نقد و نظر

املاء کا خیال رکھا کیجئے، خاص طور پر چھوٹے الفاظ میں یار لوگ بہت بے احتیاطی کر جاتے ہیں۔

نہ اور نا ۔۔۔ ان کے معانی اور مقام دونوں مختلف ہیں
کہ اور کے ۔۔۔ حسبِ بالا
پہ اور پے ۔۔۔ حسبِ بالا
ذرا اور ذرہ ۔۔۔ حسبِ بالا

موقع محل کے مطابق ہم پر پہ اور یا کو ایک دوجے کی جگہ لا سکتے ہیں؛ اسی طرح کہ اور یا کو؛ کر اور کے کو؛ پہ اور پر کو؛ پر اور مگر کو؛
پر، ذرا دیکھ چاکھ کے!
 
آخری تدوین:
استاد گرامی جناب محمد یعقوب آسی صاحب میرے لئے اِستاد رہنا ذرا مشکل ہے۔ تو ایک اور غزل تنقید کے لئے پیش کرتا ہوں امید ہے اپنی گراں قدر آرا سے ضرور نوازیں گے۔ اور آپ کے توسط سے محفل کے دیگر صاحب علم حضرات سے بھی آرا پیش کرنے کی امید رکھتا ہوں

ہم سے تسخیرِ انا ہو نہ سکی
پھر سے تعمیرِ وفا ہو نہ سکی
ہم نے سمجھایا بہت دل کو مگر
درد کی اسکے دوا ہو نہ سکی
موسمِ گل کی خبر پھیل گئی
چاک غنچوں کی قبا ہو نہ سکی
شہر میں ظلم و ستم ہوتا رہا
نظم اک ہم سے ادا ہو نہ سکی
جبر کی رت سے میں آزردہ ہوا
سُبکی اس دل سے جدا ہو نہ سکی
ہاتھ پھیلائے بہت ہم نے مگر
تھی جو صر صر وہ صبا ہو نہ سکی
دل سے احمدؔ تَو کہی تُو نے غزل
پر یہ غفلت کی قضا ہو نہ سکی
 
استاد گرامی جناب محمد یعقوب آسی صاحب میرے لئے اِستاد رہنا ذرا مشکل ہے۔ تو ایک اور غزل تنقید کے لئے پیش کرتا ہوں امید ہے اپنی گراں قدر آرا سے ضرور نوازیں گے۔ اور آپ کے توسط سے محفل کے دیگر صاحب علم حضرات سے بھی آرا پیش کرنے کی امید رکھتا ہوں

ہم سے تسخیرِ انا ہو نہ سکی
پھر سے تعمیرِ وفا ہو نہ سکی
ہم نے سمجھایا بہت دل کو مگر
درد کی اسکے دوا ہو نہ سکی
موسمِ گل کی خبر پھیل گئی
چاک غنچوں کی قبا ہو نہ سکی
شہر میں ظلم و ستم ہوتا رہا
نظم اک ہم سے ادا ہو نہ سکی
جبر کی رت سے میں آزردہ ہوا
سُبکی اس دل سے جدا ہو نہ سکی
ہاتھ پھیلائے بہت ہم نے مگر
تھی جو صر صر وہ صبا ہو نہ سکی
دل سے احمدؔ تَو کہی تُو نے غزل
پر یہ غفلت کی قضا ہو نہ سکی

سابقہ غزل کے مقابلے میں یہ بہت بہتر ہے۔ چند ایک چھوٹی چھوٹی باتیں عرض کرتا ہوں۔
 
ہم سے تسخیرِ انا ہو نہ سکی
پھر سے تعمیرِ وفا ہو نہ سکی
پہلا مصرع بہت اچھا ہے، دوسرے کو تھوڑا سا اور نکھارئیے۔ "وفا کا ہرج ہوا تھا وہ پورا نہیں ہو پایا"
اگر ہم اس کو یوں پڑھیں: "باز تعمیرِ وفا ہو نہ سکی" ۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟
 
ہم نے سمجھایا بہت دل کو مگر
درد کی اسکے دوا ہو نہ سکی
الفاظ کو غیر ضروری طور پر جوڑ نہ لکھا کریں، خطاطی کی بات دوسری ہے۔ فی زمانہ لکھائی پڑھائی میں بھی کمپیوٹر دخیل ہو گیا ہے۔ کمپیوٹر کے کے "اس کے" اور "اسکے" دو مختلف عبارتیں ہیں۔
دل کے درد کی دوا اس کو سمجھانا نہیں؛ ہجر اگر درد ہے تو وصال اس کی دوا ہے۔ اس مضمون کو ہزار رنگ میں باندھا گیا ہے۔ کوئی نیا پہلو، نیا زوایہ لائیے تو کیا ہی اچھا ہو۔ شعر درست ہے۔ میں خوب سے خوب تر کی بات کر رہا ہوں۔
 
موسمِ گل کی خبر پھیل گئی
چاک غنچوں کی قبا ہو نہ سکی
اچھا شعر ہے، بہت ساری داد۔ اس شعر کی خاص بات جو مجھے اچھی لگی: جب پھول نہیں کھلے تو پھر بہار کیسی؟ لوگ بہار کا نام دیتے ہیں تو دیتے رہیں۔
اس سے ملتا جُلتا ایک مضمون دیکھئے:
اب کے اس رنگ میں کھلی ہے بہار
رنگ موجود، باس ناموجود
 
شہر میں ظلم و ستم ہوتا رہا
نظم اک ہم سے ادا ہو نہ سکی
نہیں بھائی! نظم کہنا ظلم و ستم کا مداوا نہیں، ہاں اس بات کا مظہر ضرور ہے کہ نظم کہنے والے کے احساسات ہنوز مرے نہیں۔ مضمون پھر بھی قابلِ قبول ہے مگر کمزور۔
نظم ادا کرنا محاورہ نہیں ہے۔ نظم لکھنا، نظم پڑھنا بھی کہتے ہیں مگر "نظم کہنا" مستحسن ہے۔
 
جبر کی رت سے میں آزردہ ہوا
سُبکی اس دل سے جدا ہو نہ سکی
اظہار میں کچھ تھوڑا سا ادھر ادھر ہو گیا۔ رُت کے ساتھ "افسردگی" زیادہ جچتا ہے "آزردگی" سے۔ سُبکی: خود کو ہلکا پانا، یہ تو بہت حد تک ایک کیفیت ہوتی ہے جو اپنی کہی ہوئی ایک بات یا کیا ہوا ایک کام نادرست ثابت ہو جانے پر ہوتی ہے۔ دل سے جدا نہ ہونے والی کیفیت کسی مستقل قدر سے جڑی ہوتی ہے۔
اس مصرعے میں یہ لفظ یوں بھی درست ادا نہیں ہو پا رہا۔
 
ہاتھ پھیلائے بہت ہم نے مگر
تھی جو صر صر وہ صبا ہو نہ سکی
ہاتھ پھیلانا تو مانگنے کے معانی میں معروف ہے، اور اپنے سیاق سباق میں علامات و رعایات کا متقاضی ہوتا ہے۔ یا تو صاف کہئے کہ ہم نے بہت دعائیں کیں۔
دوسرے مصرعے میں الفاظ کو تھوڑا سا ہلائیں تو یہ صورت بھی نکلتی ہے: "وہ جو صرصر تھی صبا ہو نہ سکی"۔ جو اچھا لگے اپنا لیجئے۔
 
دل سے احمدؔ تَو کہی تُو نے غزل
پر یہ غفلت کی قضا ہو نہ سکی
نہیں صاحب! محض شعر برائے شعر؟ پہلے مصرعے میں وہی تعقیدِ لفظی و معنوی!
ترجیحات آپ کی ہیں، تاہم یاد دلا دوں کہ علامہ اقبال نے نام یا تخلص بہت کم استعمال کیا ہے، مرزا غالب کے ہاں اس کا اہتمام دکھائی دیتا ہے۔ جو مزاجِ یار میں آئے۔
 

سید عاطف علی

لائبریرین
ایک خاص بات ۔پھیل گئی ۔ والے مصرع کے علاوہ دیکھا جائے تو ذو بحرین غزل ہے ۔ بلکہ میں تو تعجب کر رہا تھا کہ شاعر کو اوزان کا اچھا خاصا پختہ شعور لگتا ہے تو پھر یہ کیا بوالعجبیست؟ فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔فاعلن فاعلتن فاعتن
باقی بعد میں۔
 
ایک خاص بات ۔پھیل گئی ۔ والے مصرع کے علاوہ دیکھا جائے تو ذو بحرین غزل ہے ۔ بلکہ میں تو تعجب کر رہا تھا کہ شاعر کو اوزان کا اچھا خاصا پختہ شعور لگتا ہے تو پھر یہ کیا بوالعجبیست؟ فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔فاعلن فاعلتن فاعتن
باقی بعد میں۔
آہا، سید صاحب! میرا ذہن اس طرف نہیں گیا تھا؛ آپ کا مشاہدہ قابلِ داد ہے۔ صاحبِ غزل بہتر بتا سکتے ہیں۔
تاہم ۔۔۔ بحرِ رمل مسدس محذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) کی صورت میں ہمیں ’’ہو نہ سکی‘‘ (ردیف) میں ’’نہ‘‘ کو ہر جگہ دوحرفی پڑھنا پڑے گا، جو مستحسن نہیں ہے۔

دیگر عناصر بھی آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔
 
آہا، سید صاحب! میرا ذہن اس طرف نہیں گیا تھا؛ آپ کا مشاہدہ قابلِ داد ہے۔ صاحبِ غزل بہتر بتا سکتے ہیں۔
تاہم ۔۔۔ بحرِ رمل مسدس محذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) کی صورت میں ہمیں ’’ہو نہ سکی‘‘ (ردیف) میں ’’نہ‘‘ کو ہر جگہ دوحرفی پڑھنا پڑے گا، جو مستحسن نہیں ہے۔

دیگر عناصر بھی آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔
رمل مسدس مخبون مخذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلن
 
آخری تدوین:
ایک خاص بات ۔پھیل گئی ۔ والے مصرع کے علاوہ دیکھا جائے تو ذو بحرین غزل ہے ۔ بلکہ میں تو تعجب کر رہا تھا کہ شاعر کو اوزان کا اچھا خاصا پختہ شعور لگتا ہے تو پھر یہ کیا بوالعجبیست؟ فاعلاتن فاعلاتن فاعلن۔فاعلن فاعلتن فاعتن
باقی بعد میں۔
رمل مسدس مخبون محذوف
فاعلاتن فَعِلاتن فِعَلُن
 
آخری تدوین:
استادِ محترم جناب محمد یعقوب آسی صاحب اور جناب سید عاطف علی صاحب آپ کا بے حد شکریہ، آپ کی آرا میرے لئے بہت اہمیت کی حامل ہیں کہ مجھ جیسے نو آموز کو بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے۔ پہلی غزل پہ آپ کی آرا سے بہت ساری معلومات ہوئیں جیسے تعقیدِ لفظی ، کہ میں زباں سے نا بلد ایک مصرع کے بارے میں استادِ گرامی نے ثقالت کا ذکر کیا تھا اس کو کچھ یوں درست کرنے کی کوشش کی ہے
نقص اپنے بھی کسی طور نظر آئیں تجھے
حق! کسی روز تجھے تیرا تماشائی کرے
اور اس غزل سے متعلق بھی آپ کی آرا محوظ کر لی ہیں کوشش کروں گا کے اصلاح کے سارے پہلوؤں کو مدِ نظر رکھ سکوں
آپ سے اسی طرح شفقت کی امید ہے کہ میں شعر گوئی سے متعلق جملہ محاسن کو سیکھنے کا متمنی ہوں
 

سید عاطف علی

لائبریرین
آہا، سید صاحب! میرا ذہن اس طرف نہیں گیا تھا؛ آپ کا مشاہدہ قابلِ داد ہے۔ صاحبِ غزل بہتر بتا سکتے ہیں۔
تاہم ۔۔۔ بحرِ رمل مسدس محذوف (فاعلاتن فاعلاتن فاعلن) کی صورت میں ہمیں ’’ہو نہ سکی‘‘ (ردیف) میں ’’نہ‘‘ کو ہر جگہ دوحرفی پڑھنا پڑے گا، جو مستحسن نہیں ہے۔
دیگر عناصر بھی آپ کی توجہ چاہتے ہیں۔
کافی تفصیلی بات تو زبان و بیان اور لب و لہجے کے اعتبار سے ہو چکی ۔ تاہم اجمالی طور پر بس یہ کہا جاسکتا ہے کہ شعری لطافت میں ذرا سی کمی ہے۔ عموماً جہاں تخیل خود عام سا ہو تو شعر کو بلند کرنے کے لیے کچھ تخیل کے کسی پہلو کو لفظی بیان کی نزاکت یا اسلوب کے کسی زاویئے وغیرہ سے سہارا دیا جانا چاہیے۔ مطلع میں دونوں مصرع بہترین لگے مگر باہم اچھی طرح پیوستہ نہیں اس لیے مطلع (مجھے ) کچھ بکھرا بکھرا سا لگا ذرا جاندار ہونا چاہیے ۔۔ ۔
 
غزل کی بحر رمل مسدس مخبون مخذوف ہے
فاعلاتن فاعلاتن فَعِلن
موسمِ گل کی خبر پھیل گئی
چاک غنچوں کی قبا ہو نہ سکی
آپ شاید ’’فاعلاتن فَعِلاتن فَعِلن‘‘ لکھنا چاہ رہے تھے

میرے پاس اس کا نام بحرِ ارمولہ مسدس ہے: فاعلن فاعلتن فاعلتن ۔۔۔
 
Top