نوربصیرت

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

بہت شکریہ زکریابھائي، میں انشاء اللہ آئندہ کوشش کروں گاکہ جوبھی موضوع ہوگااس کے متعلق کچھ تحریرکردیاکروں گا۔


والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

نوربصیرت فارنوائے وقت،

شیطانوں کاطریق واردات:
سورت الناس میں یہ دعاسکھائی۔(ترجمہ)
"میں پناہ میں آتاہوں انسانوں کے پروردگارکی جوانسانوں کاحکمران ہے جو انسانوں کاالہ(معبودمحبوب)ہے۔پیچھے رہ کروسوسہ اندازی کرنے والے کے شرسے۔جوانسانوں کے سینوں میں وسوسے ڈالتاہے۔(خواہ وہ)جنات سے (ہو)یاانسانوں سے۔"
گویاشیطان کابڑاحربہ وسوسہ اندازی ہے۔یہ سامنے سے وارنہیں کرتا۔پیچھے رہ کروسوسہ اندازی کرتاہے۔اس کی مثال انگریزی میں چھپنے والاایک مضمون 'بعنوان نبوت'ہے۔آغازیوں کیاگیاہے۔"اگرچہ ابن خلدون کہتاہے کہ ہرشخص کوشش کرے،تونبوت حاصل کرسکتاہے،مگرہم اسے تسلیم نہیں کرتے۔"
کیالطیف اندازہے ختم نبوت کے مسلمہ عقیدہ کومتزلزل کرنےکا؟سورہ الحجرات میں واضح ارشادہے کہ"اللہ تعالی اوراس کے رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)(پاک)سے آگے مت بڑھو۔"ابوجہل پہلے ابوالحکم(دانا)کے لقب سے مشہورتھا۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کوپہچاننے اورماننے سے انکارکیا،توابوالحکم سے ابوجہل ہوااورقیامت تک ابوجہل ہی رہے گا۔سیدناابوبکر(رضی اللہ عنہ)حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی اطاعت میں سب سے آگے نکل گئے توافضل البشربعدالانبیاء کامرتبہ پایا۔صحابہ کرام(رضوان اللہ)کی سب سے بڑی خوبی جناب رسول (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پاک کاادب واحترام اورمکمل اطاعت ہے۔۔۔۔
خدا اندر قیاس مانگنجد
شناس او را کہ گوید ما عرفناک
ترجمہ:اللہ تعالی ہمارے قیاس میں نہیں سماتے۔اس شخصیت کوپہچان جس نے فرمایا۔اے اللہ!ہم تیری معرفت کاحق ادانہیں کرسکے۔
آخری وقت سیدنافاروق اعظم(رضی اللہ عنہ)نے فرمایا۔"اگرآج ابوحذیفہ(رضی اللہ عنہ)کے آزادغلام سالم(رضی اللہ عنہ) یاابوعبیدہ بن الجراح زندہ ہوتے،تومیں کسی ترددکے بغیران میں سے کسی کااپناجانشین مقررکرجاتا۔"کیوں؟اسلئے کہ حضوراکرم نے ابوعبیدہ(رضی اللہ عنہ) کوامین الامت فرمایاتھا۔اورسالم(رضی اللہ عنہ) کے بارہ میں فرمایاتھاکہ اسکے دل میں اللہ تعالی کی بڑی محبت ہے۔قرآن پاک میں انبیاءسے اس وقت دوعہدلئے جانے کاذکرہے،جب وہ ابھی وجودخاکی میں نہیں آئے تھے،اس سے صاف ظاہرہے کہ انبیاء روزازل ہی سے الگ گروہ ہیں۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کواللہ تعالی نے اپنی طرف براہ راست علم وحکمت عطافرمایاتھا،اس لئے آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاہرارشادمبنی برحکمت ہے۔انکے بارہ میں شک وشبہ کرناابوجہل ہونے کاثبوت فراہم کرناہے۔
بمصطفی برساں خویش را کہ دیں ہمہ اوست
اگر بہ او نہ رسیدی تمام بولبھی ست
علامہ اقبال(رحمۃ اللہ) نے مندرجہ ذیل شعرمیں مون کی تعریف کی ہے۔

جوذکرکی گرمی سے شعلہ کی طرح روشن
جوفکرکی سرعت میں بجلی سے زیادہ تیز

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

نوربصیرت۔
تقوی اورقرب الہی۔
قرآن پاک میں روزوں کے بارے میں جورکوع ہے ،اس کاآغازاس ارشادسے ہے(ترجمہ"اے لوگو،جوایمان لائے ہو!تم پرروزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلی امتوں پرفرض کئے گئے تھے تاکہ تمہارے اندرتقوی پیداہو۔"
اسکے بعدروزوں کے بارے میں احکامات ہیں۔آخری سے پہلی آیت کےآخرمیں پھرارشادہے۔اس طرح اللہ اپنی آیات لوگوں کے لئےوضاحت سے بیان فرماتے ہیں،تاکہ وہ تقوی اختیارکریں۔(آیہ 187)یہ قرآن پاک کاخاص اندازہے کہ جہاں سے بات شروع کرتے ہیں وہیں پراس کااختتام فرماتے ہیں۔گویاروزوں کامقصدیہ ہے کہ بندہ کے اندرتقوی پیداہو۔تقوی یہ ہے کہ بندہ اللہ تعالی کے خوف کے باعث برائی سے بچے۔(یادرہے کہ خوف صرف عذاب ہی کانہیں ہوتا،خوف محبوب کی ناخوشنودی کابھی ہوتاہے)۔ظاہر ہے کہ جب تک اللہ تعالی کے قرب اورموجودگي کااحساس نہ ہواورساتھ ہی اپنے اوپرضبط نہ ہو،انسان برائی سے بچ نہیں سکتا۔اللہ تعالی پاس ہیں اوردیکھ رہے ہیں۔انکے سامنے برائی کیسے کروں۔رمضان المبارک کے روزوں سے یہ دونوں چیزیں حاصل ہوتی ہیں۔چنانچہ اس رکوع کے درمیان میں ایک آیت ہے،جس کاترجمہ یہ ہے"اورجب آپ سے میرے بندے میرے بارہ میں پوچھیں،تو(ان سے کہیں کہ) میں قریب ہی ہوں۔"بظاہراس آیہ پاک کاروزوہ کے موضوع سے کوئی تعلق نظرنہیں آتا،لیکن دراصل بلیغ اندازمیں اس طرف اشارہ فرمارہے ہیں کہ روزوں سے اللہ تعالی کاقرب حاصل ہوجائے گا۔یوں تواللہ تعالی ہرایک کی شہ رگ سے بھی زیادہ اس کے قریب ہیں،مگربالعموم ہمیں اس کااحساس نہیں ہوتا۔سورۃ النورکی مشہورآیہ نورمیں اپنے نورکی مثال یوں دی جیسے طاقچہ کے اندرچراغ ہواورچراغ شیشے کی قندیل میں ہو۔یہ چراغ،کبھی نہ بجھنے والاربانی چراغ ہے۔اسکے اوپرشیشے کی قندیل انسانی قلب ہے۔اس چراغ کاتیل اللہ تعالی کی محبت اوراللہ تعالی کاذکرہے۔اگرچراغ میں تیل وافرہواوراسکے اوپرقندیل صاف وشفاف ہو،توروشنی دوبالاہوکرباہرآتی ہےاورنورعلی نورکاسماں بندھ جاتاہے۔رمضان المبارک میں یہی کیفیت ہوتی ہے۔عبادت وتلاوت زیادہ ہوتی ہے۔اللہ تعالی کی نظررحمت کئی گناہ بڑھ جاتی ہے۔اس لئے روح کی روشنی میں بہت اضافہ ہوجاتاہے۔دوسری طرف نفسانی خواہشات ضبط کے تحت آجاتی ہیں۔روزہ کے دوران صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے پرضبط سے طبیعت کے اندرلطافت اورایک عام ضبط پیداہوجاتاہے اوریہ ضبط باہرسے ٹھونساہوانہیں ہوتابلکہ یہ اندرکاضبط ہوتاہے،جواصل ضبط ہے۔اس سے انسان خودکوبرائی سے بچاتاہے۔روزے سے طبیعت میں جولطافت پیداہوتی ہے،اس سے گناہ اوربرائی سے ایک گونہ نفرت سی ہوجاتی ہے۔اورطبیعت میں نیکی کاذوق پیداہوجاتاہے اورنیکی کاذوق ہی تقوی کی بلندترین صورت ہے۔
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ جاوید بھائی۔ مجھے ان عالم صاحب کا نام تو یاد نہیں، لیکن ان کے لکھے گئے نورٍ بصیرت ابھی تک نوائے وقت میں موجود ہیں جبکہ ان کی وفات کو بہت برس بیت گئے
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

فتنوں کاپس منظر:
محمدحسین ہیکل لکھتے ہیں۔۔۔۔۔"فتنہ وفسادکے طوفان پرنظرڈالنے بعض قابل غوراہم امورسامنے آتے ہیں ۔"پہلی بات تویہ ہے کہ جوفتنہ اٹھا'بڑی تیزی سے اٹھا۔اسودعنسی یمنی نے بڑے تھوڑے عرصہ میں ملک کے ایک بڑے حصہ پرقبضہ کرلیااوراس کی حکومت مکہ مکرمہ اورطائف تک پھیل گئی۔مسیلمہ اورطلیحہ نے بھی غیرمعمولی کامیابی حاصل کی۔مسیلمہ 'طلیحہ اورنقیط تینوں ایسے موقع کی تلاش میں تھے'جب وہ باقاعدہ بغاوت کااعلان کرکے اسلامی حکومت کاتختہ الٹ سکیں۔ابتدامیں ان تینوں نے جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی مخالفت کئے بغیراپناپراپیگنڈہ شروع کیا۔تینوں کادعوی تھاکہ انہیں بھی اپنی اپنی قوم کے لئے نبی بناکربھیجاگياہے۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے وصال کے بعدان فتنوں کی آگ بھڑک اٹھی اوریہ آگ چاروں طرف پھیلنے لگی۔اس فتنے کے اسباب بھی مختلف علاقوں میں علیحدہ علیحدہ تھے۔ایک اورقابل ذکربات یہ ہے کہ جن علاقوں میں ارتدادکافتنہ پھیلا'وہ تہذیب وتمدن اوردولت وثروت کے لحاظ سے سارے عرب سے نمایاں تھے۔ان مدعیان نبوت کی عارضی کامیابی میں بعض اورعناصربھی کارفرماتھے۔مثلا‍اسودعنسی کی کامیابی کی بڑی وجہ اہل یمن کی اہل حجازسے سخت نفرت تھی۔مسیلمہ اورطلیحہ نے بھی اپنی اپنی قوم کی عصبیت کوبھڑکایا۔"یمن کی بغاوت نے بنی یمامہ اوربنی اسدکواسلامی حکومت کے خلاف کھڑے ہونے کی جرات دلائی ورنہ ابتدامیں وہ علم بغاوت بلندکرنے سے خائف تھے۔"اس پس منظرمیں سیدناابوبکر(رضی اللہ عنہ)نے صرف سوادوبرس کی قلیل مدت میں ان تمام فتنوں کامکمل استیصال کردیا'بلکہ اس دورکی دوسپرپاورزایران اورروماکی سرحدوں پران کی فوجوں نے کامیاب پیش قدمی بھی شروع کردی۔پہلامعرکہ مدینہ منورہ کے نواحی قبائل عبس اورذبیان سے پیش آیا۔یہ لوگ زکوۃ دینے سے انکارکرتے تھے۔سیدناابوبکر(رضی اللہ عنہ)نے فرمایاوللہ!میں میں صلوۃ اورزکوۃ میں فرق کرنے والوں کے خلاف ضرورجنگ کروں گا۔اگروہ مال میں جوحضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے دورمبارک میں بطورزکوۃ اداکرتے تھے،اونٹ کاگھٹناباندھنے کی معمولی رسی دینے سے انکارکریں گے'تومیں انکے خلاف بھی جہادکرونگا۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کے دورمبارک میں طائف کے ایک وفدنے مطالبہ کیاتھاکہ انہیں صلوۃ معاف کردی جائے مگرآنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے یہ فرماکراسے ردکردیاتھاکہ"اس دین میں کوئی بھلائی نہیں جس میں صلوۃ نہیں۔"اس وقت جب حضرت اسامہ(رضی اللہ عنہ)کالشکرمدینہ منورہ سے باہردورشام کی سرحدوں پرلڑائی میں مصروف تھا'نواحی قبائل سے جنگ چھیڑدینابظاہرمصلحت کیخلاف نظرآتاتھا
مگرسیدناابوبکر(رضی اللہ عنہ)کے ایمان محکم اورآہنی عزم کے سامنے کسی مصلحت کی کوئی وقعت نہ تھی۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
قیصرانی نے کہا:
جزاک اللہ جاوید بھائی۔ مجھے ان عالم صاحب کا نام تو یاد نہیں، لیکن ان کے لکھے گئے نورٍ بصیرت ابھی تک نوائے وقت میں موجود ہیں جبکہ ان کی وفات کو بہت برس بیت گئے
واقعی منصور(قیصرانی)بھائی، واقعی انکی تحریرمیں ایسی بات ہے جوکہ دل کوموہ لیتی ہے ۔ اللہ تعالی انکی قبرکوبقعہ‏نوربنائے (آمین ثم آمین)

ملت اسلامیہ کے بنیادی ارکان:
علامہ اقبال(رحمۃ اللہ)نے رموزبےخودی میں ملت اسلامیہ کے بنیادی ارکان کی وضاحت کی ہے وہ توحیدکورکن اول قراردیتے ہیں۔پہلے وہ اشعارکاترجمہ کچھ یوں ہے۔عقل اس جہان احساس ومسافت میں آوارہ پھرتی رہی'پھرتوحیدکے ذریعہ اس نے منزل کاراستہ پایا'توحیدبغیرعقل منزل نہیں پاسکتی۔توحیدکے بغیردنیاکے سمندرمیں فکرکی کشتی کاساحل تک پہنچنامحال ہے۔"اسکے بعدتوحیدکی تعریف میں چنداشعارلائے ہیں:
دیں ازو'حکمت ازوآئیں ازو
زورازو'قوت ازو'تمکین ازو
ترجمہ:دین 'حکمت آئین'زور،قوت اورتمکین سب توحیدہی سے حاصل ہوتے ہیں۔
توحیدکاجلوہ عالموں کوورطہ حیرت میں ڈال دیتاہے اورعاشقوں کوقوت عمل سے معمورکردیتاہے۔توحیدکے سائے میں پست قد،بلندوبالاشخصیت حاصل کرلیتاہے،جوشخص مٹی کی طرح بے قیمت ہو،وہ توحیدکی وجہ سے اکسیرکی مانندقیمتی ہوجاتاہے۔"توحیدسے مراداللہ تعالی کوکائنات کاخالق اورمالک سمجھنااوران سے بہت شدیدمحبت اورمکمل اطاعت کاگہراتعلق قائم کرناہے ۔یہ توحیدبندکو تخلیق نوع عطاکرتی ہے۔توحیدسے اس کی رگوں میں خون بجلی بن کردوڑنے لگتاہے اوروہ اللہ تعالی کی راہ میں تیزی سے سرگرم عمل ہوجاتاہے۔اس کے اندرسے خوف وشک نکل جاتاہے۔وہ جذبہ عمل سے معمورہوجاتاہے۔
عقل کوتنقیدسے فرصت نہیں
عشق پراعمال کی بنیادرکھ
آگے فرماتے ہیں:"ملت دلوں کی یک رنگی سے بنتی ہے۔یہ سیناایک ہی جلوہ توحیدسے روشن ہے۔قوم کی سوچ ایک ہوتی چاہیئے۔قوم کے ضمیرمیں مقصودبھی ایک ہوناچاہئے۔اسکی سرشت میں جذبہ بھی ایک ہوناچاہئے۔اس کانیکی اوربرائی کامعیاربھی ایک ہوناچاہئے۔جب تک سازفکرمیں حق تعالی کی محبت کاسوزشامل نہ ہواس قسم کااندازفکرپیدانہیں ہوسکتا۔"
"اس سے اگلاعنوان یہ ہے کہ"یاس وحزن ام الخبائث اوردشمن زندگی ہیں اوران امراض خبیثہ کاعلاج توحیدہے۔"
یہ امراض ہمارے ہاں عام ہیں اوردورزوال سے ہمیں ورثہ میں ملے ہیں۔بہت سے لوگ ناامیدی اوردلگیری میں خوش رہتے ہیں اوراس طرزعمل کو"حقیت پسندی"دلفریب نام دیتے ہیں۔
علامہ اقبال(رحمۃ اللہ) لکھتے ہیں کہ ناامیدی قبرکی طرح تیری شخصیت کوریزہ ریزہ کردیتی ہے۔ناامیدی سے ناتوانی اورنامرادی پیداہوتی ہے۔مایوسی کاسرمہ زندگی کی آنکھ کواندھااوراس کے قوت مفلوج کردیتاہے۔غمگینی اورمایوسی ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔
"غیراللہ کاخوف عمل کادشمن اورکاروان زندگی کاراہزن ہے۔یہ انسان کے عزم محکم کومتزلزل کردیتاہے اوراس سے ہمت مذبذب ہوجاتی ہے۔"

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت


والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

نوربصیرت

قوم پراعتماد
ہمارے لیڈرقو م سے اعتمادکاووٹ لیتے ہیں مگرقوم پراعتمادنہیں کرتے،نہ قوم کواعتمادمیں لیتے ہیں۔
سب جانتے ہیں کہ امریکہ کی پابندیوں نے ہمیں مالی مشکلات میں مبتلاکردیاہے اوروہ اس پھندے کواورکستے جارہے ہیں۔یہ سب جانتے ہیں کہ ہماری حالت یہ ہوچکی ہے کہ قرضوں کاسوداداکرنے کے لئے ہمیں مزیدقرضے لینے پڑتے ہیں اورقرض دینے والے ادارے ہم سے آئے دن بجلی،سوئی گیس وغیرہ کے نرخ بڑھانے کامطالبہ کرتے رہتے ہیں ،ورنہ قرضے بندکرنے کی دھمکیاں دیتے ہیں۔
یہ بھی سبھی کومعلوم ہے کہ جب تک ہم قرضوں کے سہارے چلتے رہے گے ہم دوسرے کے غلام رہیں گے اوراس سارے مسئلہ کاحل یہ ہے کہ قرضے بندکرکے اپنے پاؤں پرکھڑاہوناسیکھاجائے،ورنہ ہماری معیشت"سست بنیاد"اور"آئینہ دیوار"رہے گی۔حکمران اٹھ کھڑے ہیں اورعوام سے کہہ رہے ہیں کہ ہم نے اپنے پاؤں پرکھڑاہونے کافیصلہ کرلیاہے۔تم اپنے جمع جتھے سے ہماری مددکرو۔اس نہ صرف ملک اقتصادی بھنورسے نکل جائے گابلکہ خوداعتمادی کی دولت سے بھی مالامال ہوجائے گا'قوم ایک نئے صحتمندجذبہ سے سرشارہوکراٹھے گی اوربیساکھیاں پھینک کرخوداعتمادی سے نئی راہوں پرچل نکلے گی اوران بلندیوں کوپالے گی جواس کے مقدرمیں لکھی جاچکی ہیں۔ہماری مشکل یہ رہی ہے کہ ہمارے لیڈر"کہیں ایسانہ ہوجائے'کہیں ویسانہ ہوجائے "کے چکرسے نکلتے نہیں۔انہیں پامال راہوں پرگھٹنوں کے بل گھسٹتے ہوئے چلنے ہی میں مزہ آتاہے۔وہ دوسرے کاہاتھ پکڑے بغیرکھڑے نہیں ہوسکتے۔دشمن کی انگلی پکڑکراوراسی سے راستہ پوچھ پوچھ کرچلناانکی عادت بن چکاہے۔اپنے آپ پراعتمادہو'توقوم پربھی اعتمادہو۔بے شک صہیونی شیطان پارٹی بہت طاقتوراورمکارہے۔وہ ایسے شخص کے خلاف اندرون ملک شازشیں کرائے گی،بدنامی کی مہم چلائے گی بیرون ملک اپنے ایجنٹوں کوابھارے گی لیکن اگرلیڈرصاحب ایمان اورصاحب کردارہوتویہ لوگ اس کاکچھ نہیں بگاڑسکتے۔اگرلیڈرکیساتھ عوام ہی طاقت ہوتوفوجی قیادت خودبخوداسکے ساتھ ہوجاتی ہے اوراسکی طاقت کئی گنابڑھ جاتی ہے۔قائداعظم(رحمۃ اللہ )کیساتھ عوام ہی کی طاقت تھی یہی وجہ ہے کہ سب انکے تابع فرمان تھے۔قوم کے سامنے نکھارکرمقصدرکھاجائے اورجوش وولولہ ابھاراجائے توسیلاب کی طرح اٹھتی ہے اورمعمولی اونچ نیچ کوبرابرکرتی ہو‏ئی تیزی سے آگے بڑھتی ہے'مقصدنہ رکھاجائے اورجوش و ولولہ پیدانہ کیاجائے تواسکی رفتارسست پڑجاتی ہے اوروہ اس دریاکی مانندہوجاتی ہے۔جس کاپانی چھوٹی چھوٹی ٹکڑیوں میں منقسم ہوکربدبوداراورمتعفن ہوجاتاہے جوآج کل ہماری حالت ہے۔
حالی کئی برس پیشترکہہ گئے ہیں۔۔۔
رنگ بدلاہواعالم کا
ہیں دگرگوں زمانے کے انداز

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت




والسلام
جاویداقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ جاوید بھائی۔ مسئلہ غیروں کی سازش کا ہی نہیں، اپنوں کی لاعلمی، بے حسی اور مفاد پرستی بھی ہے۔ اگر ہم جائزہ لیں تو سارے قرضے کا 90 فیصد حصہ ایسا ہے جس کے بغیر گزارا ہو سکتا تھا۔ لیکن اس کے باوجود تھوڑی مشکل پر دوسروں کے سامنے ہاتھ پھیلا دیا گیا

فن لینڈ کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ 1990 کی دہائی کے آخرمیں یہاں کی معیشت کا یہ حال ہوچکا تھا کہ لوگوں‌ کے پاس کھانے کو کچھ نہیں تھا۔ وجہ یہ تھی کہ ناکام حکومتی پالیسیوں نے یہ کام کیا تھا۔ لیکن انہوں‌ نے اپنی اصلاح‌ کی۔ آج فن لینڈ کا شمار دنیا کی مضبوط معیشتوں‌ میں ہوتا ہے

اپنی اصلاح‌ کرکے بہتری لانا بہت آسان کام ہے۔ لیکن اس کے لیے عزمٍ صمیم اور دل اور نیت کا صاف ہونا بہت ضروری ہے
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،


نوربصیرت:
مسلمانوں کاقتل
حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)نے اپنے مکان کامحاصرہ کرنے والوں سے یوں خطاب فرمایا:"اے لوگو!مجھے قتل نہ کرو۔میرے قتل کے بعدتم کبھی مل کرنمازنہ پڑھ سکوگے۔نہ مل کرکھاناکھاسکوگے۔نہ تمہاری قسموں کااعتباررہے گا۔"پھروہاں موجوداصحاب شوری سے فرمایا"کیاتم نے حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کویہ فرماتے نہیں سناتھاکہ جس نے زمین کایہ ٹکڑاخریدکرمیری مسجدمیں ملایا'اس کے لیئے جنت ہے۔اس کااجراسے دنیامیں بھی ملے گااورآخرت میں بھی اس کے درجات بلندہونگے۔میں نے بیس ہزاردرہم میں وہ قطعہ زمین خریدکرمسجدمیں ملادیا۔"کیاتم نے جباب رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) کویہ فرماتے سناتھایہ نہیں کہ جس نے لشکرتبوک کے لئے سامان جنگ فراہم کیا'اس کے لئے جنت ہے۔میں نے لشکرکے لئے اتناسامان فراہم کیاکہ کسی مجاہدکوسازوبراق کی کمی نہ رہی۔"کیاآپ لوگوں نے حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کویہ فرماتے سناتھاکہ جس نے مسلمانوں کے لئے بئررومہ(کنویں کانام)خریدااس کے لئے جنت ہے۔میں نے وہ کنواں خریدااوراسے مسلمانوں کے لئے وقف کردیا"۔اصحاب شوری نے اس کی تصدیق کی مگرباغیوں نے کہایہ درست ہے'مگراب آپ بدل گئے ہیں۔حضرت عثمان(رضی اللہ عنہ)نے فرمایاتم پرافسوس ہے تمہارے سوائے کوئی اوریہ نہیں کہہ سکتاکہ جس نے یہ سب کچھ کیا'وہ اب بدل گیاہے۔پھرآپ(رضی اللہ عنہ)نے وہاں موجوداہل شوری سے فرمایاجوکچھ یہ لوگ آج مجھ سے کہہ رہے ہیں'یہی کل تم سے بھی کہیں گے۔چنانچہ جب باغیوں نے حضرت علی(رضی اللہ عنہ)کے خلاف خروج کیااورجناب امیر(رضی اللہ عنہ)نے صحابہ کرام سے اپنے فضائل کی تصدیق چاہی اورسب نے بیک زبان اس کی تصدیق کی توباغیوں نے کہایہ حضرات درست کہتے ہیں مگراب آپ بدل گئے ہیں۔عمروبن محمدکہتے ہیں کہ میں نے لیلی بنت عمیس کومحمدبن ابوبکراورمحمدبن جعفرکے پاس بھیجااوراس نے ان دونوں سے کہا"چراغ خودکوجلاتاہے اوردوسروں کوروشنی پہنچاتاہے۔(حضرت عثمان (رضی اللہ عنہ)کی طرف اشارہ تھا)پھرتم کیوں ایسے گناہ میں ملوث ہوتے ہو'جس میں نقصان ہی نقصان ہے۔جوکچھ تم آج کسی کے ساتھ کروگے 'وہی کل کوئي دوسراتمہارے ساتھ کرے گا۔ایسے کام سے ڈروجس پرکل تمہیں افسوس اورندامت ہو۔"
وہ منہ بناکرغصہ سے بولے"تم دیکھتی نہیں ہو کہ عثمان (رضی اللہ عنہ)نے ہمارے ساتھ کیاکیاہے؟"
لیلی نے کہا"انہوں نے وہی کیاجس کے تم اللہ کے ہاں مستحق تھے"یادرہے کہ محمدبن ابوبکر(رضی اللہ عنہ)بہت چھوٹے تھے جب ان کے والدمحترم انتقال فرماگئے۔بعدمیں انکی والدہ نے سیدناحضرت علی (رضی اللہ عنہ)سے نکاح کرلیاتھااوریہ اپنی والدہ کے ساتھ سیدناعلی(رضی اللہ عنہ)ہی کے گھرمیں رہے اوروہیں پرورش پائی۔عبداللہ بن سلام(رضی اللہ عنہ)نے باغیوں سے کہا"جب کسی نبی کوقتل کیاگیاتواس کے عوض سترہزاراشخاص قتل ہوئے'اگرخلیفہ وقت کوقتل کیاگیاتواس کے عوض پچاس ہزاراشخاص قتل ہونگے۔"



بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

نوربصیرت،

دعاکاجواب،
سورۃ فاتحہ میں یہ دعاسکھائی گئی تھی کہ اللہ تعالی ہمیں صراط مستقیم کی ہدایت دے جوانعام یافتہ لوگوں کاراستہ ہے اوران لوگوں کی راہ سے بچائےجواللہ تعالی کی غضب کاشکارہوئے اورجوگم راہ ہیں۔
البقرہ میں پہلے فرمایاکہ یہ قرآن پاک جس کے اللہ تعالی کی طرف سے ہونے میں کوئی شک نہیں'متقین کے لئے ہدایت ہے گویاصراط مستقیم کی ہدایت کی جو دعاکی تھی،قرآن پاک اس دعاکاجواب ہے۔
اس کے بعدپہلے ہدایت یافتہ اورانعام یافتہ گروہ کی صفات بیان فرمائیں پھران لوگوں کی حالت بیان کی جواللہ تعالی کے غضب کاشکارہیں۔ان کے دلوں اورکانوں پرمہرہےاوران کی آنکھوں پرپردہ ہے۔نہ خودہدایت کی راہ کے متعلق سوچ سکتے ہیں نہ ہدایت کی بات سنتے ہیں۔نہ حالات واقعات۔۔۔۔۔کودیکھ کرموعظمت اورعبرت حاصل کرتے ہیں۔
آگے گم کردہ راہ لوگوں کے بارے میں ذراتفصیل سے بیان فرمایا۔یہ وہ لوگ ہیں جوزبان سے کہتے ہیں ہم ایمان لائے لیکن دل میں ایمان نہیں۔مسلمانوں میں بیٹھ کران کی سی باتیں کرتے ہیں۔مگرکفارکے پاس بھی جاتے ہیں اوروہاں جاکرمسلمانوں کامذاق اڑاتے ہیں۔تھوڑاساایمان والوں کے ساتھ چلتے ہیں'پھررک جاتے ہیں۔
اسی سورہ میں یہودکاحال تفصیل سے بیان ہے۔یہ وہ قوم ہے جسے اللہ تعالی نے ہدایت دی اورانعامات کھوبیٹھے بلکہ اللہ تعالی کے غضب میں بھی آگئے ۔ ان کاطرزعمل بیان فرمایاتاکہ آئیندہ آنے والی قومیں اس سے سبق حاصل کرلیں۔
1۔اللہ تعالی کے حکام کامذاق اڑانا'
2۔بے جامطالبات کرنا'مثلامن و سلوی حاصل ہے'لیکن ساگ اورپیازوغیرہ مانگ رہے ہیں۔
3۔احکام الہی کاکوئی حصہ مان لینااورکوئی چھوڑڈينا۔
4۔نبیوں کوقتل کرنا۔
5۔زندگی پربہت حریص ہونا'موت سے بھاگنا۔
سزاکیاملی؟ان پرذلت اورمسکنت مسلط کردی گئی۔بندراورسوربنادیئے گئے۔اس کی ایک صورت یہ بھی ہے کہ نچلاطبقہ بندروں کی طرح چاپلوسی اورنقال ہوجائے اوراوپرکاطبقہ سورکی طرح بے غیرت اورمتکبربن جائے۔اس پرزعم یہ کہ ہم اللہ تعالی کے چہیتے ہیں اورہیمں صرف چنددن عذاب ہوگا۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت


والسلام
جاویداقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ جاوید بھائی۔ اسی بات پر بہت لے دے ہوتی رہی تھی کہ بندر اور سور کیسے بن گئے۔ لیکن پھر میں نے نورٍ بصیرت میں ہی پڑھا تھا کہ بندروں کی طرح نقال اور سور کی طرح متکبر اور بے غیرت، یعنی جانور نہیں بنے، بلکہ ان کی خصوصیات اپنا لی گئیں
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،


حق و باطل۔۔۔۔۔(ا)
سورہ الرعدمیں فرمایا:۔"اللہ تعالی نے آسمانوں سے پانی نازل فرمایا۔پھر(ندی،نالے اپنی مقدار(وسعت) کے مطابق بہہ نکلے۔پھرسیلاب نے پھولاہواجھاگ اٹھالیااورجن چیزوں کولوگ زیوریا(دیگرقیمتی)اشیاء بنانے کے لئے آگ میں تاپتے ہیں(ان میں بھی)اسی طرح کاجھاگ(اوپرآجاتا)ہے۔
اس طرح اللہ تعالی حق و باطل کی مثال بیان فرماتاہے۔پھرجوجھاگ ہے وہ ناکارہ جاتاہے اورجولوگوں کے لئے منعفت بخش ہے(پانی یاسوناچاندی)وہ زمین پر(باقی)رہ جاتاہے۔اس طرح اللہ مثال فرماتاہے(آیت 17)
سورہ ابراہیم میں فرمایا:۔کلمہ طیبہ کی مثال پاکیزہ درخت کی سی ہے۔اسی کی جڑقائم ہے اوراس کی شاخیں آسمان میں (بلندی پر)ہیں۔وہ اپنے رب کے حکم سے ہرلمحہ پھل دیتاہے۔
"اوراللہ تعالی ان کےلیئے امثال بیان فرماتاہے تاکہ وہ نصحیت حاصل کریں۔"(آیت نمر25) اورناپاک کی مثال ناپاک درخت کی سی ہے جوزمین کے اوپر(اگاؤاوروہاں)سے اکھاڑلیاجائے اوراسے (کچھ)ثابت نہ ہو۔"(آیت نمبر26)
"اللہ تعالی ایمان والوں کوقول محکم کے ساتھ دنیااورآخرت میں محکم رکھتاہے اورظالموں کوگمراہ کرتاہے اوراللہ جوچاہتاہے کرتاہے۔"(آیت نمبر27) یہ حق وباطل کی مثالیں ہیں۔حق میں گہرائی ہے۔بلندی ہے اورہرآن نفع رسانی ہے۔باطل کی جڑگہری نہیں۔زمین کے اوپرہے۔اس لئے اسے ثبات نہیں'لیکن اس کی اٹھان سیلاب کے اوپرآئے ہوئے پھولے ہوئے جھاگ کی سی ہے ۔جب باطل اٹھتاہے تویوں معلوم ہوتاہے جیسے یہ ہرطرف چھاجائے گا۔اسے کوئی چیزروک نہیں سکے گی'لیکن چونکہ اس میں گہرائی نہیں ہے،نہ بلندی ہے نہ نفع رسانی۔اس لئے وہ جھاگ کی طرح جلدہی سوکھ کرختم ہوجاتاہے اوربالآخرحق کابول بالاہوتاہے۔
حق وباطل کی یہ کشمکش انسانی معاشرہ میں ابتداسے جاری ہے اورآخرتک جاری رہے گی،بعض لوگ حق کاساتھ دیتے ہیں۔اس لئے اپنی جانیں،اپنے اموال اوراپنے بیٹوں اورعزیزوں کی جانیں نثارکرکے یہاں بھی سرخروہوجاتے ہیں اورآخرت میں بھی مرتبے اورعزت پاتے ہیں۔کچھ لوگ باطل کاساتھ دیتے ہیں اوردنیااورآخرت کی رسوائی مول لیتے ہیں۔وہ بظاہروقتی طورپراس طرح بڑھ چڑھ کرآتے ہیں جیسے ہرشے پرچھاجائیں گے لیکن یہ چندروزنمائش میں ہی ختم ہوجاتے ہیں ۔بالآخرباطل مٹ جاتاہے اورباطل مٹنے کے لئے ہے۔

بشکریہ نوائے وقت۔ "نور بصیرت"

والسلام
جاویداقبال
 

قیصرانی

لائبریرین
جزاک اللہ جاوید بھائی۔ یہ بات تو بے شک سچ ہے کہ باطل جب اٹھتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ سب کچھ روند کر رکھ دے گا اور ہر طرف چھا جائے گا۔ لیکن جب دھول بیٹھتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کچھ بھی نہیں‌ تھا
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ

قیصرانی نے کہا:
جزاک اللہ جاوید بھائی۔ یہ بات تو بے شک سچ ہے کہ باطل جب اٹھتا ہے تو ایسے لگتا ہے کہ سب کچھ روند کر رکھ دے گا اور ہر طرف چھا جائے گا۔ لیکن جب دھول بیٹھتی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ کچھ بھی نہیں‌ تھا

بیشک منصور(قیصرانی) بھائی، آپ نے باطل کی بالکل ٹھیک مثال دی دھول کی طرح کہ جب اٹھتی ہے لگتاہے سب کچھ لے جائے گی لیکن جب بیٹھ جاتی ہے توکچھ بھی نہیں ہوتا۔


حق و باطل۔۔۔۔(2)
سورہ السباکے پہلے رکوع کی آخری آیت میں فرمایا۔"توکیاوہ نہیں دیکھتے اس طرح جوان کے سامنے اورجوان کے پیچھے ہے :آسمان زمین میں سے (پھرساتھ ہی اسکی وضاحت فرمادی کہ):۔"اگرہم چاہیں توانہیں زمین میں دھنسادیں یاان پرآسمانوں سے(شہاب ثاقب)کاکوئي ٹکڑاگرادیں۔"بلاشبہ اس میں ضرورنشان عبرت ہے ہراس بندے کے لئے جو(اپنے رب کی طرف)رجوع کرنے والاہے۔"(آیت9)"فرمارہے ہیں جوشخص آسمانوں اورزمین کی تخلیق 'نیزاس بات پرغورکرتاہے کہ انسان کویہاں کس طرح انتہائی ناسازگارحالات میں محفوظ رکھاگیاہے ۔وہ سمجھ جاتاہے کہ تخلیق کائنات اورانسانی زندگی ضروربامقصداوربامعنی ہے۔چنانچہ اہل علم فورااس نتیجے پرپہنچ جاتے ہیں کہ اللہ تعالی کاپیغمبرسچ کہہ رہاہے اورقرآن مجیداللہ تعالی کی سچی کتاب ہے۔
اس سورہ کے پہلے رکوع میں اپنی شان بیان کرنے کے بعدکائنات میں غوروفکرکی دعوت دی۔آخری رکوع کی پہلی آیت میں پھرفرمایا۔""46(ان سے کہو:۔میں تمہیں صرف ایک بات کی نصحیت کرتاہوں کہ تم اللہ کی خاطردودواورایک ایک اٹھ کھڑے ہو(اور)پھر(اس کے بارہ میں)غورکرو۔(تم خودہی اس نتیجے پرپہنچ جاؤگے اللہ برحق ہے)
"تمہارے صاحب (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کوکوئی جنون نہیں۔وہ توتمہیں آنے والے عذاب شدیدسے انتباہ کرنے والے ہیں۔"
آکے فرمایا:"47۔ان سے کہو'میں نے تم سے جومعاوضہ مانگاہو'وہ تم ہی رکھو۔میرااجرتوصرف اللہ تعالی پرہے اوروہ ہرشے کودیکھتاہے۔"48۔کہویقینامیرارب حق کو(باطل پر)دے مارتاہے (اور)وہ پوشیدہ امورکاخوب جاننے والاہے۔"
(اس لئے باطل کی ساری پوشیدہ عیاریاں حق کے مقابلہ میں کارگرنہیں ہوسکیں گی۔)
"49۔کہو۔حق آگیااورباطل نہ ابتدامیں پنپ سکتاہے اورنہ پھرآسکتاہے۔"سورہ انبیا میں ارشادہے:۔(نہیں)بلکہ ہم حق کوباطل پردے مارتے ہیں'پھروہ اس کاسرتوڑدیتاہے۔تب وہ ناگہاں فناہوجاتاہے۔"(آیہ18)

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 
Top