محترم برادر میر انیس آپکے مطالبے پر دلائل حاضر ہیں۔
اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم۔
والمحصنات من النساء الا ما ملكت ايمانكم كتاب الله عليكم واحل لكم ما وراء ذلكم ان تبتغوا باموالكم
محصنين غير مسافحين فما استمتعتم به منهن فاتوهن اجورهن فريضة ولا جناح عليكم فيما تراضيتم به من بعد الفريضة ان الله كان عليما حكيما۔ النساء ۔ 24
معتبر اثنا عشری تفسیر ،تفسیر نمونہ میں صاحب تفسیر نمونہ سورنساء کی آیت ۲۴ کا ترجمہ لکھتے ہیں ۔ اور شوہر دار عورتیں (تم پر حرام ہیں) مگر وہ کہ جن کے تم مالک بن گئے ہو۔ یہ ایسے کام ہیں جو خدا نے تم پر مقرر کیے ہیں۔ ان (مذکورہ) عورتوں کے علاوہ باقی عورتیں تم پر حلال ہیں اور جنہیں اپنے مال کے ذریعے اپنا بناؤ بشرطیکہ تم پاک دامن رہواور زنا سے بچو اور جن عورتوں سے تم
متعہ کرو تو ان کا حق مہر جو تم پر واجب ہے ادا کرو اور تم پر اس کی نسبت کوئی گناہ نہیں جس پر ایک دوسرے کے ساتھ مہر مقرر کر کے موافقت کر لو ، خدا دانا و حکیم ہے۔
اور تفسیر میں لکھتے ہیں "محصنات" "محصن کی جمع ہے اور "حصن" کے مادہ سے ہے جس کا معنی ہے "
قلعہ" اسی مناسبت سے
یہ لفظ شوہردار یا عفیف و پاکدامن عورتوں کے لیے ہے جو غیر مردوں سے جنسی تعلق سے اپنے آپ کو محفوظ رکھتی ہیں یا کسی مرد کی سرپرستی میں ہوں کے لیے بولا جاتا ہے۔ آگے مزید لکھتے ہیں۔
شاید ضمنی طور پر
غیر مسافحین کی تعبیر اس حقیقت کی طرف اشارہ کر رہی ہو کہ مسئلہ ازدواج میں تمہارا نصب العین اور مقصد صرف جنسی پیاس کی تسکین نہ ہو بلکہ
شادی بیاہ اس بلند ترین مقصد کو زندہ کرنے کے لیے ہو جس کے لیے جنسی پیاس انسان میں رکھی گئی ہے اور وہ ہے بقائے نسل انسانی اور برائیوں سے اس کی حفاظت۔فمااستمتعتم بہ منہن فاتوھن اجورھن فریضۃ
آیت کے اس حصے میں وقتی شادی کی طرف اشارہ ہے جسے
اصطلاح میں متعہ کہتے ہیں۔
مذکور بالا تفسیر کو غور سے پڑھیے تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جاتا۔ سب سے پہلے تو محصن کا ترجمہ اور تفسیر دیکھیے جس سے کہ سارا معاملہ کھل جاتا ہے۔ اور پھر دیکھیے کہ وقتی شادی سے تو یہ قلعہ بری طرح مسمار ہوجاتا ہے۔ اللہ سبحان و تعالیٰ نے کتنے واضح انداز میں محصن کی قید لگا کر وقتی شادی کو روک دیا ۔ درحقیقت وقتی شادی لفظ محصن کی ضد ہے ، بالکل الٹ اوپر سے غیر مسافحین کی تعبیر سے تو اس کا مکمل رد ہو جاتا ہے نہ کہ اسی آیت سے جواز متعہ نکالنا ۔ پوری آیت کے مفہوم اور قرآنی روح کو نظر انداز کرتے ہوئے صرف م۔ت۔ع دیکھ کر جواز متعہ نکالنا کتنا بڑا ظلم ہے۔
قلعہ کا مطلب ہوا مظبوط ، بلند و بالا نا قابل تسخیر عمارت جیسا ایک مضبوط رشتہ کہ جس سے عورت کی عفت و پاکدامنی قائم رہے اور یہ مقصد شادی جیسے مضبوط اور اٹوٹ بندھن سے حاصل ہوتا ہے ناکہ وقتی شادی جیسے کمزور اور پہلے سے طے شدہ ڈھے جانی والی عمارت سے۔
یہی وجہ ہے حلال چیزوں میں سے اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ترین چیز طلاق ہے کہ وہ اس بیان کیے ہوئے محصن (قلعے) کو ڈھا دیتی ہے۔ کہ جسے اللہ سبحان و تعالیٰ قائم کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔
اور پھر غیر مسافحین کی تعبیر دیکھیں مقصد صرف جنسی پیاس کی تسکین نہ ہو۔۔۔۔۔۔ اور آپ دیکھ رہے ہیں کہ یہاں جو متعہ بیان کیا گیا ہے اس کی بنیاد ہی جنسی پیاس کی تسکین رکھی گئی ہے کہ نوجوان جنسی پیاس کو قابو نہیں کر سکتے لہذا وقتی شادی کر لیں۔
مذکورہ بالا تفسیر خود ہی محصن اور غیر مسافحین کی قیود لگا کر وقتی شادی کے اسلام سے غیر متعلق ہونے کے متعلق ثبوت دے رہی ہے۔
مگر وائے نصیب آخر میں صاحب تفسیر نمونہ اپنے ہی اوپر بیان کیے ہوئے الفاظ کی نفی کرتے ہوئے فما استمتعتم کے معانی کرنے کے بجائے م۔ت۔ع کے الفاظ لیتے ہیں اور متعہ کے معنی لینے کی وجہ بیان کرتے ہیں کہ یہ شریعت میں متعہ کے لیے کہا جانے والا اصطلاحی مطلب ہے۔ اور محصن اور غیر مسافحین کی نفی کرتے ہوئے اپنا من چاہا مطلب نکال لیتے ہیں۔چلیں اسمتعتم کے لغوی مطلب نہ لیں اور متعہ ہی لے لیں مگر مسئلہ تو پھر بھی وہی ہے آخر متعہ کا بھی تو کوئی مطلب ہو گا اور وہ وہی مطلب ہے جس کو چھپانے کے لیے استمتعتم کا رائج ترجمہ کرنے سے گریز کیا گیا ۔ اور اس کا مطلب اس طرح لینے سے قرآن کی کتنی آیات اور حدیثوں میں تعارض پیدا ہوتا ہے ۔ جبکہ اس کو لغوی مطلب جو ہے اور جو بے شمار دوسری جگہوںمیں بھی استعمال ہوا ہے لینے سے کوئی تعارض بھی پیدا نہیں ہوتا اور کلا م الہٰی کی تشریح کا حق بھی ادا ہو جاتا ہے۔آخر آپ متعۃ النساء کا مطلب عورتوں سے فائدہ اٹھانا، عورتوں سے بہرہ مند ہونا وغیرہ کے علاوہ کیا کرسکتے ہیں
اور غور کرنے والی بات ہے کہ اللہ تعالیٰ کے کلام میں ایسا تضاد کیسے ممکن ہے۔کہ پہلے تو تو رشتوں کی حرمت بیان کرتے ہیں ۔ پھر محصن اور غیر مسافحین کی قید لگا کر اس رشتے کی مضبوطی اور مقصد بیان کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر پھر عمل بیان کریں جو کہ محصن اور غیر مسافحین کے الٹ ہو کیسے ممکن ہے ؟؟؟؟؟ افسوس کہ جوکام غیر نہ کر سکے وہ ہم نے خود کر دیا ؟؟؟؟
اور مزید دیکھیے یہی لفظ جب قرآن میں اور جگہوں پر آیا تو وہی مطلب لیا گیا کہ جو اس لفظ کا حق ہے اور جمہور سلف نے لیا۔
كَالَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ كَانُوا أَشَدَّ مِنكُمْ قُوَّةً وَأَكْثَرَ أَمْوَالًا وَأَوْلَادًا
فَاسْتَمْتَعُوا بِخَلَاقِهِمْ
فَاسْتَمْتَعْتُم بِخَلَاقِكُمْ كَمَا
اسْتَمْتَعَ الَّذِينَ مِن قَبْلِكُم بِخَلَاقِهِمْ وَخُضْتُمْ كَالَّذِي خَاضُوا ۚ أُولَ۔ٰئِكَ حَبِطَتْ أَعْمَالُهُمْ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ ۖ وَأُولَ۔ٰئِكَ هُمُ الْخَاسِرُونَ
سورۃ التوبۃ آیت 69
صفحہ ۴۵ پہ اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اس آیت میں منافقین کی جماعت کو بیدار کرنے کے لیے ان کے چہرے کے سامنے تاریخ کا آئینہ رکھ دیا گیا ہے اور ان کی زندگی کا گذشتہ باغی منافقوں سے مقابلہ اور موازنہ کر کے موثر درس عبرت دیا گیا ہے اور فرمایا گیا ہے کہ "تم گذشتہ منافقوں کی طرح ہو اور اسی برے راستے اور بدسرنوشت کے پیچھے پڑے ہوئے ہو (کالذین من قبلکم) انھی لوگوں کی طرح جو قوت و طاقت میں تم سے زیادہ اور مال و دولت کی رو سے تم سے بہت آگے تھے (کانوا اشد منکم قوۃ و اکثر اموالا و الاد)۔ دنیا میں وہ اپنے حصہ میں سے
شہوات نفسانی، گندگی، گناہ، فتنہ و فساد اور تباہ کاریوں سے بہرہور ہوئے۔ تم بھی جو اس امت کے منافق ہو گزرے ہوئے منافقین کی طرح ہی حصہ دار ہو(فاستمتعوا بخلاقہم فاستمتعتم بخلاقکم کما استمتع الذین من قبلکم بخلاقہم)۔
اور پھر سورۃ ابراہیم آیت 30 کے ترجمہ اور تفسیر میں دیکھیے۔
وَجَعَلُوا لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلُّوا عَن سَبِيلِهِ ۗ قُلْ
تَمَتَّعُوا فَإِنَّ مَصِيرَكُمْ إِلَى النَّارِ
ترجمہ میں لکھتے ہیں۔ انہوں نے خدا کے ہمسر قرار دیئے تاکہ (لوگوں کوٌ اس کی راہ سے (منحرف اور ) گمراہ کریں۔ ان سے کہہ دو (کہ چند دن) دنیا کی زندگی (
اور اس کی لذتوں سے) فائدہ اٹھا لو مگر بالآخر تمہیں (جہنم کی) آگ کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔
اور تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اگلی آیت میں کفران نعمت کی ایک بدترین قسم کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ جس کے وہ مرتکب ہوتے تھے۔ ارشاد ہوتا ہے انہوں نے خدا کے شریک قرار دیے تاکہ اس طریقے سے لوگوں کو اس کی راہ سے گمراہ کریں(وجعلوا للہ اندادًا لیضلوا عن سبیلہ)۔ شرک و کفر اختیار کر کے اور لوگوں کو دین و طریق حق سے منحرف کر کے وہ لوگوں پر چند روزہ مادی اقتدار حال کرتے ہیں۔ اے رسول! ان سے کہو: اس ناپائیدار اور بے وقعت مادی زندگی سے
فائدہ اٹھا لو لیکن یہ جان لو کہ تمہارا انجام کار آگ ہے (قد تمتعوا فان مصیرکم الی النار) نہ تمہاری یہ زندگی کوئی زندگی ہے بلکہ بدبختی ہے اور نہ تمہارا یہ اقتدار کوئی حیثیت رکھتا ہے بلکہ تباہ کاری اور مصیبت ہے لیکن اس کے باوجود اپنے انجام کے بدلے تم اس سے فائدہ اٹھا لو۔
ایک اور آیت میں فرمایا گیا ہے۔ قل
تمتع بکفرک قلیلًا انک من اصحاب النار۔
کہہ دو! اپنے کفر سے تھوڑا سا
فائدہ اٹھا لے آخر کار تو اصحاب نار میں سے ہے (زمر۔۸)
اور پھر سورۃ الذاریات آیت 43 کا ترجمہ اور تفسیر دیکھیے۔
وَفِي ثَمُودَ إِذْ قِيلَ لَهُمْ
تَمَتَّعُوا حَتَّىٰ حِينٍ
ترجمہ: قوم ثمود کی سرگذشت میں بھی ایک عبرت ہے جب کہ ان سے یہ کہا گیا: تھوڑی سے دیر کے لیے تم بھی
فائدہ اٹھا لو (اور اس کے بعد عذاب کے منتظر رہو)
اور تفسیر میں لکھتے ہیں۔ اس کے بعد قوم ثمود کی نوبت آتی ہے اور ان کے بارے میں فرماتا ہے، قوم ثمود بھی ایک آیت اور عبرت ہے جبکہ ان سے کہا گیا تم زندگی کی تھوڑی سے مدت کے لیے
فائدہ اٹھا لو( اور پھر عذاب الٰہی کے منتظر رہو) (وفی ثمود اذ قیل لھم تمتعوا حتٰی حین)
حتٰی حین سے مراد وہی مہلت کے تین دن ہیں جن کی طرف سورہ ہود کی آیت ۶۵ میں اشارہ ہوا ہے۔ فعقروھا فقال تمتعوا فی دارکم ثلاثۃ ایام ذالک وعد غیر مکذوب۔ انہوں نے اس اونٹنی کی جو بطور اعجاز آئی تھی کونچیں کاٹ دیں اور ان کے پیغمبر صالح نے ان سے کہا بس تین دن اپنے گھروں میں
مزے اڑا لو اور اس کے بعد عذاب الہیٰ کے منتظر رہو، یہ نہ ٹلنے والی وعید ہے۔
برادران یہ سب حوالہ جات تفسیر نمونہ سے ہیں اور لنک اوپر دیا ہوا ہے آپ خود دیکھ سکتے ہیں کہ ایک ہی لفظ کے جو مطالب باقی سب آیات میں ایک جیسے کیے گئے ہیں۔ اسکی زیادہ حق دار سورہ نساء کی آیت 24 ہے۔ مگر اس آیت میں اس لفظ کو بطور لفظ ہی لیا گیا اور معنی اور تفسیر میں کوئی وضاحت نہیں کی گئی۔
اب لفظ
محصن کی مزید تشریح کے لیے شیخ صدوق رحمہ سے بیان کردہ حدیث دیکھیے۔ اور شیخ صدوق کہ جن کا لقب ہی "صدوق " ہے علماء کرام کے درمیان انکی ثقاہت کے بارے میں بہت کچھ لکھا جاچکا ہے جس کے بعد اعتراض کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ مزید ایک سند ملاحظہ کیجے۔۔علامہ سید باقر مجلسی اپنی کتاب حق الیقین میں لکھتےہیں
حضرت صاحب الامر کی دعا سے ابن بابویہ کو خدا نے دو فرزند عطا کیے ایک من لا یحضر الفقیہ کے مولف ہیں۔
علل الشرائع باب 287 ۔شیخ صدوق رحمہ باب کا عنوان باندھتے ہیں
وہ سبب جس کی بناء پر متعہ ایک مرد آزاد کو محصن و شادی شدہ نہیں بنا دیتا اور بیان کرتے ہیں کہ میرے والد رحمہ اللہ نے فرمایا کہ بیان کیا مجھ سے سعد بن عبداللہ نے روایت کرتے ہوئے احمد بن محمد بن عیسٰی سے انہوں نے حسین بن سعید سے انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے انہوں نے ہشام اور حفص بن بختری سے انہوں نے اس سے جس نے ان سے بیان کیا اور اس نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے کہ اپنے اس سوال پر کہ ایک شخص اگر متعہ کرے تو وہ
محصن اور شادی شدہ بن جائے گا۔ آپ نے فرمایا نہیں
شادی شدہ تو عقد دائم کرنے سے ہوتا ہے۔
علل الشرائع ہی سے
غیر مسافحین کی تشریح دیکھیے۔
علل الشرائع باب 230 میں شیخ صدوق رحمہ لکھتے ہیں بیان کیا مجھ سے علی بن احمد نے انہوں نےکہا کہ بیان کیا مجھ سے محمد بن ابی عبداللہ نےروایت کرتے ہوئے محمد بن اسماعیل سے انہوں نے علی بن عباس سے انہوں نے قاسم بن ربیع صحاف سے انہوں نے محمد بن سنان سے انہوں نے کہا کہ حضرت ابوالحسن علی ابن موسیٰ رضا علیہ السلام نے ان کے مسائل کے جواب میں تحریر فرمایا کہ زنا کو اس لیے حرام قرار دیا گیا کہ اس میں بڑی خرابیاں ہیں اس کی وجہ سے
نفوس قتل ہوتے ہیں، نسب ختم ہو جاتا ہے، اطفال کی تربیت متروک ہو جاتی ہے، میراث میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں اور اسی طرح اور بہت سی خرابیاں لازم آتی ہیں۔
ا
ور ہم دیکھتے ہیں کہ متعہ میں میراث نہیں ، اور اطفال کی تربیت کی بھی کوئی گارنٹی نہیں اور نسب کی بھی کوئی ضمانت نہیں اور معاشرے میں بہت سی خرابیاں بھی لازم آتی ہیں۔
علل الشرائع ہی سے دیکھئے وہی حکم جو قرآن کریم نے دیا کہ مرد کے لیے چار آزاد عورتیں حلال ہیں۔ جبکہ ہم متعہ میں دیکھتے ہیں کہ عورتوں کی تعداد کی کوئی قید نہیں۔
باب 272 میں لکھتے ہیں بیان کیا مجھ سے محمد بن حسن نے انہوں نے کہا بیان کیا مجھ سے محمد بن حسن صفار نے روایت کرتے ہوئے احمد بن محمد بن عیسیٰ سے انہوں نے علی بن حکم سے انہوں نے محمد بن فضل سے انہوں نے سعد جلاب سے اور انہوں نے حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے روایت کی ہے آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے عورتوں کے لیے غیرت نہیں رکھی بلکہ برائیاں خود ان سے غیرت کھاتی ہیں مگر ایمان دار عورتیں ایسی نہیں ہیں۔
اور اللہ تعالیٰ نے مردوں کے لیے غیرت رکھی ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے چار عورتیں حلال کی ہیں نیز کنیزیں بھی مگر عورتوں کے لیے صرف اس کا شوہر حلال ہے اگر اس کے سوا کسی دوسرے کے ساتھ تعلق رکھے تو وہ زانیہ ہے۔
اور باب 271 پر لکھتے ہیں۔بیان کیا مجھ سے علی بن احمد نے انہوں نے کہا بیان کیا مجھ سے محمد بن ابی عبداللہ نے روایت کرتے ہوئے محمد بن اسماعیل سے انہوں نے علی بن عباس سے انہوں نے کہا کہ بیان کیا مجھ سے قاسم بن ربیع صحاف نے روایت کرتے ہوئے محمد بن سنان سے کہ حضرت امام رضا علیہ السلام نے اس کے مسائل کے جواب میں اس مامر کا سبب تحریر فرمایا کہ ایک مرد کو چار عورتوں کے نکاح میں رکھنا جائز ہے اور عورت کو ایک مرد سے زیادہ نکاح کرنا حرام ہے۔ یہ کیوں ؟ اس لیے کہ مرد کی اگر چار عورتیں بھی ہیں اور ان سے اولاد ہوئی تو وہ سب اس کی طرف منسوب ہوگی اور اگر عورت دو مردوں سے نکاح کرے یا دو سے زیادہ سے تو لڑکے کی شناخت نہ ہو سکے گی کہ یہ کس کا ہے اس لیے کہ وہ سب اس کے شوہر ہیں۔ اس بناء پر نسب و میراث اور تعارف میں فساد لازم آئے گا۔
اور شیخ صدوق رحمہ عیون اخبار صفحہ 263 پر لکھتے ہیں اور ایک وقت میں چار آزاد عورتوں سے زیادہ عورتوں کو نکاح میں جمع نہیں کیا سکتا۔
اور مزید
تفسیر ابن کثیر میں حافظ ابن کثیر بیان کرتے ہیں۔
وقد قال الإمام أحمد: حدثنا يزيد بن هارون, حدثنا سليم بن عامر عن أبي أمامة أن فتى شاباً أتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله ائذن لي بالزنا, فأقبل القوم عليه فزجروه, وقالوا: مه مه, فقال «ادنه» فدنا منه قريباً, فقال «اجلس» فجلس, فقال «أتحبه لأمك» ؟ قال: لا والله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لأمهاتهم, قال: «أفتحبه لابنتك ؟» قال: لا والله يا رسول الله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لبناتهم. قال: «أفتحبه لأختك ؟» قال: لا والله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لأخواتهم, قال «أفتحبه لعمتك ؟» قال: لا والله يا رسول الله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لعماتهم, قال «أفتحبه لخالتك ؟» قال: لا والله يا رسول الله, جعلني الله فداك, قال: ولا الناس يحبونه لخالاتهم, قال فوضع يده عليه, وقال «اللهم اغفر ذنبه, وطهر قلبه, وأحصن فرجه» قال: فلم يكن بعد ذلك الفتى يلتفت إلى شيء, وقال ابن أبي الدنيا: حدثنا عمار بن نصر, حدثنا بقية عن أبي بكر بن أبي مريم عن الهيثم بن مالك الطائي, عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ما من ذنب بعد الشرك أعظم عند الله من نطفة وضعها رجل في رحم لا يحل له۔
تفسیر ابن کثیر سورہ بنی اسرائیل آیت ۳۲ کی تفسیر میں ابن کثیر رحمہ لکھتے ہیں۔ مسند احمد میں ہے کہ ایک نوجوان نے زناکاری کی اجازت آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے چاہی لوگ اس پر جھک پڑے کہ چپ رہ کیا کر رہا ہے، کیا کہہ رہا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے قریب بلا کر فرمایا، بیٹھ جا، جب وہ بیٹھ گیا تو آپ نے فرمایا کیا تو اس کام کو اپنی ماں کے لیے پسند کرتا ہے ؟ اس نے کہا نہیں اللہ کی قسم نہیں یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھے آپ پر اللہ فدا کرے، ہر گز نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر سوچ لے کہ کوئی کیسے پسند کرے گا ؟ آپ نے فرمایا اچھا تو اسے اپنی بیٹی کے لیے پسند کرتا ہے ؟ اس نے اسی طرح تاکید سے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ٹھیک اسی طرح کوئی بھی اسے اپنی بیٹیوں کے لیے پسند نہیں کرتا، اچھا اپنی بہن کے لیے اسے تو پسند کرے گا ؟ اس نے اسی طرح انکار کیا ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح دوسرے بھی اپنی بہنوں کے لیے اسے مکروہ سمجھتے ہیں۔ بتا تو کیا چاہے گا کہ کوئی تیری پھوپھی سے ایسا کرے ؟ اس نے سختی سے انکار کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسی طرح کوئی اور بھی اسے اپنی پھوپھی کے لیے نہ چاہے گا، اچھا اپنی خالہ کےلیے ؟ اس نے کہا ہر گز نہیں فرمایا اسی طرح اور سب لوگ بھی۔ پھر آپ نے اپنا ہاتھ اس کے سر پر رکھ کر دعا کی کہ الہٰی اس کے گناہ بخش اس کے دل کو پاک کر اسے عصمت والا بنا۔ پھر تو یہ حالت تھی کہ یہ نوجوان کسی کی طرف نظر بھی نہ اٹھاتا۔
اب سوال اٹھتے ہیں !!!
اس نوجوان نے اپنے نفس کو زنا سے بچانے کے لیے متعہ کیوں نہ کیا ؟؟؟
دوسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو متعہ کی ترغیب کیوں نہ دی ؟؟؟؟
اور تیسرا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو زنا سے متنفر کرنے کے لیے کس طرح کی مثالیں دیں ؟؟؟؟
اور ہم دیکھتے ہیں کہ یہ ساری مثالیں متعہ پر بھی صادق آتی ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی بھی یہ اپنے لیے پسند نہیں کرتا!!!
اور حدیث کو پرکھنے کے لیے چند اقوال ان شاء اللہ آپ خود نتیجے سے آگاہ ہو جائیں گے۔
عیون اخبار رضا ج۲ ص 65 پر شیخ صدوق رحمہ لکھتے ہیں جب تمہارے پاس دو متضاد خبریں وارد ہوں تو ان دونوں روایات کو خدا کی کتاب کے سامنے پیش کرو۔ اور کتاب خدا میں جس کے حلال یا حرام ہونے کا ذکر موجود نہ ہو تو تم اس حدیث کی پیروی کرو جو کتاب اللہ کے موافق ہو۔ اور کتاب خدا میں جس کا تذکرہ موجود نہ ہوتو اس حدیث کو سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کرو۔ اگر سنت پیغمبر میں اس کے متعلق نہی حرمت یا امر وجوبی وارد ہو تو تم اس حدیث کی پیرو ی کرو جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے امر و نہی کے مطابق ہو۔
ابوجعفر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے بعد کثرت سے حدیثیں بیان کی جائیں گی جو قرآن کے موافق ہو ہو میری حدیث ہے اور جو قرآن کے مخالف ہو وہ میری حدیث نہیں۔ (بیہقی)
فتح المغیث میں علامہ ابن جوزی رحمہ لکھتے ہیں ہر ایسی حدیث جو عقل کے مخالف یا اصول مسلمہ کے متناقض ہو تو جاننا چاہیے کہ وہ موضوعی ہے۔ پھر یہ معلوم کرنے کی ضرورت نہیں کہ راوی ثقہ ہیں یا غیر معتبر، اسی طرح وہ حدیث جس میں ذرا سی بات پر سخت عذاب کی دھمکی ہو یا معمولی کام پر بہت بڑے ثواب کا وعدہ ہو یا وہ حدیث جس میں لغویت پائی جائے یا جو محسوسات و مشاہدے اور نص قرآنی و سنت متواترہ کے خلاف ہے قطعًا قابل اعتبار نہیں ایسی مشتبہ اور وضعی حدیث کی نہ جرح و تعدیل کی ضروری ہے نہ سلسلہ اسناد کی تحقیق و تصدیق ایسی حدیث کی کوئی تاویل بھی قابل قبول نہیں۔
ملا علی قاری رحمہ لکھتے ہیں جو حدیث قرآن کے خلاف اور مشاہدہ کے خلاف ہو یا جس حدیث میں فضول باتیں یا رکیک مضمون و الفاظ ہوں اعتبار کے قابل نہیں۔ (موضوعات)
علامہ سخاوی کے مطابق جامع بخاری کے 435 راویوں سے مسلم نے روایت نہیں کی اور بمطابق حاکم نیشاپوری صحیح مسلم کے 625 راویوں سے بخاری نے روایت نہیں کی۔
امام ابن ہمام حنفی مصنف فتح القدیر صحیحین کو دوسری کتب صحاح سے زیادہ صحیح اور مقدم نہیں مانتے۔
علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کسی حدیث کو حسن صحیح کہہ دینے پر دھوکا نہیں کھانا چاہیے اگر حدیث قرآن کے مطابق ہے تو درست ورنہ نہیں