نقد و نظر

آپ شاید ’’فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلن‘‘ لکھنا چاہ رہے تھے

میرے پاس اس کا نام بحرِ ارمولہ مسدس ہے: فاعلن فاعلتن فاعلتن ۔۔۔
جی استادِ محترم بالکل صحیح پکڑ فرمائی آپ نے یہی لکھنا تھا
’’فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلن‘‘
 
استاد گرامی جنابِ محمد یعقوب آسی صاحب سے اور دیگر صاحبانِ علم سے تنقید کی درخواست ہے
منصف ہمارے شہر کے مجبور ہو گئے
انصاف کے تقاضے بھی معذور ہو گئے
مجرم ہیں شہر بھر میں کھلے عام پھر رہے
اور لوگ اب گھروں میں ہی محصور ہو گئے
بننے چلے تھے لوگ جو اس قوم کے امیر
وہ سارے لوگ جسم کا ناسُور ہو گئے
اصلِ مراد زندگی ہم بھول ہی گئے
سمجھے تھے ہم تو صاحبِ دستور ہو گئے
تہذیبِ نو نے ہم کو دیا اور کچھ نہیں
ہم دور اپنے دین سے بھرپور ہو گئے
احمدؔ حریمِ ذات سے نکلو ناتم ذرا
تم کو ہوا ہے کیا کہ یوں مہجور ہو گئے
 
منصف ہمارے شہر کے مجبور ہو گئے
انصاف کے تقاضے بھی معذور ہو گئے

مضمون ٹھیک ہے، بات بھی سمجھ میں آ رہی ہے۔ مگر ۔ ۔ ۔ الفاظ اور ان کے معروف معانی، ان کی بہت اہمیت ہے۔ جہاں ہم ان کو شاذ یا غیر معروف معانی میں لائیں گے یا ایک دوسرے کے ساتھ جبراً جوڑیں گے، بات بن نہیں پائے گی۔ تقاضا تو تقاضا ہوتو ہے، اس کا معذور ہونا چہ معنی دارد؟ تقاضا کرنے والا البتہ معذور مجبور کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ جب ہم کہتے ہیں: ’’انصاف کا تقاضا یہ ہے‘‘، تو ہم کہہ رہے ہوتے ہیں: ’’انصاف یہ تقاضا کرتا ہے‘‘۔
اس شعر میں آپ شاید کہنا چاہ رہے ہیں کہ انصاف کا تقاضا کرنے والے یا طالبین بھی کمزور ہو گئے ہیں؟ علامتی طور پر انصاف کا مضبوط، کمزور، مفقود وغیرہ ہونا بھی سمجھ میں آتا ہے مگر یہاں بات ویسے ہو نہیں سکی۔ لفظ ’’معذور‘‘ یہاں قافیے کی ضرورت ہے؟ اس کے سحر سے نکلئے، بات کو تھوڑا سا مختلف زاویہ دیجئے: کہ عام لوگ بھی تو انصاف کے تقاضوں سے دور ہو گئے ہیں؛ وغیرہ وغیرہ۔
 
مجرم ہیں شہر بھر میں کھلے عام پھر رہے
اور لوگ اب گھروں میں ہی محصور ہو گئے

دوسرے مصرعے کو بھرتی کے الفاظ (اور، اب، ہی) نے دبا دیا۔ پہلے مصرعے میں ’’کھلے عام پھرنا‘‘ وہ تاثر نہیں دے پا رہا جسے احتجاج کا نام دیا جا سکے ایک محاورہ ہے ’’دندناتے پھرنا‘‘ آپ کا مطلوبہ مفہوم شاید وہ بہتر طور پر بیان کر سکے۔
یہ ایک کمزور شعر ہے؛ اگرچہ یہاں بھی ابلاغ کا مسئلہ کوئی نہیں۔ یوں کہئے اس میں جمالیات یا سلیقے کی کمی ہے اور الفاظ اپنے مقصود کی شدت کو نہیں پہنچ رہے۔
 
بننے چلے تھے لوگ جو اس قوم کے امیر
وہ سارے لوگ جسم کا ناسُور ہو گئے

ایک تو یہاں لفظ ’’جسم‘‘ زائد محسوس ہو رہا ہے۔ قوم، امارت کی رعایت سے ’’روح‘‘ قدرے بہتر ہوتا اگرچہ مکمل انطباق اس سے بھی نہیں ہو پاتا۔ ’’وہ سارے لوگ‘‘ یہاں ’’وہ‘‘ بہت کافی ہوتا، اور الفاظ ’’سارے لوگ‘‘ کی جگہ کوئی موزوں تر الفاظ لا کر ناسور والی بات کو بہتر انداز میں بیان کیا جا سکتا تھا۔
 
اصلِ مراد زندگی ہم بھول ہی گئے
سمجھے تھے ہم تو صاحبِ دستور ہو گئے

یہ ’’اصلِ مرادِ زندگی‘‘ کیا ہے، معانی در بطنِ شاعر۔ دستور سے مراد کیا ۱۹۷۳ کا آئین اور دیگر دساتیر ہیں؟ ذہن ادھر جاتا ضرور ہے مگر شعر قاری کو راستے میں چھوڑ کر چل دیتا ہے۔ لفظیات کا چناؤ بہت اہم ہوا کرتا ہے۔ اگر دساتیر کی طرف میرا اشارہ درست ہے تو یہاں قرآن کا ذکر برملا آنا چاہئے تھا۔
 
تہذیبِ نو نے ہم کو دیا اور کچھ نہیں
ہم دور اپنے دین سے بھرپور ہو گئے
مضمون نیا نہیں مگر بات سچی ہے۔ ایسے میں ضرورت ہوتی قوتِ بیان کی، ورنہ جس طور اقبال نے ان مضامین کو بیان کر دیا ہے، کوئی ویسے کیا بیان کرے گا؛ اور اگر کر جاتا ہے تو ایسا شعر اپنے شاعر کی شناخت بن جائے گا۔ حقائق بیان ہوتے ہیں، اقوام کے درد بیان ہوتے ہیں اور بہت ہوتے ہیں، ہونے بھی چاہئیں؛ یہ لازم ہے کہ بیان میں پھیکا پن نہ آئے! ایک پھیکا شعر آپ کی پوری غزل کو کمزور بنا سکتا ہے۔
جب آپ کے پاس قافیہ ’’دور‘‘ اسی مصرعے میں میسر ہے تو ’’بھرپور‘‘ کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی؟ اسی ’’دور‘‘ کو اپنے مقام پر آنا چاہئے گا۔ میرا نکتہ یہ ہے کہ یہاں ’’بھرپور‘‘ درست معانی نہیں دے رہا۔
ایک جملہ لیجئے:: جمیل آباد رہبر کالونی سے بہت دور تو نہیں۔
کیا ہم یہاں ’’بہت دور‘‘ کی جگہ ’’بھرپور دور‘‘ کہہ سکتے ہیں؟ میرا خیال ہے کہ نہیں کہہ سکتے۔ شعر تو روزمرہ کی گفتگو سے کہیں زیادہ نازک ہوتا ہے۔
 
احمدؔ حریمِ ذات سے نکلو ناتم ذرا
تم کو ہوا ہے کیا کہ یوں مہجور ہو گئے

’’حریمِ ذات‘‘ کی ترکیب ایک خاص معنویت رکھتی ہے اور معروف شعرائے کرام نے اس کے معانی کو اللہ کریم کی ذات سے جوڑا ہے۔ ان معانی کے ہوتے ہوئے آپ اس ترکیب کو اپنی ذات یا اندرون سے جوڑیں گے تو آپ کا پڑھا لکھا قاری ضرور گڑبڑا جائے گا۔مہجور کے معانی بھی یہاں محل کے مطابق نہیں۔ مہجور وہ ہوتا ہے جسے چھوڑ دیا جائے، ترک کر دیا جائے۔ یہاں تو کچھ بھی ترک نہیں ہو رہا بلکہ اس شعر کا موجودہ مضمون ہے کہ: ’’خود تک محدود کیوں ہو گئے ہو، اپنے خول سے باہر نکلو‘‘۔
کیا میں درست سمجھا ہوں؟ اگر میں درست سمجھا ہوں تو آپ کو یہ شعر ترک کرنا ہو گا، یہ آپ کا مقصود بیان نہیں کر پا رہا۔
 
اس غزل کے مضامین اور موضوعات میں اسلاف کی اقدار اور موجودہ انحطاط کے حوالے سے دعوتِ فکر پائی جاتی ہے، اس کو بیان کرنا عام لذاتی شاعری کی نسبت کہیں زیادہ ذمہ داری کا کام ہے۔ عام آدمی (شعر کا عام قاری) تو ویسے ہی نصیحت سننے کا روادار نہیں، کجا آنکہ وہ پھیکے پھسپھسے انداز سے بھی لطف اندوز ہو گا۔ شعر کو بڑا کرنے میں اس کے مطالب و مفاہیم اور مقصود بھی اہم ہیں اور اس کا بیان بھی۔ ایک ذمہ دار شاعر دونوں کو ساتھ لے کر چلتا ہے۔
 
استاد گرامی اپ کی بے حد نوازش کے آپ بندے کے کلام بے ربط کو قابل التفات سمجھتے ہین اور اپ نے ہر شعر کو بالکل سمجھا اور جو باتیں اپ نے بیان کین ان کو اگر مین دھونسے نکلتا تو شاید زمانے لگتے وہ کیا ہے کہ اتی ہے اردو زباں آتے آتے لیکن آپ کی عنایت رہی تو سیکھنے مین تیزی ا جائے گی جزاک اللہ
 
استادِ گرامی قدر جناب محمد یعقوب آسی صاحب چند سوالات کے جواب میں آپ کی راہنمائی کی ضرورت ہے


1۔ مثلِ کنول اور مثلِ یم بہ یم اور مثلِ خلیل ان میں سے کون سی ترکیب ٹھیک اور کون سی غلط ہے اور کیوں؟

2۔ اعلی ، بالا، نالہ، مانا،جانا،دانہ، یہ الفاظ ہم قافیہ ہیں کے نہیں اگر ہیں تو حرفِ روی جو کے آخری حرف الف بنتا ہے کیا وہ تبدیل نہیں ہو رہا اور یہ نقص قافیہ ہے کہ نہیں؟

3۔ مستفعلن مفاعلن مستفعلن مفاعلن یہ ایک بحر ہے کہ نہیں اگر ہے تو کون سی اور کیسے اور کہاں سے اخذ ہوئی
 
1۔ مثلِ کنول اور مثلِ یم بہ یم اور مثلِ خلیل ان میں سے کون سی ترکیب ٹھیک اور کون سی غلط ہے اور کیوں؟

2۔ اعلی ، بالا، نالہ، مانا،جانا،دانہ، یہ الفاظ ہم قافیہ ہیں کے نہیں اگر ہیں تو حرفِ روی جو کے آخری حرف الف بنتا ہے کیا وہ تبدیل نہیں ہو رہا اور یہ نقص قافیہ ہے کہ نہیں؟

3۔ مستفعلن مفاعلن مستفعلن مفاعلن یہ ایک بحر ہے کہ نہیں اگر ہے تو کون سی اور کیسے اور کہاں سے اخذ ہوئی

1۔ کنول اگر ہندی اصل سے ہے تو اس میں ترکیبِ اضافی و توصیفی علامت زیر کے ساتھ درست نہیں۔ مثلِ یم بہ یم دوہری ترکیب ہے اس کا غلط یا درست ہونا اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ مثلِ خلیل ترکیب درست ہے۔ یہ سب تراکیبِ اضافی ہیں۔
2۔ قوافی کا اعلان مطلع میں ہوتا ہے۔ اگر آپ مطلع میں اعلیٰ اور دانہ قافیہ لائے ہیں تو (اعلی ، بالا، نالہ، مانا،جانا،دانہ، یہ الفاظ ہم قافیہ ہیں)۔ اگر اعلیٰ اور بالا لائے ہیں تو پہلے تین ہم قافیہ ہیں، اگر مانا اور جانا لائے ہیں تو آخری تین ہم قافیہ ہیں۔
3۔ مستفعلن مفاعلن مستفعلن مفاعلن ۔۔ یہ بحر لگتی تو مانوس ہے۔ باقی باتوں کے جواب دینے سے قاصر ہوں۔
 
استادِ گرامی قدر جناب محمد یعقوب آسی صاحب چند سوالات کے جواب میں آپ کی راہنمائی کی ضرورت ہے


1۔ مثلِ کنول اور مثلِ یم بہ یم اور مثلِ خلیل ان میں سے کون سی ترکیب ٹھیک اور کون سی غلط ہے اور کیوں؟

2۔ اعلی ، بالا، نالہ، مانا،جانا،دانہ، یہ الفاظ ہم قافیہ ہیں کے نہیں اگر ہیں تو حرفِ روی جو کے آخری حرف الف بنتا ہے کیا وہ تبدیل نہیں ہو رہا اور یہ نقص قافیہ ہے کہ نہیں؟

3۔ مستفعلن مفاعلن مستفعلن مفاعلن یہ ایک بحر ہے کہ نہیں اگر ہے تو کون سی اور کیسے اور کہاں سے اخذ ہوئی


نجم الغنی نجمی کی "بحرالفصاحت" میں آپ کے سوالات کے شافی جواب مل جائیں گے۔
 
1۔ کنول اگر ہندی اصل سے ہے تو اس میں ترکیبِ اضافی و توصیفی علامت زیر کے ساتھ درست نہیں۔ مثلِ یم بہ یم دوہری ترکیب ہے اس کا غلط یا درست ہونا اس کے استعمال پر منحصر ہے۔ مثلِ خلیل ترکیب درست ہے۔ یہ سب تراکیبِ اضافی ہیں۔
2۔ قوافی کا اعلان مطلع میں ہوتا ہے۔ اگر آپ مطلع میں اعلیٰ اور دانہ قافیہ لائے ہیں تو (اعلی ، بالا، نالہ، مانا،جانا،دانہ، یہ الفاظ ہم قافیہ ہیں)۔ اگر اعلیٰ اور بالا لائے ہیں تو پہلے تین ہم قافیہ ہیں، اگر مانا اور جانا لائے ہیں تو آخری تین ہم قافیہ ہیں۔
3۔ مستفعلن مفاعلن مستفعلن مفاعلن ۔۔ یہ بحر لگتی تو مانوس ہے۔ باقی باتوں کے جواب دینے سے قاصر ہوں۔
بہت بہت نوازش استادِ محترم اللہ عزوجل جزائے خیر عطا فرمائے آپ کو
 
موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے استادِ محترم ایک اور غزل آپ کی تنقید کو پانے کے لئے پیش کرے کی جسارت کر رہا ہوں امید ہے کہ گراں نہیں گذرے گی اور شفقت فرمائیں گے
جانے کب جان گنوا بیٹھیں ہم
کچھ تو تحریر کئے دیتے ہیں
قوم کی آس نہ ٹوٹے آخر
ان کو زنجیر کئے دیتے ہیں
خواب جو دیکھے کئی برسوں سے
ان کی تعبیر کئے دیتے ہیں
سوزشِ عشق نہ سمجھے کوئی
اس کی تفسیر کئے دیتے ہیں
راہبر بھول گئے را ہبری
کوئی تدبیر کئے دیتے ہیں
پھر سے اک بار ادا مل کے ہم
رسمِ شبیرؔ کئے دیتے ہیں
نالے احمدؔ یہ ترے جانے کیوں
ہم کو دلگیر کئے دیتے ہیں
 
Top