نکاح المتعہ کا تعارف (حصہ دوم)

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ش

شوکت کریم

مہمان
محترم برادر میر انیس آپکے مطالبے پر دلائل حاضر ہیں۔

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔

والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما۔ النساء ۔ 24

معتبر اثنا عشری تفسیر ،تفسیر نمونہ میں صاحب تفسیر نمونہ سورنساء کی آیت ۲۴ کا ترجمہ لکھتے ہیں ۔ اور شوہر دار عورتیں (تم پر حرام ہیں) مگر وہ کہ جن کے تم مالک بن گئے ہو۔ یہ ایسے کام ہیں جو خدا نے تم پر مقرر کیے ہیں۔ ان (مذکورہ) عورتوں کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں اور جنہیں اپنے مال کے ذریعے اپنا بناؤ بشرطیکہ تم پاک دامن رہواور زنا سے بچو اور جن عورتوں سے تم متعہ کرو تو ان کا حق مہر جو تم پر واجب ہے ادا کرو اور تم پر اس کی نسبت کوئی گناہ نہیں جس پر ایک دوسرے کے ساتھ مہر مقرر کر کے موافقت کر لو ، خدا دانا و حکیم ہے۔

اور تفسیر میں لکھتے ہیں "محصنات" "محصن کی جمع ہے اور "حصن" کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے "قلعہ" اسی مناسبت سے یہ لفظ شوہردار یا عفیف و پاکدامن عورتوں کے لیے ہے جو غیر مردوں سے جنسی تعلق سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتی ہیں یا کسی مرد کی سرپرستی میں ہوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ آگے مزید لکھتے ہیں۔

شاید ضمنی طور پر غیر مسافحین کی تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہو کہ مسئلہ ازدواج میں تمہارا نصب العین اور مقصد صرف جنسی پیاس کی تسکین نہ ہو بلکہ شادی بیاہ اس بلند ترین مقصد کو زندہ کرنے کے لیے ہو جس کے لیے جنسی پیاس انسان میں رکھی گئی ہے اور وہ ہے بقائے نسل انسانی اور برائیوں سے اس کی حفاظت۔فمااستمتعتم بہ منہن فاتوھن اجورھن فریضۃ
آیت کے اس حصے میں وقتی شادی کی طرف اشارہ ہے جسے اصطلاح میں متعہ کہتے ہیں۔

مذکور بالا تفسیر کو غور سے پڑھیے تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جاتا۔ سب سے پہلے تو محصن کا ترجمہ اور تفسیر دیکھیے جس سے کہ سارا معاملہ کھل جاتا ہے۔ اور پھر دیکھیے کہ وقتی شادی سے تو یہ قلعہ بری طرح مسمار ہوجاتا ہے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے کتنے واضح انداز میں محصن کی قید لگا کر وقتی شادی کو روک دیا ۔ درحقیقت وقتی شادی لفظ محصن کی ضد ہے ، بالکل الٹ اوپر سے غیر مسافحین کی تعبیر سے تو اس کا مکمل رد ہو جاتا ہے نہ کہ اسی آیت سے جواز متعہ نکالنا ۔ پوری آیت کے مفہوم اور قرآنی روح کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف م۔ت۔ع دیکھ کر جواز متعہ نکالنا کتنا بڑا ظلم ہے۔

قلعہ کا مطلب ہوا مظبوط ، بلند و بالا نا قابل تسخیر عمارت جیسا ایک مضبوط رشتہ کہ جس سے عورت کی عفت و پاکدامنی قائم رہے اور یہ مقصد شادی جیسے مضبوط اور اٹوٹ بندھن سے حاصل ہوتا ہے ناکہ وقتی شادی جیسے کمزور اور پہلے سے طے شدہ ڈھے جانی والی عمارت سے۔

یہی وجہ ہے حلال چیزوں میں سے اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین چیز طلاق ہے کہ وہ اس بیان کیے ہوئے محصن (قلعے) کو ڈھا دیتی ہے۔ کہ جسے اللہ سبحان و تعالیٰ قائم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔

اور پھر غیر مسافحین کی تعبیر دیکھیں مقصد صرف جنسی پیاس کی تسکین نہ ہو۔۔۔۔۔۔ اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں جو متعہ بیان کیا گیا ہے اس کی بنیاد ہی جنسی پیاس کی تسکین رکھی گئی ہے کہ نوجوان جنسی پیاس کو قابو نہیں کر سکتے لہذا وقتی شادی کر لیں۔

مذکورہ بالا تفسیر خود ہی محصن اور غیر مسافحین کی قیود لگا کر وقتی شادی کے اسلام سے غیر متعلق ہونے کے متعلق ثبوت دے رہی ہے۔

مگر وائے نصیب آخر میں صاحب تفسیر نمونہ اپنے ہی اوپر بیان کیے ہوئے الفاظ کی نفی کرتے ہوئے فما استمتعتم کے معانی کرنے کے بجائے م۔ت۔ع کے الفاظ لیتے ہیں اور متعہ کے معنی لینے کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ یہ شریعت میں متعہ کے لیے کہا جانے والا اصطلاحی مطلب ہے۔ اور محصن اور غیر مسافحین کی نفی کرتے ہوئے اپنا من چاہا مطلب نکال لیتے ہیں۔چلیں اسمتعتم کے لغوی مطلب نہ لیں اور متعہ ہی لے لیں مگر مسئلہ تو پھر بھی وہی ہے آخر متعہ کا بھی تو کوئی مطلب ہو گا اور وہ وہی مطلب ہے جس کو چھپانے کے لیے استمتعتم کا رائج ترجمہ کرنے سے گریز کیا گیا ۔ اور اس کا مطلب اس طرح لینے سے قرآن کی کتنی آیات اور حدیثوں میں تعارض پیدا ہوتا ہے ۔ جبکہ اس کو لغوی مطلب جو ہے اور جو بے شمار دوسری جگہوںمیں بھی استعمال ہوا ہے لینے سے کوئی تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا اور کلا م الہٰی کی تشریح کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے۔آخر آپ متعۃ النساء کا مطلب عورتوں سے فائدہ اٹھانا، عورتوں سے بہرہ مند ہونا وغیرہ کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں

اور غور کرنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسا تضاد کیسے ممکن ہے۔کہ پہلے تو تو رشتوں کی حرمت بیان کرتے ہیں ۔ پھر محصن اور غیر مسافحین کی قید لگا کر اس رشتے کی مضبوطی اور مقصد بیان کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر پھر عمل بیان کریں جو کہ محصن اور غیر مسافحین کے الٹ ہو کیسے ممکن ہے ؟؟؟؟؟ افسوس کہ جوکام غیر نہ کر سکے وہ ہم نے خود کر دیا ؟؟؟؟

اور مزید دیکھیے یہی لفظ جب قرآن میں اور جگہوں پر آیا تو وہی مطلب لیا گیا کہ جو اس لفظ کا حق ہے اور جمہور سلف نے لیا۔

كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَ۔ٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
سورۃ‌ التوبۃ آیت 69

صفحہ ۴۵ پہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اس آیت میں منافقین کی جماعت کو بیدار کرنے کے لیے ان کے چہرے کے سامنے تاریخ کا آئینہ رکھ دیا گیا ہے اور ان کی زندگی کا گذشتہ باغی منافقوں سے مقابلہ اور موازنہ کر کے موثر درس عبرت دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ "تم گذشتہ منافقوں کی طرح ہو اور اسی برے راستے اور بدسرنوشت کے پیچھے پڑے ہوئے ہو (کالذین من قبلکم) انھی لوگوں کی طرح جو قوت و طاقت میں تم سے زیادہ اور مال و دولت کی رو سے تم سے بہت آگے تھے (کانوا اشد منکم قوۃ و اکثر اموالا و الاد)۔ دنیا میں وہ اپنے حصہ میں سے شہوات نفسانی، گندگی، گناہ، فتنہ و فساد اور تباہ کاریوں سے بہرہور ہوئے۔ تم بھی جو اس امت کے منافق ہو گزرے ہوئے منافقین کی طرح ہی حصہ دار ہو(فاستمتعوا بخلاقہم فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بخلاقہم)۔

اور پھر سورۃ‌ ابراہیم آیت 30 کے ترجمہ اور تفسیر میں دیکھیے۔

وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ۗ قُلْ تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ

ترجمہ میں لکھتے ہیں۔ انہوں نے خدا کے ہمسر قرار دیئے تاکہ (لوگوں کوٌ اس کی راہ سے (منحرف اور ) گمراہ کریں۔ ان سے کہہ دو (کہ چند دن) دنیا کی زندگی (اور اس کی لذتوں سے) فائدہ اٹھا لو مگر بالآخر تمہیں (جہنم کی) آگ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔

اور تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اگلی آیت میں کفران نعمت کی ایک بدترین قسم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس کے وہ مرتکب ہوتے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے انہوں نے خدا کے شریک قرار دیے تاکہ اس طریقے سے لوگوں کو اس کی راہ سے گمراہ کریں(وجعلوا للہ اندادًا لیضلوا عن سبیلہ)۔ شرک و کفر اختیار کر کے اور لوگوں کو دین و طریق حق سے منحرف کر کے وہ لوگوں پر چند روزہ مادی اقتدار حال کرتے ہیں۔ اے رسول! ان سے کہو: اس ناپائیدار اور بے وقعت مادی زندگی سے فائدہ اٹھا لو لیکن یہ جان لو کہ تمہارا انجام کار آگ ہے (قد تمتعوا فان مصیرکم الی النار) نہ تمہاری یہ زندگی کوئی زندگی ہے بلکہ بدبختی ہے اور نہ تمہارا یہ اقتدار کوئی حیثیت رکھتا ہے بلکہ تباہ کاری اور مصیبت ہے لیکن اس کے باوجود اپنے انجام کے بدلے تم اس سے فائدہ اٹھا لو۔
ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے۔ قل تمتع بکفرک قلیلًا انک من اصحاب النار۔

کہہ دو! اپنے کفر سے تھوڑا سا فائدہ اٹھا لے آخر کار تو اصحاب نار میں سے ہے (زمر۔۸)

اور پھر سورۃ‌ الذاریات آیت 43 کا ترجمہ اور تفسیر دیکھیے۔

وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ تَمَتَّعُوا حَتَّىٰ حِينٍ
ترجمہ: قوم ثمود کی سرگذشت میں بھی ایک عبرت ہے جب کہ ان سے یہ کہا گیا: تھوڑی سے دیر کے لیے تم بھی فائدہ اٹھا لو (اور اس کے بعد عذاب کے منتظر رہو)

اور تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اس کے بعد قوم ثمود کی نوبت آتی ہے اور ان کے بارے میں فرماتا ہے، قوم ثمود بھی ایک آیت اور عبرت ہے جبکہ ان سے کہا گیا تم زندگی کی تھوڑی سے مدت کے لیے فائدہ اٹھا لو( اور پھر عذاب الٰہی کے منتظر رہو) (وفی ثمود اذ قیل لھم تمتعوا حتٰی حین)

حتٰی حین سے مراد وہی مہلت کے تین دن ہیں جن کی طرف سورہ ہود کی آیت ۶۵ میں اشارہ ہوا ہے۔ فعقروھا فقال تمتعوا فی دارکم ثلاثۃ ایام ذالک وعد غیر مکذوب۔ انہوں نے اس اونٹنی کی جو بطور اعجاز آئی تھی کونچیں کاٹ دیں اور ان کے پیغمبر صالح نے ان سے کہا بس تین دن اپنے گھروں میں مزے اڑا لو اور اس کے بعد عذاب الہیٰ کے منتظر رہو، یہ نہ ٹلنے والی وعید ہے۔

برادران یہ سب حوالہ جات تفسیر نمونہ سے ہیں اور لنک اوپر دیا ہوا ہے آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ہی لفظ کے جو مطالب باقی سب آیات میں ایک جیسے کیے گئے ہیں۔ اسکی زیادہ حق دار سورہ نساء کی آیت 24 ہے۔ مگر اس آیت میں اس لفظ کو بطور لفظ ہی لیا گیا اور معنی اور تفسیر میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔

اب لفظ محصن کی مزید تشریح کے لیے شیخ صدوق رحمہ سے بیان کردہ حدیث دیکھیے۔ اور شیخ صدوق کہ جن کا لقب ہی "صدوق " ہے علماء کرام کے درمیان انکی ثقاہت کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے جس کے بعد اعتراض کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ مزید ایک سند ملاحظہ کیجے۔۔علامہ سید باقر مجلسی اپنی کتاب حق الیقین میں لکھتےہیں حضرت صاحب الامر کی دعا سے ابن بابویہ کو خدا نے دو فرزند عطا کیے ایک من لا یحضر الفقیہ کے مولف ہیں۔

علل الشرائع باب 287 ۔شیخ صدوق رحمہ باب کا عنوان باندھتے ہیں وہ سبب جس کی بناء پر متعہ ایک مرد آزاد کو محصن و شادی شدہ نہیں بنا دیتا اور بیان کرتے ہیں کہ میرے والد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بیان کیا مجھ سے سعد بن عبداللہ نے روایت کرتے ہوئے احمد بن محمد بن عیسٰی سے انہوں نے حسین بن سعید سے انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے انہوں نے ہشام اور حفص بن بختری سے انہوں نے اس سے جس نے ان سے بیان کیا اور اس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اپنے اس سوال پر کہ ایک شخص اگر متعہ کرے تو وہ محصن اور شادی شدہ بن جائے گا۔ آپ نے فرمایا نہیں شادی شدہ تو عقد دائم کرنے سے ہوتا ہے۔

علل الشرائع ہی سے غیر مسافحین کی تشریح دیکھیے۔

علل الشرائع باب 230 میں شیخ صدوق رحمہ لکھتے ہیں بیان کیا مجھ سے علی بن احمد نے انہوں نےکہا کہ بیان کیا مجھ سے محمد بن ابی عبداللہ نےروایت کرتے ہوئے محمد بن اسماعیل سے انہوں نے علی بن عباس سے انہوں نے قاسم بن ربیع صحاف سے انہوں نے محمد بن سنان سے انہوں نے کہا کہ حضرت ابوالحسن علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام نے ان کے مسائل کے جواب میں تحریر فرمایا کہ زنا کو اس لیے حرام قرار دیا گیا کہ اس میں بڑی خرابیاں ہیں اس کی وجہ سے نفوس قتل ہوتے ہیں، نسب ختم ہو جاتا ہے، اطفال کی تربیت متروک ہو جاتی ہے، میراث میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور اسی طرح اور بہت سی خرابیاں لازم آتی ہیں۔

اور ہم دیکھتے ہیں کہ متعہ میں میراث نہیں ، اور اطفال کی تربیت کی بھی کوئی گارنٹی نہیں اور نسب کی بھی کوئی ضمانت نہیں اور معاشرے میں بہت سی خرابیاں بھی لازم آتی ہیں۔

علل الشرائع ہی سے دیکھئے وہی حکم جو قرآن کریم نے دیا کہ مرد کے لیے چار آزاد عورتیں حلال ہیں۔ جبکہ ہم متعہ میں دیکھتے ہیں کہ عورتوں کی تعداد کی کوئی قید نہیں۔

باب 272 میں لکھتے ہیں بیان کیا مجھ سے محمد بن حسن نے انہوں نے کہا بیان کیا مجھ سے محمد بن حسن صفار نے روایت کرتے ہوئے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے انہوں نے علی بن حکم سے انہوں نے محمد بن فضل سے انہوں نے سعد جلاب سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لیے غیرت نہیں رکھی بلکہ برائیاں خود ان سے غیرت کھاتی ہیں مگر ایمان دار عورتیں ایسی نہیں ہیں۔ اور اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لیے غیرت رکھی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے چار عورتیں حلال کی ہیں نیز کنیزیں بھی مگر عورتوں کے لیے صرف اس کا شوہر حلال ہے اگر اس کے سوا کسی دوسرے کے ساتھ تعلق رکھے تو وہ زانیہ ہے۔

اور باب 271 پر لکھتے ہیں۔بیان کیا مجھ سے علی بن احمد نے انہوں نے کہا بیان کیا مجھ سے محمد بن ابی عبداللہ نے روایت کرتے ہوئے محمد بن اسماعیل سے انہوں نے علی بن عباس سے انہوں نے کہا کہ بیان کیا مجھ سے قاسم بن ربیع صحاف نے روایت کرتے ہوئے محمد بن سنان سے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس کے مسائل کے جواب میں اس مامر کا سبب تحریر فرمایا کہ ایک مرد کو چار عورتوں کے نکاح میں رکھنا جائز ہے اور عورت کو ایک مرد سے زیادہ نکاح کرنا حرام ہے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ مرد کی اگر چار عورتیں بھی ہیں اور ان سے اولاد ہوئی تو وہ سب اس کی طرف منسوب ہوگی اور اگر عورت دو مردوں سے نکاح کرے یا دو سے زیادہ سے تو لڑکے کی شناخت نہ ہو سکے گی کہ یہ کس کا ہے اس لیے کہ وہ سب اس کے شوہر ہیں۔ اس بناء پر نسب و میراث اور تعارف میں فساد لازم آئے گا۔

اور شیخ صدوق رحمہ عیون اخبار صفحہ 263 پر لکھتے ہیں اور ایک وقت میں چار آزاد عورتوں سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں جمع نہیں کیا سکتا۔

اور مزید تفسیر ابن کثیر میں حافظ ابن کثیر بیان کرتے ہیں۔

وقد قال الإمام أحمد: حدثنا يزيد بن هارون, حدثنا سليم بن عامر عن أبي أمامة أن فتى شاباً أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ائذن لي بالزنا, فأقبل القوم عليه فزجروه, وقالوا: مه مه, فقال «ادنه» فدنا منه قريباً, فقال «اجلس» فجلس, فقال «أتحبه لأمك» ؟ قال: لا والله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لأمهاتهم, قال: «أفتحبه لابنتك ؟» قال: لا والله يا رسول الله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لبناتهم. قال: «أفتحبه لأختك ؟» قال: لا والله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لأخواتهم, قال «أفتحبه لعمتك ؟» قال: لا والله يا رسول الله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لعماتهم, قال «أفتحبه لخالتك ؟» قال: لا والله يا رسول الله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لخالاتهم, قال فوضع يده عليه, وقال «اللهم اغفر ذنبه, وطهر قلبه, وأحصن فرجه» قال: فلم يكن بعد ذلك الفتى يلتفت إلى شيء, وقال ابن أبي الدنيا: حدثنا عمار بن نصر, حدثنا بقية عن أبي بكر بن أبي مريم عن الهيثم بن مالك الطائي, عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما من ذنب بعد الشرك أعظم عند الله من نطفة وضعها رجل في رحم لا يحل له۔

تفسیر ابن کثیر سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۲ کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ لکھتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک نوجوان نے زناکاری کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چاہی لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب بلا کر فرمایا، بیٹھ جا، جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ پر اللہ فدا کرے، ہر گز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سوچ لے کہ کوئی کیسے پسند کرے گا ؟ آپ نے فرمایا اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے ؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتا، اچھا اپنی بہن کے لیے اسے تو پسند کرے گا ؟ اس نے اسی طرح انکار کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح دوسرے بھی اپنی بہنوں کے لیے اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ بتا تو کیا چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے ؟ اس نے سختی سے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح کوئی اور بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے نہ چاہے گا، اچھا اپنی خالہ کےلیے ؟ اس نے کہا ہر گز نہیں فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الہٰی اس کے گناہ بخش اس کے دل کو پاک کر اسے عصمت والا بنا۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا۔

اب سوال اٹھتے ہیں !!!

اس نوجوان نے اپنے نفس کو زنا سے بچانے کے لیے متعہ کیوں نہ کیا ؟؟؟
دوسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو متعہ کی ترغیب کیوں نہ دی ؟؟؟؟
اور تیسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زنا سے متنفر کرنے کے لیے کس طرح کی مثالیں دیں ؟؟؟؟
اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ساری مثالیں متعہ پر بھی صادق آتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی یہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا!!!
اور حدیث کو پرکھنے کے لیے چند اقوال ان شاء اللہ آپ خود نتیجے سے آگاہ ہو جائیں گے۔

عیون اخبار رضا ج۲ ص 65 پر شیخ صدوق رحمہ لکھتے ہیں جب تمہارے پاس دو متضاد خبریں وارد ہوں تو ان دونوں روایات کو خدا کی کتاب کے سامنے پیش کرو۔ اور کتاب خدا میں جس کے حلال یا حرام ہونے کا ذکر موجود نہ ہو تو تم اس حدیث کی پیروی کرو جو کتاب اللہ کے موافق ہو۔ اور کتاب خدا میں جس کا تذکرہ موجود نہ ہوتو اس حدیث کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرو۔ اگر سنت پیغمبر میں اس کے متعلق نہی حرمت یا امر وجوبی وارد ہو تو تم اس حدیث کی پیرو ی کرو جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کے مطابق ہو۔

ابوجعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بعد کثرت سے حدیثیں بیان کی جائیں گی جو قرآن کے موافق ہو ہو میری حدیث ہے اور جو قرآن کے مخالف ہو وہ میری حدیث نہیں۔ (بیہقی)

فتح المغیث میں علامہ ابن جوزی رحمہ لکھتے ہیں ہر ایسی حدیث جو عقل کے مخالف یا اصول مسلمہ کے متناقض ہو تو جاننا چاہیے کہ وہ موضوعی ہے۔ پھر یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں کہ راوی ثقہ ہیں یا غیر معتبر، اسی طرح وہ حدیث جس میں ذرا سی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو یا معمولی کام پر بہت بڑے ثواب کا وعدہ ہو یا وہ حدیث جس میں لغویت پائی جائے یا جو محسوسات و مشاہدے اور نص قرآنی و سنت متواترہ کے خلاف ہے قطعًا قابل اعتبار نہیں ایسی مشتبہ اور وضعی حدیث کی نہ جرح و تعدیل کی ضروری ہے نہ سلسلہ اسناد کی تحقیق و تصدیق ایسی حدیث کی کوئی تاویل بھی قابل قبول نہیں۔

ملا علی قاری رحمہ لکھتے ہیں جو حدیث قرآن کے خلاف اور مشاہدہ کے خلاف ہو یا جس حدیث میں فضول باتیں یا رکیک مضمون و الفاظ ہوں اعتبار کے قابل نہیں۔ (موضوعات)

علامہ سخاوی کے مطابق جامع بخاری کے 435 راویوں سے مسلم نے روایت نہیں کی اور بمطابق حاکم نیشاپوری صحیح مسلم کے 625 راویوں سے بخاری نے روایت نہیں کی۔

امام ابن ہمام حنفی مصنف فتح القدیر صحیحین کو دوسری کتب صحاح سے زیادہ صحیح اور مقدم نہیں مانتے۔

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کسی حدیث کو حسن صحیح کہہ دینے پر دھوکا نہیں کھانا چاہیے اگر حدیث قرآن کے مطابق ہے تو درست ورنہ نہیں
 

مہوش علی

لائبریرین
محترم برادر میر انیس آپکے مطالبے پر دلائل حاضر ہیں۔

اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔

والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما۔ النساء ۔ 24

معتبر اثنا عشری تفسیر ،تفسیر نمونہ میں صاحب تفسیر نمونہ سورنساء کی آیت ۲۴ کا ترجمہ لکھتے ہیں ۔ اور شوہر دار عورتیں (تم پر حرام ہیں) مگر وہ کہ جن کے تم مالک بن گئے ہو۔ یہ ایسے کام ہیں جو خدا نے تم پر مقرر کیے ہیں۔ ان (مذکورہ) عورتوں کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں اور جنہیں اپنے مال کے ذریعے اپنا بناؤ بشرطیکہ تم پاک دامن رہواور زنا سے بچو اور جن عورتوں سے تم متعہ کرو تو ان کا حق مہر جو تم پر واجب ہے ادا کرو اور تم پر اس کی نسبت کوئی گناہ نہیں جس پر ایک دوسرے کے ساتھ مہر مقرر کر کے موافقت کر لو ، خدا دانا و حکیم ہے۔

اور تفسیر میں لکھتے ہیں "محصنات" "محصن کی جمع ہے اور "حصن" کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے "قلعہ" اسی مناسبت سے یہ لفظ شوہردار یا عفیف و پاکدامن عورتوں کے لیے ہے جو غیر مردوں سے جنسی تعلق سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتی ہیں یا کسی مرد کی سرپرستی میں ہوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ آگے مزید لکھتے ہیں۔

شاید ضمنی طور پر غیر مسافحین کی تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہو کہ مسئلہ ازدواج میں تمہارا نصب العین اور مقصد صرف جنسی پیاس کی تسکین نہ ہو بلکہ شادی بیاہ اس بلند ترین مقصد کو زندہ کرنے کے لیے ہو جس کے لیے جنسی پیاس انسان میں رکھی گئی ہے اور وہ ہے بقائے نسل انسانی اور برائیوں سے اس کی حفاظت۔فمااستمتعتم بہ منہن فاتوھن اجورھن فریضۃ
آیت کے اس حصے میں وقتی شادی کی طرف اشارہ ہے جسے اصطلاح میں متعہ کہتے ہیں۔

مذکور بالا تفسیر کو غور سے پڑھیے تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جاتا۔ سب سے پہلے تو محصن کا ترجمہ اور تفسیر دیکھیے جس سے کہ سارا معاملہ کھل جاتا ہے۔ اور پھر دیکھیے کہ وقتی شادی سے تو یہ قلعہ بری طرح مسمار ہوجاتا ہے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے کتنے واضح انداز میں محصن کی قید لگا کر وقتی شادی کو روک دیا ۔ درحقیقت وقتی شادی لفظ محصن کی ضد ہے ، بالکل الٹ اوپر سے غیر مسافحین کی تعبیر سے تو اس کا مکمل رد ہو جاتا ہے نہ کہ اسی آیت سے جواز متعہ نکالنا ۔پوری آیت کے مفہوم اور قرآنی روح کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف م۔ت۔ع دیکھ کر جواز متعہ نکالنا کتنا بڑا ظلم ہے۔


ظلم تو یہ ہے کہ ہدایت آ جانے کے باوجود بھی آنکھیں بند کر کے ایسے قیاسات کے پیچھے بھاگنا کہ جو نصوص کے سامنے ٹہر ہی نہیں سکتے۔

اس تھریڈ کے بالکل پہلے پہلے مراسلوں میں یہ نصوص پیش ہو گئیں تھیں۔ آئیے ان قیاسات کو چھوڑ کر خود رسول اللہ ص سے پوچھ لیتے ہیں:

صحیح مسلم [عربی ورژن ، آنلائن لنک]
صحیح مسلم [آنلائن لنک انگلش ورژن حدیث 3371]
صحابی ابو سعید خدری کہتے ہیں کہ جنگ کے بعد چند خوبصورت عرب عورتیں انکے قبضے میں آئیں اور صحابہ کو انکی طلب ہوئی کیونکہ وہ اپنی بیویوں سے دور تھے۔ مگر ساتھ ہی ساتھ میں صحابہ چاہتے تھے کہ وہ ان کنیز عورتوں کو بیچ کر فدیہ بھی حاصل کریں۔ چنانچہ صحابہ نے عزل سے کام لیا [یعنی سفاح کرتے وقت اپنے عضو تناسل باہر نکال کر پانی گرایا تاکہ وہ عورتیں حاملہ نہ ہو سکتیں اور انکی اچھی قیمت مل سکے]۔ پھر انہوں نے اللہ کے رسول ص سے اسکے متعلق پوچھا تو رسول اللہ ص نے فرمایا کہ تم چاہو یا نہ چاہو مگر اگر کسی روح کو پیدا ہونا ہے تو وہ پیدا ہو کر رہے گی۔
عزل والی یہ روایت صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں کئی طریقے سے روایت ہوئی ہے۔

رسول اللہ ص کی اس نص کو ٹھکراتے ہوئے قیاسات کے پیچھے بھاگنے سے قبل بہتر ہوتا کہ ایک نظر اپنی کتابوں اور اپنے علماء کے فتاوی پر دوڑا لیتے۔ الف یا ے آپکے تمام علماء اسی بات کا فتوی دے رہے ہیں، مگر جب بات عقد المتعہ کی آئے گی تو ہر ہر چیز کو نظر انداز کرنا ہی ایمان ٹہرا۔

اور "سفاح" اور "مسافحین" کی تعریف جو صحابہ نے کی ہے، وہ بھی آپکی کتب سے پیش کی جا چکی تھیں۔ مگر نہیں، اُن سب کی پیروی کرنے کی بجائے ان سب کو نظرانداز کرنا آپکا مذہب ٹہرا۔ سفاح سے مراد زنا ہی ہے اور عرب معاشرے میں "کھلے عام زناکاری" کرنے کو "مسافحین" کہا جاتا تھا۔


از شوکت کریم:
مگر وائے نصیب آخر میں صاحب تفسیر نمونہ اپنے ہی اوپر بیان کیے ہوئے الفاظ کی نفی کرتے ہوئے فما استمتعتم کے معانی کرنے کے بجائے م۔ت۔ع کے الفاظ لیتے ہیں

وائے نصیب، صاحب تفسیر نمونہ کے پیچھے اس لیے بھاگنے کے کہ انہوں نے کوئی بات آپکے قیاس کے قریب لکھ دی ہے، کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہدایت پیش ہو جانے کے بعد آپ ان نصوص کی پیروی کرتے بجائے اُن کو ٹھکرا کر آگے نکل جانے کے۔

ایک خیبر والی روایت ہماری کتب میں نکل آنے پر شور مچانے والے حضرات ذرا ایک نظر اپنی کتب میں ڈالیں جہاں دفتر کے دفتر گواہی دے رہے ہیں کہ رسول اللہ ص اور صحابہ کرام مسلسل عقد المتعہ کے لیے "استمتاع" کی اصطلاح استعمال کرتے تھے۔ تو کیا دلیل اور ثبوت ہے آپکے پاس کہ آپ رسول اللہ ص کی دی ہوئی گواہی کو ٹھکرا کر تفسیر بالرائے کرتے پھریں؟

جی ہاں، جن منکران حدیث کو آج تک اس لیے بُرا بھلا کہتے آئے، آج خود اسکی سب سے بڑی مثال بنے ہوئے ہیں۔

یہی وہی روش ہے کہ جب منکریں حدیث کا ایک گروہ سرے سے تمام قرآنی اصطلاحات کا ہی انکار کر دیتا ہے۔

جی ہاں، شریعت کی اصطلاح ہے "صلوۃ"۔ رسول اللہ ص نے بتلایا اس سے مراد ہے نماز۔ مگر یہ منکر حدیث کا فتنہ کہ اُس نے کہا کہ نہیں یہ نماز نہیں بلکہ اسکا مطلب ہے "دعا"۔ اس لیے انہوں نے نماز پڑھنا حرام کر دیا۔ اور جن آغاخانیوں کا آپ نے پیچھے متعہ کے لیے فخر سے حوالہ دیا ہے، یہ انہی منکر حدیث ٹولے سے تعلق رکھتے ہیں جنہوں نے نماز کا اس لیے انکار کیا ہوا ہے کہ انہیں آپکی طرح ان شریعت کی اصطلاحات سے الرجی ہے اور قڑآنی آیات سے کھلواڑ کرنے کے لیے انہوں نے سب سے پہلے حدیث کا انکار کیا۔

اب قرآن میں ذکر ہے کہ اللہ اور اُس کے فرشتے رسول ﷺ پر صلوۃ بھیجتے ہیں، اے ایمان والو تم بھی رسول ﷺ پر خوب صلوۃ و سلام بھیجو۔

اب یہاں پر رسول اللہ ﷺ پر صلوۃ بھیجنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ رسول اللہ ص کے حضور "نمازیں" پڑھنا شروع کر دو، بلکہ یہاں پر یہ لفظ اپنے لغوی معنی "دعا" کرنے میں استعمال ہوا ہے کہ رسول ﷺ کے لیے دعا کرو۔

مگر یہ منکرین حدیث کا سب سے بڑا دھوکہ باز ہتھیار کہ وہ مستقل طور پر اس چیز کو اپنے مفاد میں استعمال کر کے قرآن کی آیات سے کھلواڑ کر کے ہر جگہ صلوۃ سے مراد "دعا" کر کے سرے سے ہی اُس نماز کے منکر ہیں کہ جو رسول اللہ ص ساری زندگی ہر روز کئی کئی رکعات ادا کرتے تھے۔ تو اب اسکے مقابلے میں اب استمتاع کیا حیثیت رکھتا ہے کہ آپ نے اگر منکرین حدیث روش کو اپنا امام و پیشوا بنانا ہے تو پھر آپکو گمراہی میں جانے سے بھلا کون روک سکتا ہے۔

نہیں، اب آپ کو آپکی اس گمراہی سے کوئی نہیں روک سکتا:

1۔ نہ آپ کو اس سورۃ کا زمانہ نزول اس بات سے روک سکتا ہے کہ آپ یہ دیکھنے کے قابل ہو سکیں کہ یہ سورۃ کب نازل ہوئی اور اس سورت کے نزول کے سال ہا سال بعد تک صحابہ کرام خود اللہ کے رسول ﷺ کے حکم و اجازت سے عقد المتعہ کرتے رہے (یعنی نہ صحابہ اور نہ رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کا کبھی وہ مطلب سمجھا جو آپ آج زبردستی نکال رہے ہیں)

2۔ اور پھر رسول اللہ ص کی وفات کے نصف صدی بعد تک آپکے اپنے بلند پایہ ترین مفسر قرآن صحابی حضرت ابن عباس، اور پھر بلند پایہ ترین دیگر صحابہ و تابعین جابر بن عبداللہ انصاری، قتادہ، عطاء، سدی، سعید بن جبیر وغیرہ اور انکے سامنے موجود تابعین کے پورے کے پورے گروہ کبھی اپنی پوری زندگی میں اس آیت کا وہ مطلب نہیں نکال سکے جو آج آپ اس قرآنی آیت سے منکر حدیث روش کی مدد سے کھلواڑ کرتے ہوئے نکال رہے ہیں۔

3۔ اور ایک ابن عباس اور جابر ہی کیا، دعوی ہے کہ کوئی صحابی ایسا پیدا نہیں ہوا جس نے کبھی اس آیت کے متعلق وہ دعوی کیا ہو جو آج آپ کر رہے ہیں۔ جائیے، اور جا کر ڈھونڈیے اپنے لاکھوں احادیث کے ذخیرہ کتب میں، اور اگر مل جائے کسی صحابی کی ایک ایسی گواہی کہ اس آیت میں عقد المتعہ کو حرام بتایا جا رہا ہے تو اسے بطور ثبوت پیش کیجئے۔ اور اگر نہیں ملتی، تو اہل انصاف و عقل کو سمجھ آ جانا چاہیے کہ منکرین حدیث کے مختلف گروہ جس طرح صلوۃ و حج و جہاد جیسی شرعی اصطلاحات سے کھلواڑ کرتے آ رہے ہیں، تو استمتاع کے معاملے میں یہ لوگ کسی صورت ان منکرین حدیث گروہوں سے پیچھے نہیں اور انکی Tactics بالکل ایک جیسی ہیں، اور اس لیے ان پر آنے والی گمراہی بھی بالکل ایک جیسی ہی ہو گی۔

4۔ اور آپ اس چیلنج کے جواب میں 1400 سال سے لیکر آج تک ایک بھی روایت ایسی نہ پیش کر سکے کہ جو دعوی کرے کہ اس آیت میں عقد متعہ کو حرام کیا جا رہا ہے، ۔۔۔۔ مگر ہماری کتب میں خیبر پر ایک روایت پر اتنا شور مچانے والوں کے لیے کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ ان کی اپنی کتب میں دفتر کے دفتر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ یہ آیت بذات خود عقد المتعہ کے لیے نازل ہوئی ہے۔ عبداللہ ابن مسعود خود قڑان کے بہت بڑے عالم صحابی ہیں جن کے متعلق گواہی خود اللہ کے رسول ﷺ نے دی۔ اور پھر مزید شامل ہوئے اس میں ابی ابن ابی کعب جو پھر قرآن کے وہ عالم ہیں کہ رسول ﷺ نے پھر انکے لیے گواہی دی۔

اور ہمارا فرض تو فقط ہدایت و دلائل کو اچھے طریقے سے بیان کر دینا ہے۔ اور اللہ ہمارا گواہ ہے کہ ہم نے پیغام پہنچا دیا ہے۔ انشاء اللہ۔

***************

از شوکت کریم:

علل الشرائع باب 287 ۔شیخ صدوق رحمہ باب کا عنوان باندھتے ہیں وہ سبب جس کی بناء پر متعہ ایک مرد آزاد کو محصن و شادی شدہ نہیں بنا دیتا اور بیان کرتے ہیں کہ میرے والد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بیان کیا مجھ سے سعد بن عبداللہ نے روایت کرتے ہوئے احمد بن محمد بن عیسٰی سے انہوں نے حسین بن سعید سے انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے انہوں نے ہشام اور حفص بن بختری سے انہوں نے اس سے جس نے ان سے بیان کیا اور اس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اپنے اس سوال پر کہ ایک شخص اگر متعہ کرے تو وہ محصن اور شادی شدہ بن جائے گا۔ آپ نے فرمایا نہیں شادی شدہ تو عقد دائم کرنے سے ہوتا ہے (جبکہ محصن کا ذکر غائب ہے)۔

کاش کہ آپ آنکھیں کھول کر دوبارہ اس روایت کو پڑھ سکیں۔ اس میں دو چیزوں کے متعلق امام سے پوچھا جا رہا ہے:
1۔ محصن
2۔ شادی شدہ
اور جواب میں امام فقط "شادی شدہ" کے متعلق بیان کر رہے ہیں کہ عقد المتعہ کرنے والے شخص کو شادی شدہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ کچھ مدت بعد عورت اُس سے الگ ہو جاتی ہے، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے ایسے شخص کو جس کی بیوی کو طلاق ہو چکی ہو، شادی شدہ نہیں کہتے بلکہ رنڈوا(؟؟؟) کہا جاتا ہے۔
جبکہ محصن کے متعلق امام نے ایک لفظ بھی نہیں کہا ہے، اور یہ فقط آپ کی غلط فہمی ہے جو آپ ایک مسئلے کو کھینج کر دوسرے سے چسپاں کر رہے ہیں۔

از شوکت کریم:
علل الشرائع ہی سے غیر مسافحین کی تشریح دیکھیے۔
علل الشرائع باب 230 میں شیخ صدوق رحمہ لکھتے ہیں بیان کیا مجھ سے علی بن احمد نے انہوں نےکہا کہ بیان کیا مجھ سے محمد بن ابی عبداللہ نےروایت کرتے ہوئے محمد بن اسماعیل سے انہوں نے علی بن عباس سے انہوں نے قاسم بن ربیع صحاف سے انہوں نے محمد بن سنان سے انہوں نے کہا کہ حضرت ابوالحسن علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام نے ان کے مسائل کے جواب میں تحریر فرمایا کہ زنا کو اس لیے حرام قرار دیا گیا کہ اس میں بڑی خرابیاں ہیں اس کی وجہ سے نفوس قتل ہوتے ہیں، نسب ختم ہو جاتا ہے، اطفال کی تربیت متروک ہو جاتی ہے، میراث میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور اسی طرح اور بہت سی خرابیاں لازم آتی ہیں۔
اور ہم دیکھتے ہیں کہ متعہ میں میراث نہیں ، اور اطفال کی تربیت کی بھی کوئی گارنٹی نہیں اور نسب کی بھی کوئی ضمانت نہیں اور معاشرے میں بہت سی خرابیاں بھی لازم آتی ہیں۔

آپ ہزار بار ہر چیز کا انکار کرتے ہوئے ہزار بار اپنے غلط الزام کی تکرار کر سکتے ہیں، مگر حقیقت اپنی جگہ قائم و دائم اور واضح ہے کہ عقد المتعہ اور نکاح دائمی بالکل ایک چیز ہیں (سوائے مقررہ وقت کے بعد طلاق ہو جانے کے)، اور ان دونوں کا زنا سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ ان دونوں میں نہ نسب ختم ہوتا ہے، نہ بچے کی میراث ختم ہوتی ہے، اور عورت کا عدت رکھنا اس بات کی گارنٹی دیتا ہے کہ بچے کا نسب ٹھیک ٹھیک طریقے سے پتا چلے۔

اور اگر آپ پھر بھی بار بار عقد المتعہ کے لیے زنا کی تکرار کرتے رہیں گے، تو پھر یہی چیز کئی گنا زیادہ بدتر ہو کر باندیوں کی صورت میں خود جا کر آپکے گلے لپٹ جائے گی کہ جہاں کنیز کی عدت صرف استبرائے رحم ہے (جو تین دن سے شروع ہو جاتی ہے، یعنی تین دن بعد اگر وہ خون سے پاک ہو گئی تو نیا مالک اسکے ساتھ ہمبستری کر سکتا ہے)، اور کنیز عورت سے اگر نکاح کیا ہے تو بچے کا نسب سرے جاری ہی نہ ہو گا اور وہ بچہ غلام ہو گا، اسی طرح آپکی فقہ کا ریفرنس اوپر دیا جا چکا ہے کہ اگر مالک اپنے کنیز سے پیدا ہونے والے بچے کے نسب کا اقرار نہ کرے تو یہ نسب جاری ہی نہیں ہوتا اور اس صورت میں بھی بچہ غلام ہی تصور کیا جائے گا۔

چنانچہ اگر آپ غیر مسافحین کو زبردستی عقد المتعہ پر چسپاں کریں گے، تو بذات خود کنیز عورت کے معاملے میں غیر مسافحین اس سے کہیں گنا خطرناک صورت اختیار کر کے آپکے گلے جا پڑے گا۔

اگر آپ اپنی تکرار سے باز نہیں آئیں گے تو مجبورا ہمیں اپنے جوابات کو بھی تکرار کی صورت پیش کرنا ہو گا۔ افسوس کہ آپ کو اپنی آنکھ میں موجود شہتیر تک نظر نہیں آتا مگر دوسرے کی آنکھ کا تنکا بھی ناقابل معافی گناہ بنانے کی تکرار میں لگے رہتے ہیں۔


از شوکت کریم:
تفسیر ابن کثیر سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۲ کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ لکھتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک نوجوان نے زناکاری کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چاہی لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب بلا کر فرمایا، بیٹھ جا، جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ پر اللہ فدا کرے، ہر گز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سوچ لے کہ کوئی کیسے پسند کرے گا ؟ آپ نے فرمایا اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے ؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتا، اچھا اپنی بہن کے لیے اسے تو پسند کرے گا ؟ اس نے اسی طرح انکار کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح دوسرے بھی اپنی بہنوں کے لیے اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ بتا تو کیا چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے ؟ اس نے سختی سے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح کوئی اور بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے نہ چاہے گا، اچھا اپنی خالہ کےلیے ؟ اس نے کہا ہر گز نہیں فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الہٰی اس کے گناہ بخش اس کے دل کو پاک کر اسے عصمت والا بنا۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا۔

اب سوال اٹھتے ہیں !!!

اس نوجوان نے اپنے نفس کو زنا سے بچانے کے لیے متعہ کیوں نہ کیا ؟؟؟
دوسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو متعہ کی ترغیب کیوں نہ دی ؟؟؟؟
اور تیسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زنا سے متنفر کرنے کے لیے کس طرح کی مثالیں دیں ؟؟؟؟
اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ساری مثالیں متعہ پر بھی صادق آتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی یہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا!!!
اور حدیث کو پرکھنے کے لیے چند اقوال ان شاء اللہ آپ خود نتیجے سے آگاہ ہو جائیں گے۔

آپ اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کر نصوص کا انکار کرنے کی روش میں آزاد ہیں اور کوئی آپ کو اس گمراہی میں پڑنے سے نہیں روک سکتا۔ مگر ہم صرف اللہ سے دعا کر سکتے ہیں کہ آپ نصوص کو یوں اپنے قیاس کی مدد سے نہ جھٹلایا کریں۔ امین۔

سورۃ بنی اسرائیل، جس کا واقعہ آپ نے بیان کیا ہے، یہ سورۃ نازل ہوئی مکہ میں (یعنی مدینہ ہجرت سے قبل)۔ اور پھرگواہی موجود ہے آپکی کتب میں کہ مدینے میں اللہ کے رسول نے کئی مرتبہ صحابہ کرام کو عقد المتعہ کرنے کی منادی کروا کر یا براہ راست اجازت دی اور یہ کہتے ہوئے اجازت دی کہ پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کیوں کرتے ہو۔
اب آپ لاکھ اپنے قیاسی گھوڑے دوڑاتے رہیں، مگر ان نصوص کو آپ زمین میں نہیں گاڑھ سکتے، بلکہ یہ ہر مرتبہ آ کر آپکے قیاسی گھوڑوں کا راستہ روک دیں گی۔ انشاء اللہ۔

از شوکت کریم:
عیون اخبار رضا ج۲ ص 65 پر شیخ صدوق رحمہ لکھتے ہیں جب تمہارے پاس دو متضاد خبریں وارد ہوں تو ان دونوں روایات کو خدا کی کتاب کے سامنے پیش کرو۔ اور کتاب خدا میں جس کے حلال یا حرام ہونے کا ذکر موجود نہ ہو تو تم اس حدیث کی پیروی کرو جو کتاب اللہ کے موافق ہو۔ اور کتاب خدا میں جس کا تذکرہ موجود نہ ہوتو اس حدیث کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرو۔ اگر سنت پیغمبر میں اس کے متعلق نہی حرمت یا امر وجوبی وارد ہو تو تم اس حدیث کی پیرو ی کرو جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کے مطابق ہو۔

ابوجعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بعد کثرت سے حدیثیں بیان کی جائیں گی جو قرآن کے موافق ہو ہو میری حدیث ہے اور جو قرآن کے مخالف ہو وہ میری حدیث نہیں۔ (بیہقی)

فتح المغیث میں علامہ ابن جوزی رحمہ لکھتے ہیں ہر ایسی حدیث جو عقل کے مخالف یا اصول مسلمہ کے متناقض ہو تو جاننا چاہیے کہ وہ موضوعی ہے۔ پھر یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں کہ راوی ثقہ ہیں یا غیر معتبر، اسی طرح وہ حدیث جس میں ذرا سی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو یا معمولی کام پر بہت بڑے ثواب کا وعدہ ہو یا وہ حدیث جس میں لغویت پائی جائے یا جو محسوسات و مشاہدے اور نص قرآنی و سنت متواترہ کے خلاف ہے قطعًا قابل اعتبار نہیں ایسی مشتبہ اور وضعی حدیث کی نہ جرح و تعدیل کی ضروری ہے نہ سلسلہ اسناد کی تحقیق و تصدیق ایسی حدیث کی کوئی تاویل بھی قابل قبول نہیں۔

ملا علی قاری رحمہ لکھتے ہیں جو حدیث قرآن کے خلاف اور مشاہدہ کے خلاف ہو یا جس حدیث میں فضول باتیں یا رکیک مضمون و الفاظ ہوں اعتبار کے قابل نہیں۔ (موضوعات)

علامہ سخاوی کے مطابق جامع بخاری کے 435 راویوں سے مسلم نے روایت نہیں کی اور بمطابق حاکم نیشاپوری صحیح مسلم کے 625 راویوں سے بخاری نے روایت نہیں کی۔

امام ابن ہمام حنفی مصنف فتح القدیر صحیحین کو دوسری کتب صحاح سے زیادہ صحیح اور مقدم نہیں مانتے۔

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کسی حدیث کو حسن صحیح کہہ دینے پر دھوکا نہیں کھانا چاہیے اگر حدیث قرآن کے مطابق ہے تو درست ورنہ نہیں

یہ اگر ایک روایت ہوتی تو اسکے معنی میں شک کیا جا سکتا تھا مگر جب روایات کے دفتر کے دفتر گواہی دے رہے ہوں کہ اس آیت میں استمتاع سے کیا مراد ہے، اور مخالفت میں ایک بھی روایت موجود نہ ہو، تو یہ اس بات کی نشانی ہے رسول اللہ ص اور صحابہ نے اس آیت سے کبھی وہ مطلب نہیں نکالے جو آج منکر حدیث روش اپنانے ہوئے زبردستی نکالے جا رہے ہیں۔

مجھے فاروق صاحب کے مراسلوں کا جواب آخر میں دینا ہے، اور ادھر میں اور کھل کر اس حدیث کے انکار سے پیدا ہونے والے فتنوں و فساد پر گفتگو کروں گی جہاں آپ دیکھیں گے کہ بذات خود قرآن کو ہی ان منکرین حدیث کے مختلف گروہوں نے متضاد بنا دیا، اور ایک دعوی کرتا ہے قرآن میں "نماز" سرے سے ہی نہیں، تو دوسرا کہتا ہے کہ نماز ہے مگر تین وقت کی، جبکہ تیسرا گروہ اٹھتا ہے اور کہتا ہے کہ دو وقت کی نماز۔۔۔۔۔ پھر ایک اور گروہ اٹھتا ہے اور کہتا ہے حج زکوۃ جہاد کچھ چیزیں نہیں، پھر ایک اور گروہ اٹھتا ہے وہ کہتا ہے کہ سورج چاند کو سجدے نہیں مگر اللہ کے نبیوں کو سجدے کرنا ہیں، پھر ایک گروہ اٹھتا ہے وہ کہتا ہے عیسی موت دے دیے گئے تو دوسرا کہتا ہے کہ وہ اٹھا لیے گئے تو تیسرا کچھ اور کہتا ہے۔۔۔۔۔

تو یہاں قرآن کے خلاف ہونے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہو رہا، بلکہ تفسیر بالرائے کر کے قرآن کے اپنی مرضی کی تفسیر و معنی نکالنے کے فتنہ و فساد کا سوال ہے۔ ہر چیز شاہد ہے کہ رسول اللہ ص نے کبھی اس آیت کے وہ معنی نہیں لیے جو آج منکر حدیث روش کی پیروی کر کے زبردستی نکالے جاتے ہیں۔ تو ایسے زبردستی قرآنی آیات کے نکالے گئے معنی و مطلب آپ ہی کو مبارک ہوں، ہمیں تو اللہ اور اسکے رسول کی پیروی انہی کی تعلیمات کی روشنی میں کرنا ہیں۔ انشاء اللہ۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
قرآن اور حدیث کا مکمل طریقہ یہ ہے کہ ایک بات کے مختلف جُز کئی کئی جگہ بیان ہوتے ہیں اور ان سب کو اکھٹا کر کے مکمل بات کو سمجھا جاتا ہے۔ مگر ادھر شوکت بھائی صاحب الٹی گنگا بہا رہے ہیں اور اسکی وجہ ہمیں معلوم ہے۔آئیے اس روایت مکمل جائزہ لیتے ہیں اور جو طریقہ شوکت بھائی صاحب نے آزمایا ہے، اس سے تو ایک کیا بیسیوں حلال اللہ کو حرام بنایا جا سکتا ہے۔

لیں جی آپ اپنے دامن میں صیا د آ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہی تو ہم شروع سے کہتے آ رہے ہیں کہ ایک جگہ م۔ت۔ع آنے سے یہ کیسے ثابت ہوتا ہے کہ یہ آیت متعہ کی اجازت دے رہی ہے جب کہ خود یہی آیت اور اس کے علاوہ بے شمار آیات مرد و زن کے تعلقات کے بارے میں کچھ اور بتا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ہماری سنتا کون ہے !!!

ذرا اس اصول پر مندرجہ ذیل اجزاء جو کہ نکاح اور مرد و عورت کے درمیان تعلقات پر مبنی ہیں اکٹھا کیجے اور اور مکمل بات سمجھنے کی کوشش کیجئے اور پھر بتائیے کہ کیسے آپ حرام اللہ کو حلال بنا رہی ہیں۔

اور اگر تم کو اس بات کو خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو ان کے سوا جو عورتیں تم کو پسند ہوں دو دو یا تین تین یا چار چار ان سے نکاح کر لو اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ کئ عورتوں سے انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی عورت سے نکاح کرو یا باندی سے تعلق رکھو جس کے تم مالک ہو اس طرح تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔ 4 النسآء 3

اور شوہر والی عورتیں بھی تم پر حرام ہیں مگر وہ جو قید ہو کر باندیوں کے طور پر تمہارے قبضے میں آ جائیں یہ حکم اللہ نے تم کو لکھ دیا ہے۔ اور ان محرمات کے سوا دوسری عورتیں تم کو حلال ہیں اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے ان سے نکاح کر لو بشرطیکہ نکاح سے مقصود عفت قائم رکھنا ہو نہ کہ شہوت پرستی۔ تو جن عورتوں سے تم لطف اندوز ہوئے ان کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کر دو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے مہر میں کمی بیشی کر لو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ بیشک اللہ سب کچھ جاننے والا ہے حکمت والا ہے۔ 4 النسآء 24

اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن باندیوں ہی سے جو تمہارے قبضے میں آ گئ ہوں نکاح کر لے اور اللہ تمہارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو۔ پھر ان لونڈیوں کے ساتھ ان کے مالکوں سے اجازت حاصل کر کے نکاح کر لو۔ اور دستور کے مطابق ان کا مہر بھی ادا کر دو بشرطیکہ وہ پاکدامن ہوں۔ نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں۔ پھر اگر وہ نکاح میں آ کر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لئے ہے اس کی آدھی ان کو دی جائے۔ یہ باندی کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت اس شخص کو ہے جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو۔ اور یہ بات کہ صبر کرو تمہارے لئے بہتر ہے اور اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ 4 النسآء 25

آج تمہارے لئے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہل کتاب کا کھانا بھی تم کو حلال ہے اور تمہارا کھانا انکو حلال ہے۔ اور پاکدامن مومن عورتیں اور پاکدامن اہل کتاب عورتیں بھی حلال ہیں جبکہ ان کا مہر انہیں دے دو۔ اور نکاح سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی۔ اور جو شخص ایمان کا منکر ہوا اس کے عمل ضائع ہو گئے۔ اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں ہو گا۔ 5 المآئدۃ 5

اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو۔ اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں نکاح کر دیا کرو اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے گا۔ اور اللہ بہت وسعت والا ہے سب کچھ جاننے والا ہے۔ 24 النور 32

اور جنکو بیاہ کا مقدور نہ ہو وہ پاکدامنی کو اختیار کئے رہیں یہاں تک کہ اللہ انکو اپنے فضل سے غنی کر دے۔ اور جو غلام تم سے مکاتبت یعنی مال دیکر پروانہ آزادی کی تحریر چاہیں اگر تم ان میں صلاحیت اور نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ نے جو مال تمکو بخشا ہے اس میں سے انکو بھی دو۔ اور اپنی باندیوں کو اگر وہ پاکدامن رہنا چاہیں تو دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لئے بدکاری پر مجبور نہ کرنا اور جو انکو مجبور کرے گا تو ان بیچاریوں کے مجبور کئے جانے کے بعد اللہ بخشنے والا ہے مہربان ہے۔ 24 النور 33

اس روایت کا موضوع تعلقات کی مختلف اقسام نہیں بلکہ عورت اور مرد کی "غیرت" کا فرق ہے۔

سبحان اللہ کیا نتیجہ اخذ کیا ہے۔۔ ۔۔ روایت سیدھی سادھی اور کسی بھی پیچیدگی سے پاک جو سیدھا سیدھا بتا رہی ہے کہ مرد وں کے لیے غیرت رکھی ہے اس لیے کہ مردوں کے لیے چار آزاد عورتیں اور لونڈیاں حلال کی گئی ہیں۔ اور کہیں بھی زن ممتوعہ کا ذکر نہیں۔ اگر لونڈیوں کا ذکر ہے تو زن ممتوعہ کا ذکر اور بھی ضروری تھا۔

پہلا یہ کہا جا رہا ہے کہ اللہ نے مرد کے لیے صرف چار عورتیں حلال کر دیں۔ تو اس کو بنیاد بناتے ہوئے فتوی دے دیں کہ طلاق حرام ہے۔۔۔

یہ اس بات کا جواب ہے متعہ میں تعداد کی کوئی حد نہیں ۔۔ اگر متعہ نکاح ہےاور قرآن کی آیات سے ثابت ہے تو کیا اس پر نکاح والے قوانین کا اطلاق نہیں ہوتا۔ نکاح میں تو طلاق کے بعد دوبارہ شادی نہیں کر سکتےالا کہ کہیں اور شادی ہو اور پھر اتفاقا وہ عورت پھر بیوہ ہو جائے یا طلاق پا جائے اور جس عورت کو (9) طلاقیں پڑ جائیں وہ پھر کبھی بھی اسی خاوند کو نہیں مل سکتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

من لا یحضر الفقیہ باب عدہ میں شیخ قدوس رحمہ لکھتےہیں اور جو شخص اپنی عورت کو طلاق عدہ (تین طلاق ) دے دے پھر وہ عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح کر لے اور وہ اس کو طلاق دے دے اس کے بعد اس کا پہلا شوہر اس سے نکاح کرے اور پر اس کو طلاق عدہ دے دے اور وہ عورت کسی مرد سے نکاح کرے اور اس کو طلاق دے دے اور وہی پہلا شوہر اس سے پھر نکاح کرے اور پھر اس کو طلاق عدہ دے دے تو اب یہ عورت اس پہلے مرد سے جدا ہو جائے گی اور ان نو طلاقوں کے بعد تاابد وہ اس کے لیے حلال نہ ہو گی۔

مگر متعہ میں ایسا کچھ نہیں نہ کوئی تعداد کی حد اور نہ شادی کی حد ۔۔۔بار بار ایک عورت سے متعہ کیا جا سکتا ہے چاہے جتنی بارہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اگر اس کے قوانین نکاح سے ہٹ کر ہیں تو پھر یہ کہاں سے اخذ کیے گئے ہیں اور کن لوگوں نے اخذ کیے ہیں۔

4594۔ حماد نے ابی بصیر سے روایت کی ہے کہ ان کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے متعہ کے متعلق دریافت کیا گیا کہ آیا اس کا شمار چار (نکاحوں) میں ہے ؟ آپ نے فرمایا نہیں اور نہ ستر (70) میں سے (یعنی کوئی حد نہیں)۔

دوسرا پھر ان لونڈیوں کا ذکر ہے جو ملکیت میں ہیں۔ ۔۔۔۔ مگر پھر اُن لونڈیوں کا کیا جو کہ ملکیت میں تھیں، اُن سے جماع کیا گیا اور پھر آگے بیچ دیا گیا؟

روایت کو غور سے دیکھیں اس میں چار آزاد عورتوں اور لونڈیوں کا صریحاً ذکر کیا گیا ہے۔ ۔۔۔۔۔ اگر ممتوعہ کی گنجائش ہوتی تو اس کا ذکر بھی لازماً ہوتا۔

1۔ اس خیبر والی روایت کا ایک روای ہے "حسین بن علوان"، جس کے متعلق رجال کشی میں صاف لکھا ہے "یہ عامۃ " سے تعلق رکھتا ہے (یعنی غیر شیعہ ہے)۔ 2۔ اور دوسرا شخص ہے "عمرو بن خالد" جو کہ پھر غیر شیعہ ہے۔ اور اس شخص پر جو آپ لوگوں نے اتنا تکیہ کر کے یہ شور مچایا ہوا ہے، تو اس کی حقیقت آپ پہلے اپنی کتابوں میں تو دیکھ لیں۔

محترمہ آپ بھول رہی ہیں اب دلائل آپکی کتابوں سےدیے جا رہےہیں ۔ اور مزید دیکھئے کہ یہ راوی کتنےثقہ اور معتبر ہیں ۔۔۔۔۔ جبھی تو تقیہ کی چھتری استعمال کرنا پڑی۔ اور ان شاء اللہ راویوں کی ثقاہت بھی آپ ہی کی کتابوں سے ثابت کی جائے گی۔

حسین بن علوان کے بارے میں

وثقه أحمد عبدالرضا البصري في فائق المقال ( ص 104 ) برقم 321
ووثقه النوري الطبرسي في خاتمة المستدرك - ج 4 - ص 314 - 316
و المفيدمن معجم رجال الحديث مختصر كتاب الخوئي - محمد الجواهري - ص 173
3500 - 3499 - 3508 - الحسين بن علوان : الكلبي عامي – ثقة .
وفي كتاب مشايخ الثقات - غلام رضاعرفانيان - ص 6368 - الحسين بن علوان ، ثقة .

اور یہ عمرو بن خالد کی ثقاہت کے بارے میں۔
وثقه الخوئي حيث قال : ( الرجل ثقة بشهادة بن فضال ) المعجم 14/ 103
وقال الشيخ علي النمازي الشاهرودي في - مستدركات علم رجال الحديث - ج 6 - ص 36
( إنه إمامي اثنا عشري بحكم نقله هذين الخبرين ، ثقة بشهادة ابنفضال ، كما اختاره المامقاني . والقدر المسلم كونه موثقا )
وقال المامقاني : ( موثق ) 1/113

یہ روایت بر مبنی تقیہ ہے کیونکہ یہ (خیبر میں ممانعت کا) عقیدہ ہمارے مخالفین کا ہے۔ اور جو علم رکھتے ہیں وہ اس سے ہوشیار رہیں کیونکہ ائمہ اہلبیت کے نزدیک بلاشبہ عقد المتعہ بالکل مباح ہے۔

یہی تو لطیف نکتہ ہے جب بقول آپکے راوی ہی ثقہ نہیں تو پھرشیخ صاحب نے تقیہ کی چھتری کےنیچے کیوں پناہ لی ؟؟؟؟؟؟؟ اور یہی تاویل بتاتی ہے کہ جب روایت کو کسی اور طرح سے رد نہ کیا جا سکا تو پھر تقیہ کا راگ الاپ دیا اور قصہ ہی ختم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ لو ہم تو نہیں مانتے اب کر لو جو کرنا ہے۔

آئیے ذرا اب "یوم خیبر" پر پیش آنے والے واقعات پر ایک نظر ڈالتے ہیں:

سبحان اللہ منظر کشی تو ایسے کی گئی ہے جیسے آنکھوں دیکھا حال بیان کیا جا رہا ہے۔ پتہ نہیں سلف کو یہ خیال کیوں نہیں آیا ورنہ وہ تقیہ کی چھتری کے نیچے پناہ لینے پر مجبور نہ ہوتے۔

اور اگر تم کو اندیشہ ہو کہ تم یتیم لڑکیوں میں انصاف نہ کر سکو گے تو عورتوں سے اپنی مرضی کے موافق دو دو اور تین تین اور چار چار نکاح کرو پھر اگر تمہیں اس کا اندیشہ ہو کہ تم انصاف نہ کر سکو گے تو ایک ہی پر اکتفا کرو یا جو تمہاری زرخیز ہو یہ تدبیر بے انصافی نہ کرنے کی بہت قرین قیاس ہے اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی خوشی دے ڈالو پھر اگر وہ خوشی خوشی تمہیں کچھ چھوڑ دیں تو شوق سے نوش جاں کھاؤ پیؤ۔ (سورۃ النساء4:3)

قرآن کی آیت بیچ میں کیسے لے آتی ہیں آپ۔۔۔۔ جب زن متعہ چار میں شامل نہیں تو اس پر قرآنی احکامات کیسے لاگو ہو سکتے ہیں ۔ ۔۔۔جیسے کہ یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ قرآنی احکامات یا تو چار عورتوں کے بارے میں ہیں یا لونڈیوں کے بارے میں اور اگر آپ زن ممتوعہ پر قرآن احکامات لاگو کرتی ہیں تو سارے کریں جیسے طلاق کے بعد اسی عورت سے دوبارہ شادی نہیں کی جا سکتی ؟؟؟؟ یہ کیا جہاں دل چاہا قرآنی احکامات لاگو کر لیے اور جہاں دل چاہا ہاتھ جھاڑ کر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔۔

اور روایت کا صحیح ترجمہ یہ ہے:امام جعفر الصادق نے متعہ کے متعلق ہشام سے کہا: "یہاں (عربی لفظ "عندنا") پر صرف فاجرہ (فاجرہ عورتیں یعنی دھندہ کرنے والی گندی عورتیں) ہی یہ کرتی ہیں۔"

سبحان اللہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ دھندے والی عورتیں کیا کرتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟ یا دھندے والی عورت کے پاس جا کر کیا کیا جاتا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اور اس سے تو میرا مفہوم اور واضح ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہ یہ ایسا کام ہے کہ جو دھندے والی عورتیں ہی کرتی ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مطلب با نسب اور شریف اور پاکدامن و عفیف عورتیں ایسا نہیں کرتیں۔

باقی نیچے جو آپ نے سیدھی سادھی بات کی تفسیر بالرائے کی ہے اس سے روایت کی حیثیت یا معنویت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔

4585 وروى الحسن بن محبوب، عن أبان، عن أبي مريم عن أبي جعفر عليه السلام قال، " إنه سئل عن المتعة، فقال: إن المتعة اليوم ليست كما كانت قبل اليوم، إنهن كن يؤمن يؤمئذ، فاليوم لا يؤمن فاسألوا عنهن
امام جعفر صادق سے عقد المتعہ کے متعلق دریافت کیا گیا جس پر آپ نے جواب دیا کہ "آجکل" (الیوم) عقد المتعہ ویسا نہیں رہ گیا ہے جیسا کہ پہلے دنوں میں ہوا کرتا تھا (یعنی پاکدامن محفوظ عورتیں عقد المتعہ کو حلال جانتے ہوئے راضی ہو جاتی تھیں)۔ چنانچہ آجکل اس پر ایسے یقین نہیں کیا جاتا چنانچہ (جن عورتوں سے تم متعہ کرو) انکے متعلق پوچھ لیا کرو۔

یہ حدیث بھی سلیم طبع لوگوں کے حق میں جاتی ہے اور اگر بریکٹ میں موجود تشریح بالرائے کو نظر انداز کر کے دیکھا جائے تو بہت ساری باتوں کا انکشاف ہوتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ شروع سے ہی لوگ اس چیز کو پسند نہیں کرتے تھے کہ یہ طبع سلیم پر ناگوار ہے، حسب و نسب کی قاتل ہے، وراثت کی دشمن ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور انہیں من مانی تشریحوں اور دلائل اور فضائل سے قائل کیا جاتا رہا اور کیا جا رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسرے یہ کہ کسی دور میں جو نکاح موقت ہوتا تھا وہ مخصوص حدود و قیود کے ساتھ ہوتا تھا اور پھر اس کی بھی ممانعت فرما دی گئی۔ اور یہ جو آج متعہ کی شکل ہمارے سامنے ہے اس کو عامۃ الناس نے مسترد کر دیا اور صرف کسبیوں نے اپنے فائدے کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا۔ اور امام جعفر صادق رحمہ کے زمانے میں بھی لوگوں نے اس کو شرف قبولیت نہیں بخشا۔

چنانچہ جب تک رسول اللہ ﷺ کے دور سے لیکر ابن عباس کے شاگردوں کے دور تک میں معاشرے میں عقد المتعہ کا رواج رہا اور زناکاری نہیں پھیلی۔

اور پچھلی پوسٹوں میں جو رجم کے واقعات پیش کیے گیے ہیں وہ کس دور کے ہیں۔؟؟؟ اور پھر خود حضرت علی کے دور میں رجم اور حد کے واقعات کس شمار میں ہوں گے ؟؟؟ اور پھر آج کے ایران میں تو کوئی عمر رضی اللہ عنہ نہیں۔۔۔ مگر اس کے باوجود رجم کے واقعات ہو رہے ہیں وہ کس شمار میں ہیں ؟؟؟

ایک خیبر والی روایت ہماری کتاب میں موجود تو اُس پر اتنا شور، مگر ابن عباس اور جابر بن عبداللہ انصآری اور ابو نضرہ، قتادہ، عطاء، عروۃ بن زبیر وغیرہ کی گواہیوں کی کوئی اہمیت ہی نہیں جو آپکی اپنی کتابوں میں درج کہ انہیں نصف صدی گذر جانے کے باوجود کسی ایسے واقعے کا علم نہیں کہ جہاں رسول اللہ ص نے عقد المتعہ کو حرام ٹہرایا ہو۔ اسی لیے تو میں کہتی ہوں کہ آپ کے یہ دہرے رویے وہ ہیں کہ جس کے بعد انسان کو دوسرے کی آنکھ کا تنکا تو نظر آتا ہے، مگر اپنی آنکھ کا شہتیر نہیں۔ آپ بے شک اپنے پر ہزار خون معاف کر لیں، مگر اس سے حقیقت بدلنے والی تو نہیں۔

پھر وہی رونا دھونا اور کوسنے ۔۔۔۔۔۔اجی یہ ایک صرف خیبر والی روایت نہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ شیر خدا کی روایت ہے۔۔۔۔اور ہمیں انکار نہیں کتابوں میں دونوں طرف کی روایتیں مذکور ہیں۔ اور جیسا کہ آپ نے کہا قرآن اور حدیث کا مکمل طریقہ یہ ہے کہ ایک بات کے مختلف جُز کئی کئی جگہ بیان ہوتے ہیں اور ان سب کو اکھٹا کر کے مکمل بات کو سمجھا جاتا ہے۔ اور جب سب کچھ اکٹھا کر کے اللہ کی دی ہوئی عقل کی روشنی میں اللہ کے بتائے ہوئے طریقہ سے دیکھا تو یہی معلوم ہوا کہ اس چیز کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور ممانعت کا پلڑا بھاری ہے۔ اور یہی مذہب اہل سنت کا ہے ، فرقہ زیدیہ و فرقہ اسماعیلیہ و فرقہ بوہریہ کا ہے۔

اس پلڑے میں قرآن ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے اور انکی ازدواجی زندگی ہمارے سامنے ہے۔ ممانعت کی واضح حدیثیں ہیں۔
اور ابوبکر ، عمر ، عثمان رضی اللہ عنہم کی ازدواجی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے لے کر امام حسن عسکری رحمہ سب کی ازداوجی زندگیاں ہمارے سامنےہیں۔
اور سلمان فارسی، ابوذر غفاری، مقداد بن اسود، عمار بن یاسر، حذیفہ یمانی، ابو الہیثم بن تیہان، سہل بن حنیف، عبادہ بن صامت، ابوایوب انصار، خزیمہ بن ثابت ذوالشہادتین، ابو سعیدخدری رضی اللہ عنہم جیسے صحابہ کی زندگیاں ہمارے سامنے ہیں۔
اور ان سے وابستہ کہیں کوئی مثال متعہ کی نہیں ملتی۔
اور کیا اتنے زیادہ لوگوں کی گواہی کی آپ کے نزدیک کوئی اہمیت ہے!!!
اب بتائیں تنکا کہاں ہے اور شہتیر کہاں؟؟؟؟؟؟
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور "سفاح" اور "مسافحین" کی تعریف جو صحابہ نے کی ہے، وہ بھی آپکی کتب سے پیش کی جا چکی تھیں۔ مگر نہیں، اُن سب کی پیروی کرنے کی بجائے ان سب کو نظرانداز کرنا آپکا مذہب ٹہرا۔ سفاح سے مراد زنا ہی ہے اور عرب معاشرے میں "کھلے عام زناکاری" کرنے کو "مسافحین" کہا جاتا تھا۔

میں نے حصن اور مسافحین کی تعریف آپکی ہی تفسیر ، تفسیر نمونہ سے من و عن پیش کی ہے لنک بھی حاضر ہے اس طرح یہ اعتراض مجھ پر نہیں صاحب تفسیر نمونہ پر جاتا ہے۔

وائے نصیب، صاحب تفسیر نمونہ کے پیچھے اس لیے بھاگنے کے کہ انہوں نے کوئی بات آپکے قیاس کے قریب لکھ دی ہے، کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہدایت پیش ہو جانے کے بعد آپ ان نصوص کی پیروی کرتے بجائے اُن کو ٹھکرا کر آگے نکل جانے کے۔

یہ چیلنج تھا برادر میر انیس کی طرف سے کہ انکی کتابوں سےحوالے اور ممانعت پیش کی جائے۔ آپ کیوں اتنا سیخ پا ہو رہی ہیں۔ دوسروں کے گھر آگ لگے تو ہاتھ سینکے جاتےہیں اور جب اپنے گھر کی بات ہو تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


اور آپ اس چیلنج کے جواب میں 1400 سال سے لیکر آج تک ایک بھی روایت ایسی نہ پیش کر سکے کہ جو دعوی کرے کہ اس آیت میں عقد متعہ کو حرام کیا جا رہا ہے، ۔۔۔۔ مگر ہماری کتب میں خیبر پر ایک روایت پر اتنا شور مچانے والوں کے لیے کس قدر عبرت کا مقام ہے کہ ان کی اپنی کتب میں دفتر کے دفتر اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ یہ آیت بذات خود عقد المتعہ کے لیے نازل ہوئی ہے۔ عبداللہ ابن مسعود خود قڑان کے بہت بڑے عالم صحابی ہیں جن کے متعلق گواہی خود اللہ کے رسول ﷺ نے دی۔ اور پھر مزید شامل ہوئے اس میں ابی ابن ابی کعب جو پھر قرآن کے وہ عالم ہیں کہ رسول ﷺ نے پھر انکے لیے گواہی دی۔

یہ ایک سیدھی سی بات ہے جو کسی بھی تھوڑے سے پڑھے لکھے کو پڑھ کو سمجھ آ سکتی ہے۔ کہ اس آیت سے عقد متعہ کی نفی ہوتی ہے نہ کہ اثبات۔ اور روایات کے بارے میں ۔۔۔۔۔۔ میں عرض کر چکا ہوں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کوئی روایت قرآن کے مقابل نہیں آ سکتی۔ الا کہ کوئی اس سے من چاہے مطلب نکالے ۔۔۔۔

1۔ محصن2۔ شادی شدہ اور جواب میں امام فقط "شادی شدہ" کے متعلق بیان کر رہے ہیں کہ عقد المتعہ کرنے والے شخص کو شادی شدہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ کچھ مدت بعد عورت اُس سے الگ ہو جاتی ہے،

خدا کی پناہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دیکھنے والے اور پڑھنے والے خود فیصلہ کر لیں گے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ حدیثوں سے کیسے من چاہے مطلب نکالے جا رہے ہیں۔

سورۃ بنی اسرائیل، جس کا واقعہ آپ نے بیان کیا ہے، یہ سورۃ نازل ہوئی مکہ میں (یعنی مدینہ ہجرت سے قبل)۔ اور پھرگواہی موجود ہے آپکی کتب میں کہ مدینے میں اللہ کے رسول نے کئی مرتبہ صحابہ کرام کو عقد المتعہ کرنے کی منادی کروا کر یا براہ راست اجازت دی اور یہ کہتے ہوئے اجازت دی کہ پاکیزہ طیبات و حلال چیزوں کو اپنے اوپر حرام کیوں کرتے ہو۔

اللہ اکبر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے کوئی سورہ بنی اسرائیل کا واقعہ بیان نہیں کیا ۔۔۔۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ یا تو آپ بوکھلا گئی ہیں یا آپ کے مطالعے میں گہرائی نہیں ہے۔ میں نے یہ بیان کیا ہے کہ اس آیت کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ نے مسند احمد سے یہ حدیث نقل کی ہے۔ اور اس سے یہ کہاں ثابت ہوتا ہے کہ حدیث مکی ہے۔

یہ اگر ایک روایت ہوتی تو اسکے معنی میں شک کیا جا سکتا تھا مگر جب روایات کے دفتر کے دفتر گواہی دے رہے ہوں کہ اس آیت میں استمتاع سے کیا مراد ہے، اور مخالفت میں ایک بھی روایت موجود نہ ہو، تو یہ اس بات کی نشانی ہے رسول اللہ ص اور صحابہ نے اس آیت سے کبھی وہ مطلب نہیں نکالے جو آج منکر حدیث روش اپنانے ہوئے زبردستی نکالے جا رہے ہیں۔

چلیں آپ بتا دیں کہ متعہ النساء کا کیا مطلب ہوا ؟؟؟ یا پھر یہ لفظ بے مطلب ہے اور اصطلاحی ہی ہے ۔ بنا کسی مطلب کے۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
از: میر انیس: بھائی معاف کیجئے گا میرے پاس آپ سے بحث کا وقت نہیں کیوں کہ میں صرف بحث اصلاح کیلیئے کرتا ہوں چاہے میری ہو یا دوسرے کی دونوں میں میرا ہی فائدہ ہے۔دوسرے اگر آپ مولا علی اور امام حسن اور حسین کی فضیلت بذبان علماء اہلِ سنت میں نے سنائی تو وہ تو میرے محترم بھائی شوکت کریم نے جب تذکرہ چھیڑہ تو مجھ سے نہیں رہا گیا ۔ ممکن ہے یہ تزکرہ انہوں نے صحابہ کی اس سنت کو مدِ نظر رکھ کر کیا ہے کہ جب صحابہ اکرام کو یہ دیکھنا ہوتا تھا کہ اس محفل میں کتنے مومن ہیں اور کتنے منافق تو وہ مولا علی کا تذکرہ چھیڑ دیتے تھے جس کا چہرہ کھل اٹھا اسکو مومن جان لہتے تھے اور جس کے چہرے کا رنگ اڑ گیا یا وہ بے چین نظر آنے لگا سمجھ جاتے تھے کہ وہ منافق ہے۔ ہوسکتا ہے اس محفل میں بھی شوکت کریم بھائی یہی دیکھنا چاہ رہے ہوں
میرے محترم آپ یہ دوغلا رویہ کب ترک کریں گے؟ ایک طرف تو آپ بار بار وقت کی قلت کا رونا روتے ہیں اور دوسری طرف اپنی ہر پوسٹ میں ایک متنازعہ بات کر جاتے ہیں، ایک سلگتی ہوئی بات کر جاتے ہیں کہ جس کے جواب میں گونگا بھی خاموش نہ رہے اور الزام آپ کا صدیق بھائی پر ہے، بغل میں‌ چھری منہ میں‌ رام رام، آپ تو اس کی مجسم تفسیر بنے ہوئے ہیں باتیں تو بڑے پیار سے شروع کرتے ہیں مگر بیچ میں‌ اس پیار کا لبادہ اوڑھ کر وہی الزام اور تعصب ہی ہوتا ہےاب مسئلہ یہ ہے کہ صدیق بھائی کو شاید یہ دو رخی کا طریقہ نہیں آتا اور وہ میری طرح سیدھی بات منہ پر کرنے کے عادی ہیں اسی لیےوہ سب ڈائریکٹ کہہ دیتے ہیں اور اسی کھری بات کی وجہ سے آپ آسانی سے ان پر متعصب ہونے کا لیبل لگا کر اپنا الو سیدھا کر لیتے ہیں، حالانکہ آپ کے تو مذہب کی %90 بنیاد ہی جھوٹ ہے اور جو جھوٹ نہ بولے، تقیہ نہ کرے وہ آپ کے مذہب کے نزدیک گمراہ ہے۔ یہ میں نہیں‌کہہ رہا آپ کے بڑے کہہ رہے ہیں، آپ کے سلف کہہ رہے ہیں، آپ کی ساری معتبر کتابیں کہ رہی ہیں اور خور آپ کا عمل چیخ چیخ کے کہہ رہا ہے۔ اور جہاں تک تذکرہ علی سلام اللہ علیہ کی بات ہے تو آپ نے اپنے مقصد کے لیے کتنی مکاری سے کام لیا ہےجناب من آپ کن صحابہ سلام اللہ علیہ کی بات کر رہے ہیں وہ جو آپ کے نزدیک تین کے علاوہ سب "گمراہ" ہو گئے تھے؟ آئیں‌نا میں‌آپ کو سنت صحابہ سلام اللہ علیہ کی یاد دلاوں جہاں تذکرہ علی سلام اللہ علیہ منافق اور مومن کی پہچان ہے وہیں تذکرہ عمر سلام اللہ علیہ مسلمان اور کافر کی بھی پہچان ہے او ر حدیث تو یہ ہے کہ عمر سلام اللہ علیہ کو دیکھ کر شیطان بھی اپنا راستہ بدل لیتا ہے، اور آج عمر سلام اللہ علیہ کا نام پڑھ کر پھونک مارو تو پتا چل جاتا ہے کہ کون کون شیطان کا چیلا ہے اور اپنے اصل گرو کے راستے پر چلتے ہوئے راستہ بدل کر بھاگ رہا ہے۔ ایک چھوٹا سا ٹیسٹ کرتے ہیں‌کہ میں‌یا علی علی کا نعرہ لگاتا ہوں‌اور کہتا ہوں کہ علی سلام اللہ علیہ پر میری جان بھی قربان، میرے ماں باپ بھی قربان، میری ہر سانس قربان، اب عمر سلام اللہ علیہ کے نعرے کی باری ہے اگر صدا نہ آئی تو پتا چل جائے گا کہ مومن ومنافق کا فرق کیا ہے اور مسلمان و کافر کا فرق کیا ہے؟؟؟؟؟؟؟
بے شک علی نام ہے حق کا اور فرق ہے مومن اور منافق کا مگر علی سلام اللہ علیہ کے بارے میں‌یہ حدیث بھی ہے کہ علی تیرے بارے میں‌ دو گروہ ہوں‌گے ایک وہ جو تجھ سے بغض رکھے گا اور ترا ذکر ان کو تکلیف میں‌ مبتلا کر دے گا ( گویا مومن اور منافق کی پہچان، اور جناب انیس آپ نے یہاں‌تک بیان کیا چلیں‌ آگے میری زبانی سنیں) اور دوسرا وہ گروہ جو تیری محبت میں اتنا غلو کرے گا کہ تجھے مافوق الفطرت بنا دے گا اور یہ دونوں گروہ گمراہ ہیں۔ اب یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ علی سلام اللہ علیہ کی سچی محبت پر قائم رہتے ہوئے ان کے اصل تقد س کو کس نے محفوظ رکھا ہے اور ان کی محبت کو غلو بنا کر انھیں‌‌ خدا کس نے سمجھا ہے؟؟؟؟؟اور تاریخ گواہ ہے کہ علی سلام اللہ علیہ نے کس کو آگ میں‌ڈلوایا اور کیوں؟؟؟ جن کو آگ میں‌ ڈلوایا ان کا جرم یہ تھا کہ انھو ں‌نے کھل کر کہہ دیا کہ علی خدا ہیں اور یہی کام آپکا بھی ہے مگر ڈھکے چھپے انداز میں، یقین نہ آئے تو اپنی کتابیں غور سے پڑھیں‌ اور اگر پھر سمجھ نہ آئے تو مجھے بتا ئیں میں‌آپ کو یہ سب کچھ آپ ہی کی کتابوں‌سے نکا ل کر دکھاتا ہوں۔
اب خدارا اپنی دفعہ متعصب متعصب کی چیخ و پکار کرنے سے پہلے اسی پوسٹ کے اوپراپنا اقتباس ضرور پڑھ لیجیئے گا کہ یہ آپ کی اسی پوسٹ کا جواب بنتا ہے کہ نہیں؟؟ حالانکہ میں‌ تو آپ سے بار ہا استدعا کرتا رہا کہ خدارا موضوع پر قائم رہیں اور ادھر ادھر کی باتیں نہ کریں مگر آپ کہ جب بھی پوسٹ میں آئے آپ نے ہمیشہ یہی چھیڑ خانی کی ہے اور الزام سارا جناب صدیق صاحب پر رکھا ہے لیکن یہ بھول گئے ہیں کہ ان کو بھڑکانے کا کام آپ کا ہی ہے اور ابھی میری اس پوسٹ کا محرک بھی آپ کی یہی روش ہے۔ آپ نے دلیل والی اور نص والی کوئی بھی پوسٹ کی ہے کیا؟ اور آخر میں آ کر اپنی مرضی سے اپنے پسندیدہ پو ائنٹ اٹھا کر اپنی من چاہی بات بیان کر دی اور باقی سب چھوڑ دیا، یہ ہے آپ کی اصلاح کی حقیقتت؟؟؟؟ محرم کے روزے والے دھاگے کا آپ نے ذکر کیا تو جناب میں نے تو وہاں بالکل اصولی بات کی تھی اور اس کا اندازہ میری پوسٹ کے نیچے شکریہ کے ٹیگ سے لگا سکتے ہیں۔ اور میں نے جناب سویدا کو بھی غلط کہا تھا صرف آپ کو نہیں مگر انھوں‌ نے فراخدلی سے میرے پوائنٹ کو سمجھا اور میرا آپ کی طرح بجائے بھڑکنے کے شکریہ بھی ادا کیا اور آپ جو رواداری کا نعرہ لگاتے ہیں اور تعصب سے بچنے کا دعویٰ کرتے نظر آتے ہیں آپ اتنی سی بات پر ہی بھڑک گئے اور اتنا ظرف نہ رکھا کہ میری اصولی بات کا شکریہ بھی ادا کر سکتے۔ یہ ہے آپ کی اصلاح‌کا اصل چہرہ؟؟؟؟؟؟
 

گرائیں

محفلین
چھوڑین بھی نقوی صاحب۔ انیس صاحب کے جملے سب نے پڑھے ہیں ہر ایک فیصلہ کر سکتا ہے کہ کس مکاری سے حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ سے بغض نکالا جا رہا ہے۔ میں آپ سے متفق ہوں‌مگر کیا کیا جائے کہ یہ ہٹ دھرمی سے باز ہی نہیں‌آ رہے ہیں

آپ کی ان سب باتوں‌کا اثر اس لئے نہیں‌ہوگا کہ ان کی اب تک کی ساری عمر ایسی گزری ہے۔ اب سمجھ کیا خال آئے گی۔ اپنا دل میلا نہ کریں۔ ہم سب جان چکے ہیں‌کہ حقیقت کیا ہے۔

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا " اللہ اللہ اصحابی، لا تتخذوھم من بعدی غرضا۔ فمن احبھم فبحبی احبھم۔ و من ابغضھم فببغضی ابغضھم۔

اللھم صل علی محمد و آلہ و صحبہ و سلم۔
 

ظفری

لائبریرین
اب یہ تو ساری دنیا جانتی ہے کہ علی سلام اللہ علیہ کی سچی محبت پر قائم رہتے ہوئے ان کے اصل تقد س کو کس نے محفوظ رکھا ہے اور ان کی محبت کو غلو بنا کر انھیں‌‌ خدا کس نے سمجھا ہے؟؟؟؟؟اور تاریخ گواہ ہے کہ علی سلام اللہ علیہ نے کس کو آگ میں‌ڈلوایا اور کیوں؟؟؟ جن کو آگ میں‌ ڈلوایا ان کا جرم یہ تھا کہ انھو ں‌نے کھل کر کہہ دیا کہ علی خدا ہیں اور یہی کام آپکا بھی ہے مگر ڈھکے چھپے انداز میں، یقین نہ آئے تو اپنی کتابیں غور سے پڑھیں‌ اور اگر پھر سمجھ نہ آئے تو مجھے بتا ئیں میں‌آپ کو یہ سب کچھ آپ ہی کی کتابوں‌سے نکا ل کر دکھاتا ہوں۔
نقوی بھائی ! میرا خیال ہے کہ جب ہم تاریخ اور خصوصاً‌ً اپنے دین کے حوالے سے بات کریں تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں کہ تاریخ‌ کے حوالے سے بات بلکل واضع ہو ۔ آپ نے تاریخ کے حوالے سے جس شخصیت کا ذکر کیا ہے ۔ اس کی میں وضاحت کیئے دیتا ہوں ۔ چونکہ موڈریٹر کی حیثیت سے میں کسی بھی نکتہِ ‌اعتراض کو انتہائی درجے پر لے جا کر کوئی بات نہیں کہہ سکتا مگر ایک حقیقت کو واضع انداز میں پیش کرنے کا ضرور حق رکھتا ہوں ۔

احادیث میں چاروں خلفا کے مناقب ملتے ہیں۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت علی کی رشتہ داری ان کے لیے ایک بڑی عزت و شرف کی بات تھی، گو باقی تینوں صحابہ کا مرتبہ بھی بہت بلند ہے، لیکن مسلمانوں میں چونکہ خلافت کا معاملہ عبداللہ بن سبا کے اٹھائے ہوئے فتنے کی وجہ سے ایک خطرناک سیاسی قضیے کی صورت اختیار کر گیا تھا ، اس لیے بعض لوگوں نے فتنے کی آگ بھڑکانے کے لیے حضرت علی کی شان میں کئی ایسی باتیں گھڑیں جو غیر حقیقی تھیں۔ خود حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان باتوں سے شدید اختلاف تھا، اس اجمال کی کچھ تفصیل یوں ہے:

عبداللہ بن سبا دراصل، ایک یہودی تھاجو اسلام اور مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کے لیے مسلمان ہوا تھا۔ اس نے حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی خلافت کے آخری دور میں سبائی فتنے کا آغاز کیا۔ ابن سبا کو خلیفۂ وقت سے ذاتی دشمنی تھی۔ اس نے خلافت عثمانی کو درہم برہم کرنے کے لیے حب علی اور حب 'اہل بیت' (فاطمہ، حسن اور حسین رضی اللہ عنہم) کا نعرہ لگایا اور اس مقصد کے لیے اس نے اور اس کے ہم نواؤں نے طرح طرح کی احادیث وضع کیں۔ انھی سبائیوں کے ہاں علی رضی اللہ عنہ کی الوہیت کا عقیدہ پایا جاتا تھا۔''لسان المیزان'' میں ابن حجر نے یہ بیان کیا ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نے اپنے دور اقتدار میں انھیں آگ میں جلا دیا تھا۔

میرے اس مراسلے کی اشاعت کا صرف یہ مقصد تھا کہ میں اس بات کو واضع کروں کہ حضرت علی کو باقی تین خلفا سے بہت زیادہ مرتبہ کیوں دیا جاتا ہے؟
 

باذوق

محفلین
ویسے تو میں نے اپنے ایک پچھلے مراسلے میں لکھا تھا کہ :
‏احادیث کی تحقیق کے نام پر غلط تراجم اور جھوٹ و دھوکہ دہی کے سہارے جو خودساختہ نظریات پھیلائے گئے ہیں ، اللہ نے توفیق دی تو وقت آنے پر ان کی حقیقت تمام حوالوں اور ثبوتوں کیساتھ ضرور بتاؤں گا ، ان شاءاللہ !!
لیکن اس سے پہلے یہاں ۔۔۔۔ مہوش علی کے کچھ تناقضات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
اِس تھریڈ کی سب سے پہلی پوسٹ میں مہوش علی نے لکھا :
براہ مہربانی اقتباس کو ذرا غور سے پڑھئے ۔۔۔۔۔
زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی ہے

پہلے دعوی کیا جاتا ہے کہ زن ممتوعہ زوجہ نہیں ہے کیونکہ یہ 4 آزاد نکاح والی عورتوں کی قید میں شامل نہیں، اور پھر سورہ مومنون سے ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کہ متعہ حرام ہے:
[سورۃ المومنون آیت 5 اور 6] اور جو اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرتے رہتے ہیں. سوائے اپنی ازواج کے یا ان باندیوں کے جو ان کے ہاتھوں کی مملوک ہیں۔
اہل تشیع صدیوں سے چیخ چیخ کر کہہ رہے ہیں کہ:
1۔ ہمارے فقہ کے مطابق زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی مانی جاتی ہے۔
2۔ اور رسول اللہ ص کے زمانے میں چار آزاد عورتوں سے نکاح دائمی کی قید کے باوجود رسول اللہ ص نے خود زن ممتوعہ کو زوجہ ہی قرار دیا اور اس پر اس چار والی قید نہیں لگائی۔

یہ دیکھئیے رسول اللہ ص کی اپنی گواہی کہ زن ممتوعہ بھی زوجہ ہے۔
صحیح بخاری [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏عمرو بن عون ‏ ‏حدثنا ‏ ‏خالد ‏ ‏عن ‏ ‏إسماعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏عن ‏ ‏عبد الله ‏ ‏رضي الله عنه ‏ ‏قال ‏
‏كنا نغزو مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ ‏
‏يا أيها الذين آمنوا لا تحرموا طيبات ما أحل الله لكم ‏
ترجمہ:
عبداللہ ابن مسود فرماتے ہیں کہ وہ رسول اللہ ص کے ساتھ غزوات میں مصروف تھے اور اُنکی بیویاں انکے ہمراہ نہیں تھیں۔ چنانچہ انہوں نے رسول اللہ ص سے پوچھا کہ آیا گناہ کے خوف سے نجات پانے کے لیے وہ خود کو خصی (اعضائے شہوانی کا کانٹا) کر لیں۔ اس پر رسول اللہ ص نے انہیں منع فرمایا اور انہیں رخصت دی کہ وہ عورتوں کے ساتھ کسی کپڑے کے عوض مقررہ مدت تک تزویج کریں اور پھر رسول اللہ ص نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
[القرآن 5:87] يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تُحَرِّمُواْ طَيِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللّهُ لَكُمْ وَلاَ تَعْتَدُواْ إِنَّ اللّهَ لاَ يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ
اے ایمان والو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمہارے لئے حلال کی ہیں انہیں (اپنے اوپر) حرام مت ٹھہراؤ اور نہ (ہی) حد سے بڑھو، بیشک اللہ حد سے تجاوز کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا
اب لسان نبوت جب خود گواہی دی رہی ہے کہ عقد متعہ میں عورت کے ساتھ تزویج ہے اور وہ اس بنا پر زوجہ کے حکم میں ہے تو پھر کون ہمت کر سکتا ہے کہ پھر بھی اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کر دعوی کرے کہ زن ممتوعہ زوجہ میں شمار نہیں؟
اہل تشیع صدیوں سے چیخ چیخ کر جو بھی کہہ رہے ہوں وہ بہرحال یہ دو نکات ہرگز نہیں ہیں جن کا دعویٰ مہوش علی نے کیا ہے کہ :
1۔ ہمارے فقہ کے مطابق زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی مانی جاتی ہے۔
2۔ اور رسول اللہ ص کے زمانے میں چار آزاد عورتوں سے نکاح دائمی کی قید کے باوجود رسول اللہ ص نے خود زن ممتوعہ کو زوجہ ہی قرار دیا اور اس پر اس چار والی قید نہیں لگائی۔


اس دعویٰ کے بالکل برخلاف آج اس پوسٹ میں خود مہوش علی اعتراف کر رہی ہیں :
از شوکت کریم:
علل الشرائع باب 287 ۔شیخ صدوق رحمہ باب کا عنوان باندھتے ہیں وہ سبب ۔۔۔۔۔۔ اور اس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اپنے اس سوال پر کہ ایک شخص اگر متعہ کرے تو وہ محصن اور شادی شدہ بن جائے گا۔ آپ نے فرمایا نہیں شادی شدہ تو عقد دائم کرنے سے ہوتا ہے
اور جواب میں امام فقط "شادی شدہ" کے متعلق بیان کر رہے ہیں کہ عقد المتعہ کرنے والے شخص کو شادی شدہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ کچھ مدت بعد عورت اُس سے الگ ہو جاتی ہے، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے ایسے شخص کو جس کی بیوی کو طلاق ہو چکی ہو، شادی شدہ نہیں کہتے بلکہ رنڈوا(؟؟؟) کہا جاتا ہے۔
یہاں امام صاحب کہہ رہے ہیں کہ : عقد المتعہ کرنے والے شخص کو شادی شدہ نہیں کہہ سکتے !
آدمی ظاہر ہے "شادی شدہ" اسی وقت کہلائے گا جب "زوجہ" رکھتا ہو یعنی ۔۔۔۔
عقد المتعہ جس کسی عورت سے کیا جاتا ہے وہ عورت "زوجہ" نہیں بنتی !

اور یہی بات آنسرنگ انصار ویب سائیٹ (جہاں سے محترمہ مہوش علی اپنا "تحقیقی مواد" حاصل کر رہی ہیں) کی اس روایت میں بھی صاف صاف درج ہے :
Muhammad ibn Muslim asked Imam al-Baqir (as) about Mut'ah. The Imam (as) said: "She is not considered to be one of the four, because she cannot be divorced nor can she inherit. Indeed, she is a hired woman.
Wasa'il ash-Shi'a, vol. 21, pp. 18-19, hadeeth #26409

The hadeeth in Arabic reads:
[ARABIC]عن أبي جعفر ( عليه السلام ) ، في المتعة : ليست من الاربع لانها لا تطلق ولا ترث وإنما هي مستأجرة [/ARABIC]
بڑی عجیب بات ہے کہ اہل تشیع کے اکابرین تو صاف صاف کہیں کہ ممتوعۃ عورت "زوجہ" نہیں بلکہ "hired woman" ہے اور ممتوعۃ "چار آزاد عورتوں" والی کٹیگری میں بھی شامل نہیں !
اور اس کے مقابلے میں مہوش علی کی یہ بلاحوالہ چیخ و پکار :
1۔ ہمارے فقہ کے مطابق زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی مانی جاتی ہے۔

اب اس کو صریح تناقض نہیں تو اور کیا کہا جائے۔

مزید ۔۔۔۔۔۔
ترجمہ کے الٹ پھیر کے ذریعے بھی یوں دھوکہ دیا گیا ہے :
‏كنا نغزو مع النبي ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏وليس معنا نساء فقلنا ألا نختصي فنهانا عن ذلك فرخص لنا بعد ذلك أن نتزوج المرأة بالثوب ثم قرأ
اب لسان نبوت جب خود گواہی دی رہی ہے کہ عقد متعہ میں عورت کے ساتھ تزویج ہے اور وہ اس بنا پر زوجہ کے حکم میں ہے تو پھر کون ہمت کر سکتا ہے کہ پھر بھی اپنے قیاسی گھوڑے دوڑا کر دعوی کرے کہ زن ممتوعہ زوجہ میں شمار نہیں؟
ذرا فرمائیے کہ کس اللہ کے بندے نے اردو ترجمہ کے سہارے [ARABIC]نتزوج المرأة[/ARABIC] کا مطلب ۔۔۔
عورت کو اپنی "زوجہ" بنانا
لیا ہے ؟؟
وحید الزماں کا ترجمہ اٹھا کر دیکھ لیں یا کسی اور مترجم کا ۔۔۔۔
سب جگہ [ARABIC]نتزوج المرأة[/ARABIC] کا مطلب "عورت سے نکاح (یا شادی)" ہی لکھا ہے۔
میرے علم میں نہیں ہے کہ حدیث کے کسی ایک بھی اہل سنت شارح نے نتزوج المرأة کا مطلب یہ لیا ہو کہ ممتوعۃ عورت شادی کے بعد "زوجہ" کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اگر اہل سنت شارحینِ حدیث کے متعلق مہوش علی کا ایسا کوئی دعویٰ ہے تو براہ مہربانی مکمل حوالہ پیش کریں۔

حدیث کے عربی لفظ [[ARABIC]نتزوج[/ARABIC]] سے کھلواڑ ۔۔۔۔ یہ صرف اور صرف مہوش علی کا ذاتی انفرادی سیاہ کارنامہ ہے۔ ورنہ تو جب اہل تشیع کے اکابرین نے بھی ممتوعۃ عورت کو "زوجہ" کا درجہ نہیں دیا (جیسا کہ اوپر ثبوت پیش کئے گئے ہیں) تو اہل سنت کے ائمہ و علماء کی "ہمت کو للکارنے" اور ان پر "قیاسی گھوڑے دوڑانے" کے گھٹیا الزام کی بات ہی کیا؟

ونیز ۔۔۔۔
[ARABIC]نتزوج المرأة[/ARABIC] کا مطلب "عورت سے نکاح (یا شادی)" اسی حدیث کے ایک دوسرے متن سے بھی ثابت ہے جسے خود مہوش علی نے یوں پیش کیا تھا :
اور امام مسلم نے یہ روایت نقل کی ہے:
صحیح مسلم [آنلائن لنک]
حدثنا ‏ ‏محمد بن عبد الله بن نمير الهمداني ‏ ‏حدثنا ‏ ‏أبي ‏ ‏ووكيع ‏ ‏وابن بشر ‏ ‏عن ‏ ‏إسمعيل ‏ ‏عن ‏ ‏قيس ‏ ‏قال سمعت ‏ ‏عبد الله ‏ ‏يقولا ‏
‏كنا ‏ ‏نغزو مع رسول الله ‏ ‏صلى الله عليه وسلم ‏ ‏ليس لنا نساء فقلنا ألا ‏ ‏نستخصي ‏ ‏فنهانا عن ذلك ثم رخص لنا أن ننكح المرأة ‏ ‏بالثوب ‏ ‏إلى أجل ثم قرأ ‏ ‏عبد الله ‏

اور ۔۔۔۔۔
اگر بخاری کی اس حدیث میں [ARABIC]نتزوج المرأة[/ARABIC] کے الفاظ ہیں تو صحیح بخاری کی اسی سند [عن اسماعيل، عن قيس، عن عبد الله] اور اسی مفہوم والی ایک دوسری حدیث میں [ARABIC]ننكح المرأة[/ARABIC] کے الفاظ کی موجودگی چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ اس سے مراد :
عورت سے شادی (متعہ) کرنا ہے ناکہ ممتوعۃ کو اپنا زوجہ بنانا !!
 
ش

شوکت کریم

مہمان
نیٹ گردی کے دوران متعہ کی ایک اور قسم نظر آئی ہے کہ جسے Handfasting کہا تا ہےاور یہ سکاٹ‌ لینڈ میں‌ پائی جاتی ہے۔ اور ہمارے دوستوں کی طرح انہوں نے بھی باقاعدہ ویب سائٹ بنائی ہوئی ہے مگر ایک فرق ہے کہ وہ ہمارے دوستوں کی طرح اس شادی کو کسی لبادے میں لپیٹ کر نہیں کرتے اور واضح لکھتے ہیں کہ یہ شادی پرانے دور کے کافروں کی روایت تھی۔ ویب سائٹ کا لنک نیچے دے رہا ہوں۔ ویب سائٹ پہ مکمل تفصیلات اور تاریخ موجود ہے۔

H
andfasting was the old pagan ritual of marriage and it remained legal in Scotland all the way up to 1939


مزید ایک آرٹیکل وکی پہ بھی موجود ہے لنک یہ ہے۔

[LEFT][/LEFT] In the present day, some Neopagans practice this ritual. The marriage vows taken may be for "a year and a day," a lifetime, "for all of eternity" or "for as long as love shall last." Whether the ceremony is legal, or a private spiritual commitment, is up to the couple.

مضمون نگار لکھتا ہے ۔ کہ حالیہ دور میں کچھ Neopagans اس روایتی شادی کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور یہ شادی ایک سال، ایک دن یا پوری زندگی کےعہد پر کی جاتی ہے، ہمیشگی کے لیے یا جب تک محبت چلے تب تک۔

مذکورہ بالا ویب سائٹ اور وکی کے مضمون میں‌‌‌‌ دو الفاظ پر غور کریں PAGON اور NEO-PAGON اور پھر خود فیصلہ کریں کہ یہ رواج یا روایت کس کلچر کس تہذیب کی نشانی ہے۔

اس سے پہلے چائنیز معاشرے سے متعلق ایک مضمون پیش کیا جا چکا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اب یہ دوسرا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اب بھی کوئی کہے کہ یہ دورجاہلیت کے سیکس فری لوگوں کی رسم نہیں ہے۔ اور دور جاہلیت کی اس نشانی کو اللہ کی رحمت کی نشانی قرار دے ؟؟؟؟ اور باب العلم حضرت علی رضی اللہ عنہ سے منسوب کیا جائے کہ وہ اس کو اللہ کی رحمت قرار دے رہے ہیں تو بس صرف اس کے لیے دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جو کہ دنیا کے اندھیرے دورکرنے کے لیے اور جاہلیت کے رسم و رواج کے خاتمے کے لیے دنیا میں مبعوث کیے گئے۔ اور اللہ نے جس دین کو اپنا پسندیدہ دین قرار دیا۔ اس پاکیزہ دین میں دور جاہلیت کےایسے مکروہ رواجات کا شامل کرنا اور پھر مانگے تانگے کے دلائل، اور رٹے رٹائے جملوں اور حدیثوں سے من چاہے مطلب نکال کر انہیں دین فطرت دین اسلام کا‌حصہ ثابت کرنا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

مہوش علی

لائبریرین
میری گذارش ہے کہ گفتگو کو موضوع پر ہی رہنے دیا جائے۔ عبداللہ ابن سبا کے افسانے کے متعلق انشاء اللہ تفصیل سے پھر کبھی۔ اور آگ میں جلوانے کے متعلق سوال بھی کہ علی ابن ابی طالب نے واقعی یہ بدعت کی تھی؟ اور اُس وقت موجود سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ نے پھر انہیں اس بدعت سے روکا کیوں نہیں۔ یہ سوالات بہرحال اپنا وقت اور اپنی جگہ آنے پر، یہاں پر ہم فقط عقد المتعہ پر ہی بحث کو رہنے دیتے ہیں۔ میں ویک اینڈ یا پیر کو وقت نکال کر اس تھڑید کو آگے بڑھاؤں گی۔ انشاء اللہ۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
میری گذارش ہے کہ گفتگو کو موضوع پر ہی رہنے دیا جائے۔ عبداللہ ابن سبا کے افسانے کے متعلق انشاء اللہ تفصیل سے پھر کبھی۔ اور آگ میں جلوانے کے متعلق سوال بھی کہ علی ابن ابی طالب نے واقعی یہ بدعت کی تھی

میں پرزور احتجاج کرتا ہوں‌ کہ آپ مراسلوں میں الفاظ‌ کے استعمال میں احتیاط نہیں کرتیں۔ اس سے پہلے میں دو تین دفعہ نشان دہی کر چکا ہوں۔

ہم مسلمان ہیں اور ہمارے لیے حکم ہے کہ ہم کافروں کےجھوٹے خداؤں کو بھی برا بھلا نہ کہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

اور پھر جن ہستیوں‌ کے بارے میں‌ ہم بحث‌‌ کر رہے ہیں ہم ان کے قدموں کی خاک بھی نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں‌‌ درخواست کرتا ہوں کہ ہر ہستی ہر عالم ہر صحابی کے مرتبے کا خیال رکھتے ہوئے الفاظ کا چناؤ کیاجائے اور ان کی شان کے مطابق ان کے نام کے ساتھ ڈیکوریشن ضرورلگائی جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس معاملے میں‌ حد درجہ احتیاط کی جائے۔
 
ش

شوکت کریم

مہمان
ویسے تو میں نے اپنے ایک پچھلے مراسلے میں لکھا تھا کہ :

لیکن اس سے پہلے یہاں ۔۔۔۔ مہوش علی کے کچھ تناقضات کا ذکر کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔
اِس تھریڈ کی سب سے پہلی پوسٹ میں مہوش علی نے لکھا :
براہ مہربانی اقتباس کو ذرا غور سے پڑھئے ۔۔۔۔۔

اہل تشیع صدیوں سے چیخ چیخ کر جو بھی کہہ رہے ہوں وہ بہرحال یہ دو نکات ہرگز نہیں ہیں جن کا دعویٰ مہوش علی نے کیا ہے کہ :
1۔ ہمارے فقہ کے مطابق زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی مانی جاتی ہے۔
2۔ اور رسول اللہ ص کے زمانے میں چار آزاد عورتوں سے نکاح دائمی کی قید کے باوجود رسول اللہ ص نے خود زن ممتوعہ کو زوجہ ہی قرار دیا اور اس پر اس چار والی قید نہیں لگائی۔


اس دعویٰ کے بالکل برخلاف آج اس پوسٹ میں خود مہوش علی اعتراف کر رہی ہیں :

یہاں امام صاحب کہہ رہے ہیں کہ : عقد المتعہ کرنے والے شخص کو شادی شدہ نہیں کہہ سکتے !
آدمی ظاہر ہے "شادی شدہ" اسی وقت کہلائے گا جب "زوجہ" رکھتا ہو یعنی ۔۔۔۔
عقد المتعہ جس کسی عورت سے کیا جاتا ہے وہ عورت "زوجہ" نہیں بنتی !

اور یہی بات آنسرنگ انصار ویب سائیٹ (جہاں سے محترمہ مہوش علی اپنا "تحقیقی مواد" حاصل کر رہی ہیں) کی اس روایت میں بھی صاف صاف درج ہے :

بڑی عجیب بات ہے کہ اہل تشیع کے اکابرین تو صاف صاف کہیں کہ ممتوعۃ عورت "زوجہ" نہیں بلکہ "hired woman" ہے اور ممتوعۃ "چار آزاد عورتوں" والی کٹیگری میں بھی شامل نہیں !
اور اس کے مقابلے میں مہوش علی کی یہ بلاحوالہ چیخ و پکار :


اب اس کو صریح تناقض نہیں تو اور کیا کہا جائے۔

مزید ۔۔۔۔۔۔
ترجمہ کے الٹ پھیر کے ذریعے بھی یوں دھوکہ دیا گیا ہے :

ذرا فرمائیے کہ کس اللہ کے بندے نے اردو ترجمہ کے سہارے [arabic]نتزوج المرأة[/arabic] کا مطلب ۔۔۔
عورت کو اپنی "زوجہ" بنانا
لیا ہے ؟؟
وحید الزماں کا ترجمہ اٹھا کر دیکھ لیں یا کسی اور مترجم کا ۔۔۔۔
سب جگہ [arabic]نتزوج المرأة[/arabic] کا مطلب "عورت سے نکاح (یا شادی)" ہی لکھا ہے۔
میرے علم میں نہیں ہے کہ حدیث کے کسی ایک بھی اہل سنت شارح نے نتزوج المرأة کا مطلب یہ لیا ہو کہ ممتوعۃ عورت شادی کے بعد "زوجہ" کا درجہ حاصل کر لیتی ہے۔ اگر اہل سنت شارحینِ حدیث کے متعلق مہوش علی کا ایسا کوئی دعویٰ ہے تو براہ مہربانی مکمل حوالہ پیش کریں۔

حدیث کے عربی لفظ [[arabic]نتزوج[/arabic]] سے کھلواڑ ۔۔۔۔ یہ صرف اور صرف مہوش علی کا ذاتی انفرادی سیاہ کارنامہ ہے۔ ورنہ تو جب اہل تشیع کے اکابرین نے بھی ممتوعۃ عورت کو "زوجہ" کا درجہ نہیں دیا (جیسا کہ اوپر ثبوت پیش کئے گئے ہیں) تو اہل سنت کے ائمہ و علماء کی "ہمت کو للکارنے" اور ان پر "قیاسی گھوڑے دوڑانے" کے گھٹیا الزام کی بات ہی کیا؟

ونیز ۔۔۔۔
[arabic]نتزوج المرأة[/arabic] کا مطلب "عورت سے نکاح (یا شادی)" اسی حدیث کے ایک دوسرے متن سے بھی ثابت ہے جسے خود مہوش علی نے یوں پیش کیا تھا :


اور ۔۔۔۔۔
اگر بخاری کی اس حدیث میں [arabic]نتزوج المرأة[/arabic] کے الفاظ ہیں تو صحیح بخاری کی اسی سند [عن اسماعيل، عن قيس، عن عبد الله] اور اسی مفہوم والی ایک دوسری حدیث میں [arabic]ننكح المرأة[/arabic] کے الفاظ کی موجودگی چیخ چیخ کر بتاتی ہے کہ اس سے مراد :
عورت سے شادی (متعہ) کرنا ہے ناکہ ممتوعۃ کو اپنا زوجہ بنانا !!

برادر میں نے پچھلی ایک پوسٹ‌ میں عرض کیا تھا کہ محترمہ کے اپنے ہی نظریات ہیں اور لگتا ہے کہ محترمہ کسی نئے مسلک کی داغ بیل ڈالنے کے چکر میں‌ ہیں۔ بہرحال آپ نے بہت خوب نشاندہی فرمائی مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کلام نرم ونازک مرد ناداں‌ پہ بےاثر
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اہل تشیع صدیوں سے چیخ چیخ کر جو بھی کہہ رہے ہوں وہ بہرحال یہ دو نکات ہرگز نہیں ہیں جن کا دعویٰ مہوش علی نے کیا ہے کہ :
1۔ ہمارے فقہ کے مطابق زن ممتوعہ بھی زوجہ ہی مانی جاتی ہے۔
2۔ اور رسول اللہ ص کے زمانے میں چار آزاد عورتوں سے نکاح دائمی کی قید کے باوجود رسول اللہ ص نے خود زن ممتوعہ کو زوجہ ہی قرار دیا اور اس پر اس چار والی قید نہیں لگائی۔

اس دعویٰ کے بالکل برخلاف آج اس پوسٹ میں خود مہوش علی اعتراف کر رہی ہیں :

اور جواب میں امام فقط "شادی شدہ" کے متعلق بیان کر رہے ہیں کہ عقد المتعہ کرنے والے شخص کو شادی شدہ نہیں کہہ سکتے کیونکہ کچھ مدت بعد عورت اُس سے الگ ہو جاتی ہے، اور یہ ایسا ہی ہے جیسے ایسے شخص کو جس کی بیوی کو طلاق ہو چکی ہو، شادی شدہ نہیں کہتے بلکہ رنڈوا(؟؟؟) کہا جاتا ہے۔
یہاں امام صاحب کہہ رہے ہیں کہ : عقد المتعہ کرنے والے شخص کو شادی شدہ نہیں کہہ سکتے !
آدمی ظاہر ہے "شادی شدہ" اسی وقت کہلائے گا جب "زوجہ" رکھتا ہو یعنی ۔۔۔۔
عقد المتعہ جس کسی عورت سے کیا جاتا ہے وہ عورت "زوجہ" نہیں بنتی

میر صاحب دیکھئے اور اب فرمایئے۔۔۔ آپ نے تو علم کے اضافے کی دعا دے دی مگر کیا کیا جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس عمارت کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی گئی تھی اس کو تو گرنا ہی تھا۔
 

S. H. Naqvi

محفلین
از: مہوش علی:
میری گذارش ہے کہ گفتگو کو موضوع پر ہی رہنے دیا جائے۔ عبداللہ ابن سبا کے افسانے کے متعلق انشاء اللہ تفصیل سے پھر کبھی۔ اور آگ میں جلوانے کے متعلق سوال بھی کہ علی ابن ابی طالب نے واقعی یہ بدعت کی تھی
لو جی آپ ان کو کیا کہتے ہیں‌ جی یہ تو اپنے فرقے کی خود امام ہیں، اور جس بات کی آپ ہر دو حضرات نشاندہی کر رہے ہیں‌ اس بات کی نشاندہی تو میں کافی پہلے اپنی پوسٹ میں کر چکا ہوں، ان پر شیعہ کی نہ کوئی کتاب حجت ہے اور نہ کسی امام کا قول اور نہ ہی یہ کسی کے ادب کی روا ہیں۔ علی ابن ابی طالب کی بدعت کہنا تو ان کے لیے عام سی بات ہے یہ تو ان کو سخت گنہگار بھی کہہ چکی ہیں، اللہ معاف کرے۔ ملاحظہ ہو ان کی گذشتہ پوسٹ۔۔۔۔۔ اور اس پر میرا تبصرہ۔۔۔۔۔۔۔!
اقتباس:
اصل پيغام ارسال کردہ از: مہوش علی
اور پھر آپکو پہلے سنت رسول سے چیز کو حلال حرام ثابت کرنا ہے، وگرنہ اگر خلیفہ چہارم علی ابن ابی طالب نے بھی بدعت کو جاری رکھا تو وہ بھی آپکے اصولوں کے مطابق گنہگار ہوا نہ کہ حلال اللہ کو حرام بنانا ٹھیک ٹھہرا۔


از:ایس۔ ایچ۔ نقوی۔
جناب علی ابن ابی طالب سے اس کا رد کرنا اور اس کا دوبارہ احیاء نہ کرنا ثابت ہو چکا ہے اور سنت رسول سے تو ہم پہلے ہی ثابت کر چکے ہیں محترمہ اور یہ سنت کیا ہے یہ بھی سبھی جانتے ہیں‌ مگر آپ کا اگلا فقرہ پڑھ کر تو چودہ طبق روشن ہو گئے ہیں اور واہ کیا دلیرانہ انداز ہے آپ کا، صدیوں سے شیعہ زعماء و فقہا جس بات کو تکیہ (تقیہ( بلکہ رضایٔ کے نیچے چھپانے کی کو شش کرتے رہے اور آپ نے آ کر ان کی یہ رضایٔ ایک ہی جھٹکے سے اٹھا کر پرے دور پھینک دی اور سیدھا سیدھا "امام علی" کے گنہگار اور غلط ہونے کا فتویٰ دے دیا، واہ واہ کیا جرأت ہے، کیا انداز ہے ، کیا قطعیت ہے اور کیا علم کا مقام ہے آپ کا جنابہ فقییہ، مجتہدہ، عالمہ، کاملہ، عاقلہ اور امام حاضرہ (کیوں کے آپکے فقہ کے مطابق ایک "امام" ہی دوسرے "امام" کا عمل اور قول منسوخ کر سکتا ہے( ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
مگر ایک بات یاد رکھیں‌ کہ پوری امت کے لیے اور خصوصاً ہمارے لیے اور ترجیحاً شیعہ کے لیے "امام علی" کا قول و عمل "حجت" ہے، "دوسروں" کے لیے بھی (بے شک امام علی کے بجائے " حضرت علی رضی اللہ عنہ " کی فارم میں‌ ہو(۔۔۔۔۔۔۔۔! اور خدا کی قسم اگر مولا علی ہی اس چیز کو حلال جانتے اور اس کا حکم دے دیتے تو ہم بلا چون و چرا اس پر عمل کرتے مگر وہ اللہ جو علیم و بصیر ہے اس نے ایسا انتظام کیا ہوا ہے کہ کسی فاسق اور دل کے اندھے کو کویٔ چور راستہ نہ مل سکے۔۔۔۔۔۔۔!
معاف کیجیے گا محترمہ آپ نے تو اپنے فقہ کا رد کر کے اور امام اول کو غلط کہہ کر اپنی بنیاد ہی ختم کر دی ہے اب ایک ہی کسر رہ گٔی ہے کہ آپ ایک اور فرقے کی بنیاد رکھیں کے جس کے قول و عمل کی بنیاد آپ کے "فقہی اور عالمانہ" اصولوں پر ہو اور آپ کا فرمایا ہوا ان کے لیے حجت ہو۔
 
ا



۔ امام جعفر صادق علیہ السلام کا بیان خاص پس منظر میں عبداللہ بن سنان کے لیئے تھا جو کہ ایک شادی شدہ تھے اور محض جنسی تسکین کے لیئے متعہ کرنا چاھتے تھے۔ [/
تو آج بھی کیا لوگ محض جنسی تسکیں کے لئے متعہ کی خوائش نہ کریں گے
 
ش

شوکت کریم

مہمان
اور آگ میں جلوانے کے متعلق سوال بھی کہ علی ابن ابی طالب نے واقعی یہ بدعت کی تھی؟ اور اُس وقت موجود سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ نے پھر انہیں اس بدعت سے روکا کیوں نہیں۔ یہ سوالات بہرحال اپنا وقت اور اپنی جگہ آنے پر، یہاں پر ہم فقط عقد المتعہ پر ہی بحث کو رہنے دیتے ہیں۔ میں ویک اینڈ یا پیر کو وقت نکال کر اس تھڑید کو آگے بڑھاؤں گی۔ انشاء اللہ۔

میر صاحب راجہ پورس کے ہاتھیوں کے بارے میں پڑھا تھا کہ انہوں نے اپنی ہی فوج کو روند ڈالاتھا۔ اور لگتا ہے اب محترمہ نےبھی اپنے ہی دلائل کو خود روندنا شروع کر دیا ہے۔ اوپر والی تازہ ترین پوسٹ پڑھیے قطع نظر اس سے کہ جلانے والا عمل ہوا یا نہیں ہوا مگر کیا محترمہ کو ایک خلیفہ راشد، اور وہ بھی کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کر رہے ہیں انکے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے بدعت کی زیب دیتا ہے۔ اور کیا وہ نہیں جانتیں کہ خلیفہ وقت کے کیا اور کتنے اختیارات ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان ہی کی کتابوں میں واضح لکھا ہے کہ جو عورت کے پیچھے چلے گا تباہ و برباد ہو گا۔

جبکہ اس سے پہلے جب ان کو اپنا فائدہ نظر آیا تو کہہ چکی ہیں کہ۔

اب یہاں ایک مسئلہ اٹھتا ہے اور وہ یہ کہ اسلام حکومت وقت اور حاکم وقت کو چند اختیارات دیتا ہے کہ حالات کے تحت وہ "معاملات" والے اسلامی اصولوں میں اضافہ و کمی کر سکتا ہے۔
مثلا آجکل کی اسلام حکومتوں نے لازم کر دیا ہے کہ نکاح کیا جائے تو نکاح فارم بھرا جائے اور اسکی رجسٹریشن کروائی جائے۔ اب یہ شرط بالکل ٹھیک ہے کیونکہ حاکم اور حکومت وقت کو ایسے اقدامات کی اجازت ہے۔

تو کیا اس وقت جھوٹ بول رہی تھیں یا اب جھوٹ بول رہی ہیں اور انہیں زیب دیتا ہے کہ وہ ایک خلیفہ راشد کے فیصلے کو بدعت جیسے لفظ سے تعبیر کریں ۔۔ مگر کیا کیا جائے اس کے علاوہ کہ ان تمام تضادات سے جو کہ اب سامنے آتے جا رہے ہیں یہ ثابت ہو رہا ہے کہ محترمہ کو خود اپنے ہی دلائل کی صحت پر کتنا یقین ہے اور ان کے دلائل کی بنیادیں کتنی مضبوط ہیں۔

اور جب کسی کو خود ہی اپنے دلائل کا یقین نہ ہو ۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ جب دلائل ہی مانگے تانگے کے اور رٹے رٹائے ہوں اور فورم ہو محفل جیسا اوپن تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا۔
 

dxbgraphics

محفلین
میری گذارش ہے کہ گفتگو کو موضوع پر ہی رہنے دیا جائے۔ عبداللہ ابن سبا کے افسانے کے متعلق انشاء اللہ تفصیل سے پھر کبھی۔ اور آگ میں جلوانے کے متعلق سوال بھی کہ علی ابن ابی طالب نے واقعی یہ بدعت کی تھی؟ اور اُس وقت موجود سینکڑوں کی تعداد میں صحابہ نے پھر انہیں اس بدعت سے روکا کیوں نہیں۔ یہ سوالات بہرحال اپنا وقت اور اپنی جگہ آنے پر، یہاں پر ہم فقط عقد المتعہ پر ہی بحث کو رہنے دیتے ہیں۔ میں ویک اینڈ یا پیر کو وقت نکال کر اس تھڑید کو آگے بڑھاؤں گی۔ انشاء اللہ۔

ٹھیک اسی طرح جس طرح کئی دفعہ آپ متعہ سے کنیز کے موضوع پر پلٹ جاتی ہیں
 

dxbgraphics

محفلین
میر صاحب راجہ پورس کے ہاتھیوں کے بارے میں پڑھا تھا کہ انہوں نے اپنی ہی فوج کو روند ڈالاتھا۔ اور لگتا ہے اب محترمہ نےبھی اپنے ہی دلائل کو خود روندنا شروع کر دیا ہے۔ اوپر والی تازہ ترین پوسٹ پڑھیے قطع نظر اس سے کہ جلانے والا عمل ہوا یا نہیں ہوا مگر کیا محترمہ کو ایک خلیفہ راشد، اور وہ بھی کہ جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نیابت کر رہے ہیں انکے بارے میں یہ کہنا کہ انہوں نے بدعت کی زیب دیتا ہے۔ اور کیا وہ نہیں جانتیں کہ خلیفہ وقت کے کیا اور کتنے اختیارات ہوتے ہیں۔ اسی لیے ان ہی کی کتابوں میں واضح لکھا ہے کہ جو عورت کے پیچھے چلے گا تباہ و برباد ہو گا۔

جبکہ اس سے پہلے جب ان کو اپنا فائدہ نظر آیا تو کہہ چکی ہیں کہ۔



تو کیا اس وقت جھوٹ بول رہی تھیں یا اب جھوٹ بول رہی ہیں اور انہیں زیب دیتا ہے کہ وہ ایک خلیفہ راشد کے فیصلے کو بدعت جیسے لفظ سے تعبیر کریں ۔۔ مگر کیا کیا جائے اس کے علاوہ کہ ان تمام تضادات سے جو کہ اب سامنے آتے جا رہے ہیں یہ ثابت ہو رہا ہے کہ محترمہ کو خود اپنے ہی دلائل کی صحت پر کتنا یقین ہے اور ان کے دلائل کی بنیادیں کتنی مضبوط ہیں۔

اور جب کسی کو خود ہی اپنے دلائل کا یقین نہ ہو ۔ اور ہو بھی کیسے سکتا ہے کہ جب دلائل ہی مانگے تانگے کے اور رٹے رٹائے ہوں اور فورم ہو محفل جیسا اوپن تو پھر ایسے ہی ہوتا ہے۔ وہ کیا کہتے ہیں کہیں کی اینٹ کہیں کا روڑا بھان متی نے کنبہ جوڑا۔

بلکل ٹھیک کہا آپ نے۔ ان کی تمام پوسٹوں میں انہی کے الفاظ کی تردید کئی جگہوں پر پائی جاتی ہے جس کا مطلب کہ اس پورے تھریڈ میں محترمہ نے تقیہ کا سہارا لیا ہے۔
 

نبیل

تکنیکی معاون
میری ali-ood سے درخواست ہے کہ صرف شکریہ کرنے کے لیے طویل اقتباسات لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس کے لیے اصل پوسٹ پر شکریے کا بٹن دبایا جا سکتا ہے۔ اور آپ دوست اگر اس تھریڈ‌ کو جاری رکھنا چاہتے ہیں تو انہی لوگوں کو دلائل جاری رکھنے دیں جو اس گفتگو میں شروع سے شریک ہیں اور فضول جملے بازی سے پرہیز کریں۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top