واجاں ماریاں بُلایا کئی وار وے ،کسے نے میری گل نہ سُنی
جی ہاں۔ موصوف آوازیں دینے میں نمبر ایک ہیں۔ اِن کے بارے میں مشہور ہے کہ محفل میں سب سے زیادہ دھاگے کھولنے کا اعزاز اِن کے پاس ہے ۔ اگر ایسا نہیں بھی ہے تو بھی محفلین ایسا سمجھنے پہ مجبور ہیں ۔نہ صرف سب سے زیادہ دھاگے کھولنے کا اعزاز اِن کے پاس ہے بلکہ ہر زمرہ میں دھاگے کھولنے کا،سب سے زیادہ ٹیگنگ کرنے کا،سب محفلین سے بات کرنے کا(کوئی جواب دے نہ دے)،ایک جیسی بات کرنے کا،ہر دھاگے اور ہر صفحہ پہ ایک جیسی بات کرنے کا اعزاز بھی اِن ہی کے پاس ہے۔
ہر ڈیڑھ یا پونے دو دِن بعد ایک نیا دھاگہ کھول لیتے ہیں اورنام لے لے کے آوازیں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور اِتنی مرتبہ اور اِتنے خلوص سے آوازیں لگاتے ہیں کہ محفل میں ہر طرف اُن کی ہی آوازیں گونج رہی ہوتی ہیں اور اِس گونج میں باقی سب کی آوازیں دب کے رہ جاتی ہیں۔
ایک ایک موضوع پہ اتنے اتنے اور اتنی اتنی سُرخیوں /عنوانات سے دھاگے کھولتے ہیں کہ کوئی نہ کوئی تو اِن میں سے کسی میں پھنس ہی جاتا ہے۔ خاص طور پر نووارد۔
اُن کی ہلا شیری پہ کچھ محفلین پُر جوش ہو کراُن کے بیان کردہ منصوبہ پہ قدم آگے بڑھاتے ہیں اوردُور تک چلے جاتے ہیں کہ چلتے چلتے اُنہیں احساس ہوتا ہے کہ عزیزی تو اُن کے ساتھ ہی نہیں ہیں ۔۔۔۔گھبرا کے جب اِدھر اُدھر دیکھتے ہیں تو "اُنہیں" کسی اور منصوبے کے لئے دعوت نامے بانٹتا ہؤا پاتے ہیں۔
"اُن" کے پاس اس قدر منصوبے ہیں اور اتنے متنوع کہ دُنیا کو چاہیےکہ اُنہیں "دنیا کا بہترین منصوبہ ساز ذہن رکھنے والا انسان" کا خظاب تو ضرور دے دے۔
اِتنی معصومیت سے بات کرتے ہیں کہ دوجا چُوں نہیں کر سکتا۔ جو چُوں کرے ،اُس سے پوچھا کرتے ہیں کہ" کیا بات ہے آپ چُوں کیوں کر رہے ہیں۔ نہ کریں۔میرے منصوبے پہ عمل کریں۔" وہ پھر چُوں کرے تو "یہ" پھر سے کہتے ہیں۔ "جناب! آپ چوُں کیوں کر رہے ہیں۔ نہ کریں۔میرے منصوبے پہ عمل کریں "آخر کار دُوجا بندہ یا تو پتلی گلی سے نکل لیتا ہے یا اُن کی چھُری تلے آجاتا ہے۔
بہت پُر خلوص اور مستقل مزاج ہیں۔اتنے خلوص سے بات کرتے ہیں کہ بندہ اپنی ساری مصروفیات اِک پاسے رکھ کے اُن کے بتائے کام کرتا نظر آتا ہے۔ مستقل مزاجی اُن کی وہ صفت ہے کہ اصل میں محفلین کو مستقل مزاجی کی زندہ مثال اُن کی صورت میں نظر آتی ہے۔اگر کسی میں یہ صفت نہ ہو اور وہ اپنانا چاہے تو آپ میں سے کوئی بھی " اُن" کے شروع کردہ چند دھاگے مریض کے مطالعے کے لئے لکھ دے۔
اور اگر آپ کی کسی سے دشمنی چل رہی ہے تو انتقام کا سب سے بہترین طریقہ ہے کہ اُس دشمن کو "اُن" کے دھاگوں میں اُلجھا دو۔ نہ صرف یہ کہ ساری دشمنی بھول جائے گا بلکہ اب آپ دشمن سے ملیں گے تو کسی نہ کسی ذہنی خلل میں مبتلا پائیں گے۔
"اُن" کی مستقل مزاجی ۔دُوجوں کو بال نوچنے پہ مجبور کر دیتی ہے۔ جی ہاں ظاہر ہے اُن کے اپنے بال۔جبکہ "وہ" تو ڈھیروں منصوبے،دھاگےبنا بنا کے اور آوازیں دے دے کے فارغ البال ہو گئے ہیں۔نہ نہ آپ کی یہ سوچ بھی غلط ہے کہ ایک ایک بال کے عوض ایک ایک دھاگہ کھولا ہے۔ نہیں بھئی اگر ایسا ہوتا تو ۔۔۔۔۔۔محفلین بال بال نہ بچ جاتے۔
منتظمین کو کوئی اور کام نہیں ہے ماسوائے اُن کے شروع کردہ دھاگوں کو بند کرنے کے۔ آپ سب سوچتے ہوں گے کہ کسی بھی کام کو شروع کرنا مشکل اور بند کرنا آسان ہوتا ہے۔ یہاں آپ غلط ثابت ہوں گے۔ یہ بات آپ منتظمین سے پوچھ کے دیکھ لیں۔ "اُن" کا دھاگے شروع کرنا بہت آسان ہے۔ جبکہ منتظمین کا "اُن" کے دھاگے بند کرنا اور کرتے رہنا بہت مشکل۔ ابھی منتظمین کسی ایک زمرہ میں "اُن" کے دھاگے بند کر کے سکون کا سانس لینے کو ہوتے ہیں کہ کسی اور زمرے میں ایک نہیں دو نہیں پورے چھہ دھاگے ایک ہی موضوع پہ مختلف عنوانات سے کھل جاتے ہیں۔ بیچاروں کا بھاگ بھاگ کے حشر ہو جاتا ہے لیکن" وہ "نہیں تھکتے۔ کہیں اور جگہ نہ ملے تو متفرقات۔ وہاں بھی کوئی پابندی ہو تو ذاتی مکالمہ کہیں نہیں گیا۔ اور ذاتی مکالمہ بھی ذاتی نہیں رہتا کہ "وہ" حاضر سروس سارے محفلین کو دعوت نامے بانٹتے جاتے ہیں۔ کئی محفلین تو اتنے بے مروت ہو گئے ہیں کہ مجال ہے "اُن" کےدعوت نامے کا جواب ہی دے دیں۔حد ہوتی ہے بے مروتی کی۔ لیکن مستقل مزاجی کی حد نہیں ہے،یہ یاد رہے۔
ان کے دھاگوں نے تو بہت پُرانے محفلین کو بھی محفل چھوڑنے پہ مجبور کر دیا۔ دروغ بر گردنِ راوی قیصرانی اور شمشاد بھائی نے ۔۔۔۔۔۔۔۔
اب کیا کہیں کہ کیا ہے، شبِ غم بُری بلا ہے
مجھے کیا بُرا تھا مرنا،اگر ایک بار ہوتا
مزے کی بات یہ ہے کہ منصوبے بنانے کے باوجود منصوبے کے بارے میں کیا،کیوں،کیسے،کہاں،جیسے سوالات دُوجوں سے کرتے نظر آتے ہیں۔
"اُن" کے دھاگوں کی خاص بات جو آپ کو کہیں نہیں ملے گی۔آپ "اِن" کا دھاگہ جہاں سے بھی شروع کریں ایک جیسا ہو گا۔ یہ ایک اضافی خصوصیت ہے اِن کے دھاگوں کی۔ صفحہ نمبر 1 پہ بھی آپ کو یہی بات ملے گی۔
"آپ زیک سے پوچھ لیں۔ اُنہیں سب پتہ ہے۔"
صفحہ 10 پہ بھی آپ کو یہی ملے گا۔
"اِس کے لئے آپ عارف کریم سے رجوع کریں۔وہ آپ کو ساری تفصیل فراہم کر دیں گے۔"
"فاتح"
"زیک'
عارف کریم"
"عثمان"
"قیصرانی"
"شمشاد"
"فاتح" "کیا بات ہے؟ آپ کوئی دلچسبی کیوں نہیں لے رہے؟"
"زیک آپ فلاں والا دھاگہ دیکھیں۔"
"اُن" کے اکثر دھاگے تو اوؔل و آخر ٹیگنگ پہ مشتمل ہوتے ہیں۔ پھر سے دروغ بر گردنِ راوی، خواتین بچوں کے نام رکھنے کے لئے یہ دھاگے دیکھنا شروع ہو گئی ہیں۔
ایک بات سے محفلین انکار ہرگز نہیں کر سکتے کہ موصوف کی معصومیت،خلوص،مستقل مزاجی ، لوگوں سے محبت و عزت اور خواتین کا احترام جیسی خصوصیات اُنہیں ہر دل عزیز بناتی ہیں۔"اُن" کے دھاگوں بنا محفل سونی ہی ہو جائے۔ واقعی وہ ہم محفلین کو بہت عزیز ہیں۔
ثبوت حاضر ہے:سب سے زیادہ ٹیگنگ کرنے کا،
ہر ڈیڑھ یا پونے دو دِن بعد ایک نیا دھاگہ کھول لیتے ہیں اورنام لے لے کے آوازیں لگانا شروع کر دیتے ہیں۔ اور اِتنی مرتبہ اور اِتنے خلوص سے آوازیں لگاتے ہیں کہ محفل میں ہر طرف اُن کی ہی آوازیں گونج رہی ہوتی ہیں اور اِس گونج میں باقی سب کی آوازیں دب کے رہ جاتی ہیں۔
"فاتح"
"زیک'
عارف کریم"
"عثمان"
"قیصرانی"
"شمشاد"
"اُن" کے اکثر دھاگے تو اوؔل و آخر ٹیگنگ پہ مشتمل ہوتے ہیں۔ پھر سے دروغ بر گردنِ راوی، خواتین بچوں کے نام رکھنے کے لئے یہ دھاگے دیکھنا شروع ہو گئی ہیں۔
جب تحریر پڑھی تو پڑھتا ہی گیا۔ ماشاءاللہ اتنا عمدہ لکھتی ہیں آپ۔ اور ہم محروم ہی رہے آپ کی تحریروں سے۔ اتنی زبردست تحریر۔
تحریر ایسی کہ پڑھتے ہوئے بے ساختہ ہنسی آرہی تھی جسے بڑی مشکل سے روکا کہ دکان پر تھا۔ مبادا لوگ سمجھتے کہ میں پاگل ہوگیا ہوں جو بلاوجہ ہنس رہا ہوں۔ اب انہیں کیا معلوم کہ میں جاسمن بہنا کی اتنی پیاری تحریر پڑھ رہا تھا۔
مکمل تحریر پڑھنے کے بعد سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کون سی ریٹنگ دوں۔ زبردست کی، متفق کی، پرمزاح کی یا پھر دوستانہ کی۔
اگر سب ریٹنگز کی اجازت ہوتی تو میں یہ سب ریٹنگز دیتا۔ لیکن ایک ہی کی اجازت کے باعث زبردست پر ہی اکتفا کیا اور باقی کی ریٹنگز کے لیے یہ مراسلہ۔
لیجئے باقی ریٹنگز
یہاں تک تو ٹھیک ہوگیا لیکن مجھے لگتا ہے کہ عزیزامین صاحب شاید اس تحریر کو دوسرے لفظوں میں لے گئے ہیں۔ اسی لیے شروع سے آخر تک ناپسندیدہ کی ریٹنگ ہی دبادی ہے۔ اور اس سے پہلے کہ میرے اس مراسلے پر بھی ناپسندیدہ کی مہر لگے میں پہلے ہی ان کو صفائی پیش کردوں۔
ان کے لیے عرض ہے کہ عزیز صاحب جاسمن بہنا نے یہ تحریر آپ کی مخالفت میں نہیں لکھی بلکہ انہوں نے ہلکے پھلکے انداز میں آپ کا تعارف کروایا تھا جو شاید آپ کو پسند نہیں آیا۔ لیکن یہ سچ ہے کہ انہوں نے کسی غلط نیت سے نہیں لکھا۔
امید ہے وضاحت قبول فرمائیں گے۔
نہیں بلکہ شاعر سے معذرت کے ساتھ یہ تبدیلی مناسب رہے گی۔میں بس اتنا ہی کہوں گا اپنے دفع میں کے۔ ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا سمجھتے رہے اک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا
اپنے دفع میں یادفاع میں؟میں بس اتنا ہی کہوں گا اپنے دفع میں کے۔ ہم دعا لکھتے رہے وہ دغا سمجھتے رہے اک نقطے نے محرم سے مجرم بنا دیا
ہم کنیڈین وغیرہ کا یہی حال ہےاپنے دفع میں یادفاع میں؟
میری وجہ سے تو کوئی نہیں بھاگا محفل سے؟واہ واہ جاسمن بہنا کیا کہنے۔ لاجواب۔ کاش ہمیں اس محاورے ”آپ تو چھپے رستم نکلے“ کا فی میل ورژن پتہ ہوتا تو اسے آپ کے لئے استعمال کرتے۔
اتنا عمدہ لکھا ہے اور بعض جملے تو ایسی روانی اور بے ساختگی سے لکھے گئے ہیں کہ بے اختیار پڑھ کر ہنسی آگئی۔
عزیزی بھائی کو ٹیگ تو کردینا تھا یا ڈر لگ رہا ہے؟
ارے نہیں بھائی۔ مزاح کو سمجھا کریں یار۔ اسطرح کے خاکے تو صرف انہی کے لکھے جاتے ہیں جن سے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اور درمیان میں کچھ ہلکی پھلکی باتیں دوستانہ رنگ میں مزاح کے انداز میں ڈال دی جاتی ہیں انہیں حقیقی تھوڑا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اگر اگلا بندہ اس طرح سنجیدہ ہوجایا کرے تو مزاح کی یہ صنف تو ختم ہی ہوجائے بلکہ اعلان جنگ پر ختم ہو۔ اب فاتح بھائی کو دیکھ لیں کہ ان پر ہم نے دو خاکے لکھے اور دونوں میں جن باتوں کی منظر کشی کی گئی تھی ان میں سے اکثر کا حقیقی زندگی میں کوئی وجود ہی نہیں تھا لیکن انہوں نے تو خوب انجوائے کیا۔ یہاں جاسمن بہنا نے تو ابھی اس سے کہیں ہلکا ہاتھ رکھا ہے جتنا ہم نے دوسروں پر رکھا تھا۔میری وجہ سے تو کوئی نہیں بھاگا محفل سے؟
ہمیں تو حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کہانی یاد آگئی۔ویسے اگر ایک انسان کشتی میں سوار ہو اور کچھ اور لوگ بھی اسی کشتی میں سوار ہوں وہی شخص کشتی میں سوراخ کر دے تو سب کی جان خطرے میں پڑے گئی۔چاہے وہ سوراخ معصومیت ہی میں کیا گیا ہو۔
ہم عام انسان ہیں جنابہمیں تو حضرت خضر علیہ السلام اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کی کہانی یاد آگئی۔
بعض اوقات کشتی میں سوراخ بھی بہتری کے لیے ہی کیا جاسکتا ہے، لیکن کوئی سمجھنے والا بھی تو ہو۔ بہت زیادہ ذود رنجی بھی اچھی بات نہیں۔ جس سادگی اور اپنائیت سے میری بٹیا نے یہ مضمون لکھا تھا اس میں معصومیت اپنائیت تو ہے، کینہ پروری، بغض و عداوت کا دور دور تک نام نشان بھی نہیں۔
اللہ ہمیں بین السطور پڑھنے کی بھی توفیق عطا فرمائے۔
متفقارے نہیں بھائی۔ مزاح کو سمجھا کریں یار۔ اسطرح کے خاکے تو صرف انہی کے لکھے جاتے ہیں جن سے اپنائیت کا احساس ہوتا ہے۔ اور درمیان میں کچھ ہلکی پھلکی باتیں دوستانہ رنگ میں مزاح کے انداز میں ڈال دی جاتی ہیں انہیں حقیقی تھوڑا ہی سمجھا جاتا ہے۔ اگر اگلا بندہ اس طرح سنجیدہ ہوجایا کرے تو مزاح کی یہ صنف تو ختم ہی ہوجائے بلکہ اعلان جنگ پر ختم ہو۔ اب فاتح بھائی کو دیکھ لیں کہ ان پر ہم نے دو خاکے لکھے اور دونوں میں جن باتوں کی منظر کشی کی گئی تھی ان میں سے اکثر کا حقیقی زندگی میں کوئی وجود ہی نہیں تھا لیکن انہوں نے تو خوب انجوائے کیا۔ یہاں جاسمن بہنا نے تو ابھی اس سے کہیں ہلکا ہاتھ رکھا ہے جتنا ہم نے دوسروں پر رکھا تھا۔
تو چلیں پھر واپس جاکر جہاں جہاں ”ناپسند“ کے کنکر پھینکے ہیں وہ صاف کریں۔ میری ریٹنگ شیٹ گندی کردی۔ گندہ بچہ۔
فاتح صاحب آپ کے پاس صرف پر مزاح والی آپشن موجود ہے برائے مہربانی نتظامیہ سے رابطہ کریں
توجہ دلانے کا شکریہ۔ مسئلہ درست کر دیا گیا ہے، اب میں آپ کے مراسلوں کو نا پسندیدہ قرار دے سکتا ہوں جیسا کہ اوپر کے مراسلے سے ظاہر ہے۔
تو چلیں پھر واپس جاکر جہاں جہاں ”ناپسند“ کے کنکر پھینکے ہیں وہ صاف کریں۔ میری ریٹنگ شیٹ گندی کردی۔ گندہ بچہ۔