ویڑھا

نیرنگ خیال

لائبریرین
چھوٹاغالبؔ ۔۔۔ !
صرف ایک منفرد نام ہی نہیں بلکہ ایک منفرد شخصیت کا عکاس بھی ہے
ہر جہت سے بے مثال شخصیت
مزاح کا میدان ہو ،
سنجیدہ تحریر ،
تصوف کی پیچیدہ راہیں ہوں ،
عارفانہ کلام کی آسان زبان میں تشریح
یا
مقاماتِ مقدسہ کی زیارت

ہر صنف میں اِن صاحب نے اپنا لوہا منوایا ہے

میرے جیسے لوگ جو اردو کے علاوہ کوئی زبان نہ جانتے ہوں انکے لئے تو یہ ترجمہ ایک قیمتی سرمائے سے کم نہیں

زبردست ۔۔۔ ۔۔۔ !

اللہ پاک اویس کو راہِ سلوک کی پُر پیچ گھاٹیوں سے آسانی کے ساتھ گزرنے کی توفیق عنایت فرمائے
اور مبتدیوں کی مدد کرنے کی طاقت عطا فرمائے آمین
کوئی شک نہیں اس میں۔ میں یہ تبصرہ ادھر اٹھا لایا کہ ایسا نہ ہو یہ دھاگہ اس تبصرے سے محروم رہ جائے۔ :p
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
مائے نی میں کنوں آکھاں
مائے نی میں کنوں آکھاں، درد وچھوڑے دا حال
اے ماں !! میں اپنے دردِ جدائی کا احوال کس سے کہوں​
انسان کی فطرت ہے کہ اسے جب کوئی درد یا تکلیف ہو تو وہ لاشعوری طور پر ماں کو ہی پکارتا ہے ۔ اس میں عمر کی کوئی قید نہیں ۔ بچہ ہو یا بڑا ، چاہے بوڑھا بھی ہو ، اس کے منہ غیر اختیاری طور پر "ہائے اماں" "اوئی ماں" کے الفاظ ہی نکلتے ہیں​
یہ الفاظ بھی اسی انسانی فطرت، اور نفسیات کے آئینہ دار ہیں ،​
درد جدائی سے صوفیا کرام روح کی اپنے مبدا سے جدائی کو کو قرار دیتے ہیں ، جس میں روح کو اپنے مبدا سے جدا کر ، پہلے عالم ارواح ، پھر اس دنیا میں انسانی جسم میں قید ہونا پڑا۔​
اسی بات کو مرزا غالبؔ نے بھی یوں کہا ہے :۔​
ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا​
سولاں مار دیوانی کیتی، برہوں پیا خیال
تکلیفوں کی کثرت نے دیوانہ کر دیا ، اور جدائی کا ہی خیال میں رچ گئی​
اس شعر کی حقیقی تشریح غالب ؔ کا یہ مصرعہ کرتا ہے​
ہوا جب غم سے یوں بے حس ، تو غم کیا سر کے کٹنے کا۔​
تکالیف کی کثرت ، اور تسلسل سے دماغ یا تو بے حس ہو جاتا ہے یا تاب نہ لا کر دیوانہ ہو جاتا ہے ۔​
جیسا کہ غالبؔ نے مزاح کے پردے میں یہی انسانی نفسیاتی نقطہ بیان کیا :۔​
مشکلیں مجھ پر پڑیں اتنی کہ آساں ہو گئیں​
جب اتنی کثرت سے درد یا تکلیف انسان برداشت کرے تو فطری طور پر اسے درد سے بھی انس ہو جاتا ہے ۔ اور یہی بات شاہ حسین ؒ نے کہی ہے کہ اس کثرت اور تسلسل سے آخر اب مجھے جدائی ، درد جدائی سے بھی محبت سی ہو گئی ہے​
اور یہی وہ مقام ہے ، جب درد خود دوا ہوا جاتا ہے ۔ بقول غالب:۔ درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا​
جنگل بیلے پھراں ڈھونڈیندی، اجے ناں پایو لال
جنگلوں ، بیلوں میں ڈھونڈتی پھری، لیکن ابھی تک گوہر مراد نہیں پایا​
اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ میں انسان کی شہ رگ کے قریب ہوں ، میں انسان کے دل میں رہتا ہوں ۔ مگر انسان اسے جنگلوں اور ویرانوں میں ڈھونڈتا پھرتا ہے ۔​
اسی بات پر طنز کرتے ہوئے شاہ حسینؒ فرماتے ہیں کہ جنگلوں اور ویرانوں میں دھونڈتی پھرتی ہوں نجانے کب سے ، لیکن ابھی تک گوہر مراد ہاتھ نہیں آیا۔​
بقول بھلے شاہ سرکار:۔​
جے رب ملدا نہاتیاں دھوتیاں، تے رب ملدا ڈڈوؤاں مچھیاں نوں​
جے رب ملدا جنگل پھریاں ، تے رب ملدا گایاں وچھیاں نوں​
(اگر رب نہانے دھونے سے ملتا تو پھر رب صرف مچھلیوں اور مینڈکوں کو ہی ملتا​
اگر رب جنگل پھرنے سے ملتا تو رب گائے ، بیل ، اور دیگر جنگلی جانوروں کو ملتا)​
دکھاں دی روٹی ، سولاں دا سالن، آہیں دا بالن بال
دکھوں کی روٹی ، تکالیف کا سالن ، اور آہوں کا ایندھن جلایا​
اس میں راہ سلوک کی منزلیں، اس راہ میں پیش آنے والے مصائب کا ذکر کیا ہے اور بتانے کی کوشش کی ہے کہ اس راہ پہ نئے آنے والوں کو ان چیزوں کیلئے تیار ہو کر آنا چاہیے۔ کیونکہ اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ راہ کی تکالیف اور مصائب سے اکثر لوگ بیچ راہ سے ہی لوٹ جاتے ہیں۔​
اس راہ کیلئے زاد راہ بتائی گئی ہے ، کہ دکھوں کی روٹی کھانی پڑے گی ، اور سالن تکالیف کا ہوگا ، جو تمہیں جدائی کے عالم میں آہوں کا ایندھن جلا کر خود ہی تیار کرنا پڑے گا۔کھانے پینے کی اشیا ء کےنام لکھنے کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ جس طرح ہم رغبت سے خوراک یعنی روٹی اپنے پسندیدہ سالن کے ساتھ کھانا پسند کرتے ہیں ۔ اور اسے پھر ہضم کرکے جزو بدن بناتے ہیں ۔ ویسے ہی اس راہ کے مصائب کو خوراک کی طرح اپنے اندر اتارنا اور ہضم کرنا ہی کامیابی کی کنجی ہے ۔ ورنہ سب بے کار اور بے فائدہ ہے۔​
کہے حسین فقیر نمانا ، شوہ ملے تاں تھیواں نہال
بے چارا فقیر حسینؒ کہتا ہے ، شاہ(اللہ تعالیٰ) ملے گا تب نہال ہونگا​
اپنے درد جدائی کا ذکر کرنے کے بعد شاہ حسینؒ فرماتے ہیں کہ جب اللہ کا قرب حاصل کر لوں گا ، تب نہال ہونگا، یا آرام میں آ جاؤں گا ۔ جدائی میں تو آرام یا چین و سکون کا خیال بھی محال ہے​
ترجمہ و تشریح :۔ مسکین چھوٹا غالبؔ

کمال اے سئیں کمال اے پر مکمل کئی نئیں۔ مکمل کرو اساں واسطے۔ ایویں ڈو چار مصرعے ترجمہ رک بھجن آلی نہ کرو
 

مہ جبین

محفلین
اوہ میں سمجھا میری طرح ٹوٹی پھوٹی سرائیکی آپکو بھی آتی ہے۔:p
ترجمہ "میری معزز بہن یہ لفظ سکھنڑی ہے۔ سکھڑی (سکھ کی مؤنث) تو کہیں انڈیا میں پائی جاتی ہوگی"

اس کو کہتے ہیں کہ نقل کے لئے بھی تو عقل کی ضرورت ہوتی ہے

اب مجھے کیا پتہ تھا کہ میں جس کو کاپی کر رہی ہوں اس نے بھی غلط ہی لکھا ہے

مروادیا ناں تعبیر ۔۔۔۔۔۔۔:idontknow:

نیرنگ خیال شکریہ
میری اصلاح کرنے کا
 

سیدہ شگفتہ

لائبریرین
او سئیں !!!!! ڈِٹھے وے نا وَل:brokenheart2:
ایہے تہاڈیاں سادگیاں (اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا:eek: )
میں منینداں ، میں چول ہاں، پر ایڈا وی کینی جتنا میں بدنام تھی گیاں

خیر

تُساں اتھاں شرکت کیتی ، دل کو ٹھڈ پُجی :redheart: (ایہہ کوئی رسمی گالھ کینی)
مزہ آ گئے
میکو امید اے جو تساں ہُن اتھاں روز آسو، :redrose: (بھانویں گالھ موہاڑ نہ کریسو ، پر شگفتہ آپی دے ہتھ دی بنی چاہ پیون ای سہی)

تصحیح پلیز
چائے صرف فرحت کیانی دے ہتھ دی ! فرحت دی چائے دا کوئی مول نئیں
 

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین

چھوٹاغالبؔ

لائبریرین
اویس بھائی، تساں ضرور عاطف بھائی کوں منڈھ وچ مصروف کر ڈیتا ہوسی ، او واپس ہی کینی آئے!
عاطف بٹ بِھرا !! شودا پہلا پیغام پڑھ دے ول وسیب کوں وی کنڈ کیتی گئے
اج کل تاں ساڈے کنوں اونویں وی دور دور راہندن ، پتا نئیں کیا غلطی تھئی اے میں مسکین کنوں؟
 

نیرنگ خیال

لائبریرین
یار تساں ساڈی آپی کوں کِھلوا ڈتے
جیندا رہ جیندا
میں کئی پُٹھیاں سِدھیاں چبلاں مار تے وی آپی کو نی کِھلوا سگا، پر تساں کمال کر ڈتے

ڈس سوہنیا تہاکو کیا انعام ڈیوں؟
اج آپی کو ڈو وار کھلوایا اے۔ یقین نئیں تاں آپ چا پچھ گھنو:) انعام نہ ڈیوو سئیں غریب آدمی منہ پھاڑ گھندا اے ایئہ جئی آفر تے
 
Top