از شوکت کریم:
من لا یحضرۃ الفقیہ جلد سوم ۔ 4543۔ محمد بن فضیل نے شریس وابشی سے انہوں نے جابر سے انہوں نے حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے روایت کہ ہے ان کا بیان ہے کہ آنجناب نے مجھے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے غیرت عورتوں کے لئے قرار نہیں دی ہے بلکہ غیرت مردوں کے لیے قرار دی ہے۔ اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے مرد کے لیے چار آزاد عورتیں حلال کر دی ہیں اور ان کے علاوہ جو اس کی ملکیت میں کنیزیں ہیں (وہ بھی حلال ہیں) مگر عورت کےلیے تنہا اس کا ایک شوہر حلال ہے۔ پس اگر وہ اپنے شوہر کے ساتھ کسی غیر کو بھی چاہے تو وہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک زانیہ ہو گی۔
صریحٓا چار عورتوں آزاد عورتوں کا ذکر ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر لونڈیوں کا!!1 اور اس کتاب اور شیخ صدوق رحمہ کی ثقاہت کے بارے میںاوپر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے جو کہ کسی بھی اعتراض کو رد کرنے کےلیے کافی ہے۔
قرآن اور حدیث کا مکمل طریقہ یہ ہے کہ ایک بات کے مختلف جُز کئی کئی جگہ بیان ہوتے ہیں اور ان سب کو اکھٹا کر کے مکمل بات کو سمجھا جاتا ہے۔
مگر ادھر شوکت بھائی صاحب الٹی گنگا بہا رہے ہیں اور اسکی وجہ ہمیں معلوم ہے۔
آئیے اس روایت مکمل جائزہ لیتے ہیں اور جو طریقہ شوکت بھائی صاحب نے آزمایا ہے، اس سے تو ایک کیا بیسیوں حلال اللہ کو حرام بنایا جا سکتا ہے۔
1۔ اس روایت میں کہیں پر بھی عقد المتعہ کو حرام نہیں بتلایا جا رہا ہے۔
2۔ بلکہ صرف ایسی عورتوں کا ذکر ہے جو کہ عام طور پر معاشرے میں موجود ہیں اور اس روایت کا موضوع تعلقات کی مختلف اقسام نہیں بلکہ عورت اور مرد کی "غیرت" کا فرق ہے۔
3۔ اگر شوکت بھائی صاحب کے یہ Tactics استعمال کیے جائیں تو ذیل کے حلال اللہ کو بھی حرام قرار دے دیں۔
پہلا یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ نے مرد کے لیے صرف چار عورتیں حلال کر دیں۔ تو اس کو بنیاد بناتے ہوئے فتوی دے دیں کہ طلاق حرام ہے۔۔۔ یا پھر طلاق یافتہ عورت بھی ان چار عورتوں میں شامل ہے اور مرد مجموعی طور پر صرف اور صرف 4 آزاد عورتوں سے نکاح کر سکتا ہے، چاہے اب ان میں سے کسی کو طلاق دے یا نہ دے، مگر یہ طلاق یافتہ عورتیں پھر بھی ان 4 آزاد عورتوں میں شمار ہوتی رہیں گی۔
دوسرا پھر ان لونڈیوں کا ذکر ہے جو ملکیت میں ہیں۔ ۔۔۔۔ مگر پھر اُن لونڈیوں کا کیا جو کہ ملکیت میں تھیں، اُن سے جماع کیا گیا اور پھر آگے بیچ دیا گیا؟
اور تیسرا یہ کہا گیا کہ عورت کے لیے صرف ایک مرد ہے اور باقی زانیہ عورتیں ہیں۔۔۔۔ تو پھر اس بنیاد پر لگا دیجیے طلاق یافتہ عورت پر زانیہ کا فتوی جو دوسرے مرد سے شادی کر کے اُسے اپنے اوپر حلال کرے۔ یا پھر بیوہ عورت پر بھی جو دوسرے مرد سے نکاح کرنا چاہے، ۔۔۔ اور اُن تمام کنیز عورتوں پر بھی جو ایک مالک سے فروخت ہو کر دوسرے مالک کی ملکیت میں گئی ہوں۔
خیبر والی روایت کی تکرار
از شوکت کریم:
(26387) 32 ۔ محمد بن الحسن بإسناده عن محمد بن أحمد بن يحيى، عن أبي جعفر، عن أبي الجوزاء، عن الحسين بن علوان، عن عمرو بن خالد، عن زيد بن علي، عن آبائه عن علي (عليهم السلام) قال: حرم رسول الله (صلى الله عليه وآله) يوم خيبر لحوم الحمر الاهلية ونكاح المتعة.
مجھ پر تو فورا توپ کے گولے شروع ہو جاتے ہیں کہ میں دلائل کی تکرار کر رہی ہوں، مگر خود آپ اپنے رویے پر نظر نہیں کرتے۔
خیبر والی روایات پر لمبی چوڑی جرح میں پیش کر چکی ہوں بمع بذات خود اہلسنت علماء کے لسٹ کے اور انکے اس روایت پر اعتراضات کے، مگر آپ کو فقط دوسروں پر اعتراضات نظر آتے ہیں اور اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہیں آ رہا۔
شیعہ کتاب میں خیبر کے متعلق اس ایک روایت پر آپ نے اتنا اُدھم مچایا ہوا ہے۔۔۔۔ مگر جب قرآنی آیت پر آپکی کتابوں سے روایات کا پورا دفتر دکھایا گیا تو وہ آپ نے مکمل طور پر ہضم کر لیا۔۔۔۔ پھر آپ کو آپکی اپنی کتابوں کی بے تحاشہ روایات دکھائی گئیں کہ رسول اللہ ص کے زمانے میں عقد المتعہ کے لیے "استمتاع" کی اصطلاح استعمال ہوتی تھی، مگر وہ بھی مکمل ہضم اور جنہیں برا بھلا کہتے تھے، وہی منکر حدیث اب استمتاع کے معاملے میں تقلید کے امام ٹہرے۔۔۔۔ ایک خیبر والی روایت ہماری کتاب میں موجود تو اُس پر اتنا شور، مگر ابن عباس اور جابر بن عبداللہ انصآری اور ابو نضرہ، قتادہ، عطاء، عروۃ بن زبیر وغیرہ کی گواہیوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں جو آپکی اپنی کتابوں میں درج کہ انہیں نصف صدی گذر جانے کے باوجود کسی ایسے واقعے کا علم نہیں کہ جہاں رسول اللہ ص نے عقد المتعہ کو حرام ٹہرایا ہو۔
اسی لیے تو میں کہتی ہوں کہ آپ کے یہ دہرے رویے وہ ہیں کہ جس کے بعد انسان کو دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے، مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں۔ آپ بے شک اپنے پر ہزار خون معاف کر لیں، مگر اس سے حقیقت بدلنے والی تو نہیں۔
خیبر والی روایت پر مزید جرح:
1۔ اس خیبر والی روایت کا ایک روای ہے "حسین بن علوان"، جس کے متعلق رجال کشی میں صاف لکھا ہے "یہ عامۃ " سے تعلق رکھتا ہے (یعنی غیر شیعہ ہے)۔
2۔ اور دوسرا شخص ہے "عمرو بن خالد" جو کہ پھر غیر شیعہ ہے۔ اور اس شخص پر جو آپ لوگوں نے اتنا تکیہ کر کے یہ شور مچایا ہوا ہے، تو اس کی حقیقت آپ پہلے اپنی کتابوں میں تو دیکھ لیں۔ اس شخص کے متعلق آپکے اپنے عظیم عالم حافظ حدیث، علامہ ابن حجر العسقلانی لکھتے ہیں کہ عمرو بن خالد "متروک" ہے۔ اور آپ ہی کے دوسرے فن رجال کے بڑے عالم دین یحیی بن معین اسکے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ شخص "کذاب" ہے۔ اور ابو زرعۃ اسکے متعلق لکھتے ہیں کہ عمرو بن خالد احادیث کو "گھڑا" کرتا تھا۔
اور غیر اہل تشیع کی روایات ہماری کتب میں موجود ہیں۔ رجال کشی میں موجود ہے:
Rijal Kashi, Volume 2 page 855:
Ibn Shaza said: 'My father [ra] asked Muhammad bin Abi Umair: 'You met many A'ama (i.e. Non Shia) scholars, how come you didn't hear (hadith) from them?' He replied: 'I heard (hadith) from them, but I saw many of our (Shia) companions heard from the A'ama (i.e. Non-Shia) narrations and Khasa (Shia) narrations, then they mixed up until they attributed the narrations of A'ama (non-Shias) with the Khasa (Shia) and the narrations of Khasa (Shia) with the A'ama (non-Shias), therefore I disliked to mix up the traditions, so I left that and remained on that (narrating only from Shia).'
مجھے پتا ہے کہ آپ کو پھر یہ جرح نظر آنی والی نہیں کیونکہ سالہا سال سے میں یہ ہی دیکھتی آ رہی ہوں کہ مخالفین اس روایت کے حوالے سے فقط "تقیہ" کا ذکر کرتے ہیں، مگر آگے اس روایت پر کی گئی مزید جرح کو مسلسل نظر انداز کر جاتے ہیں۔
اور تقیہ کے حوالے سے بھی نام حضرت علی کا لگاتے ہیں، حالانکہ تقیہ کا شبہ ان راوی حضرات میں سے کسی کے متعلق کیا جا رہا ہے کہ ہو سکتا ہے کہ ان میں سے کسی کو جان کے خوف سے ایسا کرنا پڑا ہو کیونکہ حضرت عبداللہ ابن زبیر ہو یا بنی امیہ یا بنی عباس کے خلفاء، یہ سب کے سب عقد المتعہ پر ائمہ اہلبیت کے مؤقف سے واقف تھے اور اس لیے کوفہ وغیرہ کو چھوڑ کر بقیہ جگہوں پر انتہائی سختی رکھتے تھے اور کئی روایات موجود ہیں جہاں ائمہ اہلبیت نے اسی لیے مدینہ وغیرہ میں اپنے شیعوں کو سختی سے عقد المتعہ کے لیے منع کیا ہوا تھا۔
اور شیخ طوسی کہ جنہوں نے اس روایت کو خود اپنی کتاب "تہذیب الاسلام" میں نقل کیا ہے، وہ اسکو نقل کرنے کے بعد خود کہہ رہے ہیں کہ:
"یہ روایت بر مبنی تقیہ ہے کیونکہ یہ (خیبر میں ممانعت کا) عقیدہ ہمارے مخالفین کا ہے۔ اور جو علم رکھتے ہیں وہ اس سے ہوشیار رہیں کیونکہ ائمہ اہلبیت کے نزدیک بلاشبہ عقد المتعہ بالکل مباح ہے۔"
حوالہ:
تہذیب الاحکام، جلد 7، صفحہ 251، حدیث (1085)10
خیبر کے دن عقد المتعہ کب حرام کیا گیا؟
اللہ تعالی نے شریعت کو ایک دن میں نازل نہیں کر دیا۔
نہیں، بلکہ اللہ تعالی نے آہستہ آہستہ، بہت حکمت کے ساتھ، مسلمانوں کی زندگی میں رونما ہونے والے واقعات کے ساتھ ساتھ آیات کا نزول فرمایا۔ اسی حکمت کی وجہ سے جب کوئی آیت یا حکم نازل ہوتا تو لوگوں کو اس سے منسلک واقعہ کا بھی علم ہوتا اور یوں یہ احکامات ان کے ذہنوں میں اچھی طرح محفوظ ہو جاتے۔
آئیے ذرا اب "یوم خیبر" پر پیش آنے والے واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:
1۔ خیبر کے دن اللہ کا رسول ﷺ صبح سے ہی یہودیوں کے ساتھ مصروف ہیں۔ مسلمان فوج بھی تیار کھڑی ہے۔
2۔ پھر یہودی اپنی شکست تسلیم کرتے ہیں
3۔ پھر صلح کی شرائط پیش ہوتی ہیں۔
4۔ پھر صلح کے بعد مسلمان مال غنیمت اکھٹا کرنا شروع کرتے ہیں۔
5۔ پھر اسی دوران صحیح مسلم کی روایت کے مطابق صحابہ کچھ پالتو گدھوں کو وہاں پر پکڑ کر بغیر مال غنیمت نکالے ذبح کر کے پکانا شروع کر دیتے ہیں۔
6۔ پھر اللہ کے رسول ص کی طرف سے پالتو گدھے کے گوشت کھانے کی ممانعت آ جاتی ہے اور سارا کھانا پھینک دیا جاتا ہے، اور پھر دوبارہ سے کھانا بنانا شروع کیا جاتا ہے۔
تو ذرا سوچئیے کہ خیبر کے اس پورے مصروف ترین دن میں وہ کونسا وقت تھا جب کہ عقد المتعہ کا کوئی واقعہ پیش آیا ہو اور رسول اللہ ص نے اسکی ممانعت کی ہو؟
******************
پرانے اعتراضات کی تکرار پر تکرار
از شوکت کریم:
عن عبد الله بن سنان قال سألت أبا عبد الله عليه السلام عن المتعة فقال: (لا تدنس نفسك ب۔ها) (بحار الأنوار 100/31.
عبداللہ بن سنان بیان کرتے ہیں کہ میں نے ابو عبداللہ سے متعہ کے بارے میں پوشھا تو انہوں نے کہا مت گندہ کرو اپنے نفس کو اس سے۔
مجھ پر یکطرفہ توپ کے گولے چلانے والے حضرات ذرا اپنی انہی پرانے اعتراضات کی تکرار کی طرف کیوں نہیں دیکھ لیتے؟
اس روایت کے متعلق تفصیل سے بیان کیا جا چکا ہے۔
از مہوش علی:
علامہ مجلسی نے یہ روایت ایک النوادر نامی کتاب سے نقل کی جس کے مصنف ہیں احمد بن محمد بن عیسیٰ الاشعری جنھوں نے متعہ کے حلال ہونے کے بارے میں بہت سی روایات درج کی ھیں۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا بیان خاص پس منظر میں عبداللہ بن سنان کے لیئے تھا جو کہ ایک شادی شدہ تھے اور محض جنسی تسکین کے لیئے متعہ کرنا چاھتے تھے۔ اسی لیئے امام (ع) نے اسے اس کے خلاف مشورہ دیا کیونکہ یہ اُن کے لیئے غیر ضروری تھا، بالکل اسی طرح امام رضا علیہ السلام نے اپنے ساتھی ابن یقطین کو بھی، جو ابن سنان کی طرح شادی شدہ تھے، متعہ کے سوال پوچھنے پر کہا تھا کہ:
"تیرا اس سے کیا کام کیونکہ تجھے اللہ نے اس کی ضرورت سے بے نیاز کر دیا ہے (نکاح دائمی والی بیویوں کی موجودگی کی وجہ سے)"
لہٰذا امام (ع) کے قول کی روشنی میں بیوی موجود ہونے کی صورت میں متعہ سے پرھیز کیا جائے۔ کہ کہیں ایسا کرنے سے وہ شخص عورتوں کے حقوق نہ پورے کر سکے اور مشکلات سے دوچار ہو جائے۔
اسی بارے میں امام رضا (ع) کی ایک اور حدیث ملاحظہ ہو:امام ابو حسن (ع) کا ارشاد ہے:
"متعہ حلال مباح مطلق ہے، اس مرد کے لیئے جسے اللہ نے نکاح کے ذریعے اس سے بے نیاز نہ کر دیا ہو۔ اس لیئے متعہ کے ذریعے پاکیزگی کے طالب رہو۔ اگر اللہ نے تمہارے لیئے اسے غیر ضروری بنا دیا ہے، تو اس کی صرف اس صورت میں اجازت ہے کہ تمہاری بیوی تک تمہیں رسائی حاصل نہ ہو۔"
حوالے:
1۔ الکافی، ج 5 ص 453 حدیث 22۔ 2۔ وسائل الشیعہ ، ج 21 ص 22 حدیث 26421
اور پھر سب سے اہم بات جو تمام شکوک کو رفع کر دیتی ہے، وہ یہ کہ اہل تشیع کی مستند کتاب مستدرک الوسائل جلد 14 صفحہ 455 پر عبداللہ ابن سنان کی یہ روایت جس باب کے ذیل میں مروی ہے اس باب کا نام ہے "متعہ کی غیر پسندیدگی جب اس کی ضرورت نہ ہو اور جب اس سے کراہت پیدا ہو اور عورتوں سے نا انصافی ہوتی ہو" چنانچہ شعوری طور پر یہ بات عین قرآن کے مطابق ہے کہ جہاں اللہ تعالی فرماتا ہے:
"اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو پھر اگر تمہیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو یا جو تمہاری زرخیز ہو یہ تدبیر بے انصافی نہ کرنے کی بہت قرین قیاس ہے اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی خوشی دے ڈالو پھر اگر وہ خوشی خوشی تمہیں کچھ چھوڑ دیں تو شوق سے نوش جاں کھاؤ پیؤ۔ (سورۃ النساء) (4:3)"
اوپر جو علی بن یقطین والی روایت کا مختصر ذکر ہوا ہے، اسکا مکمل متن یہ ہے:
علی بن یقطین سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ انہوں نے امام اباالحسن (ع) سے عقد المتعہ کے متعلق سوال کیا تو آپ (ع) نے فرمایا: 'تیرا اس سے کیا کام ہے جب اللہ نے اسے تیرے لیئے غیر ضروری بنا دیا ہے (کیونکہ علی بن یقطین کی دائمی نکاح والی بیویاں موجود تھیں)؟' میں نے کہا کہ میں تو صرف اس کے متعلق جاننا چاہتا تھا۔ انہوں نے جواب دیا: 'اس کی اجازت کے متعلق علی (ع) کی کتاب میں درج ہے'
1۔ الکافی، ج 5 ص 442
2۔ وسائل الشیعہ ، ج 21 ص 22 حدیث 26420
اور جو لوگ آج مسلسل پھر ہم پر الزام لگا رہے ہیں کہ عقد المتعہ سے خاندانی زندگی ٹوٹ پھوٹ جائے گی اور چینی اور دنیا کے دیگر معاشروں کے تمام تر گناہوں کا بوجھ آج عقد المتعہ کی جھولی میں ڈال رہے ہیں، کاش کہ وہ ایسے غلط الزامات لگانے کی بجائے انصاف سے ہماری دلائل کو بھی دیکھ سکیں۔ اور انکی سب سے بڑی غلطی یہ ہے کہ مخالفت میں آ کر یہ مستقل طور پر رسول اللہ ص کی نص کو نظر انداز کر رہے ہیں جہاں عقد المتعہ میں موجود محصنین و غیر مسافحین اور دیگر محارم عورتوں اور عدت وغیرہ کی حدود و قیود کی وجہ سے خود رسول اللہ ص گواہی دے رہے ہیں کہ عقد المتعہ اسلامی شریعت پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں کی طرح ہے۔ حیرت ہے کہ ہم پر الزام لگایا جا رہا ہے کہ ہم پچھلی نصوص کو "دہرا" رہے ہیں، مگر کاش آپ لوگوں نے دیکھا ہوتا کہ آپ لوگ "مسلسل" اپنی اس "غلطی" کو "دہرا" رہے ہیں جہاں آپ مسلسل رسول اللہ ص کی اس نص کو نظر انداز کر کے اور پھر اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کر دنیا میں ہونے والے ہر گناہ کی ذمہ داری عقد المتعہ کی جھولی میں ڈال رہے ہیں۔
ترجمے میں بددیانتی
از شوکت کریم:
أحمد بن محمد بن عيسى في ( نوادره ) : عن ابن أبي عمير ، عن هشام بن الحكم ، عن أبي عبدالله ( عليه السلام ) في المتعة قال : ما يفعلها عندنا إلا الفواجر .
احمد بن محمد بن عیسی با اسناد بالا بیان کرتے ہیں کہ ابو عبداللہ رحمہ سے متعہ کے بارے میںپوچھا گیا، کہا اس کے نزدیک نہ جاؤ یہ زنا ہے۔
نوادر أحمد بن محمد بن عيسى : 87 | 200 .
وسائل الشيعة ج21 9 ۔ باب عدم تحريم التمتع بالزانية وان أصرت
ص25 ص44
"الفواجر" اور "زنا" میں فرق
محترم شوکت بھائی صاحب،
افسوس ہوا آپکی طرف سے یہ غلط ترجمہ دیکھ کر۔ اگر غلطی سے کیا تب اپنی تصحیح فرمائیے، اور اگر جان بوجھ کر تھا تو اللہ آپ کے اعمال پر بہترین گواہ ہے۔
اور روایت کا صحیح ترجمہ یہ ہے:
امام جعفر الصادق نے متعہ کے متعلق ہشام سے کہا: "
یہاں (عربی لفظ "عندنا") پر صرف فاجرہ (فاجرہ عورتیں یعنی دھندہ کرنے والی گندی عورتیں) ہی یہ کرتی ہیں۔"
حوالہ:
بحار الانوار، جلد 100، صفحہ 318
یہ روایت احمد بن محمد بن عیسی کی کتاب النوادر سے لی گئی ہے جس میں بے تحاشہ روایات عقد المتعہ کے جواز میں موجود ہیں۔ اب مخالفین اس روایت کو اپنے سیاق و سباق سے نکال کر اسکا غلط استعمال کر کے اس سے عقد المتعہ کو حرام ثابت کرنا چاہتے ہیں۔
اس روایت میں لفظ "عندنا" استعمال ہوا ہے جسکا واضح مطلب ہے کہ امام جعفر ایک خاص وقت یا جگہ کے حالات کے حوالے سے گفتگو کر رہے ہیں۔
اس روایت اور اس میں "عندنا" کے لفظ کی مزید وضاحت دوسری روایات میں ہو جاتی ہے جہاں فرمایا جا رہا ہے کہ اُس خاص جگہ یا وقت میں سختی یا اور وجوہات کی بنا پر عقد المتعہ کا رواج معاشرے سے ختم ہو چکا تھا اور اس وجہ سے ایسی عورتیں کا معاشرے میں اضافہ ہو گیا تھا کہ جن کا پیشہ ہی زناکاری تھا اور ان زناکار عورتوں کے لیے سب کچھ برابر تھا کہ کوئی انکے ساتھ آ کر براہ راست زنا کرے، یا نکاح کر کے ایک رات بعد طلاق دے دے یا پھر عقد المتعہ کرے، ان عورتوں کو بس پیسہ بنانا ہے اور یہ عدت کی قید کی پابندی کریں گی اور نہ محصنین کی قید کی۔ چنانچہ ایسی زناکار عورتیں جو فاجرہ ہیں (اور عدت و محصنین اور دیگر حدود و قیود کا خیال نہیں رکھتیں) ان نے نکاح ہو یا متعہ، سب حرام ہے۔
امام سے روایت ہے:
4585 - وروى الحسن بن محبوب، عن أبان، عن أبي مريم عن أبي جعفر عليه السلام قال، " إنه سئل عن المتعة، فقال: إن المتعة اليوم ليست كما كانت قبل اليوم، إنهن كن يؤمن يؤمئذ، فاليوم لا يؤمن فاسألوا عنهن
امام جعفر صادق سے عقد المتعہ کے متعلق دریافت کیا گیا جس پر آپ نے جواب دیا کہ "آجکل" (الیوم) عقد المتعہ ویسا نہیں رہ گیا ہے جیسا کہ پہلے دنوں میں ہوا کرتا تھا (یعنی پاکدامن محفوظ عورتیں عقد المتعہ کو حلال جانتے ہوئے راضی ہو جاتی تھیں)۔ چنانچہ آجکل اس پر ایسے یقین نہیں کیا جاتا چنانچہ (جن عورتوں سے تم متعہ کرو) انکے متعلق پوچھ لیا کرو۔
حوالہ:
1۔
من لایحضرہ الفقیہ، جلد 3، صفحہ 292، حدیث 4585
2۔
الکافی، جلد 5، صفحہ 453، حدیث 2
3۔
تہذیب الاحکام، جلد 7، صفحہ 251، حدیث (104 09
شیخ باقر نے اس روایت کو اپنی کتاب "صحیح من لا یحضرہ الفقیہ" میں صحیح قرار دیا ہے۔
پچھلے زمانے سے مراد یہ ہے کہ رسول اللہ ص کے زمانے سے لیکر حضرت عمر کے زمانے تک معاشرے میں عقد المتعہ کو مطلق حلال جانا جاتا تھا اور سفری حالات وغیرہ کے تحت بھی پاکدامن عورتیں عقد المتعہ کے لیے مل جاتی تھیں۔ حضرت عمر کی ممانعت کرنے کے باوجود مکہ و یمن وغیرہ کے علاقوں میں حضرت ابن عباس اور اُنکے بعد انکے شاگردوں کے اثر کے تحت دوسری صدی تک عقد المتعہ کو حلال اللہ سمجھا جاتا رہا۔ مگر اسکے بعد معاشرے میں ایسا پروپیگنڈہ کیا گیا کہ جسکے بعد ہر جگہ عقد المتعہ حرام سمجھا جانے لگا اور ناممکن ہو گیا کہ پاکدامن عورتیں عقد المتعہ کے لیے مل سکیں، مگر اس سے معاشرے میں زناکاری پھیلی تو پھر معاشرے میں دھندہ کرنے والی زناکار عورتیں باآسانی میسر ہو گئیں جو پیسہ کمانے کے لیے زنا ہو یا متعہ یا ایک رات کے بعد طلاق دینے والی شادی، سب کے لیے آسانی سے ہاں بھی کر دیں گی، مگر ان سے ہوشیار رہو کہ یہ فاجرہ عورتیں ہیں کہ جو عقد المتعہ کے لیے اللہ کی نازل کردہ حدود و قیود کا کبھی خیال نہیں رکھیں گی۔
اسلام کا ایک بنیادی اصول تھا کہ عورت کی اپنی گواہی اسکے اپنے چند معاملات میں کافی ہے۔ مثلا اگر عورت کہے کہ وہ غیر شادی شدہ ہے، یا وہ عدت سے پاک ہو چکی ہے، یا اسکو حمل نہیں ہے، تو عورت کی اس گواہی کا اعتبار کیا جائے گا۔ اور اس میں مسلمان یا اہل کتاب عورت کی قید نہیں کہ اگر اہل کتاب عورت بھی کہے کہ وہ استبرائے رحم کر چکی ہے تو اسکی گواہی کے بعد اس سے شادی کی جا سکتی ہے۔ چنانچہ اسلام کا عام اصول تو یہ ہی ہے کہ عورتوں کی گواہی پر اعتبار کیا جائے۔
مگر دین اسلام میں جمود نہیں، اور حالات کے تحت ایسے "معاملاتی احکامات" میں ضرورت کے تحت تبدیلیاں ہو سکتی ہیں (جیسا کہ آج ایران میں عقد المتعہ کی رجسٹریشن کا معاملہ ہے)۔ چنانچہ جب تک رسول اللہ ﷺ کے دور سے لیکر ابن عباس کے شاگردوں کے دور تک میں معاشرے میں عقد المتعہ کا رواج رہا اور زناکاری نہیں پھیلی اور عورتیں پاکدامن رہیں، اُس وقت تک عورتوں کی گواہی کو کافی اہمیت دی گئی، مگر جب فاجرہ عورتوں کی تعداد بڑھی اور خطرہ پیدا ہوا کہ وہ فاجرہ عورتیں اس گواہی کا غلط استعمال کر سکتی ہیں، تو پھر امام نے حکم دیا کہ اب عورتوں کے متعلق استفسار کرو کہ ان کا کردار کیسا ہے۔
محمد بن فیض کا بیان ہے کہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
ایاکم والکم اشف والدواعی والبغایا رزوات الازواج قلت وما الکواشف ؟قال اللواتی یکاشفن و بیوتھن و یوتین قلت فالدواعی قال اللواتی یدعون الی انفسھن و قد عدفن بالفساد قلت نالبغایا؟ قال المعر وفات بالذنا قلت فذوات الازواج قال المطلقات علی غیر السنۃ
ترجمہ:
دیکھو تمہیں متعہ میں پرہیز کرنا چاہئے کواشف سے اور دواعی سے اور بغایا سے کواشف وہ کہ جو ظاہر بظاہر فعل حرام کا ارتکاب کرتی ہیں اور ان کے مکانات عام طور پر معلوم ہیں اور وہاں لوگ جایا کرتے ہیں ۔۔۔۔۔ اور دواعی وہ کہ جو خود دعوت دیتی ہیں اور فساد و خرابی کے ساتھ مشہور و معروف ہیں ۔۔۔۔ اور بغایا وہ جو زنا کاری کے کے ساتھ مشہور ہیں نیز ذوات الازواج ہیں اور وہ وہ ہیں کہ جنہیں طلاق صحیح طریقہ پر نہیں دیا گیا ہے۔
اور
امام رضا نے فرمایا:
اذا کانت مشھودۃ بالزنا نلا یتمتع منھا ولا یکنحھا
ترجمہ:
اگر عورت ایسی ہو کہ زنا کاری میں مشہور ہے تو اس سے نہ نکاح کیا جائے نہ متعہ
چند روایات میں زانیہ عورت سے کراہت کے ساتھ عقد (نکاح ہو یا متعہ) کی اجازت بھی دی گئی ہے، مگر شرائط کے ساتھ کہ جب عورت اپنے گناہوں سے توبہ تائب کر کے پاک صاف زندگی گذارنے کا وعدہ کر رہی ہو اور اسلام کی حدود و قیود کی پاسدارہ کا عہد کر رہی ہو)۔ بہرحال یہ الگ موضوع ہے اور اس پر پہلے گفتگو ہو چکی ہے جہاں اہلسنت علماء کی روایات اور فتاوی کے ریفرنسز پیش کیے جا چکے ہیں۔