نوربصیرت

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

قرآن پاک کے آداب
قرآن پاک اللہ تعالی کاکلام اورپیغام ہے ۔اللہ تعالی نے اسے نوربھی فرمایااورکتاب بھی۔بالکل اسی طرح جیسے حضورنوربھی ہیں اوربشربھی۔پیغام اورپیغامبرکاادب اوراحترام دراصل پیغام بھیجنے والے کاادب واحترام ہے۔گویاقرآن پاک اورجناب رسول(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کاادب واحترام دراصل حق تعالی کاادب واحترام ہے اورقرآن پاک کی بے ادبی اورحضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی شان میں گستاخی حق تعالی کی جناب میں گستاخی ہے۔قرآن پاک کے آداب سے پہلاادب یہ ہے کہ وہ شخص ہاتھ نہ لگائے جوپاک صاف نہ ہو۔فرمایا" نہ ہاتھ لگائیں مگرپاک صاف(مطہرون)دوسرا ادب یہ ہے کہ تلاوت سے پہلے شیطان کے شرسے اللہ تعالی کی پناہ طلب کرے تاکہ اس کے الفاظ کی تلاوت یامطلب سمجھنے میں شیطان وسوسہ اندازی نہ کرسکے۔ تیسراادب یہ ہے کہ تلاوت کی ابتداء اللہ تعالی نام(بسم اللہ الرحمن الرحیم)سے کرے۔چوتھاادب یہ ہے کہ تلاوت آہستہ آہستہ اورٹھہرٹھہرکرکرے۔اس طرح تلاوت نہ کرے کہ الفاظ پورے ادانہ ہوں بہت زیادہ چلاکرپڑھنابھی ادب کے منافی ہے۔ ختم قرآن پاک کے موقع پراسے جلدی ختم کرنے کے لیے ایک صفحہ ایک شخص کاپڑھنااوردوسرادوسرے کا،ادب کے منافی ہے۔اس سے یہ تاثرپایاجاتاہے کہ آپ اس سے پیچھاچھڑاناچاہتے ہیں اسی طرح سیپارہ کے صفحات موڑکے پکڑے میں بھی بے ادبی پائی جاتی ہے۔ آیات سجدہ اگرباآوازبلندپڑھی جائیں ،توپڑھنے والے کے علاوہ سننے والوں پربھی سجدہ لازم ہے۔قران پاک پڑھاجارہاہوتواس کےپاس شورمچاناگناہ ہے۔قرآن پاک کی طرف پیٹھ کرنابھی بے ادبی ہے۔آیات قرآن پاک والے کاغذات یاان کے ٹکڑے گندی جگہ پھینکنایاانکے اوپربیٹھناسخت بے ادبی اورگستاخی ہے۔سورۃ الرعد کی آیت 28 میں فرمایاکہ جوایمان لائےان کے دل اللہ تعالی کے ذکرسے چین پاتے ہیں۔یہاں ذکرسے مرادقرآن پاک ہے جیسے مشہورمعروف آیت میں ہے۔جس میں اللہ تعالی نے خودقرآن پاک کی حفاظت کاذمہ لیاہے۔"بیشک ہم نے ذکرنازل کیااوربے شک ہم ہی اسکے محافظ ہیں۔"گویاقرآن پاک کی صداقت کاسب سے بڑاثبوت یہی ہے کہ اس سے قلوب کواطمینان حاصل ہوتاہے اورجواس پرعمل کرتاہے اس کے لیے اس دنیامیں بھی خوشحالی اورآخرت میں بھی اس کے لیے اچھاٹھکاناہے۔چنانچہ آگے اسی سورہ کی آیت 31 میں فرمایا"اگرقرآن پاک سے پہاڑاپنی جگہ سے دوسری جگہ لے جائے جاتے یااس کے ذریعے زمین کی مسافتیں جلدطے ہوجاتیں یااسکے ذریعے مردے بولنے لگتے(توبھی وہ اس پرایمان نہ لاتے)آگے فرمایا"لیکن ہرامراللہ تعالی کے اختیارمیں ہے۔"سابقہ آیت میں فرماچکے ہیں کہ جوانکی طرف رجوع کرتاہے' وہ ہدایت پاتاہے۔گویاجوانکی طرف رجوع نہیں کرتا'وہ ہدایت سے محروم رہتاہے۔"

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

اللہ تعالی کاذکر۔۔۔۔(1)
حضرت ابوموسی سے روایت ہے ۔
جناب رسالت مآب (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا۔۔۔:
"جوشخص اللہ تعالی کاذکرکرتاہے وہ زندہ کے اورجوذکرنہیں کرتاوہ مردہ کے مانندہے۔
(بخاری ومسلم)
ایک حدیث قدسی کے مطابق اللہ تبارک وتعالی فرماتاہے۔
"جب میرابندہ ذکرکرتاہے تومیں اس کے پاس موجودہوتاہوں۔اگروہ مجھے دل میں یادکرتاہے تومیں بھی اسے دل میں یادکرتاہوں۔اورجب وہ کسی گروہ میں میراذکرکرتاہے تومیں بھی اس کاذکرایسی جماعت میں کرتاہوں جواس گروہ سے بہترہے۔"
(بخاری ومسلم)
حضرت ابوذر(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے۔
جناب رسالت مآب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا۔۔۔:
"کیامیں تمہیں ایسے اعمال سے آگاہ نہ کروں جوان اعمال سے بہترہیں جوتمہارے خیال میں بہترین اورپاکیزہ ہیں اوربلنددرجات والے ہیں نیزوہ اللہ تعالی کی راہ میں سونااورچاندی خرچ کرنے اورجہادکرنے سے بہترہیں۔۔۔۔وہ اللہ تعالی کاذکرہے۔"
حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے۔
ایک بدوی نے حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی خدمت میں حاضرہوکرعرض کیا۔
"کون ساآدمی بہترہے؟"
حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:
:خوشخ۔بری ہے اس آدمی کے لئے جس نے طویل عمرپائی اوراس کے اعمال بہترین ہوئے۔"
پھراس نے عرض کیا۔
"یارسول اللہ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کون ساعمل سب سے بہترہے؟"
آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:
"کہ جب تودنیاسے جداہوتوتیری زبان پرذکرالہی ہو۔(یعنی مرتے دم تک زبان پرذکرالہی جاری ہو)۔"
حضرت ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے۔
حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:"جوشخص کسی مجلس میں بیٹھااوروہاں اس نے اللہ تعالی کاذکرنہ کیاتواس کاوہاں بیٹھنااللہ تعالی کے ہاں اس کے لیے افسوس اورخسارہ کاباعث ہوگا"۔حضرت عبداللہ بن عمر(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے۔"جناب رسول پاک (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:"اللہ تعالی کے ذکرسوابہت باتیں نہ بنایاکرو'کیونکہ ایسی باتیں دل کوسخت کردیتی ہیں۔"


بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
اللہ تعالی کاذکر۔۔۔(2)
حضرت ثوبان(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے۔
"بعض حضرات نے حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی خدمت میں عرض کیا:
"کاش ہمیں معلوم ہوجاتاکہ کونسامال بہترہے تاکہ ہم اسے جمع کرلیتے۔"
حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:
"بہترین مال اللہ تعالی کاذکرکرنے والی زبان اوراللہ تعالی کاشکرکرنیوالادل ہے۔"
حضرت ابوہریرہ(رضی اللہ عنہ)حضرت ابوسعید(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے۔
جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:
"کوئی قوم(لوگ)ذکرالہی کے لیے نہیں بیٹھی،مگرانہیں فرشتے گھیرلیتے ہیں اوران پراللہ تعالی کی رحمت چھاجاتی ہے۔اوران پرسکینت وسکون(اطمینان قلب) نازل ہوتاہے اوراللہ تعالی ان کاذکراپنے مقرب فرشتوں میں کرتاہے۔"
(مسلم)
حضرت ابوموسی سے روایت ہے۔
حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:
اللہ تعالی کاارشادہے کہ:
"میرابندہ میری نسبت جیساگمان رکھتاہے'میں اس سے اسی کے موافق سلوک کرتاہوں اورجب میرابندہ میراذکرکرتاہے تومیں اس وقت اس کے پاس ہوتاہوں۔اگروہ مجھے دل میں یادکرتاہے تومیں بھی اسے دل میں یادکرتاہوں اوراگروہ کسی جماعت (گروہ)میں میراذکرکرتاہے تومیں اس سے بہترجماعت میں(یعنی فرشتوں کی جماعت میں)اس کاذکرکرتاہوں۔
(بخاری ومسلم)
حضرت ابوذر(رضی اللہ عنہ)سے روایت ہے۔
حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا:
"اللہ تعالی کاارشاد ہے کہ:
"جوشخص ایک نیکی کرتاہے 'اسے دس نیکیوں کاثواب ملتاہے'بلکہ اس سے بھی زیادہ'اورجوایک برائی کرتاہے اسے ایک ہی برائی کی سزاملتی ہے یامیں اسے بھی معاف کردیتاہوں اورجوشخص میری طرف بالشت بڑھتاہے'میں اس کی طرف ایک گزبڑھتاہوں اورجوشخص ایک گز بڑھتاہے میں اس کی طرف دونوں بازوکے پھیلاؤکے برابربڑھتاہوں اورجومیری جانب چل کرآتاہے میں اس کی جانب دوڑکرآتاہوں اورجوشخص آئے گامیرے پاس زمین بھرگناہ لے کرمیں اس اسی قدربخشش سے ملوں گابشرطیکہ اس نے میرے ساتھ کسی کوشریک نہ کیاہو۔"
(مسلم)

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت



والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

بھوک اورخوف!
"سورۃ القریش"میں قریش مکہ سے فرمایاکہ بیت اللہ شریف کی تولیت کے باعث کوئی بھی ان کے جاڑے اورگرماکے دونوں میں تجاری قافلوں کونقصان نہیں پہنچاتا۔پس انہیں چاہیئے کہ وہ اس گھر(بیت اللہ شریف)کے مالک کی عبادت کریں جوانہیں بھوک سے (بچاتاہےاور)کھاناکھلاتاہے اورخوف سے امن میں رکھتاہے۔
سورہ "النحل"میں فرمایا"اوراللہ تعالی بیان کرتاہے ایک بستی کی جوامن واطمینان سے تھی۔اسےہرطرف سےاس کارزق بکثرت پہنچتاتھاپھراس نے اللہ پاک کی نعمتوں کی ناشکری کی پھر(مزہ)چکھایااللہ نے اسے بھوک اورخوف کے لباس کا'بسب اس کے جوکارستانیاں وہ کرتے تھے"(112)
گویابھوک اورخوف سے بچے رہنااللہ کاخاص انعام ہے۔اس کی قدرکرنی چاہیے۔ناشکری نہیں کرنی چاہیے،ناشکری کرنے سے نعمت چھن جاتی ہے ناشکری یہ ہے کہ اللہ پاک سے لاپرواہوجائے۔احکام الہی کی خلاف ورزی پردلیرہوجائے'رزق وافرہوتواللہ پاک کی قائم کردہ حدودکوتوڑناشروع کردے۔اللہ پاک کی حرام کی ہوئی اشیاء کابے دریغ استعمال شروع کردے'ایسے کاموں کےباعث برکت اٹھ جاتی ہے اورسب کچھ ہوتے ہوئے بھی روزی تنگ ہوجاتی ہے فراوانی بھی ہوتودل کے اندرتنگی کااحساس رہتاہے۔
سررۃ "طلحہ"میں فرمایا"اورجس نے میری یادسے منہ موڑا'اس کے لیے معشیت کی تنگی ہےاورقیامت کے روزہم اسے اندھااٹھائیں گے(124) اس سے مرادیہ ہے کہ ذکرالہی سے دل زندہ ہوتے ہیں،اوران میں بینائی پیداہوتی ہے'جوذکرسے محروم ہے وہ قلب کی بنیائی سے بھی محروم ہے یہاں تواس کااندھاپن چھپارہتاہے مگرقیامت کے روزظاہرہوجائے گا۔"
ضمنایہ بھی واضح ہوگیاکہ اسلامی حکومت کااصل کام لوگوں کوبھوک اورخوف سے بچاناہے۔کوئی بھوکانہ رہے کسی کی عزت وآبرواورجان ومال غیرمحفوظ نہ ہو۔حضرت فاروق اعظم(رضی اللہ عنہ)نے ایک بارفرمایاکہ اگراس مملکت میں کوئی جانوربھی بھوک سے مرجائے تووہ میری کوتاہی ہے۔ایک بڑھیانے تنگ دستی کی شکایت کی تواسے فرمایا"کیاتونے کبھی عمر(رضی اللہ عنہ)تک اپنی تکلیف پہنچائی۔اس نے جواب دیا:"حکمران کوخودمعلوم کرناچاہئے۔ اس پرآپ (رضی اللہ عنہ)نے سرجھکالیا"

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

رحمت بے پایاں۔۔۔۔۔۔۔(1)
قرآن پاک میں حق تعالی کاارشادہے:"میری رحمت ہرشے پرچھائی ہوئی ہے"
"کہہ دو،اے میرے بندو!جنہوں نے اپنے اوپرزیادتی کی ہے ۔اللہ تعالی کی رحمت سے مایوس نہ ہونا۔بے شک اللہ تعالی سارے گناہ بخش دیتاہے۔یقیناوہ بخشنے والامہربان ہے(53:39) مزیدفرمایا:"بھلاکون ہے جومضطرب کی دعاقبول کرتاہے ،جب وہ اسے پکارتاہے اور(اس کی ) تکلیف دورکرتاہے(62:27) جن لوگوں نے کہاہمارارب(آقا۔پالنے والا)اللہ تعالی ہے پھراس پرقائم رہے۔یقیناان پرملائکہ نازل ہوتے ہیں(یہ پیغام لے کر)کہ نہ ڈرواورنہ غم کھاؤ اورخوشخبری لواس جنت کی جس کاتم سے وعدہ کیاگیا۔ہم ہیں تمہارے سرپرست دنیاکی زندگی میں بھی اورآخرت میں بھی اورتمہارے لیے اس جنت میں وہ سب کچھ موجودہے جن کی تمہارے جی خواہش کریں۔نیزاس میں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جوتم مانگو۔یہ مہمانداری ہے۔بخشنے والے(اور)مہربان(اللہ تعالی>کی طرف سے۔"اورجوکوئی براعمل کرے یااپنی جان پرظلم کرے،پھراللہ تعالی سے معافی مانگے،وہ اللہ تعالی کومعاف کردینے والامہربان پائے گا۔""اورکون ہے جوبخشے گناہوں کوسوائے اللہ تعالی کے(135:3) "اللہ تعالی تمہیں عذاب دے کرکیاکرے گا۔اگرتم شکرکرواورایمان لاؤاوراللہ تعالی قدردان (اور)خوب جاننے والاہے (یعنی وہ ہرکسی کی چھوٹی نیکی کوبھی جانتاہے اوراس کی قدرکرتاہے)""اورنہ سستی کرواورنہ غم کھاؤتم ہی بلند(غالب)ہواگرتم ایمان والے ہو۔(139:3) یہ قرآن پاک کے ارشادات ہیں جس کے متعلق فرمایا۔۔۔۔"اے لوگو!تحقیق آئی ہے تمہارے لیے نصیحت تمہارے پروردگارکی طرف یہ شفاہے۔ اس کے لیے جوسینوں کے اندرہے(یعنی نفسیاتی امراض)اورہدایت اوررحمت ہے مومنوں کے لیے(10-57)۔۔
کسی کواپنی عبادت پہ ہوغرورتوہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہم ان کی وسعت پہ نازکرتے ہیں
سورۃ الزحزف میں ارشادفرمایا:"اورتیرے رب کی رحمت ہرشے سے بہترہے ۔جسے وہ جمع کرتے ہیں۔"(آيہ 32) سورۃ الانعام میں دوبارفرمایاکہ اللہ تعالی نے اپنے آپ پررحمت کولازم کرلیاہے سورہ مومن میں فرشتوں کی یہ دعانقل فرمائی کہ "اے ہمارے رب!تونے اپنی رحمت اورعلم سے ہرشے کوسمالیاہے۔"(آیہ 7) بالفاظ دیگرکائنات کی کوئی شے ایسی نہیں جواللہ تعالی کے علم اوررحمت سے باہرہو۔"

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت




والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
رحمت بے پایاں۔۔۔۔۔۔۔(2)
شیخ محی الدین عربی فصوص الحکم میں لکھتے ہیں:"ایک رحمت خالص ہے،جیسے دنیامیں لذیذاورپاکیزہ غذا۔یہ حق تعالی کے اسم الرحمن سے صادرہوتی ہے،اس لئے عطائے رحمانی ہے۔دوسری رحمت رنج سے مخلوط ہوتی ہے۔جیسے کڑوی دواپیناکہ اس کے پینے کے بعدصحت اوررحمت ہوتی ہے۔یہ عطائے الہی ہے۔"۔۔۔"عطائے رحمانی ان آمیزشوں سے پاک ہوتی ہے جواس حال میں بندہ کی طبیعت کے مخالف ہوں ۔یہ ان امورسے بھی پاک ہوتی ہے،جوغرض حاصل ہونے سے مانع ہوں۔یہ رحمت ہرقسم کے نقصانات سے پاک ہے۔کبھی حق تعالی جل شانہ،اپنےاسم الواسع کے ذریعہ سے رحمت فرماتے ہیں۔اس میں بندے کے اس وقت کے احوال کی مصلحتوں پرنظرہوتی ہے۔کبھی حق تعالی اپنے اسم الوہاب کے ذریعہ سے رحمت فرماتے ہیں۔یہ عطاء صرف راحت کے لیئے ہوتی ہے۔جس پریہ رحمت صادرہوتیہے وہ اس کے عوضانہ کے عمل کامکلف نہیں ہوتا۔کبھی حق تعالی اپنے اسم الحی کے واسطہ سے رحمت فرماتے ہیں۔اس رحمت کے دوران(موقع)محل اوربندہ کے استحقاق پرنظرہوتی ہے۔ کبھی بندہ پرحق تعالی جل شانہ،اپنے اسم الغفارکی معرفت رحمت فرماتے ہیں۔اس وقت بندہ کے احوال اورموقع کی مصلحت پرنظرہوتی ہے۔اگروہ بندہ اس وقت ایسی حالت میں ہے جوقابل مواخذہ ہے تواللہ تعالی اسے اس رحمت کے ذریعہ اس کی سزاسے بچالیتے ہیں اوراگروہ ایسی حالت میں ہے جوقابل سزانہیں ،تواس رحمت کے ذریعہ اسےایسی حالت میں گرنے سے بچالیاجاتاہے جوقابل سزاہو۔اس رحمت سے وہ بندہ گناہوں سے محفوظ ہوجاتاہے۔
ان کے علاوہ اوررحمتیں بھی ہیں۔ان سب کاخازن اللہ تعالی ہے وہی انہیں اپنے بندوں پراندازے کےمطابق معین فرماتاہے۔
"سورہ الزخرف میں فرمایا:"اورتیرے رب کی رحمت بہترہے اس سے جووہ جمع کرتے ہیں:"(157:3)سورۃ الانعام میں فرمایا:"تمہارے رب نے اپنے اوپررحمت کولازم کرلیاہے۔"سورہالاعراف میں فرمایا:"اورمیری رحمت ہرشے پرچھائی ہوئی ہے۔"

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

رحمت بے پایاں۔۔۔۔(3)
حضواکرم صلی اللہ علیہ والہ وسلم کورحمۃ للعالمین فرمایا۔
اللہ تعالی کی رحمت کاسب سے بڑاشاہکارحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم ہیں۔آپ حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے ذریعہ اللہ تعالی کی رحمت کامکمل ترین اظہارہوا۔سورہ آل عمران میں فرمایا:"اوراطاعت کرواللہ تعالی کی اوراس کے رسول حضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی تاکہ تم پررحم کیاجائے"(آیت 132) گویااللہ تعالی کی رحمت،حاصل کرنے کاذریعہ حضورحضورصلی اللہ علیہ والہ وسلم کی اطاعت ہے۔
سورہ الاعراف میں فرمایا:
"اوربلاشبہ اللہ تعالی کی رحمت خوبصورت(نیک)اعمال کرنے والوں سے قریب ہے۔"جتنے اچھےاعمال کوئی کرتاہے اتناہی وہ اللہ تعالی کی رحمت کامستحق ہوتاہے۔اللہ تعالی کی رحمت عام ہے۔اس کابرتاؤاپنے بندوں سے رحمت کابرتاؤہے۔
مثلایہی کہ ہرنیکی کااجرکم ازکم دس گناملتاہے اورپرسترگنابھی اورسات سوگنابھی اوربے حساب بھی،لیکن ایک بدی کاگناہ اتناہی ہے پھریہ بھی کہ نیکی کی نیت پربھی اجرہے۔بدی جب تک عمل میں نہ آجائے ،وہ جرم نہیں۔پھریہ کہ یہاں قانون مہلت کام کررہاہے۔بدی پرفوراپکڑنہیں۔توبہ کے دروازے موت تک کھلے ہیں۔یہ سب قوانین رحمت ہی پرمنبی ہیں،لیکن اگرخودہی ان قوانین سے فائدہ نہ اٹھائے تواس کی مرضی۔
اللہ تعالی کی رحمت بے حدبے حساب،لامحدوداوربے پایاں ہے۔نہ کوئی ہستی لامحدودہے،نہ کسی کی رحمت لامحدودہوسکتی ہے۔حق تعالی کے بعداگرکسی کی رحمت ہے تووہ جناب رسول پاک صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی رحمت ہے اپنے امتیوں کے لیئے۔ہاں بات کوسمجھنے سمجھانے کے لیئے ہم باپ کی رحمت کی مثال دے سکتے ہیں جواسے اولادسے ہوتی ہے۔
خالق حقیقی اللہ تعالی کی ذات برکات ہے لیکن اولادکی تخلیق باپ کے ذریعہ سے ہوتی ہے۔حقیقی رازق اللہ تعالی ہے لیکن اولادکورزق باپ کے ذریعہ پہنچتاہے۔
حقیقی محافظ اللہ تعالی ہے لیکن اولادکی حفاظت باپ کے ذریعہ سرانجام پاتی ہے۔باپ اپنی اولادکے لئے سرتاپارحمت ہوتاہے ۔ ایک باپ اپنے اولادکی تربیت کے لئے اسے اچھے سے اچھے سکول میں داخل کرائے ۔گھرپربہترین استادرکھ کردے۔اچھی سے اچھی سے کتابیں لادے۔فیسیں اداکرے۔لیکن اگربچہ پھربھی نہ پڑھے اوراپنے آپ کوتعلیم وتربیت سے محروم رکھے تویہ اس کی مرضی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
زکوۃ:۔
قرآن پاک میں صلوۃ اورزکوۃ کوتقریباساتھ ساتھ رکھاگیاہے ۔نمازدین کاستون ہے۔اس سے مومن وکافرمیں تمیزہوتی ہے۔اس سے ایک چھوٹے محلہ سے ایسے معاشرہ کی بنیادپڑتی ہے،جس کی بنیادتعلق باللہ،اخوت ومساوات ،ضبط پرہے۔زکوۃ اس معاشرہ میں مالی ہمواری پیداکرتی ہے۔زکوۃ وہ ٹیکس ہے جودولت مندوں سے لے کےغریبوں پرتقسیم کردیاجاتاہے۔اسلام نے روحانیت،معاشرتی تعلقات اورمالی ضروریات کی کفالت کوساتھ ساتھ رکھاہے اوریہی اس کی خوبی ہے۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا۔جوشخص سونے چاندی کامالک ہواورزکوۃ ادانہ کرے،توقیامت کے روزاس سونے چاندی کی تختیاں بنائی جائیں گی اورانہیں آگ میں تپاکران سے ان کی پیشانیاں اورپہلواورکمریں داغی جائیں گي۔نیزفرمایاجوشخص اپنے مال کی زکوۃ ادانہیں کرتا،اس کامال قیامت کے دن ایک سانپ کی صورت میں اس کے گلے میں ڈالاجائے گا۔وہ سانپ اس کی دونوں باچھیں پکڑلے گا۔اوراس سے کہے گا۔میں تیرا مال ہوں۔حضواکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایامالدارکے لیئے زکوۃ لیناحلال نہیں اورنہ اس شخص کے لیئے جوتندرست وتواناہو۔آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا۔۔سوال کرناصرف تین آدمیوں کوجائزہے۔ایک وہ جوکسی کے قرضہ کاضامن ہوا۔وہ قرضہ کی رقم کے مطابق مانگ سکتاہے۔دوسراوہ جوکسی آفت یامصیبت میں مبتلاہوجائے(مثلاسیلاب وغیرہ)وہ اتنامانگ سکتاہے،جس سے اس کی ضرورت پوری ہوجائے۔تیسرے وہ جس کے پاس کھانے کوکچھ نہ ہواورمحلہ کےتین اشخاص بھی اس کی شہادت دیں وہ بھی صرف بقدرضرورت مانگ سکتاہے۔جوشخص ان تینوں صورتوں کے علاوہ مانگے گا،وہ حرام مال کھائے گا۔نیزفرمایا۔۔۔جوشخص اس لئے مانگتاہے کہ لوگوں سے لے کراپنامال بڑھائے۔(پیشہ ورگداگر)وہ اپنے لئے آگ کاانگارہ مانگتاہے۔اب یہ اس کااختیارہے کہ تھوڑامانگے یازیادہ۔یہ بھی فرمایا۔۔۔۔کوئی شخص ہمیشہ لوگوں سے بھیک مانگتارہتاہے۔یہاں تک کہ قیامت کے دن وہ اس حال میں آئے گاکہ اس کے چہرے پرگوشت کی بوٹی تک نہ ہوگی۔ایک اورحدیث شریف کے مطابق حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایاجوشخص سوال سے بچے،اسے اللہ تعالی بچاتاہے جوشخص بے نیازی کااظہارکرتاہے۔اللہ تعالی اسے دوسروں سے بے نیازکردیتاہے اورجوشخص صبرکرتاہے،اسے اللہ تعالی صبرکی توفیق عطافرماتاہے اورنہیں دی کئی کسی کوکوئی بخشش جوصبرسے بہتراوروسیع ترہو۔فرمایا۔۔قیامت کے روزسوال کرنے والے کے چہرے پرسوال کازخم اورداغ ہوگا۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے حضرت ثوبان سے فرمایا۔جوشخص مجھ سے عہدکرے کہ وہ لوگوں سے سوال نہ کرے گامیں اس کے لئے جنت کاضامن ہوں گا۔اس کے بعدثوبان کسی سے سوال نہیں کرتے تھے۔حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا۔۔۔قرابتدارکوصدقہ دیناصدقہ بھی ہے اورصلہ رحم(حسن سلوک)بھی۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
مصارف زکوۃ:۔
سورہ التوبہ میں فرمایا(ترجمہ)"زکوۃ صرف فقراء ، مساکین، زکوۃ وصول کرنے والوں، مولفۃ القلوب، قیدیوں ، مصیبت زدگان، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے اورمسافروں کے لیئےہے۔"1۔ فقراء سے مرادمفلس لوگ ہیں۔ لفظ غنی کے مقابلے میں بولاجاتاہے۔اصلاحاہم کہہ سکتے ہیں ایسے لوگ جن پرزکوۃ واجب نہیں۔2۔مساکین وہ حاجت مندہیں جوبالکل خالی ہاتھ ہیں۔3۔محکمہ زکوۃ کے عملہ کے زکوۃ کے فنڈمیں سے تنخواہ دی جاسکتی ہے۔4۔نومسلموں کوتالیف قلوب کے لیئے زکوۃ میں سے دیناچاہیے،بالعموم اس مدکوبالکل نظراندازکردیاجاتاہے۔حالانکہ موجودہ حالات میں اس پرخاصی توجہ کی ضرورت ہے۔بہت سے عیسائی جواسلام کی حقانیت سے متاثرہوکراسے قبول کرلیتے ہیں،کسمپری کی حالت میں ہیں۔انکے عزیزواقارب انہیں چھوڑدیتے ہیں۔مسلمانوں کی طرف سے انکی کوئی امدادنہیں کی جاتی۔زکوۃ کےفنڈسے انکی امدادکرنی چاہیے اوربھرپورامدادکرنی چاہیے۔ہندمیں کئی سوبرس مسلمانوں کی حکومت رہی اگراس دوران اچھوتوں کواسلام کیطرف لانے کے لئے اقدامات کئے جاتے اورزکوۃ کے فنڈسے اس مقصدکے لئے خاص محکمہ قائم کردیاجاتااورنومسلموں کی مددکی جاتی توآج اس برعظیم میں مسلمانوں کی اکثریت ہوتی۔پاکستان میں بھی ہم اسی کوتاہی کے مرتکب ہورہے ہیں۔کوئی جماعت غیرمسلموں میں تبلیغ کرنے کی طرف توجہ نہیں دے رہی۔5۔"رقاب"میں غلام شمارہوتےتھے۔اب غلامی کادورنہیں۔اب اس مدمیں وہ لوگ شمارہوسکتے ہیں جوقرضہ ادانہ کرسکنے کے باعث قیدہوجائیں۔یاجنگ کے دوران قیدہوجائیں۔6۔"غارمین"سے مرادمصیب زدگان ہیں۔مثلاسیلاب یاقحط کاشکار،یاجوجنگ کی وجہ سے نقل مکانی پرمجبورہوئے ہوں۔7۔اللہ تعالی کی راہ میں بھی اس مدمیں سے خرچ کیاجاسکتاہے۔اللہ تعالی کی راہ میں خرچ کرنے سے جہاداورتبلیغ دین مرادلی جاتی ہے۔اہل کشمیرکوجوجہادمیں مصروف ہیں، زکوۃ میں سے رقوم دی جاسکتی ہیں۔8۔وہ مسافرجوزادراہ سے محروم ہوں،زکوۃ میں سے انکی امدادبھی کی جاسکتی ہے۔کئی ایسے غیرملکی نظرآتےہیں جنکے پاس خرچ کے لیئے کچھ نہیں ہوتا،اگران کے لئے مناسب رہائش گاہیں تعمبرکردی جائیں جہاں انہیں اسلام سے بھی متعارف کرایاجائے،حکمت اورموعظہ حسنہ سے ،تواس سے پاکستان کی ساکھ میں اضافہ ہوگا۔حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی خدمت میں ایک شخص حاضرہوا،اس نے عرض کیا!زکوۃ کے مال میں سے کچھ مجھے بھی عطافرمائیے۔آنجناب (صلی اللہ علیہ والہ وسلم) نے فرمایا!اللہ تعالی نے زکوۃ کے مصارف کونہ کسی نبی کی مرضی پرچھوڑاہے نہ کسی غیرنبی کی مرضی پر۔انہیں خودمقررفرمادیااورانکے آٹھ حصے کردیئے۔اگرتم ان آٹھ میں سے ہوتومیں تمہیں(زکوۃ میں سے)دیدونگا۔ایک اورحدیث شریف کے مطابق حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایاصدقات لوگوں کے مال کامیل کچیل ہیں اوریہ محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم) اورآل محمد(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے لئے حلال نہیں۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
منصور(قیصرانی) بھا‏ئی، حوصلہ افزائی کابہت بہت شکریہ،
سسٹرمہوش، حوصلہ ا‌فزائی کابہت بہت شکریہ، شکراللہ کاہے اورآپ سب ساتھیوں کی محبت ہے تویہ سلسلے شروع کیے ہیں ۔ جزاک اللہ خیر(آمین ثم آمین)


والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
تراویح یاتجہد:
تراویح کی نمازشروع ہی سے نصف شب سے پہلے کی نمازچلی آرہی ہے،جبکہ نمازتہجدنصف شب سے بعد(رات کےتیسرے پہر)کی نمازہے ۔ تراویح کے لفظی معنی وہ کام ہے جوشام کے وقت کیاجائے۔نمازتہجدکے بارہ میں سورۃ اسراء میں ارشادہے(ترجمہ)"اوررات کے دوران(نمازکے لئے)بیداری اختیارکرو۔یہ زایدنماز(نمازنماز)صرف آپ (صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے لئے ہے۔۔۔"شاہ ولی اللہ نے اس کاترجمہ یوں کیاہے۔وبعضےشب بیدارباش یہ قرآن شب خیزی۔۔۔۔یعنی رات کے دوران قرآن شب خیزی میں بیداررہ۔پھرتجہدصرف جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)پرفرض ہےامتیوں پرنہیں۔اگرنمازتراویح،نمازتہجدہی کی صورت ہوتی،توجناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)واضح الفاظ میں فرمادیتےکہ رمضان کے دوران تہجدکی نمازضرورپڑھو۔اورصحابہ کرام(رضوان اللہ)اسے عشاء کے بعدادانہ کرتے۔نمازتہجدکے بارہ میں زیادہ تریہی سمجھاگياہے کہ یہ بندے اوراس کے رب کے درمیان خاص رازونیازکی نمازہے۔اس لئے اسے بغیرجماعت کے اداکرناچاہیے اوربالعموم اسے اسی طرح اداکیاجاتاہے۔شروع سے اس کے برعکس نمازتراویح رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے باجماعت پڑھائی خواہ صرف تین شب۔ اس سے بھی ان دونوں نمازوں کافرق ظاہرہے۔ امت مسلمہ میں تراویح کی جوموجودہ صورت رائج ہے ،یہی بہترین صورت ہے۔تراویح باجماعت پڑھی جاتی ہے۔اوراس کے لئے نظیرموجودہے۔تراویح کے دوران قرآن پاک ختم کیاجاتاہے۔اوراس کی بھی نظیرموجودہے۔رمضان المبارک کے دوران جبریل امین(علیہ السلام)،حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کی خدمت میں ہرشب باقاعدہ حاضری دیتے اوراس مہینے میں حضور(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سے مل کرقرآن پاک کادورمکمل کرتے۔رہامسئلہ ہرشب قرآن پاک کاسواپارہ پڑھنے کا۔تویہ انتظام سہولت کے لئے کرلیاگیاہے۔وہ لوگ جوکہتے ہیں کہ مقررکرکے عبادت کرنامثلاموجودہ صورت کومقررکرلیناکہ ہررات سوراپارہ قرآن پاک پڑھاجائے گا،بدعت ہے وہ بھی تراویح میں قرآن پاک پڑھنے کی موجودہ صورت کوبدعت نہیں کہتے۔اسی رمضان المبارک کے آخری عشرے میں تین یااس سے کم وبیش راتوں میں قرآن پاک ختم کرنے کے لئے شبینے منعقدکرنے جوطریقہ چل نکلاہے ، اسے بھی کوئی کٹڑسے کٹڑ۔"بدعت ساز"بدعت نہیں کہتا،حالانکہ دور اول میں اس کی کوئی نظیریامثال نہیں ملتی ہے۔رہاسوال کہ بعض مساجدمیں ہرچارتراویح کے بعداس سے قبل قرآن پاک کی تلاوت کی گئی آیات کاترجمہ سنایاجاتاہے، تویہ اچھی بات ہے پھراس میں زبردستی نہیں جوچاہے ایسی مساجدمیں جائے جوچاہے نہ جائے۔قرآن پاک کے الفاظ کے اپنے انوارہیں جن سے ہرپڑھنے والایاانہیں سننے والابہرہ اندوزہوتاہے،خواہ وہ ان کے مطالب سمجھے یانہ سمجھے، جولوگ تراویح کے دوران قرآن پاک سنتے ہیں،وہ یقینا‍ انوارالہی کی برکات سے بہرہ اندازہوتے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت نور بصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

اعتکاف
اللہ تعالی نے حضواکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے طفیل امت مسلمہ کوجن خاص نعمتوں سے نوازاہے ان میں سے ایک رمضان المبارک ہے۔یہ سارامہینہ ہی بہت برکتوں اورفضیلتوں کامہینہ ہے،مگراسکے آخری عشرہ میں اللہ تعالی کی رحمتوں اوربرکتوں کانزول عروج پرہوتاہے۔جناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)اس ماہ کے آخری عشرہ میں اعتکاف فرماتے۔اللہ تعالی کاخاص کرم اورعنایت ہےکہ آجکل بہت لوگ اعتکاف بیٹھتے ہیں اوران میں تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعدادخاصی ہوتی ہے۔آج سے پچاس برس قبل کوئی اکادکاشخص ہی اعتکاف بیٹھتاتھا۔اعتکاف کی طرف رحجان بڑھ جانااس بات کاثبوت ہے کہ اسلام کے نئے دورکاآغازہوچکاہے،یہی وجہ ہے کہ قلوب بیشترازبیشتراللہ تعالی کی طرف مائل ہورہے ہیں۔اعکاف میں مسجداوررمضان کے آخری عشرہ دونوں کی برکات شامل ہوتی ہیں اسلئے تھوڑی عبادت سے زیادہ نتیجہ برآمدہوتاہے۔اعتکاف کے دوران قرآن پاک کی تلاوت کرے،اللہ تعالی کی تسبیح وتحمیدکرے،ذکراذکارکرے،درودشریف پڑھے ،نوافل اداکرے اللہ کی طرف متوجہ ہوکرخاموش بیٹھے آخری چیزجسے مراقبہ کہتے ہیں۔حصول درجات کے لئے اکیسرہے۔سورہ السباء میں فرمایاہے۔ان سے کہیں!میں تمہیں صرف ایک ہی بات کی نصحیت کرتاہوں۔تم اللہ تعالی کے لئے دودویااکیلے اٹھ کھڑے ہو۔پھر(غورو)فکرکرو(آيۃ 46)سورہ آل عمران میں عقل مندوں کی یہ پہچان بیان فرمائي کہ وہ ذکروفکرکرتے ہیں۔(آيۃ 191)اعتکاف میں نہاناممنوع ہے۔اس کے مسئلوں سے اسلام کوجونہایت آسان ہے اورفطرت کےعین مطابق ہے ،خوامخواہ مشکل بنایاجارہاہے۔بدن کی صفائی کے بغیرعبادت میں لطف نہیں آسکتا۔غسل سے انسان تازہ دم ہوجاتاہے۔آج کل سخت گرمی میں نو،دس دن غسل سے روک دینابہت زیادتی ہے البتہ جس چیزسے روکناچاہیے،لغو،گفتگواس سے کوئی نہیں روکتا۔اسکی کھلی اجازت ہے۔جومعتکفین اپنے اعتکاف کاپورافائدہ اٹھاناچاہتے ہیں وہ فضول باتوں سے بچیں ۔لغوویسے ہی منع ہے پھرمسجد میں اس کی بالکل ممانعت ہے ۔ اعتکاف کے دوران گپ شپ لگانااپنے آپکواعتکاف کے ثمرات سے محروم کرتاہے۔اعتکاف کے دوران بیمارکی عیادت کے سلسلہ میں دومختلف روایات ہیں ۔دونوں سیدہ عائشہ(رضی اللہ عنہم)سے مروی ہیں۔ایک میں بیان ہے کہ حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)مریض کی عیادت نہ کی جائے۔دونوں کواکٹھاپڑھنے سے یہ نتیجہ اخذہوتاہے کہ زیادہ بیمار کی مختصرعیادت کے لئے جایاجاسکتاہے لیکن ہرمعمولی مریض کی عیادت کے لئے جانے کی اجازت نہیں اوراگرعیادت کے لئے جایاجاسکتاہے توقریبی عزیزکے جنازے اورآخری دیدارکے لئے بھی جاسکتاہے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
لیلۃ القدر:-"​


بے شک ہم نے اس (قرآن پاک)کولیلۃ القدرمیں نازل فرمایااورآپ(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کیاجانیں لیلۃ القدرکیاہے۔لیلۃ القدرہزارمہینوں سے بہترہے۔اس رات کے دوران الروح(جبریل امین)اورفرشتے اپنے رب کے حکم سے ہرامر کے ساتھ اترتے ہیں۔اس رات سلامتی(ہی سلامتی)ہے (اور)یہ طلوع فجرتک رہتی ہے۔"(سورۃ القدر)سورۃ الدخان میں فرمایا۔(ترجمہ)"3۔ بے شک ہم نے اس مبارک رات میں نازل فرمایا(کیونکہ)ہم لوگوں(برے اعمال کے برے نتائج سے)انتباہ کرناچاہتے تھے۔"4۔اس رات ہرمبنی ہرحکمت امرنافذکیاجاتاہے۔"5۔وہ امرجس کاہماری طرف سے فیصلہ ہوتاہے۔۔"حدیث شریف کے مطابق یہ بابرکت رات رمضان المبارک کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں آتی ہے۔حضرت انس(رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے جناب رسالت مآب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا۔لیلۃ القدرمیں جبریل امین فرشتوں کی جماعت کے ساتھ آتے ہیں اورہراس بندہ پررحمت بھیجتے ہیں اوراس کے لئے بخشش کی دعاکرتے ہیں جوکھڑایابیٹھاعبادت وذکرمیں مشغول ہو۔(بیہقی)سیدہ عائشہ(رضی اللہ عنہم)سے روایت ہے انہوں نے حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)سے دریافت کیاکہ اگرمیں یہ رات پاؤں توکیادعامانگوں۔آنجناب(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)نے فرمایا"اللھم انک عفوتھب العفوعف عنی"(اے اللہ!آپ بخشش(ہی بخشش)ہیں۔بخشش کوپسندفرماتے ہیں پس میرے گناہ بھی معاف فرمادیں!)حضوراکرم(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)کے طفیل امت مسلمہ پراللہ تعالی کے جوخاص انعامات ہیں ان میں سے بڑاانعام قرآن پاک ہے۔پھررمضان المبارک ہے،جس کے دوران قرآن پاک نازل ہوا۔لیلۃ القدرہے۔اس کی فضیلت بھی یہ فرمائی کہ اس رات قرآن پاک کانزول ہوا۔رمضان المبارک کے دوران اللہ تعالی کی رحمت زوروں پرہوتی ہے جیسے ساون کے مہینے میں موسلادھاربارش ہوتی ہے۔قلوب کھیتیوں کی مانندہیں۔زرخیززمین بارش سے فائدہ اٹھاتی ہے مگربنجریاپتھریلی زمین پراس کاکچھ اثرنہیں ہوتا۔رمضان المبارک کی اہمیت کے لحاظ سے سال کے مہینوں کاگویادل ہے۔اسی طرح رمضان المبارک کادل لیلۃ القدرہے۔اس رات برکات کاخاص نزول ہوتاہے۔عبادت کی تاثیرکئی گناہ بڑھ جاتی ہے۔یہ اللہ تعالی کے انعامات ہیں اس امت پر۔تھوڑی محنت اورصلہ بہت زیادہ۔رمضان المبارک اورلیلۃ القدرکی اہمیت نزول قران پاک کے سبب سے ہے۔جس سینہ پرقرآن پاک نازل ہوااورمسلسل 23برس نازل ہوتارہا،اس کی برکت اورعظمت کااندازہ کون کرسکتاہے۔جوامت قرآن پاک کی ذمہ داری اٹھائے ہوئے ہے۔وہ بھی بابرکت اورعظیم ہے۔قرآن پاک کی حفاظت کاذمہ اللہ تعالی نے لے رکھاہے اسی میں امت مسلمہ کی حفاظت بھی آجاتی ہے۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،
مقصد ذرائع ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(1)
دنیامیں تین قسم کی سوچ رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ایک وہ جواس خیال کے ہیں کہ مقصدبلندہواوراسکے حصول کے ذرائع بھی پاکیزہ ہوں یہی اسلامی نظریہ ہے ۔ دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جویہ کہتے ہیں کہ اچھے مقاصدکے لئے برے ذرائع بھی استعمال کرلینے چاہیں۔ یہ سوچ زیادہ ترکمیونسٹوں ، انارکسٹوں وغیرہ نے پھیلائی ہے۔ ہوائی جہازوں کااغواء بسوں میں دھماکے، ریل گاڑیوں کی تباہی یہ سب اسی نظریے کہ نتائج ہیں۔ زیادہ ترمعصوم اوربے گناہ لوگ انکے تشددکانشانہ بنتے ہیں۔تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کی زندگی کانہ کوئی مقصدہے ، نہ ذرائع کے بارے میں سوچتے ہیں یہ لوگ اپنی حیوانی جبلتوں کے غلام ہیں اورحیوانات کی طرح سوچ سے عاری ہیں۔ عیش وعشرت ان کامقصدہے اس کے لئے دولت چاہیے جہاں سے مل جائے جیسے مل جائے،بس مل جائے ، اقتدارسے بھی ان کامقصدیہی ہے کہ اس طرح دولت حاصل کرنے کے مواقع مل جاتے ہیں۔اسلام کی روسے انسانی زندگی کامقصداللہ تعالی کی صفات کارنگ منعکس کرنااوراس طرح دولت حاصل کرنے کے مواقع مل جاتے ہیں۔اسلام کی روسے انسانی زندگی کامقصداللہ تعالی کی صفات کارنگ منعکس کرنااوراس طرح اپنی استعدادکے مطابق اپنی شخصیت کی تعمیروتکمیل کرناہے۔قرآن پاک میں ارشادہے۔۔۔۔"اورتمہارامنتہائے مقصودتمہارارب ہے۔"صراط مستقیم بھی وہی ہے جوسیدھااللہ تعالی کی طرف لے جاتاہے(سورۃ النجم42)ارشادہے"یقینامیرارب صراط مستقیم پرہے۔"(سورۃ ہود56)اللہ کے معنی معبوداورمحبوب کے علاوہ مقصودکےبھی ہیں ۔ اللہ تعالی مقصودحیات ہیں اورجناب رسول پاک(صلی اللہ علیہ والہ وسلم)تک پہنچنے کاوسیلہ ہیں۔شریعت کاپروگرام اسی مقصدکے حصول کوآسان بناتاہے۔سورۃ آل عمران میں ارشادہے(ترجمہ)79۔۔۔۔کسی بشرکویہ سزاوارنہیں کہ اللہ تعالی اسے کتاب اورحکمت اورنبوت عطافرمائے۔پھروہ لوگوں سے کہے کہ اللہ (تعالی)کوچھوڑکرمیرے بندے بن جاؤلیکن (وہ یہی کہے گاکہ)اللہ والےہوجاؤ یہ بہ سبب اس کتاب کے جس کاتم علم رکھتے ہواورجسے تم پڑھتے ہو۔"سورہ المائدہ میں ارشاد ہے(ترجمہ)۔"116۔۔۔اورجب (قیامت کے دن) اللہ(تعالی)فرمائے گا۔اے عیسی ابن مریم!کیاتونے لوگوں سے کہاتھاکہ اللہ(تعالی)کوچھوڑکرمجھے اورمیری ماں کودومعبودبنالو؟عیسی کہیں گے پاک ہے آپ کی ذات(ہرخامی سے)میں ایسی بات نہیں کہہ سکتاتھاجس کاکوئي حق نہیں۔اگرمیں نے ایساکہاہوتا،توآپ کوضروراس کاعلم ہوتا۔آپ جانتے ہیں جومیرے جی میں ہے۔مگرمیں نہیں جانتاکہ آپکے جی میں کیاہے۔بے شک آپ کوغیب کی ساری باتیں خوب معلوم ہیں۔"

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

مقصدذرا‏ئع۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔(2)
ذرا‏ئع کومقصدبنالینااورمقصدکوبھول جانا،انسان کی بہت بڑی غلطی ہے ۔پیغمبرآئے کہ لوگوں کواللہ تعالی کی طرف لے جانے والارستہ بتائیں۔کئی لوگوں نے پیغمبروں ہی کی عبادت شروع کردی۔قرآن پاک میں ہے ۔یہودنے اپنے عالموں اورروحانی پیشواؤں کوخدابنالیا(حالانکہ وہ صرف اللہ تعالی کاراستہ بتانے والے تھے)دنیااس لئے ہے کہ اس کے ذریعہ اپنی آخرت بہتربنائی جائے لیکن ہم میں سے بیشترنے دنیاہی کواپنامقصودبنالیاہے۔دنیاکامال و متاع اس لئے ہے کہ اس کے ذریعہ اللہ کاقرب حاصل کیاجائے،مگرہم دولت ہی کوالہ سمجھنے لگےاورمال کی محبت میں گرفتارہوجاتے ہیں۔قرآن پاک نے اس طرزعمل کی سختی سے مذمت کی ہے۔کیونکہ یہ سب برائیوں کی جڑہے فرمایا۔۔۔۔"جولوگ سونااورچاندی خزانہ کرکے رکھتے ہیں اوراسے اللہ تعالی کی راہ میں خرچ نہیں کرتے،انہیں عذاب درناک کی خوشخبری دو،ایک روزاس سونے چاندی کوجہنم کی آگ میں تپایاجائے گا۔اوراس سے ان کی پیشانیوں ،پہلواورکمریں داغی جائیں گی۔(پھران سے کہاجائے گا)یہ ہے وہ(مال)جوتم نے اپنے لئے جمع کرکے رکھاتھا۔اب اس کے جمع کئے کامزہ چکھو۔"(9--34--35)"ہرعیب چیں،غیبت گوکے لئے براانجام ہے،جس نے مال جمع کیااوراسے گنتارہاوہ گمان کرتارہے کہ اس کامال ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گا۔ہرگزنہیں ،اسے یقیناحطمہ میں ڈالاجائے گااورحطمہ کیاہے وہ اللہ(تعالی)کی سلگائی ہوئی آگ ہے جودلوں تک چڑھ آتی ہے۔"(104----1تا8)
"یقیناوہ شعلوں والی آگ ہے جوچہرے کی کھال ادھیڑدیتی ہے ۔وہ (ہر)اس شخص کوجلاتی ہے جس نے (اللہ تعالی کے احکام سے)پیٹھ پھیری اورمونہہ موڑا۔اورمال جمع کیااورپھراسے بندکرکے رکھا۔"شریعت کے معاملہ میں بھی ہم اس غلط فہمی کاشکارہیں۔شریعت ، زندگی کاایساپروگرام مہیاکرتی ہے،جس سے اللہ تعالی کے سپاہی بن جائیں اوربرائی اورباطل قوتوں کےخلاف لڑیں مگرہم میں سے بیشترنے اس مقصدکوبھلادیاہے ہم نہی المنکرسے گریزکرتے ہیں۔جہادکومقصدحیات نہیں سمجھتے۔اس سے کتراتے ہیں ۔مباداہم سے مال ودولت یاحکومت واقتدارچھن جائے ساری عمرنمازیں پڑھتے ہیں۔مگرہم میں ڈسپلن پیدانہیں ہوتا،روزے رکھتے ہیں،مگراندرونی ضبط سے کورے رہتے ہیں۔ زکوۃ دیتے ہیں مگرمال کی محبت میں بدستورپھنسے رہتے ہیں۔ حج کرتے ہیں،مگرلسانی اورعلاقائی تعصبات سے اوپرنہیں اٹھتے۔اگرایک سپاہی پریڈاچھی کرے،وردی بھی ٹھیک رکھے مگرجنگ کے موقع پرمیدان جنگ کارخ نہ کرے یااگرجائے توبھاگ آئے۔کیاآپ اسے اچھاسپاہی کہیں گے۔یہی حال ان لوگوں کاہے جونمازیں باقاعدگی سے پڑھتے ہیں۔لباس کابہت احترام کرتے ہیں۔مگربرائی کامقابلہ نہیں کرتے،جہادسے گھبراتے اوربھاگ جاتے ہیں۔

بشکریہ نوائے وقت نوربصیرت

والسلام
جاویداقبال
 
Top