ظالمو تہمارے اوپر خدا کا قہر نازل ہو
بی بی کی خبر
واہ آرڈینس فیکڑی کے باہر ہوئے دو خودکش حملوں کے بعد جمعہ کے روز واہ کینٹ کے ادنیٰ درجے کے ملازمین کی رہائشی کالونیوں میں سوگ کی سی کیفیت تھی۔
کہیں ہلاک ہونے والوں کی نماز جنازہ ادا کی جا رہی تھی تو دوسری جانب ہلاک ہونے والوں کے اہلخانہ اور رشتہ دار اپنے پیاروں کی یاد میں آنسو بہاتے اور بین کرتے نظر آئے۔
جوزف کھنڈا جو تقریباً پچیس سال سے واہ فیکڑی میں ملازمت کر رہے تھے خودکش بم حملے کا نشانہ بن گئے۔ جوزف کھنڈا کی آخری رسومات کے لیے تمام رشتہ دار اکھٹے ہوچکے تھے اور ان کی ماں اور بہن میت کے پاس بیٹھی اپنے پیارے کو یاد کر کے بین کر رہی تھیں۔
جوزف کھنڈا
جوزف کھنڈا کی بیوہ عشرت جوزف نے بتایا کہ انہیں پہلے ایک رشتہ دار نے فون کر کے بتایا تھا کہ جوزف زخمی ہیں لیکن ہسپتال پہنچنے کے تھوڑی دیر بعد ہی ان کی موت کی تصدیق کی دی گی۔
جوزف کھنڈا کے بیٹے عاشکار نے روتے ہوئے کہا کہ اب ہمارے پاس کسی کو کہنے کو بچا ہی کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ابھی تک حکومت کی طرف کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے لیکن حکومت اب ہمارے لیے کر بھی کیا سکتی ہے۔
واہ فیکڑی کے اسلحہ یونٹ میں کام کرنے والے پبنتالیس سالہ محمد مختار جو آٹھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد بھی تھے۔ ان کی بیوہ بشریٰ بی بی نے کہا کہ ان کا چھوٹا بیٹا ابھی صرف چھ سال کا ہے اور کمانے والا کوئی بھی نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہم لوگ ان کا انتظار کر رہے تھے کہ اچانک ان کے زخمی ہونے کی خبر پہنچی اور رات کو ان کا ایک آپریشن بھی ہوا لیکن آج صبح ان کی موت ہو گئی۔
بشری بی بی نے روتے ہوئے اپنے چھ سالہ بیٹے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اسے تو اتنا بھی پتہ نہیں کہ اس کے والد اب کبھی بھی واپس نہیں آئیں گے۔ ’میری آٹھ بیٹیاں ہیں اور ابھی صرف ایک کی شادی ہوئی ہے اور اب میں اپنی سات بیٹیوں کو لے کر کدھر جاؤں۔‘
مختار کی بہن
قریب میں زمین پر بیٹھی محمد مختار کی بہن نے روتے ہوئے کہا ’میرے بھائی کا کیا قصور تھا کہ ظالموں نے آٹھ بیٹیوں کے باپ کو جان سے مار دیا۔ کل سب لوگ ان کا گھر میں انتظار کر رہے تھے لیکن میرے بھائی کی لاش گھر آ گئی۔‘
سید عظمت عباس نے چھ ماہ پہلے ہی واہ آرڈیننس فیکڑی میں کام شروع کیا تھا۔ ان کے والد سلطان عالم نے کہا کہ دھماکے کی جگہ سے ان کا بیٹا کچھ دور ہی تھا لیکن بم دھماکے میں استعمال ہونے والے بال بیرنگ لگنے سے اس کی ہلاکت ہوئی۔
انہوں نے دھماکے کی ذمہ داری قبول کرنے پر تحریک طالبان پاکستان کے بارے میں کہا کہ طالبان کی جنگ جن لوگوں کے ساتھ چل رہی ہے ان کو بدلہ بھی انہی لوگوں سے لینا چاہیے۔
ساٹھ سالہ سلطان عالم شاہ نے کہا ’یہ کوئی طریقہ نہیں کہ کسی کا بیٹا کسی کا باپ اور کسی کا بھائی آٹھ گھنٹے محنت مزدوری کرنے کے بعد گھر واپس آ رہا ہو اور اسے دھماکے سے مار دیا جائے۔‘
سید عظمت عباس کی ماں نے روتے ہوئے بتایا کہ ظالموں نے مجھے میرے بیٹے کا منہ بھی نہیں دیکھنے دیا۔ ’میرے بیٹے کے جسم پر بہت زیادہ چوٹیں تھیں اس لیے تابوت کو کھولنے بھی نہیں دیا گیا۔‘
عظمت کی والدہ
میرے بیٹے کے جسم پر بہت زیادہ چوٹیں تھیں اس لیے تابوت کو کھولنے بھی نہیں دیا گیا :عظمت کی والدہ
پی او ایف اہسپتال میں زیر اعلاج عبادت علی نے بتایا کہ چھٹی کے بعد وہ سائیکل پر جیسے ہی گھر کے لیے نکلے تھے کہ ایک زور دار بم دھماکہ ہوا جس میں ان کے دو دوستوں کی موت واقع ہوئی اور خود ان کی ٹانگ پر بم کے ٹکڑے لگے۔
ایک دوسرے مریض شفقت علی نے بتایا کہ وہ مین گیٹ سے نکل کر تھوڑی ہی دور گئے تھے کہ ایک زرو دار دھماکہ ہوا جس کے بعد ہر طرف لوگوں کی لاشیں اور زخمی افراد نظر آئے۔ اور بیس سے پچیس فٹ کی جگہ میں موجود کوئی بھی شخص زندہ نہیں بچا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی ٹانگ اور بازوں پر بم کے ٹکڑے لگے جس کے بعد وہ وہیں زمین پر بیٹھ گئے اور اس کے بعد فیکڑی سے دور نکل جانے والے لوگ واپس بھاگ کر آئے اور موٹر سائیکل پر ان کو ہسپتال پہنچایا۔
پی او ایف ہسپتال کے ڈپٹی کمانڈنٹ ڈاکٹر ظفر اللہ خان نے بی بی سی بات کرتے ہوئے بتایا کہ دھماکوں میں پینسٹھ افراد ہلاک اور ایک سو نو زخمی ہوئے ہیں جن میں سے چھ کی حالت نازک ہے ۔ ڈاکڑ ظفر اللہ خان نے بتایا کہ ابھی تک ہلاک ہونے والے تین افراد کی لاشوں کا حالت کافی خراب تھی اس لیے ابھی تک ان کی شناخت نہیں ہو سکی ۔ انہوں نے بتایا کہ ناقابل شناخت تین لاشوں کی شناخت کے لیے پولیس تفتیش کر رہی ہے۔
واہ آرڈینس فیکٹری آج ایک روز کے لیے بند تھی جبکہ فیکٹری کے مین گیٹ اور گیٹ نمبر ایک کو حفاظتی جنگلے لگا کر بند کر دیا گیا تھا۔ اسکے علاوہ دھماکوں کی جگہ کو صاف کر دیا گیا تھا۔ مین گیٹ کے باہر موجود ایک اہلکار نے بتایا کہ آج صبح ان کے آنے سے پہلے دھماکے کی جگہ صاف تھی۔
آؤ ہم سب ملک ان نام نہاد طالبان سے اظہار بیزاری کریں اور باقی دنیا کو بتادیں۔