نین بھیا سے ملاقات

نیرنگ خیال

لائبریرین

نیرنگ خیال

لائبریرین
آہااااااااااااااااااااااااااا میں دیکھ لیا خیال بھائی آپکو :) اور عشبہ تو اتنییی ییی یی پیاری لگ ری ہے ماشاءاللہ :)کہ کیا بتاوں :daydreaming:
منصور بھائی بہت اچھا لکھا آپ نے تھوڑا ٹف تھا لیکن سمجھ ہی لیا اپنے مطلب کا :p اور اسمیں تو میرے سٹی کا زکر بھی ہےےےےےےےےےے نا :biggrin:
شکر ہے دیکھ لیا۔ حالانکہ میں نظر نہیں آ رہا تھا :p
آپ کے سٹی میں تو سوموار اور اتوار دو دن موجود تھا :)
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
واہ بہت خوبصورت روداد لکھی ہے آپ نے منصور صاحب ۔
اور عشبہ رانی تو ماشاءاللہ بہت ہی پیاری لگ رہی ہیں ۔۔۔ اللہ نظر بد سے بچائے ۔
چھوٹے بھائی عشبہ گڑیا کی نظر بھی اُتروا لیجئے گا :)۔ ماشاءاللہ نظر نہیں ٹھہر رہی اُس پر ۔اللہ اپنی امان میں رکھیں ۔آمین ۔
اپیا اب تو اپنی دادی کے پاس سے آئی ہے۔ اور آجکل اپنے نانا کے پاس ڈیرہ جمائے بیٹھی ہے۔ اس کے نانا کو یہی فکر رہتی ہے۔ ابھی برتھ ڈے پر بھی کہہ رہے تھے کہ کسی کو بلانے کی ضرورت نہیں۔ میری بچی کو نظر لگا دیتے ہیں لوگ۔ :) لہذا صرف تین لوگ ہی تھے ہم سالگرہ منانے کو بھی :)
 

قیصرانی

لائبریرین
ماشاءاللہ
آپ کی شخصیت کتنی اچھی ہے۔
آپ محفل کے چند انتہائی ہنس مکھ، دوستانہ، مخلص اور زبردست ممبرز میں سے ایک ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں۔ اور اوپر سے مزید ظلم دیکھیں کہ اس ملاقات میں عشبہ رانی بھی موجود تھیں۔ اب بندہ کرے تو کیا کرے :(
 

الشفاء

لائبریرین
DSC01974_zps1ed08333.jpg

DSC01975_zpsa58317b9.jpg


ارے یہ پالی پالی سی بٹیا کون ہے۔ جس کے حسن کے سامنے پاپا جانی اور انکل جانی کا حسن ماند ہی پڑ گیا ہے (اب چاہے آپ دونوں کو برا لگے لیکن حقیقت یہی ہے۔ کسی سے بھی پوچھ لیں)۔ اور اس گڑیا کے ہاتھ میں جو ہے۔وہ تو سب کی جان ہے۔:p

زبردست قیصرانی بھیا۔ نیرنگ خیال بھائی کی چٹ پٹی تحریر کی تعریف پہلے ہی ہو چکی ہے۔ ان کے تھریڈ میں۔۔۔
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
ارے یہ پالی پالی سی بٹیا کون ہے۔ جس کے حسن کے سامنے پاپا جانی اور انکل جانی کا حسن ماند ہی پڑ گیا ہے (اب چاہے آپ دونوں کو برا لگے لیکن حقیقت یہی ہے۔ کسی سے بھی پوچھ لیں)۔ اور اس گڑیا کے ہاتھ میں جو ہے۔وہ تو سب کی جان ہے۔:p

زبردست قیصرانی بھیا۔ نیرنگ خیال بھائی کی چٹ پٹی تحریر کی تعریف پہلے ہی ہو چکی ہے۔ ان کے تھریڈ میں۔۔۔
یہ میری بٹیا ہے :)
 

الشفاء

لائبریرین

:eek:

وہ تو مجھے پتہ ہے برادر۔ اسی لئے تو تصویریں لگا کر لکھا ہے کہ اس گڑیا کے سامنے پاپا جانی (آپ) اور انکل جانی (قیصرانی بھیا) کا حسن ماند پڑ گیا ہے۔بٹوین دا لائن کیا ہے ، سمجھے ہی نہیں ہیں آپ۔۔۔:sick:
 

قیصرانی

لائبریرین
لمبے انتظار کے بعد سفر کی پہلی قسط
ٹرپ اس وجہ سے پلان کیا کہ بہن کی شادی تھی تو وہاں پہنچنا تھا۔ مسائل کچھ یوں تھے کہ میرا پاکستانی پاس پورٹ پرانا ہو گیا تو اسے ری نیو نہیں کرایا تھا۔ فننش پاس پورٹ پر ویزہ لگوانے بھیج دیا کہ پاکستانی پاس پورٹ بنوانا یا پاکستان اوریجن کارڈ بنوانا، دونوں ہی لمبے کام تھے۔ بہن کی شادی بس اچانک ہی طے ہوئی کہ مجھے بمشکل ایک ہفتے کا وقت مل سکا۔ نکاح تو ویسے بھی ہو چکا تھا، اب کے صرف رخصتی ہونی تھی جس پر جانا لازمی تھا۔ میں ٹھہرا سدا کا سُست، اس لئے میں نے پاس پورٹ بھجوا دیا اور ایک دوست سے کہا کہ وہ اسے جلد کرا دیں۔ انہی دوست کا کلاس فیلو سوئیڈن کی ایمبیسی میں ۔۔۔۔ کے عہدے پر فائز ہے۔ اس لئے ایک دن پاس پورٹ جانے کا لگا اور ایک دن آنے کا، درمیان میں چند گھنٹے پروسیسنگ پر لگے۔ تیز ترین سروس۔ اب مسئلہ یہ بھی ہوا کہ جب پاس پورٹ بھجوانا تھا تو ٹکٹیں بھی بھجوانی تھیں کچھ مالیت کی۔ بین الاقوامی طور پر قبول شدہ ٹکٹیں اس پوسٹ آفس میں بہت کم تھیں۔ مجھے لگ بھگ چالیس یورو کی ٹکٹیں درکا رتھیں اور پوسٹ آفس میں محض 27 یورو جتنی۔ اور پہلی بار یہ ٹکٹ بک رہی تھی تو کسی کو پتہ بھی نہیں کہ کرنا کیا ہے۔ خیر باقی کی ٹکٹ نزدیک پندرہ کلومیٹر دور دوسرے ڈاکخانے سے مل جاتیں، لیکن پوسٹ کے روانہ ہونے کا وقت کافی نزدیک تھا تو کم پیسے والی ٹکٹیں ہی بھیج دیں
اب صورتحال یہ تھی کہ رخصتی اتوار کے دن تھی اور جمعے کو میں نے آن لائن چیک کیا تو پاس پورٹ پہنچ چکا تھا اور شام 5 بجے پک کر سکتا تھا۔ آفس سے میں نے آن لائن ٹکٹ خریدی، چھٹی کی درخواست دی، ٹکٹوں کا پرنٹ نکالا اور آفس سے روانہ ہو کر پاس پورٹ اٹھایا اور اس کے بعد گھر جا کر سامان پیک کیا۔ ہفتے کی صبح ارلی مارننگ فلائٹ تھی۔ درجہ حرارت کافی کم تھا، شاید منفی 20 ہو، کئی مسائل بھی پیدا ہوئے اور الحمدللہ حل بھی ہوئے
ہیلسنکی ائیرپورٹ پر گاڑی چھوڑی اور وہاں سے بس پکڑ کر ٹرمینل تک۔ میری عقلمندی دیکھئے کہ سیل فون، چارجر اور کنڈل کو میں نے اپنے پاس رکھا یعنی ہینڈ کیری میں اور اپنی پانچ کلو وزنی جیکٹ، جس کی تصویر ابھی شیئر کی تھی ملبوسات کی تصاویر کے زمرے میں، کو بیگ میں ڈالا۔ بیگ میں گفٹس ہی تھے یا پھر جیکٹ یا پھر ایک جوڑے کپڑے اور شیونگ کٹ
فلائٹ SAS کی تھی اور بڑے آرام سے کوپن ہیگن جا پہنچا۔ وہاں میری اگلی فلائیٹ کا وقفہ کافی کم تھا۔ چیک ان کیا۔ فننش پاس پورٹ پر پاکستانی ویزہ دیکھ کر ہر جگہ کئی منٹ لگے کہ انہیں پورا ریکارڈ رکھنا ہوتا ہے۔ تاہم سوال کسی نے بھی نہیں کیا کہ کیوں جا رہا ہوں۔ ائیرپورٹ پر انتظار شروع ہوا جو لمبا ہوتا ہی گیا۔ آخرکار پتہ چلا کہ جہاز لندن سے روانہ ہو چکا ہے اور یہ لندن کے کسی بھی ائیرپورٹ سے روانہ ہونے والی آخری فلائٹ تھی، اس کے بعد برفانی طوفان کی وجہ سے ساری فلائٹس کینسل ہو گئی تھیں۔ جہاز پہنچا تو گیٹ کھل کر بند ہو گیا کہ جہاز میں کوئی تکنیکی خرابی پیدا ہو گئی تھی۔ خیر خدا خدا کر کے جہاز روانہ ہوا تو کافی دیر ہو چکی تھی۔ گلف ائیرویز والے مجھے شروع سے ہی پسند نہیں۔ لیکن مجبوری کہ ٹکٹ جب فلائٹ سے چند گھنٹے قبل خریدی جانی ہو اور ٹائم بھی کم ہو تو کچھ بھی چلتا ہے
فلائٹ اٹینڈنٹ سے پوچھنے گیا کہ بی بی میری کنکٹنگ فلائٹ کا کچھ ہوا؟ تو بے چاری اپنی بیئر چھپانے لگی۔ میں نے کہا کہ پی لو، مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بس فلائٹ کے بارے کچھ بتاؤ۔ دوبارہ پوچھنے گیا تو ایک سیٹ پر نیم دراز سو رہی تھیں محترمہ۔ جگایا تو بے چاری نے جا کر کپتان سے پوچھا اور مجھے آن کر بتایا کہ جی اگلی فلائٹ روانہ ہو چکی ہے۔ آپ وہاں پہنچ کر دیکھئے نیکسٹ فلائٹ
بحرین پہنچا تو عمر سیف یاد آئے۔ کافی یتیم سا ائیر پورٹ لگ رہا تھا کہ سار ےٹرمینل ایک ہی چھوٹی سی عمارت میں تھے۔ واضح رہے کہ پاکستانی اعتبار سے بہت بڑا تھا لیکن متحدہ عرب امارات یا یورپ کے معیار کے حوالے سے بہت چھوٹا۔ عمر سیف بھائی سے معذرت کہ ان کا دل دکھایا
خیر ائیرپورٹ پر اترا تو بھاگ دوڑ کی۔ عرب ممالک کے ائیرپورٹ پر تعینات عربی عملہ انتہائی نحوست مارا ہوتا ہے۔ ایک کام کے لئے بے شک چار چار بندے موجود ہوں گے لیکن کام پھر بھی پورا نہیں ہوگا۔ خیر مارا ماری پوچھا تو پتہ چلا کہ اگلی فلائٹ دو دن بعد کی ہے۔ میں نے صاف انکار کیا کہ میری بہن کی رخصتی ہے۔ لازمی پہنچنا ہے۔ کچھ کرو۔ خیر انہوں نے اتحاد کی اگلی فلائٹ سے مجھے دبئی اور پھر دبئی سے اتحاد یا کسی اور ائیرلائن کی لاہور کی ٹکٹ کر دی۔ پھر میں نے ہوٹل مانگا تو جواب ملا کہ یار تین چار گھنٹے کی فلائٹ ہے، آنے جانے میں ہی وقت لگ جائے گا۔ رہنے دو۔ میں نے صاف انکار کیا کہ سوری، یہ میرا حق ہے۔ جب اس نے ہوٹل کی ریزرویشن پکڑائی تو میں نے اس پر احسان کیا کہ رہنے دو۔ پھر کبھی سہی۔ اس نے خوش ہو کر مجھے کھانے کے ڈبل کوپن دے دیئے۔ کھانا کیا تھا، چاول تھے اور ساتھ خلافِ محاورہ، مرغ کی دو ٹانگیں۔ پیپسی تھی۔ سب سے زیادہ الجھن یہ ہوئی کہ لوگ اندر عمارت میں ہی بیٹھے سگریٹ پی رہے تھے
خیر کھا پی کر پھر ائیرپورٹ کی عمارت کی سیر کو نکلا۔ کوئی فٹ بال کا میچ ہو رہا تھا اور پھر اب سارے عربی اور عربنیں دبئی جا رہے تھے۔ ویسے جتنا تھکا ہوا وائی فائی اس ائیرپورٹ کا ملا، اتنا اللہ معافی کہ پی ٹی سی ایل کا موبائل ڈیٹا نیٹ ورک بھی نہیں۔ خیر چند گھنٹے بعد اگلی فلائٹ سے دبئی پہنچا۔ وہاں ائیرپورٹ کو دیکھ کر جی خوش ہو گیا۔ ہر جگہ عربی ملازمین، اتنے کہ بہت سار ےتو اپنی حاضری لگا کر کونوں کھدروں میں بیٹھ گئے کہ کاؤنٹر ہی خالی نہیں تھے۔ اچانک بہت ساری فلائٹس آتیں، ڈھیر سارا رش لگتا اور پھر لمبی چھٹی۔ وہاں کاؤنٹروں سے معلومات لیں تو پتہ چلا کہ میرے بارے اطلاع پہنچ چکی تھی۔ بتایا گیا کہ دو آپشن ہیں۔ ایک یہ اگلے دن شام کی فلائٹ ہے اسلام آباد کے لئے اور دوسری فلائٹ اسی دن کی ہے لاہور کے لئے پی آئی اے۔ جو بھی کہوں، وہ دینے کو تیار ہیں۔ لیکن انہوں نے بتایا کہ پی آئی اے کی ٹکٹ پر کنفرم نہیں کہ فلائٹ پاکستان سے ہی لیٹ ہے کہ کوئی تکنیکی مسئلہ ہے۔ ایک عرب ائیرلائن مل سکتی ہے کنفرم، لیکن وہ اگلے دن پہنچے گی۔ میں نے پی آئی اے کو ہی ترجیح دی۔ وہیں ائیرپورٹ پر بیٹھ کر میں نے اپنے دوست اور چھوٹے بھائی کی طرح عزیز جمیل سے بات کی، جو انہی دنوں دبئی تھا۔ اس کے علاوہ بھی بہت لوگوں سے باتیں کیں، لیکن ان کے نام صیغہ راز میں ہیں۔ پاکستانی فلائٹ کے لئے کاؤنٹر پر گیا تو انتہائی منحوس قسم کی شکلیں موجود تھیں جن کو دیکھ کر پی آئی اے کی "ترقئ معکوس" کی وجوہات صاف نظر آنے لگیں
خیر پاکستانی فلائٹ پہنچی، اس پر سوار ہوا، روانہ ہوئے تو میں نے بھائی کو میسج کر دیا کہ جو بندہ مجھے لینے اسلام آباد پہنچا ہے، اسے کہیں کہ رات کسی ہوٹل میں بسر کر کے مجھے لاہور سے لینے آ جائے۔ قادری صاحب کا دھرنا اور شادی کی مصروفیات کی وجہ سے اور کچھ ممکن نہیں تھا۔ ایک انتہائی معزز شخصیت نے آفر کی تھی کہ وہ مجھے اسلام آباد سے ڈیرہ ڈراپ کرنے کی پوزیشن میں ہیں، لیکن میں نے انہیں اتنی تکلیف دینا مناسب نہیں سمجھا۔ نام مت پوچھئے گا کہ میں نہیں بتانے والا :)
پھر اس کے بعد لاہور پہنچا تو شام ہو چکی تھی۔ بھائی نے بتایا کہ رخصتی ہو گئی ہے۔ ہر ممکن طریقے سے بارات لیٹ کرائی گئی، لیکن چونکہ دھند شروع ہو چکی ہے تو بارات زیادہ لیٹ نہیں ہو سکتی۔ طے یہ ہوا کہ میں لاہور سے ڈیرہ غازی خان کی طرف جاتا ہوں اور بارات ڈیرہ غازی خان سے لاہور روانہ ہوتی ہے تو راستے میں کہیں ملاقات کر لیتے ہیں۔ ساہیوال (ساہیوال سے متعلق ایک بات میں نے کسی کو نہیں بتانی) پہنچے تو بارات کافی لیٹ تھی اور طے ہوا کہ ساہیوال سے آگے ایک جگہ تاج محل ہوٹل آتا ہے، وہاں رکتے ہیں۔ وہیں رکا، تھوڑی دیر بعد بارات پہنچی اور بغیر رکے چلی گئی جبکہ بہن، بہنوئی اور ان کے بھائی اور بھابھی رک گئے ملاقات کو۔ بس مختصر سی ملاقات تھی، سلام دعا کر کے وہ لوگ رخصت ہوئے اور میں گھر۔ رات کافی ہو چکی تھی اور ڈرائیو صاحب اچھے تو تھے لیکن نیند کا اثر ان پر غالب آنے لگ گیا تھا۔ میں اتنا سفر کر چکا تھا کہ نیند اب بے معنی ہو کر رہ گئی تھی۔ کچھ دیر ڈرائیونگ میں اس کی مدد کی۔ اس اللہ کے بندے نے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھتے ہی مجھے جگائے رکھنے کی "نیت" سے ڈی وی ڈی پلیئر پر نرگسی مجرے لگا دیئے۔ اب میں ایک تو لیفٹ ہینڈ ڈرائیو سے رائٹ ہینڈ ڈرائیو پر منتقل ہوا اور پھر راستے بھی انجان اور اندھیرے اور ساتھ نرگسی مجرے کی وڈیوز، استغفرللہ۔ خیر گھر پہنچا تو گھر تلاش کرنے میں کافی مشکل ہوئی کہ میرا یہ چکر پانچ سال بعد لگا تھا اور راستے وغیرہ کافی بدل گئے تھے۔ خیر گھر پہنچ کر پھر کیسے وقت گذرا، وہ سکپ کر دیتے ہیں :)
 
آخری تدوین:
Top