٹ کردیجئے ۔ وہاں آپ کو اپنے جوابات ضرور مل سکتے ہیں کیونکہ وہاں کی متظمین میں قدیر قریشی صاحب اور عظمیٰ گل صاحبہ اس سلسلے میں کافی مہارت رکھتے/ رکھتی ہیں۔
 

آصف اثر

معطل
آپ کے سوالات بہت زیادہ ٹیکنیکل ہیں۔ میرا علم اتنا نہیں ہے کہ میں اس کے خاطر خواہ جواب دے سکوں۔ آپ فیس بک پر سائنس کی دنیا جوائن کرکے اپنے سوالات وہاں پوسٹ کردیجئے ۔ وہاں آپ کو اپنے جوابات ضرور مل سکتے ہیں کیونکہ وہاں کی متظمین میں قدیر قریشی صاحب اور عظمیٰ گل صاحبہ اس سلسلے میں کافی مہارت رکھتے/ رکھتی ہیں۔
شاباش زہیر عباس صاحب۔ شاباش۔
ہم تو سمجھے تھے آپ نظریہ ارتقا کو پوری طرح سمجھ کر ہی اس پر ایمان لائے ہوں گے۔ لیکن آپ تو ترجمہ کرکے ہی اس پر یقین کر بیٹھے ۔ کیسے کیسے ”سائنسدانوں “ سے یہاں واسطہ پڑرہاہے۔
بھائی جب آپ کو ان ٹیکنیکل چیزوں کا پتا ہی نہیں تو صرف کتابیں پڑھ کر لوگوں کر گم راہ کرنے کا ٹھیکا نہیں لینا چاہیے تھا۔ بلکہ استدلال کا طریقہ سیکھ کر ہی اقرار ورد کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔ وہاں مہوش علی صاحبہ کہتی ہے آپ کو اس انسٹیٹیوٹ سے رابطہ کرلینا چاہیے ، خدارا یہ مذاق بند کردو۔ اگر آپ خود کسی چیز کو پوری طرح نہیں سمجھیں تو اس پر دوسروں کو قائل کرنے کا ہمت کیسے ہورہی ہے؟
جب خدا کا ذکر آتا ہے تو دلیلیں مانگی جاتی ہے۔ قابلِ اعادہ ثبوت مانگے جاتے ہیں۔ قانون اور نظریہ میں فرق سمجھایا جاتاہے۔ لیکن جب عالمی سوسائٹی کی مخصوص سوچ کے حامل ادارے کسی کو سچ مان کر اسے سائنس بنا کر پیش کرتے ہیں تو سب کچھ بھول کر اس کے ٹھیکے لے لیے جاتے ہیں ۔ اور جاہل پاکستانیوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کمر بستہ ہوجاتےہیں۔
میں آخر میں پھر یہی کہوں گا کہ اپنی مرضی کو چھوڑ کر صرف اور صرف سچائی کو تسلیم کرنے کی عادت ڈالی جائے ورنہ الل ٹپ جوابات اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
آج میں ایک بار پھر گلوبل سائنس کے مدیر محترم علیم احمد صاحب کو داد دیتا ہوں ۔جن کی تربیت اور طریقہ استدلال نے ہمیں پرویز ہود اور دیگر نام نہاد سائنسدانوں کا اصل چہرہ دیکھنے کے قابل بنایا۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
میرے خیال میں آپ اور زُہیر عباس کے ” بندروں“ میں فرق ہے۔
شاید آپ نے پوسٹ پڑھے بغیر رائے صادر کردی ہے ۔ سوال تھا :

6۔ اگر انسان بندروں کی اولاد ہیں، تو اب تک بندر کیوں موجود ہیں؟

اس کا جواب تھا :

یہ سب سے عام کیا جانے والے اعتراض ہے جو ارتقاء کے بارے میں لاعلمی کو ظاہر کرتا ہے۔ سب سے پہلی غلطی تو یہ ہے کہ ارتقاء یہ نہیں تعلیم دیتا کہ انسان بندروں کی اولاد ہیں؛ بلکہ یہ بیان کرتا ہے کہ دونوں کے جد ایک ہی تھے۔
اور پھر اس کو بیان کرنے کے لئے تصویر کا سہارا بھی لیا گیا تھا۔ اس تصویر کو بھی ایک نظر دیکھ لیجئے:
MAQn8z3wCt8ZIgEYsB-fNHgmued51t4F9Y3joAQHPdw-AyepHEYbNHTle7-ssZPxM0DATQ-D3X6nypOC8TRtFd2kMxI83x67ZyiY8swbSEZ86_gLK8XCXwe5QpqtYtOP4q35FWYPcr1aZQTnfw

خاکہ 6 نئی انواع پہلے سے موجود نوع سے الگ ہو کر ہی وجود میں آتی ہیں۔

اس میں کہیں بھی انسان کو بندر کی اولاد نہیں کہا گیا۔

ہاں آپ کو لفظ جد پر اعتراض ہوسکتا ہے۔ یہ میری غلطی ہے کہ ترجمہ کرتے وقت یہ لفظ چنا اس سے بہتر لفظ ماخذ تھا جو میں چن سکتا تھا۔

ایک صاحب سوال کرتے ہیں اور اس کا جواب دیا جاتا ہے۔ بجائے یہ کہ آپ اپنا اعتراض بیان کریں کہ آپ کو کیا اعتراض ہے۔ آپ مضحکہ خیزی کی ریٹنگ دیتے ہیں۔

جناب مجھے دوسروں کا تو نہیں معلوم تاہم میرا مقصد صرف علم حاصل کرنا اور اس کو پھیلانے کی کوشش ہے۔ فضول بحث برائے بحث میں الجھنا نہیں ہے۔

اور میں پہلے بھی پوسٹ میں یہ واضح کرچکا ہوں کہ میں ایک موحد ہوں تاہم نظریہ ارتقاء کو بعینہ اسی طرح مانتا ہوں جیسے کہ مزمل شیخ نے اپنی پوسٹ میں لکھا ہے۔

میری درخوست ہے کہ آپ بجائے خالی مضحکہ خیزی کی ریٹنگ دینے کے اپنا اعتراض پیش کریں۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
آپ اپنے ”موحد“ لفظ کی تعریف بھی کردیں۔
میرا مقصد ایک چیز کو واضح کرنا تھا سو کردیا۔ میں ضروری نہیں سمجھتا کہ موحد کی تعریف یہاں پیش کروں ۔ کیونکہ یہ موضوع بحث ہی نہیں ہے۔

براہِ کرم ترجمہ کرتے وقت غلطی نہ کیجیے تاکہ مجھےکوئی غلط فہمی نہ ہوجائے۔
جناب غلطی کس سے نہیں ہوسکتی۔ اگر کسی سے کوئی غلطی ہو تو اس کی جانب اشارہ کرنا کوئی بری بات نہیں ہے جبکہ غلطی کرنے والا اس کو درست کرنے کو تیار بھی ہو ۔ تاہم اس کا بھی ایک طریقہ ہوتا ہے ۔ کوئی لٹھ لے کر پیچھے پڑ جائے تو ظاہر ہی دوسرے نے اس سے چڑنا ہی ہے ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
شاباش زہیر عباس صاحب۔ شاباش۔
ہم تو سمجھے تھے آپ نظریہ ارتقا کو پوری طرح سمجھ کر ہی اس پر ایمان لائے ہوں گے۔ لیکن آپ تو ترجمہ کرکے ہی اس پر یقین کر بیٹھے ۔ کیسے کیسے ”سائنسدانوں “ سے یہاں واسطہ پڑرہاہے۔

آج میں ایک بار پھر گلوبل سائنس کے مدیر محترم علیم احمد صاحب کو داد دیتا ہوں ۔جن کی تربیت اور طریقہ استدلال نے ہمیں پرویز ہود اور دیگر نام نہاد سائنسدانوں کا اصل چہرہ دیکھنے کے قابل بنایا۔

جناب یقین جانئے کہ میں نے کبھی دعویٰ ہی نہیں کیا کہ میں کوئی سائنس دان تو کجا کسی قسم کا علم رکھتا ہوں۔

تاہم آپ علیم صاحب کو ضرور داد دیجئے کہ ان سے ملنے سے پہلے میں بھی ہارون یحییٰ صاحب کو درست سمجھتا تھا اور نظریہ ارتقاء کو ایک دھوکہ اور فریب ۔ تاہم جب دسمبر ٢٠١٤ میں علیم صاحب سے ملاقات گوبل سائنس کے دفتر میں ہوئی تو میں نے ان سے سوال کیا تھا کہ جناب آپ نے ہارون یحییٰ کی صرف ایک ہی کتاب کا ترجمہ کیا تھا اور وہ زبردست ہٹ ہوئی تھی ۔ اس کے بعد آپ نے ان کی دوسری کتابوں کا ترجمہ کیوں نہیں کیا۔ ان کا جواب تھا کہ ان کے ادارے کا ہارون یحییٰ کے ساتھ تین مزید کتب کے اردو ترجمے کا معاہدہ ہوگیا تھا تاہم ان کی ملاقات کسی صاحب سے ہوئی (معذرت کہ ان صاحب کا نام مجھے یاد نہیں) جنہوں نے ان کے دماغ سے کریشنسٹ کا خبط نکالا ۔ لہٰذا کیونکہ وہ اب ہارون یحییٰ کو (جو کہ ان کی دانست میں کریشنسٹ ہیں) درست نہیں سمجھتے تھے لہٰذا ان کی مزید کتب کا ترجمہ نہیں کیا۔

اس وقت میں نے ان سے حیرت سے پوچھا تھا "کیا آپ بھی ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں؟" ۔ ان کے جواب کا خلاصہ کچھ یوں تھا ۔ بگ بینگ سے لے کر اب تک کائنات میں ارتقائی عمل جاری و ساری ہے ۔ ہائیڈروجن ہیلیم میں ہیلیئم کاربن میں بدلی جارہی ہے ۔ لہٰذا ارتقاء کا مشاہدہ جب ہم روز مرہ کائنات میں کرتے ہیں تو اس سے انکار کی گنجائش نہیں بچتی۔

تو جناب یہ ہیں آپ کے استاد محترم جن کے طفیل سے میں نے بھی نظریہ ارتقاء کو سمجھنا شروع کیا ورنہ میں بھی اس سے پہلے ہارون یحییٰ کو درست اور نظریہ ارتقاء کو غلط سمجھتا تھا ۔

چاہئیں تو اپنے استاد محترم سے تصدیق کرسکتے ہیں ۔
 

زہیر عبّاس

محفلین
بھائی جب آپ کو ان ٹیکنیکل چیزوں کا پتا ہی نہیں تو صرف کتابیں پڑھ کر لوگوں کر گم راہ کرنے کا ٹھیکا نہیں لینا چاہیے تھا۔
نور سعدیہ صاحبہ کے سوال جس پوسٹ کے سیاق و سباق میں تھے وہ کچھ 12 صفحات پر مشتمل ہے جس میں ہر صفحے پر 20 پوسٹ لگی ہوئی ہیں ۔ نہ تو میں نے ان کی وہ پوسٹ مکمل پڑھی تھی ۔ نہ میرے پاس وقت تھا کہ میں اتنی طویل پوسٹ پڑھوں ۔ اور ان کے سوالات اس پوسٹ سے متعلق ہی نہیں تھے اگرچہ موضوع ارتقاء ہی کا تھا ۔ لہٰذا میں نے صاف گوئی سے کام لیا ہے۔

آپ وضاحت کردیجئے کہ میں نے لوگوں کو کہاں گمراہ کیا ہے ۔

استدلال کا طریقہ سیکھ کر ہی اقرار ورد کرنے کی جرات کرنی چاہیے۔
یہی چیز آپ پر بھی لاگو ہوتی ہے ۔ اگر آپ کو کوئی چیز درست نہیں لگی تو بتائیں کہ سائنسی لحاظ سے یہ چیز ٹھیک نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہمیں بھی اپنی اصلاح کرنے کا موقع مل سکے۔ صرف لٹھ کے کر چڑھ دوڑنے سے تو کوئی آپ کی بات کو نہیں سمجھے گا۔

اپنی مرضی کو چھوڑ کر صرف اور صرف سچائی کو تسلیم کرنے کی عادت ڈالی جائے ورنہ الل ٹپ جوابات اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
ارے بھائی سچائی ہے کدھر ۔ کہاں بیان کی ہے آپ نے اور کیا بیان کی ہے ۔ لوگوں کو کیا الہام ہوگا کہ سچ کیا ہے اور جھوٹ کیا ہے؟

میں بحث برائے بحث میں نہیں پڑھنا چاہتا ۔ آپ کا وقت بھی کافی قیمتی ہے اور میں بھی اس وقت کا فائدہ اٹھا کر کچھ اور کام کرلوں گا ۔ ورنہ یہ لایعنی بحث چلتی رہے گی ۔
 

arifkarim

معطل
چلیں یہ بات تو سمجھ میں آگئی کہ انسان بندر کی نسل سے نہیں ہے لیکن اب یہ بھی سمجھائیں کہ ایک ہی جد سے دو بالکل الگ الگ نوع کیسے بنیں۔ کیا ایک گدھے کی نسل کتے یا بھیڑیے وغیرہ میں بدل سکتی ہے؟
ایک ہی جدمختلف علاقوں میں طویل مدت تک الگ تھلگ رہنے کی وجہ سے مختلف انواع میں ارتقا کر سکتی ہے۔سخت موسمیاتی تبدیلیوں، جغرافیائی پیچیدگیوں اور دیگر محرکات کی وجہ سے اگر انکا آپس میں زیادہ عرصہ تک کوئی رابطہ نہ رہے تو یہ جد باہم بچے پیدا کرنے کی صلاحیت کھو بیٹھتی ہے۔ اور یوں نئی انواع کا آغاز ہوتا ہے۔
جدید ریسرچ کے مطابق نوع انسانی کی افریقہ سے باہر ہجرت کے دوران اس نے نی ایندرٹھیل نامی ایک اور نوع، جو کہ اب معدوم ہو چکی ہے، کیساتھ ملاپ کیا اور اولاد پیدا کی۔ یوں نی ایندرٹھیل ڈی این اے کے باقیات ایشیائی اور یورپی انسانوں میں تو پائے جاتے ہیں البتہ پیشتر افریقی نسل انسان اس سے محروم ہیں۔
یہاں یہ بات قابل غور ہے کہ نی ایندر ٹھیل بندر نہیں تھے۔ اگر وہ بندر ہوتے تو انکے کیساتھ اولاد پیدا نہ ہو سکتی۔ وہ نوع انسانی کے قریب ترین "رشتہ دار" تھے اور انکے کیساتھ 99،5 فیصد ڈی این اے شیئر کرتے تھے۔ مگر پھر کسی ناگہانی آفت، شاید انکی آماج گاہ میں انسانوں کی آمد کے بعد یہ نوع چالیس ہزار سال قبل ناپید ہو گئی۔ اور یوں نظریہ ارتقا کے قدرتی انتخاب کی بدولت پیچھے صرف ہم انسانوں کو چھوڑ گئی۔ اگر کوئی اب بھی یہ کہے کہ انسان بندروں سے آئے تو اسے نی ایندر ٹھیل کو پہلے بندر ثابت کرنا چاہئے، کیونکہ یہ نوع نہ تو انسان تھی اور نہ ہی بندر:
Neanderthal.jpg


میرے خیال میں آپ اور زُہیر عباس کے ” بندروں“ میں فرق ہے۔آپ دونوں پہلے اس پر اتفاق کرلیں۔
جی کیا فرق ہے؟

دوسری بات جب تک آپ یہ سوچ رکھیں گے کہ ہمیں تمام دنیا کو موجود ہ تعریف کے حامل نظریۂ ارتقاء پر لانا ہے ، بل کہ اس کے برعکس آپ کو سچائی کی تلاش میں رہنا چاہیے۔ صرف اپنی بات پر اَڑ ے رہنے اورجب جی چاہے قانون کو پکڑے رکھو اور جب چاہونظریے پر ایمان لاؤ۔ یہ آپ کو ہمیشہ شرمندہ کرتی رہیں گی۔
جی جی اور ہم سچائی کو پانے کے بعد ہی نظریہ ارتقا کو مانتے ہیں۔ ہمارا کام تو صرف سائنسی حقائق بتانا ہے۔ ماننا نہ ماننا آپ کی مرضی پر ہے۔

@ زیک کی باتوں کو تو میں جھوٹ اور فریب کے پلڑے میں ڈال دیتا ہوں۔ کیوں کہ امریکہ میں ایک خاص قوم کے ساتھ رہ کر اس میں بھی تضحیک اور مکر اتنا در آیا ہے کہ اب یہ دو چیزیں اس کی پہچان بن گئیں ہیں۔
اس قسم کی گفتگو اور ذاتی حملے کیا محفل میں زیب دیتے ہیں؟ آپ زیر بحث موضوع نظریہ ارتقا پر بات کریں، زیک پر نہیں۔

جب خدا کا ذکر آتا ہے تو دلیلیں مانگی جاتی ہے۔ قابلِ اعادہ ثبوت مانگے جاتے ہیں۔ قانون اور نظریہ میں فرق سمجھایا جاتاہے۔ لیکن جب عالمی سوسائٹی کی مخصوص سوچ کے حامل ادارے کسی کو سچ مان کر اسے سائنس بنا کر پیش کرتے ہیں تو سب کچھ بھول کر اس کے ٹھیکے لے لیے جاتے ہیں ۔ اور جاہل پاکستانیوں کو راہ راست پر لانے کے لیے کمر بستہ ہوجاتےہیں۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ نظریہ ارتقا کو سائنس بنا کر پیش نہیں کیا گیا بلکہ نظریہ ارتقا بذات خود ایک سائنس ہے جو تمام حیات میں پائی جانے والی انواع کی ابتداء پر بات کرتی ہے۔ باقی جہاں تک جاہل پاکستانیوں کو راہ راست پر لانے کا سوال ہے تو یہ عظیم کام ہمارے ہاں ایک مخصوص مذہبی مُلا ٹولا 1947 سے کر ہی رہا ہے۔ انکے ہوتے ہوئے کسی اور کی کیا مجال جو جاہل عوام کو راہ راست پر لائیں۔ یہ خود کیا کسی سے کم ہیں۔

میں آخر میں پھر یہی کہوں گا کہ اپنی مرضی کو چھوڑ کر صرف اور صرف سچائی کو تسلیم کرنے کی عادت ڈالی جائے ورنہ الل ٹپ جوابات اور شرمندگی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔
آج میں ایک بار پھر گلوبل سائنس کے مدیر محترم علیم احمد صاحب کو داد دیتا ہوں ۔جن کی تربیت اور طریقہ استدلال نے ہمیں پرویز ہود اور دیگر نام نہاد سائنسدانوں کا اصل چہرہ دیکھنے کے قابل بنایا۔
اگر ڈاکٹر پرویز ہود بھائی اور ڈاکٹر عبداالسلام نام نہاد سائنسدان ہیں تو آغا وقار جیسے ذہین دماغ یقیناً نوبل انعام کے حقدار ہیں۔

آپ اپنے ”موحد“ لفظ کی تعریف بھی کردیں۔ براہِ کرم ترجمہ کرتے وقت غلطی نہ کیجیے تاکہ مجھےکوئی غلط فہمی نہ ہوجائے۔
یہ لڑی مذہبی بحث کیلئے نہیں ہے۔ اسکے لئے محفل کے دیگر سیکشن کا رُخ کریں۔

اس وقت میں نے ان سے حیرت سے پوچھا تھا "کیا آپ بھی ارتقاء پر یقین رکھتے ہیں؟" ۔ ان کے جواب کا خلاصہ کچھ یوں تھا ۔ بگ بینگ سے لے کر اب تک کائنات میں ارتقائی عمل جاری و ساری ہے ۔ ہائیڈروجن ہیلیم میں ہیلیئم کاربن میں بدلی جارہی ہے ۔ لہٰذا ارتقاء کا مشاہدہ جب ہم روز مرہ کائنات میں کرتے ہیں تو اس سے انکار کی گنجائش نہیں بچتی۔
تو جناب یہ ہیں آپ کے استاد محترم جن کے طفیل سے میں نے بھی نظریہ ارتقاء کو سمجھنا شروع کیا ورنہ میں بھی اس سے پہلے ہارون یحییٰ کو درست اور نظریہ ارتقاء کو غلط سمجھتا تھا ۔
انہیں زیادہ نہ بھڑکائیں۔ کہیں نظریہ ارتقا کی نفی میں یہ ایک اچھے استاد سے محروم نہ ہو جائیں :)
باقی علیم احمد کا مشاہدہ بالکل درست ہے کہ بگ بینگ سے لیکر ابتک کل کائنات حالت ارتقا میں ہے۔
 
Top