جاویداقبال
محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
قرآن پاک کے آداب
قرآن پاک اللہ تعالی کاکلام اورپیغام ہے ۔اللہ تعالی نے اسے نوربھی فرمایااورکتاب بھی۔بالکل اسی طرح جیسے حضورنوربھی ہیں اوربشربھی۔پیغام اورپیغامبرکاادب اوراحترام دراصل پیغام بھیجنے والے کاادب واحترام ہے۔گویاقرآن پاک اورجناب رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاادب واحترام دراصل حق تعالی کاادب واحترام ہے اورقرآن پاک کی بے ادبی اورحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی شان میں گستاخی حق تعالی کی جناب میں گستاخی ہے۔قرآن پاک کے آداب سے پہلاادب یہ ہے کہ وہ شخص ہاتھ نہ لگائے جوپاک صاف نہ ہو۔فرمایا" نہ ہاتھ لگائیں مگرپاک صاف(مطہرون)دوسرا ادب یہ ہے کہ تلاوت سے پہلے شیطان کے شرسے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے تاکہ اس کے الفاظ کی تلاوت یامطلب سمجھنے میں شیطان وسوسہ اندازی نہ کرسکے۔ تیسراادب یہ ہے کہ تلاوت کی ابتداء اللہ تعالی نام(بسم اللہ الرحمن الرحیم)سے کرے۔چوتھاادب یہ ہے کہ تلاوت آہستہ آہستہ اورٹھہرٹھہرکرکرے۔اس طرح تلاوت نہ کرے کہ الفاظ پورے ادانہ ہوں بہت زیادہ چلاکرپڑھنابھی ادب کے منافی ہے۔ ختم قرآن پاک کے موقع پراسے جلدی ختم کرنے کے لیے ایک صفحہ ایک شخص کاپڑھنااوردوسرادوسرے کا،ادب کے منافی ہے۔اس سے یہ تاثرپایاجاتاہے کہ آپ اس سے پیچھاچھڑاناچاہتے ہیں اسی طرح سیپارہ کے صفحات موڑکے پکڑے میں بھی بے ادبی پائی جاتی ہے۔ آیات سجدہ اگرباآوازبلندپڑھی جائیں ،توپڑھنے والے کے علاوہ سننے والوں پربھی سجدہ لازم ہے۔قران پاک پڑھاجارہاہوتواس کےپاس شورمچاناگناہ ہے۔قرآن پاک کی طرف پیٹھ کرنابھی بے ادبی ہے۔آیات قرآن پاک والے کاغذات یاان کے ٹکڑے گندی جگہ پھینکنایاانکے اوپربیٹھناسخت بے ادبی اورگستاخی ہے۔سورۃ الرعد کی آیت 28 میں فرمایاکہ جوایمان لائےان کے دل اللہ تعالی کے ذکرسے چین پاتے ہیں۔یہاں ذکرسے مرادقرآن پاک ہے جیسے مشہورمعروف آیت میں ہے۔جس میں اللہ تعالی نے خودقرآن پاک کی حفاظت کاذمہ لیاہے۔"بیشک ہم نے ذکرنازل کیااوربے شک ہم ہی اسکے محافظ ہیں۔"گویاقرآن پاک کی صداقت کاسب سے بڑاثبوت یہی ہے کہ اس سے قلوب کواطمینان حاصل ہوتاہے اورجواس پرعمل کرتاہے اس کے لیے اس دنیامیں بھی خوشحالی اورآخرت میں بھی اس کے لیے اچھاٹھکاناہے۔چنانچہ آگے اسی سورہ کی آیت 31 میں فرمایا"اگرقرآن پاک سے پہاڑاپنی جگہ سے دوسری جگہ لے جائے جاتے یااس کے ذریعے زمین کی مسافتیں جلدطے ہوجاتیں یااسکے ذریعے مردے بولنے لگتے(توبھی وہ اس پرایمان نہ لاتے)آگے فرمایا"لیکن ہرامراللہ تعالی کے اختیارمیں ہے۔"سابقہ آیت میں فرماچکے ہیں کہ جوانکی طرف رجوع کرتاہے' وہ ہدایت پاتاہے۔گویاجوانکی طرف رجوع نہیں کرتا'وہ ہدایت سے محروم رہتاہے۔"
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت
والسلام
جاویداقبال
قرآن پاک کے آداب
قرآن پاک اللہ تعالی کاکلام اورپیغام ہے ۔اللہ تعالی نے اسے نوربھی فرمایااورکتاب بھی۔بالکل اسی طرح جیسے حضورنوربھی ہیں اوربشربھی۔پیغام اورپیغامبرکاادب اوراحترام دراصل پیغام بھیجنے والے کاادب واحترام ہے۔گویاقرآن پاک اورجناب رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاادب واحترام دراصل حق تعالی کاادب واحترام ہے اورقرآن پاک کی بے ادبی اورحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی شان میں گستاخی حق تعالی کی جناب میں گستاخی ہے۔قرآن پاک کے آداب سے پہلاادب یہ ہے کہ وہ شخص ہاتھ نہ لگائے جوپاک صاف نہ ہو۔فرمایا" نہ ہاتھ لگائیں مگرپاک صاف(مطہرون)دوسرا ادب یہ ہے کہ تلاوت سے پہلے شیطان کے شرسے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے تاکہ اس کے الفاظ کی تلاوت یامطلب سمجھنے میں شیطان وسوسہ اندازی نہ کرسکے۔ تیسراادب یہ ہے کہ تلاوت کی ابتداء اللہ تعالی نام(بسم اللہ الرحمن الرحیم)سے کرے۔چوتھاادب یہ ہے کہ تلاوت آہستہ آہستہ اورٹھہرٹھہرکرکرے۔اس طرح تلاوت نہ کرے کہ الفاظ پورے ادانہ ہوں بہت زیادہ چلاکرپڑھنابھی ادب کے منافی ہے۔ ختم قرآن پاک کے موقع پراسے جلدی ختم کرنے کے لیے ایک صفحہ ایک شخص کاپڑھنااوردوسرادوسرے کا،ادب کے منافی ہے۔اس سے یہ تاثرپایاجاتاہے کہ آپ اس سے پیچھاچھڑاناچاہتے ہیں اسی طرح سیپارہ کے صفحات موڑکے پکڑے میں بھی بے ادبی پائی جاتی ہے۔ آیات سجدہ اگرباآوازبلندپڑھی جائیں ،توپڑھنے والے کے علاوہ سننے والوں پربھی سجدہ لازم ہے۔قران پاک پڑھاجارہاہوتواس کےپاس شورمچاناگناہ ہے۔قرآن پاک کی طرف پیٹھ کرنابھی بے ادبی ہے۔آیات قرآن پاک والے کاغذات یاان کے ٹکڑے گندی جگہ پھینکنایاانکے اوپربیٹھناسخت بے ادبی اورگستاخی ہے۔سورۃ الرعد کی آیت 28 میں فرمایاکہ جوایمان لائےان کے دل اللہ تعالی کے ذکرسے چین پاتے ہیں۔یہاں ذکرسے مرادقرآن پاک ہے جیسے مشہورمعروف آیت میں ہے۔جس میں اللہ تعالی نے خودقرآن پاک کی حفاظت کاذمہ لیاہے۔"بیشک ہم نے ذکرنازل کیااوربے شک ہم ہی اسکے محافظ ہیں۔"گویاقرآن پاک کی صداقت کاسب سے بڑاثبوت یہی ہے کہ اس سے قلوب کواطمینان حاصل ہوتاہے اورجواس پرعمل کرتاہے اس کے لیے اس دنیامیں بھی خوشحالی اورآخرت میں بھی اس کے لیے اچھاٹھکاناہے۔چنانچہ آگے اسی سورہ کی آیت 31 میں فرمایا"اگرقرآن پاک سے پہاڑاپنی جگہ سے دوسری جگہ لے جائے جاتے یااس کے ذریعے زمین کی مسافتیں جلدطے ہوجاتیں یااسکے ذریعے مردے بولنے لگتے(توبھی وہ اس پرایمان نہ لاتے)آگے فرمایا"لیکن ہرامراللہ تعالی کے اختیارمیں ہے۔"سابقہ آیت میں فرماچکے ہیں کہ جوانکی طرف رجوع کرتاہے' وہ ہدایت پاتاہے۔گویاجوانکی طرف رجوع نہیں کرتا'وہ ہدایت سے محروم رہتاہے۔"
بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت
والسلام
جاویداقبال