(صاحبو! بہت مشکل ہے آپ کی نرم و گرم باتیں پڑھنا اور ان کو سمجھ کر ان کا تجزیہ کرنا۔ کیونکہ ہر بات کا آغاز ایک کونے سے اور اختتام دوسرے کونے پر ہے۔ دماغ سوزی کے بعد ہم درج ذیل خلاصہ نکال پائے ہیں۔ اسے کچھ تو اپنے سمجھنے کے لیے اور کچھ ان لوگوں کے لیے جو میری طرح پوری بحث پڑھنے کا تحمل نہیں رکھتے اپنے الفاظ میں یہاں نقل کردیا ہے۔دیکھیے اس کا کیا حشر ہو
)
پوری بحث کے مطالعہ سے ہم اس نتیجہ پر پہنچے ہیں کہ اس بارے میں تین طبقہ ہائے فکر ہیں:
اول: جو نظریہ ارتقا کو ایک کائناتی حقیقت تسلیم کرتے ہیں۔اور اسے عقیدہ توحید کے خلاف جانتے ہوئے اس پر قائم ہیں۔
دوم: جو اس کی تردید کرتے ہیں اور اس کے برعکس عقیدہ توحید کے قائل ہیں۔
سوم: وہ ہیں جو ان دونوں کے درمیان مطابقت کی راہ پر چلنا چاہتے ہیں، یا یوں کہہ لیں کہ وہ موحد رہتے ہوئے نظریہ ارتقا کو تسلیم کرنا چاہتے ہیں۔
اولین دو نظریات کے حاملین کے مطابق توحید اور نظریہ ارتقا کے درمیان "بعد المشرقین" ہے۔ اور چونکہ یہ الگ الگ سکول آف تھاٹ ہیں اس لیے ہر دو نظریہ کے حامل افراد نے اپنے اپنے نظریہ کے مطابق ممکنہ سوالات کا جواب تیاریا کھوج کیا ہے اور ہر دو فریق اس پر مطمئن ہیں۔
مختصر وضاحت یہ کہ نظریہ ارتقا کے حامل افراد جو ایک مخصوص سائنسی پس منظر میں اس نظریہ پر ایمان لائے ہیں، وہ ہر اٹھائے جانے والے سوالات کا سائنس ہی کی نظر سے جواب تلاشیں گےبلکہ تلاش کرچکے ہیں اور اس پر مطمئن ہوچکے ہیں گوکہ وہ فرقی مخالف کی نظر میں کمزور یا سرسری ہوں۔ اور اس نظریہ کے منکرین اس نظریہ کو مذہبی اور توحیدی نقطہ نظر سے اس کو رد کرتے ہیں اور اپنے نظریہ کے مطابق ہر اٹھائے جانے والے سوال کا مذہبی نقطہ نظر سے جواب رکھتے ہیں چاہے فریق اول کے نزدیک وہ جوابات ایک محدود سوچ سے پیدا معلوم ہوتے ہوں۔
جس طرح یہ سوچ خلافِ حقیقت ہے کہ
نظریہ ارتقا کے حاملین نے بیٹھے بٹھائے ایک شخص کے نظریات کو بلاتحقیق بے چوں و چرا تسلیم کرلیا ہے اور وہ ایک خلافِ عقل چیز پر بضد ہیں، بالکل اسی طرح یہ خیال کہ
نظریہ توحید کے حاملین چند غیر محقق لوگوں یا ذرا واضح الفاظ میں جاہل ملاؤں کی باتوں میں آکر اس کے منکر ہیں، سراسر نادرست ہے۔ جیسا کہ عرض کیا ہر فریق کا ایک نظریہ اور ایک سوچ ہے جس پر اس کا ضمیر مطمئن ہے۔ ایسے میں ایک جانب سے یہ کہنا کہ یہ جھوٹ اور فریب ہے اور دوسری جانب سے جوابِ آں غزل کے طور پر طنزیہ لہجہ اختیار کرلینا ہمارے خیال میں کسی طرح بھی مفید نہیں ہے۔بلکہ چند در چند نقصان کا باعث ہے۔
مشکل البتہ تیسرے فریق کے لیے ہے جو موحد رہتے ہوئے، اور اس کے تمام تر تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے نظریہ ارتقا کو تسلیم کرنا چاہ رہے ہیں۔ کیونکہ نہ فریق اول ان کی پیش کردہ توجیہات تسلیم کرپارہا ہے، کہ وہ ان کو مسلمات کے خلاف معلوم ہوتے ہیں۔ نہ ہی فریق ثانی ان کی توجیہ سے مطمئن ہے کہ وہ توجیہات ان کے نظریہ کے تقاضے پورے کرتی نہیں دکھائی دیتیں۔ سو ایسے میں ہماری رائے یہ ہے کہ اگر وہ مکمل تحقیق کردہ نظریات کی بنیاد پر اس رائے کی جانب ہیں تو حسبِ سابق یہاں بھی بحث بے معنیٰ ہوجاتی ہے۔ان کو یہ جانتے ہوئے کہ وہ ایک الگ سوچ کے حامل ہیں خود کو بحث سے الگ کرلینا چاہیے۔ اور اگر ان کی تحقیق ابھی نامکمل یا شبہات اور شکوک کی حد تک ہے تو ان کو اپنی رائے پر اصرار کرنے سے پہلے دونوں فریقوں کے مسلمات کو کھوج لینا چاہیے۔